خیبرپختونخوا کے ضم اضلاع میں خواتین پولیس اہلکاروں کی تعداد اتنی کم کیوں ہے؟

اسلام گل آفریدی - صحافی


قبائلی اضلاع

ضلع باجوڑ کی زینت بی بی 15 سال پہلے اپنے شوہر کے تشدد اور گھریلو مسائل سے تنگ آ کر اپنے والد کے گھر منتقل ہو گئی تھیں تاہم اتنے سالوں بعد بھی اُنھیں طلاق نہیں مل سکی ہے اور نہ ہی حق مہر۔

25ویں آئینی ترمیم کے بعد مئی 2018 میں قبائلی اضلاع کے صوبہ خیبر پختونخوا میں انضمام کے ساتھ ہی وہاں پر پولیس اور عدالتی نظام قائم کیا گیا۔

اس موقعے پر زینت بی بی کو انصاف ملنے کی اُمید پیدا ہوئی تاہم اب چار سال گرز جانے کے باوجود بھی قانون اُن کے شوہر سے انھیں حق دلانے میں ناکام رہا ہے۔

زینت بی بی کا کہنا ہے کہ عدالت نے حکم جاری کر دیا ہے کہ اُن کے شوہر کو عدالت میں پیش کیا جائے، لیکن جب بھی اُن کی گرفتاری کے لیے پولیس والے اُن کے گھر جاتے ہیں تو وہاں موجود بچے یا خواتین پولیس والوں کو یہی کہہ کر چلتا کر دیتے ہیں کہ وہ گھر پر نہیں۔

زینت بی بی کا ماننا ہے کہ خواتین پولیس کے ہوتے ہوئے ایسا ممکن نہ ہوتا۔

قبائلی اضلاع

قبائلی اضلاع میں خواتین پولیس اہلکاروں کی تعداد کتنی ہے؟

ضلع باجوڑ میں 2500 کے قریب پولیس اہلکار تعینات ہیں لیکن پورے ضلع میں ایک بھی اہلکار خاتون نہیں۔

زینت بی بی کے وکیل انور اللہ ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ شوہر نے پرانے ایف سی آر قانون کے تحت اپنی بیوی کو گھر سے نکالا تھا اور اُن کو کوئی قانونی حقوق نہیں دیے گئے تھا لیکن جب قبائلی اضلاع میں عدالتی نظام کی توسیع کر دی گئی تو زینت بی بی نے عدالت سے انصاف کے لیے رجوع کیا۔

انور اللہ نے کہا کہ بہت سے کیسز میں خواتین پولیس اہلکاروں کی عدم دستیابی کی وجہ سے کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی بلکہ کئی خواتین تو اپنے حق کے لیے بھی اس وجہ سے نہیں نکلتیں کہ تھانوں اور عدالتوں میں سارے ہی مرد پولیس اہلکار تعینات ہیں۔

ملک میں چھٹی مردم شماری کے مطابق قبائلی علاقوں کی آبادی 50 لاکھ ہے جس میں تقریباً نصف خواتین ہیں۔

دوسری طرف خیبر پختونخوا پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق سابقہ سات قبائلی ایجنسیوں اور چھ ایف آر ریجنز میں تعینات 25 ہزار 879 پولیس اہلکاروں میں سے صرف 29 خواتین اہلکار ہیں۔

مذکورہ اعداد و شمار کے مطابق ضلع خیبر میں تین، مہمند میں چھ، کرم میں 12، شمالی وزیر ستان میں سات اور جنوبی وزیرستان میں ۱یک، جبکہ باجوڑ اور اورکزئی سمیت چھ ایف آر ریجنز میں کوئی خاتون پولیس اہلکار موجود نہیں۔

ضلع کرم کی تحصیل صدہ کی رہائشی نگہت چار بچوں کی ماں ہیں اور اُن کے شوہر کئی سال پہلے ایک بم دھماکے میں مارے گئے تھے۔

کرائے کے گھر میں مقیم نگہت نے انتہائی مشکل سے مقامی عدالت میں اپنے دو دیوروں کے خلاف جائیداد میں اپنے شوہر کے حصے کے لیے آٹھ ماہ پہلے کیس دائر کیا تھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ مقدمے کے اندراج کے لیے کئی بار وہ تھانے گئیں لیکن وہاں پر کوئی خاتون اہلکار موجود نہیں تھی اور آخر کار ایک خاتون وکیل کی مدد سے کیس دائر کرنا ممکن ہوا۔

قبائلی اضلاع

محکمہ پولیس کی طرف سے تین سال پہلے ضلع کرم کے شہر پارہ چنار میں ویمن ڈیسک قائم کیا گیا تھا جہاں سات خواتین پولیس اہلکار تعینات ہیں۔

اس ڈیسک پر اب تک 70 سے زیادہ مقدمات خواتین نے درج کروائے ہیں جن میں گھریلو تشدد، خلع اور وراثت میں حصے کے مقدمات شامل ہیں۔

ایک سال پہلے ضلع خیبر کی تحصیل لنڈی کوتل کی سب جیل میں خواتین قیدیوں کے لیے الگ بیرک تعمیر کیا گیا تاہم اب تک کسی کو وہاں پر قید نہیں کیا گیا ہے۔

ضلع خیبر کے 3721 پولیس اہلکاروں میں صرف تین خواتین شامل ہیں جن میں ایک مہک پرویز ہیں، جو کہ تحصیل لنڈی کوتل میں ڈیوٹی سرانجام دی رہی ہیں۔

وہ 2016 میں دیگر دو خواتین کے ساتھ لیویز میں بھرتی ہوئی تھیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ انضمام کے بعد اُن کی ڈیوٹی اور ذمہ داریوں میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ انصاف کے حصول کے لیے اب خواتین تھانوں اور عدالتوں میں آتی ہیں۔

قبائلی اضلاع

اُنھوں نے بتایا کہ لنڈی کوتل کی سب جیل میں ایک سال پہلے خواتین کے لیے الگ بیرک قائم کیا گیا لیکن جرائم میں گرفتار یا عدم تحفظ کی شکار خواتین کو رکھنے کی کوئی سہولت موجود نہیں۔ اسی وجہ سے 50 کلومیٹر دور ضلع پشاور میں قائم دارالامان لے جانا پڑتا ہے اور عدالت میں سماعت کے لیے لایا جاتا ہے۔

’صرف ایک خاتون پولیس اہلکار نہ ہونے سے عدالتوں کے چکر کاٹ رہی ہوں‘

زینت بی بی کہتی ہیں کہ اُن کے شوہر نے دوسری شادی کر لی ہے اور دو تین مہینے بعد گاؤں آ کر ہم پولیس کو اطلاع دیتے ہیں کہ اُن کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کریں۔ وہ بتاتی ہیں کہ جب پولیس سے پوچھتے ہیں کہ بندہ گھر میں موجود ہے اُس کو کیوں گرفتار نہیں کرتے، تو اُن کا جواب ہوتا ہے کہ ہم خاتون اہلکار کے بغیر اندار نہیں جا سکتے ہیں۔

زینت بی بی کے بقول صرف ایک خاتون پولیس نہ ہونے کی وجہ سے وہ اکیلی عدالتوں کے چکر کاٹتی پھر رہی ہیں اور ان کے شوہر کو ایک مرتبہ بھی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔

خیبر پختونخوا میں ضم اضلاع میں خواتین پولیس اہلکار کس ڈیوٹی پر مامور ہیں؟

خیبر پختونخوا میں ضم اضلاع میں تعینات خواتین پولیس اہلکاروں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ صبح نو بجے سے دوپہر دو بجے تک نادرا، احساس پروگرام کے مراکز، خواتین کے انتخابی مراکز، انتخابات، شاہراوں اور افغانستان کے ساتھ سرحدی گزرگاہوں پر ڈیوٹی کرتی ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ معمول کی ڈیوٹی کے علاوہ رات کو دور دارز علاقوں میں سرچ آپریشنز میں بھی حصہ لیتی ہیں تاہم اُنھوں نے اس بات پر زور دیا کہ تمام ضم اضلاع میں خواتین پولیس اہلکاروں کی تعداد انتہائی کم ہے جس کی وجہ سے زیادہ ڈیوٹی کرنا پڑتی ہے اور اپنے خاندان یا بچوں کے لیے بہت ہی کم وقت ملتا ہے۔

قبائلی اضلاع

خیبر پختونخوا کے صوبائی محتسب برائے انسداد جنسی ہراسانی و جائیداد کی سربراہ رخشندہ ناز نے بی بی سی کو بتایا کہ ضم اضلاع سے خواتین کے جنسی ہراسانی کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا جبکہ تیراہ سے زیادہ کیسز وراثت میں حصے کے حق کے لیے درج کیے گئے ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ صوبے کے دیگر اضلاع کی نسبت ضم اضلاع میں صحت اور تعلیم کے شعبے کے علاوہ باقی تمام شعبوں میں خواتین کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے وہاں کی خواتین کو کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اُن کے بقول تشدد اور ظلم کی شکار خواتین اس وجہ سے انصاف کے لیے نہیں نکلتیں کیونکہ اُن کو ڈر ہوتا کہ پولیس میں خواتین نہ ہونے کی وجہ سے اُن کو مزید پریشانی کا سامنا ہوگا۔

اُن کے بقول اگر خاتون مقدمہ درج بھی کروا بھی لیتی ہیں تو خواتین پولیس نہ ہونے کی وجہ سے شفاف تحقیقات ممکن ہی نہیں۔

نور اللہ ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ خواتین اہلکاروں کے بغیر کارروائی میں قانونی پیچیدگیاں سامنے آجاتی ہیں جس کی وجہ سے عدالت میں کیس کمزور ہو جاتا ہے اور ملزمان آسانی کے ساتھ رہا ہو جاتے ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ علاقے میں خواتین کو کئی مسائل درپیش ہیں لیکن تھانوں میں خواتین پولیس اہلکار نہ ہونے کی وجہ سے وہ انصاف سے محروم ہیں۔

سابقہ قبائلی اضلاع میں 58 پولیس تھانے ہیں جبکہ اس سے زیادہ چوکیاں قائم کی گئی ہیں۔

صوبائی محکمہ داخلہ و قبائلی اُمور کے مطابق رواں سال ضم اضلاع میں 17ہزار 354 کیسز زیر التوا ہیں۔ وکلا برادری کے مطابق مذکورہ اعداد و شمار میں دو سو کے قریب مقدمات خواتین کے ہیں جن میں خلع اور وراثت میں حق کے لیے دائر کیے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

خواتین افسران کو سنگین مقدمات میں تفتیشی ذمہ داریاں کیوں نہیں سونپی جاتیں؟

سوات: فرنٹیئر کانسٹبلری میں پہلی خاتون افسر کی تعیناتی

پاکستان کی پہلی ہندو ڈی ایس پی منیشا: ’یہ تاثر ختم کرنا ہے کہ اچھے گھر کی لڑکیاں تھانے نہیں جاتیں‘

وہ پاکستانی پولیس افسر جو دنیا کو پولیسنگ سکھاتی ہیں

ان اضلاع کی پولیس میں کتنی خواتین اہلکار درکار ہیں؟

انضمام سے پہلے قبائلی اضلاع میں خاصہ دار اور لیویز فورس کی تعداد 29 ہزار 821 تھی جبکہ پولیس ایکٹ 2019 کے تحت 25 ہزار 879 اہلکار پولیس میں ضم کر دیے گئے تاہم 3 ہزار 852 اسامیاں خالی ہیں جو کہ دہشت گردی کی لہر میں ڈیوٹی سے عفلت برتنے پر معطل، ہلاک اور ریٹائرڈ ہونے والے اہلکاروں کی وجہ سے خالی ہیں۔

قبائلی اضلاع

خیبر پختونخوا پولیس کے قوانین میں بھرتی میں دس فیصد کوٹہ خواتین کے لیے مختص ہے، اور اس بنیاد پر ضم اضلاع میں خواتین پولیس اہلکاروں کی تعداد تین ہزار ہونی چاہیے۔

ضم اضلاع میں خواتین پولیس کی تعداد کیوں کم ہے؟

ان علاقوں میں خواتین میں کم شرح خواندگی، روایت پسندی اور قبائلی نظام کی وجہ سے خواتین کو پولیس میں نوکری مشکل سے ملتی ہے۔

مذکورہ اضلاع میں تعینات خواتین پولیس اہلکاروں میں اکثریت مسیحی برادری کی ہے جوکہ پچھلی کئی دہائیوں سے ان علاقوں میں آباد ہے۔ تاہم مقامی پولیس می اکثریت ہونے کے باوجود قبائلی اضلاع میں مستقل سکونت رکھنے والی چند مسیحی خواتین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ چاہتی ہیں کہ وہ پولیس میں بھرتی ہو جائیں لیکن اعلیٰ تعلیم کی شرط اور مشکل تحریری ٹیسٹ کی وجہ سے ایسا اُن کے لیے ممکن نہیں۔

ضم اضلاع میں خواتین پولیس کے تعداد بڑھنے کے لیے اقدامات

محکمہ پولیس نے مارچ 2022 میں ایک نوٹفیکشن جاری کیا ہے جس میں کہا گیا کہ ضم اضلاع کی خواتین اور اقلیت برادری سے تعلق رکھنے والی خواتین کی پولیس میں بھرتی کے لیے تحریری ٹیسٹ لازمی نہیں ہے جبکہ تعلیمی شرط مڈل سکول کر دی گئی ہے۔

اس کے علاوہ کم از کم قد ہانچ فٹ ایک انچ اور دوڑ کے لیے ایک کلومیٹر زیادہ سے زیادہ نو منٹ میں طے کرنے کی حد مقرر کی گئی ہے۔

اس وقت صوبے میں ساڑھے چھ ہزار نئے پولیس اہلکار بھرتی کرنے کا عمل جاری ہے جن میں ضم اضلاع سے 1756 اہلکار بھرتی کیے جائیں گے۔

انسپکٹر جنرل پولیس معظم جاہ انصاری کا کہنا ہے کہ صوبے بھر میں ایک لاکھ بارہ ہزار پولیس اہلکار کام کر رہے ہیں جن میں تقریباً ایک ہزار خواتین اہلکار شامل ہیں، تاہم اُن کے بقول یہ تعداد انتہائی کم ہیں۔

اُن کے بقول اس تعداد کو دس ہزار تک لانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ایک سرکاری تنظیم روزن کی 2020 کی تحقیق کے مطابق صوبے میں خواتین پولیس اہلکاروں کی تعداد ایک فیصد سے بھی کم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments