تائیوان کی تزویراتی اہمیت


ارادہ تھا کہ آج تمام گزارشات کا محور امریکی اسپیکر نینسی پلوسی کے دورہ تائیوان اور اس حوالے سے امریکی و چینی موقف پر ہو گا۔ مگر کچھ سفارتکاروں سے ملاقات ہوئی ان کی گفتگو کا محور تھا کہ نواز شریف کب وطن واپس آئیں گے؟ اور کیا ان کو پی ٹی آئی روک سکے گی؟ میں ہنس پڑا اور ان کو کہا کہ آپ کو ایک حالیہ واقعہ سناتا ہوں۔ ایک دوست نے ویڈیو ارسال کی کہ جس میں اسد عمر ایک یاداشت الیکشن کمیشن کو جمع کروا رہے ہیں دلچسپ امر یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے اس سے جس کو ایکشن کمیشن کا نمائندہ سمجھتے ہوئے یاد داشت وصول کروائی گئی تھی لا تعلقی کا اعلان کر دیا ہے۔ اس واقعے نے مجھے ایک اور واقعہ یاد دلا دیا۔

جنرل فیض علی چشتی نے ”بھٹو، ضیاء اور میں“ کتاب تحریر کی ہے۔ اس میں وہ رقم طراز ہے کہ

”جنرل ضیا الحق کے ہمراہ ہم فرانس کے دورے پر گئے، وفد کے ارکان کو ایک اعلیٰ ہوٹل میں ٹھہرایا گیا۔ اسی شام جنرل ضیاءالحق کے دروازے پر دستک ہوئی، صدر مملکت نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ دروازے پر سفید وردی میں ملبوس ایک گورا کھڑا ہے جس کے کندھے اور سینے پر کافی تمغے لگے ہوئے تھے

صدر مملکت نے اسے دیکھ کر فوراً تپاک سے ہاتھ ملایا اور بغل گیر ہو گئے، اسے اندر آنے کی دعوت دی۔ علیک سلیک اور خیر خیریت دریافت کرنے کے بعد صوفے پر بٹھایا اور فرانس کے قومی حالات اور فرانس پاکستان فوجی تعاون پر بات چیت شروع کی۔ چند منٹوں کے بعد گورے شخص نے کہا ”جناب مجھے آپ کی باتیں سمجھ نہیں آ رہیں لیکن پھر بھی میرے لائق جو خدمت ہے وہ بتائیں میں حاضر ہوں“ جنرل ضیا الحق حیران ہو گئے اور اب اس شخص کا تعارف پوچھا جس پر گورا بولا ”جناب میں اس ہوٹل کا بیرا ہوں اور آپ کی سروس کے لئے آیا تھا، کوئی خدمت ہو تو بتائیے“ یہ سن کر صدر ضیا الحق بڑے شرمندہ ہوئے۔

اس گورے کو رخصت کیا اور بعد میں میں نے صدر مملکت سے پوچھا ”آپ نے اس بیرے کو کیا سمجھا تھا“ جنرل صاحب کہنے لگے ”میں سمجھا تھا فرانسیسی بحریہ کے ایڈمرل ملاقات کے لئے آئے ہیں“ اس کے بعد ہم دونوں ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوتے رہے۔ لوٹ پوٹ ہونے کا امکان تھا یا رونے کا کہ قومی سلامتی کے امور میں اس طرح غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جا رہا تھا بالکل اسی طرح ابھی کچھ عرصہ قبل عمران خان حکومت میں خزانہ اور منصوبہ بندی کے وزیر کی حالت یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کو دینے والی یاد داشت وہ کسی کو بھی پکڑا کر چل دیے۔

یہ لوگ نواز شریف کو بھلا کیا روک پائیں گے۔ ایک سینئر صحافی نے اس پر بہت خوب تبصرہ کیا ہے کہ یہ لوگ خزانہ، منصوبہ بندی کی وزارتیں بھی ایسے ہی چلاتے ہوں گے اسی لئے حالات اس حد تک دگرگوں ہو گئے تھے کہ پاکستان دیوالیہ ہونے کی باتیں شروع ہو گئی تھی بہرحال چھوٹے چھوٹے واقعات حالات کو سمجھنے کے لئے زینے کا کام دیتے ہیں مگر امریکی اسپیکر نینسی پلوسی کا دورہ تائیوان کوئی چھوٹا سا واقعہ نہیں ہے یہ دورہ تو چوبیس گھنٹے سے بھی کم عرصے پر محیط رہا مگر خیال کیا جا رہا ہے کہ اس کے اثرات سالوں پر پھیل جائیں گے۔

اثرات کا آغاز تو اس طرح سے ہو گیا ہے کہ چین نے تائیوان کے گردا گرد اپنی چار روزہ فوجی مشقیں شروع کر دی ہے۔ چین اس حوالے سے بہت حساس ہے اور اس کی حساسیت اس وقت سے اور بڑھ گئی تھی جب صدر جو بائیڈن نے تائیوان کے دفاع میں عسکری کارروائی تک کرنے کا بیان دیا تھا۔ اس حوالے سے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ امریکہ کی بھی سفارتی پوزیشن یہی ہے کہ وہ ایک چین کے اصول کو مانتا ہے یہ اور بات ہے کہ اس کی حکمت عملی کو ”تزویراتی ابہام“ کی حکمت عملی کے طور پر تعبیر کیا جاتا ہے۔

تائیوان کی چین کے لیے اہمیت دو اعتبار سے مسلم ہے۔ اول تو چین درست طور پر سمجھتا ہے کہ تائیوان کا جزیرہ چین کا حصہ ہے اور ون چائنا پالیسی رکھتا ہے اور یہ پالیسی چین کی قومی سلامتی کے لیے بنیادی اکائی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ تائیوان کی اپنی غیرمعمولی جغرافیائی حیثیت بھی ہے اور امریکہ کی خارجہ پالیسی جو مشرقی ایشیا کے حوالے سے ہے اس میں امریکہ کے لیے بھی تائیوان کی غیر معمولی حیثیت ہے۔ چین کے جنوب مشرقی ساحل سے 120 کلومیٹر دور اس جزیرے کو جزیروں کی پہلی زنجیر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے یہ ایک ایسا علاقہ ہے جس کے اثرات جنوبی جاپان سے شروع ہوتے ہوئے فلپائن اور بحیرہ جنوبی چین تک پھیلتے چلے جاتے ہیں۔ اور یہ سارا علاقہ امریکہ کے اتحادیوں سے بھرا پڑا ہے

ادھر چین کا اگر اثر و رسوخ بڑھ جاتا ہے تو اس صورت میں امریکہ کی خطے میں تزویراتی حیثیت میں غیر معمولی کمی واقع ہوگی۔ تائیوان پر اثر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جنوبی اور مشرقی سمندروں میں طاقت کا توازن اس طرف ہو گا جس کا اثر یہاں پر زیادہ ہو گا۔ امریکہ اور چین دونوں اس حقیقت کو سمجھتے ہیں اسی لئے اس کی بحر الکاہل تک کی اہمیت دونوں کے پیش نظر رہتی ہیں۔ تائیوان اگر چین کے زیر اثر آ جائے تو امریکہ اچھی طرح سے جانتا ہے کہ اس کے ہوائی اور گوام تک کے فوجی اڈے چین کے ہدف بننے کے لیے بالکل سامنے موجود ہوں گے ۔

جہاں پر اس کی تزویراتی اہمیت امریکہ اور چین دونوں کے لیے مسلمہ ہیں وہیں پر اس کی اقتصادی اہمیت بھی غیر معمولی بن گئی ہے اگر یہ کہا جائے کہ چپ ٹیکنالوجی کا بادشاہ تائیوان ہے تو غلط نہ ہو گا۔ اس کی صرف ایک کمپنی دنیا بھر کی آدھی منڈی کو چپ سپلائی کرتی ہے۔ موبائل فون سے لے کر ہر طرح کے الیکٹرانکس تک میں اس کا استعمال ہوتا ہے۔ امریکا جانتا ہے کہ تائیوان پرسے اگر اثر و رسوخ کم ہو گیا تو ایسی صورت میں چین چپ ٹیکنالوجی کا بادشاہ بن جائے گا جو اس وقت اس ٹیکنالوجی میں بیس سال پیچھے ہے اور امریکہ کو یہ کسی صورت قابل قبول نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments