اورل سیکس سے کئی انفیکشنز ہو سکتے ہیں لیکن ان سے کیسے بچا جائے؟

پریسیالا کاروالہو - ریو ڈی جنیرو، بی بی سی نیوز برازیل


انفیکشن، سیکس
جب بھی ہم سیکس کے دوران منتقل ہونے والی بیماریوں کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہمارا پہلا خیال دخول کے بارے میں آتا ہے مگر کنڈومز کے بغیر اگر صرف اورل سیکس بھی کیا جائے تو اس سے بھی جنسی طور پر منتقل ہونے والے انفیکشنز (ایس ٹی آئی) کا خطرہ رہتا ہے۔

منھ میں موجود تھوک پیدا کرنے والی جھلیوں کے مادوں سے رابطے میں آنے پر وائرس اور بیکٹیریا پھیلتے ہیں۔

ماہرین نے بی بی سی نیوز برازیل کو بتایا کہ ایسے سب سے عام انفیکشنز گونوریا اور سیفیلیز ہیں۔ سیفیلیز میں منھ اور گالوں کے اندر چھالے اور جسم پر دھبے نمودار ہو جاتے ہیں۔

بسا اوقات لوگوں کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اُنھیں انفیکشن ہو چکا ہے کیونکہ علامات کسی اور انفیکشن جیسی ہی ہوتی ہیں۔ اس طرح مرض کی تاخیر سے تشخیص کا خطرہ برقرار رہتا ہے۔

ان ایس ٹی آئیز کے علاوہ غیر محفوظ اورل سیکس سے ہیومن پیپیلوماوائرس (ایچ پی وی)، ہرپیز، کلامائیڈیا، ہیپاٹائٹس اور گونوکوکل ٹونسیلائٹس کا خطرہ بھی موجود رہتا ہے۔

ویسے تو ڈاکٹر اورل سیکس کے دوران انفیکشن پھیلنے سے خبردار کرتے ہیں مگر باقاعدہ طور پر ایسے متاثرین کی تعداد معلوم کرنا آسان نہیں کیونکہ کئی معاملات میں ان امراض کی علامات واضح طور پر سامنے نہیں آتیں اور زیادہ تر لوگ طبی اداروں کو پوری معلومات فراہم نہیں کر پاتے۔

مگر یہ انفیکشن کیسے پھیلتے ہیں؟

منھ اور جنسی اعضا کے درمیان رابطے سے ایک سے زیادہ انفیکشن پھیل سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ متاثرہ فرد کے جسم کے کسی حصے کو چھونے تک سے بھی انفیکشن ہو سکتا ہے۔ مردوں میں مادہ منویہ اور اس سے پہلے نکلنے والے سیال مادے بھی اورل سیکس کرنے والے شخص کو متاثر کر سکتے ہیں۔

اسی طرح خواتین میں اندام نہانی کے سیال مادے بھی انفیکشن پھیلا سکتے ہیں۔ خواتین اپنے جنسی عضو کی ساخت کی وجہ سے ایس ٹی آئیز سے زیادہ متاثر ہو سکتی ہیں۔

اس کے علاوہ خطرہ اور بھی بڑھ جاتا ہے جب منھ یا جنسی عضو میں زخم ہوں۔

جب زبان کے ذریعے اندام نہانی یا عضو تناسل کو متحرک کیا جائے تو انفیکشنز پھیل سکتے ہیں۔ اگر دبر کو زبان کے ذریعے متحرک کیا جائے تو جس انفیکشن کے پھیلنے کا خطرہ سب سے زیادہ رہتا ہے وہ ہیپاٹائٹس اے ہے۔ اس کے علاوہ کلامائیڈیا، گونوریا اور دیگر جراثیم بھی پھیل سکتے ہیں۔

انفیکشن، سیکس

برازیل کے مارسیلینو شیمپینات ہسپتال میں متعدی امراض کی ماہر کیمیلا آہرنس کہتی ہیں کہ ’اندام نہانی سے سیکس میں سب سے زیادہ مادوں کا تبادلہ ہوتا ہے۔ دبر میں سیکس کرنے سے اندرونی جھلیوں کے پھٹنے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے وائرس اور بیکٹیریا کو جسم میں داخل ہونے کا موقع ملتا ہے۔ دوسری طرف اورل سیکس میں کم خطرہ ہوتا ہے مگر بہرحال اگر ایک فرد کو مرض ہو تو وہ دوسرے کو متاثر کر سکتا ہے۔'

اورل سیکس کے باعث مندرجہ ذیل انفیکشنز ہو سکتے ہیں۔

سیفیلز

یہ انفیکشن ٹریپونیما پیلیڈم نامی بیکٹیریا کے باعث ہوتا ہے جو جنسی اعضا، گلے اور منھ کو متاثر کر سکتا ہے۔ یہ نہ صرف اورل سیکس بلکہ دخول والی سیکس کے ذریعے بھی منتقل ہو سکتا ہے۔ اس کی تشخیص خون کے ٹیسٹ کے ذریعے کی جاتی ہے اور یہ اکثر تین مراحل میں ہوتا ہے۔

متاثرہ فرد کی جلد کو چھونے کے بعد سب سے پہلے ایک بے درد چھالہ پیدا ہوتا ہے۔ ایسے فرد کو منھ کے اندر، زبان یا گالوں پر چھالے نکل سکتے ہیں۔

یونیورسٹی آف ساؤ پاؤلو میڈیکل سکول ہسپتال کے ماہرِ متعدی امراض ایگور مرینہو کہتے ہیں کہ ’یہ بے درد ہو سکتے ہیں اور انھیں ایک عام چھالہ بھی سمجھا جا سکتا ہے۔‘

چنانچہ جب ایسا ہوتا ہے تو اورل سیکس کرنے والا شخص خود متاثر ہونے سے لاعلم ہوتے ہوئے دوسرے فرد کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ بیکٹیریا عضوِ تناسل سے نکلنے والے مادوں میں موجود ہو سکتا ہے۔

مرض کے دوسرے مرحلے میں علامات زیادہ سامنے آتی ہیں اور انفیکشن کے کچھ ہفتے بعد یہ مرحلہ آتا ہے۔ اس مرحلے میں متاثرہ فرد کے جسم پر چھالوں کے ساتھ دھبے بھی نمودار ہو جاتے ہیں۔

تیسرے مرحلے میں انفیکشن کے کئی برسوں بعد علامات سامنے آتی ہیں۔ تاخیر سے تشخیص ہونے پر دل اور اعصاب کے امراض، ہارٹ فیل ہونا یا سٹروک کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

برازیل کی یونیورسٹی آف پرنامبوکو کے ڈاکٹر ڈیمیٹریئس مونٹینیگرو کہتے ہیں کہ ’یہ ایک خاموش مرض بن جاتا ہے اور پھیلنا جاری رکھتا ہے۔‘

اس کا سب سے بہترین علاج اینٹی بائیوٹکس ہیں جبکہ انھیں روکنے کا طریقہ مردوں اور خواتین کے کنڈوم ہیں۔

انفیکشن، سیکس

گونوکوکل ٹونسیلائٹس

یہ گونوکوکل بیکٹیریا سے ہوتا ہے۔ اس انفیکشن میں ٹونسلز اور گلے سے رطوبتوں کا اخراج ہوتا رہتا ہے۔

اس کا اورل سیکس کے ذریعے پھیلنا نہایت عام ہے کیونکہ اس میں منھ اور جنسی عضوؤں کے درمیان رابطہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے انفیکشن کا خطرہ بڑھا جاتا ہے۔ تشخیص مریض کی علامات کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ گلے سے نکلنے والی رطوبت کا خردبینی جائزہ لے کر انفیکشن کی موجودگی کی تصدیق کی جاتی ہے۔

مونٹینیگرو کہتے ہیں کہ اب بھی ڈاکٹروں میں لوگوں کی جنسی سرگرمیوں کے بارے میں سوالات پوچھنے کے بارے میں ہچکچاہٹ پائی جاتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر معلومات آسانی سے فراہم کی جائیں تو تاخیر سے تشخیص کو روکا جا سکتا ہے اور بہتر علاج کیا جا سکتا ہے۔

بسا اوقات گونوریا کے شکار فرد میں علامات بھی ظاہر نہیں ہوتیں چنانچہ وہ انجانے میں اپنے پارٹنر کو متاثر کر سکتے ہیں۔ اس جنسی انفیکشن کی تشخیص کے لیے ایک گہرا جائزہ لینا ضروری ہوتا ہے۔

ڈاکٹر مونٹینیگرو کہتے ہیں کہ ’ٹونسیلائیٹس جس کا علاج نہ ہو پا رہا ہو اس پر شک پیدا ہونا چاہیے اور مریض سے پوچھا جانا چاہیے کہ کہیں اُنھوں نے کوئی اورل تعلق تو قائم نہیں کیا؟ عام طور پر گونوکوکل بیکٹیریا جنسی عضوؤں کے آس پاس پائے جاتے ہیں اور دوسروں میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ ایسا مردوں اور عورتوں دونوں میں ہوتا ہے۔‘

گونوریا

اس مرض کی وجہ بھی گونوکوکس بیکٹیریا بنتے ہیں۔ اس سے پیشاب کی نالی سے رطوبت کا اخراج ہونے لگتا ہے اور یہاں تک کہ بانجھ پن بھی ہو سکتا ہے۔ یہ منتقلی دخول اور اورل دونوں طرح سے ہو سکتی ہے۔

تشخیص کووڈ 19 کے ٹیسٹ کی طرح گلے میں سویب ڈال کر ہوتی ہے۔

اس طرح کا انفیکشن علامات کے بغیر ہو سکتا ہے چنانچہ متاثرہ افراد اکثر دوسرے شخص کو انجانے میں متاثر کر بیٹھتے ہیں۔

جنسی طور پر منتقل ہونے والے اس مرض کا علاج بھی پیچیدہ ہے اور اس میں ایک طویل وقت لگ سکتا ہے۔ کچھ معاملات میں جسم کچھ اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحم ہو جاتا ہے۔

انفیکشن، سیکس

ہیومن پیپیلوما وائرس (ایچ پی وی)

ہیومن پیپیلوما وائرس کی وجہ سے دبر، جنسی عضو اور منھ کے پاس پھوڑے نکلنے لگتے ہیں۔ اس کی منتقلی کا بنیادی ذریعہ جنسی ملاپ ہے جس میں اورل، دخول یہاں تک کہ خود لذتی تک شامل ہیں۔

اورل سیکس کے باعث اگر یہ مرض ہو تو اس کی علامات زبان، گلے، گالوں کے اندر اور مسوڑھوں پر نظر آتی ہیں مگر یہ انفیکشن متاثر صرف تب کرتا ہے جب کوئی زخم پہلے سے موجود ہو تبھی یہ وائرس جسم میں داخل ہو کر مذکورہ شخص کو متاثر کر سکتا ہے۔

فوری اور مؤثر علاج نہایت ضروری ہے کیونکہ اگر اس کا علاج نہ کیا جائے تو یہ انفیکشن سروائیکل کینسر میں بھی بدل سکتا ہے۔ یہ وائرس دبر، سر اور گردن میں رسولیوں کی ایک اہم وجہ ہے۔

اس کا علاج پھوڑوں کو داغ کر ختم کرنا ہے مگر ڈاکٹر مونٹینیگرو کہتے ہیں کہ خود کو محفوظ کرنے کا سب سے آسان طریقہ ویکسینز ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’سب سے اچھا تو یہ ہے کہ ویکسین جنسی عمل شروع کرنے سے پہلے کر لی جائے۔ کئی طرح کے ایچ پی وی پائے جاتے ہیں مگر ویکسین کینسر کا سبب بننے والے وائرس سے بچا سکتی ہے۔‘

ہرپیز

یہ جنسی انفیکشن ایسے وائرس سے ہوتا ہے جسے ٹائپ ون اور ٹائپ ٹو میں تقسیم کیا گیا ہے۔

پہلے کیس میں منھ کے آس پاس بلبلے سے نمودار ہونے لگتے ہیں اور دوسرے کیس میں یہ علامات جنسی عضو کے پاس نظر آتی ہیں۔

اگر یہ علامات بار بار ظاہر ہوں تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کی قوتِ مدافعت کمزور پڑ چکی ہے اور اُنھیں وٹامنز اور دیگر معدنیات کی مقدار کی جانچ کے لیے اپنے ٹیسٹ کروانے چاہیے۔

یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ انفیکشن کی منتقلی جنسی طریقوں کے علاوہ بھی ہو سکتی ہے یعنی چومنا، ایک دوسرے کی اشیا استعمال کرنا وغیرہ۔ اس کے علاج میں کریمیں اور گولیاں شامل ہیں۔

انفیکشن، سیکس

Science Photo Library

کلامائیڈیا

یہ مرض کلامائیڈیا ٹراکومیٹس نامی بیکٹیریا کی وجہ سے ہوتا ہے جو جنسی عضو اور پیشاب کی جگہ پر سوجن کا باعث بنتا ہے۔

یہ بیکٹیریا سرویسائیٹس کا سبب بھی بن سکتا ہے اور جنسی عمل کے دوران درد اور خون نکلنے کا سبب بن سکتا ہے۔ اگر انفیکشن زیادہ سنگین ہو تو اس سے مردوں اور عورتوں دونوں میں ہی بانجھ پن بھی ہو سکتا ہے۔

امریکہ کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول (سی ڈی سی) کے مطابق زیادہ تر انفیکشنز 15 سے 24 برس کی عمر کے افراد میں ہوتے ہیں۔

یہ جنسی انفیکشن اورل سیکس کے ذریعے بھی منتقل ہو سکتا ہے اور خطرہ اس وقت بڑھ جاتا ہے جب دوسرا شخص منی سے رابطے میں آئے کیونکہ منی میں انفیکشن پھیلانے والے جراثیم بڑی تعداد میں موجود ہو سکتے ہیں۔

اس لیے غیر محفوظ جنسی عمل (دخول سمیت) اس مرض کی وجہ بنتے ہیں۔

اس مرض کے علاج کے لیے اینٹی بائیوٹکس کا استعمال کرنا اور اس دوران جنسی عمل نہ کرنا ضروری ہے جو کہ عام طور پر سات روز کا دورانیہ ہے۔

ہیپاٹائٹس اے، بی اور سی

یہ انفیکشنز جگر کی سنگین بیماریوں کی وجہ بنتے ہیں۔ مگر ہیپاٹائٹس اے دبر اور منھ کے راستے سے پھیلتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اورل سیکس اور کسی بھی طرح کی جنسی سرگرمی کے باعث پھیل سکتا ہے لیکن سب سے عام وجہ دبر میں سیکس یا اورل سیکس ہے۔

ڈاکٹر مونٹینیگرو کہتے ہیں کہ ’سنہ 2017 میں عالمی ادارہ صحت نے اورل اور اینل سیکس کی وجہ سے ہیپاٹائٹس اے کی وبا پھیلنے کی وارننگ جاری کی تھی۔ یہ وبا یورپ کے کچھ شہروں مثلاً بارسلونا میں سامنے آئی۔ برازیل میں متاثرہ افراد کی سب سے بڑی تعداد ساؤ پاؤلو سے سامنے آئی۔‘

انفیکشن، سیکس

ابھی تک ہیپاٹائٹس کی اس قسم کا کوئی خاص علاج نہیں۔ عام طور پر ماہرین ہاتھ اور کھانا اچھی طرح دھونے، جنسی عمل سے پہلے اور بعد میں کنڈوم استعمال کرنے، جنسی عضووں اور دبر کو صاف رکھنے اور جسم میں داخل کیے جا سکنے والے تمام کھلونوں کو انفیکشن سے پاک کرنے پر زور دیتے ہیں۔

ہیپاٹائٹس بی منھ میں زخم، منی سے رابطے میں آنے اور اندام نہانی یا دبر کے راستے سے پھیل سکتا ہے۔

ہیپاٹائٹس سی کے اورل سیکس کے ذریعے پھیلنے کا خطرہ سب سے کم ہوتا ہے بلکہ یہ آلودہ اجزا مثلاً سوئیوں، سرنجوں اور نشے میں استعمال ہونے والی ایسی ہی دیگر اشیا کو چھونے سے پھیلتا ہے۔ اس کا علاج اینٹی وائرلز کے ذریعے ہوتا ہے۔

ایچ آئی وی کا کتنا خطرہ ہوتا ہے؟

ویسے تو یہ اتنا عام نہیں لیکن اورل سیکس بھی ایچ آئی وی کی وجہ بن سکتی ہے تاہم اس کے لیے بہت بڑی تعداد میں وائرس کا ہونا ضروری ہے۔

اس کے علاوہ متاثرہ فرد کے منھ یا گلے میں کوئی زخم ہونا ضروری ہے تبھی وہ فرد متاثر ہو گا۔

ڈاکٹر ایگور مرینہو کہتے ہیں کہ ’خطرہ کم ہے مگر اس کے باوجود چھوٹے زخموں کے ذریعے ایسا ہونا ممکن ہے۔

مردوں اور خواتین سے یہ وائرس کتنا نکلتا ہے، اس کی تعداد میں فرق ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق منی میں وائرس بہت بڑی تعداد میں ہو سکتے ہیں اور یہ متعدی امراض پھیلنے کا ایک بہت بڑا سبب ہے۔

یہی اس انفیکشن کی ایک منفرد خاصیت ہے۔

برازیل کے کجورو یونیورسٹی ہسپتال میں متعدی امراض کے ماہر فیلیپے ٹیوؤن کہتے ہیں کہ اب تک اس حوالے سے مفروضے زیادہ ہیں جبکہ باقاعدہ منتقلی کے خدشے کا تجزیہ کم ہی مطالعات میں کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

چند ممالک میں سیکس کے دوران بلا اجازت کنڈوم اتارنے کو ریپ کیوں سمجھا جاتا ہے؟

بہترین کنڈوم بنانے کا سفر کہاں تک پہنچا؟

مہین لیکھیں جو انسانی چہرے پر چھپ کر سیکس کرتی ہیں

منکی پاکس بھی اورل سیکس سے منتقل ہو سکتا ہے؟

جی ہاں۔ منکی پاکس کا سبب بننے والا وائرس بھی اورل سیکس کے ذریعے منتقل ہو سکتا ہے۔

ایسا اس لیے ہے کیونکہ یہ وائرس جسم میں اس مرض کے باعث پیدا ہونے والے کسی زخم سے رابطے میں آنے پر ہوتا ہے جن میں منھ، جنسی عضو، دبر اور بازو شامل ہیں۔

اس لیے ڈاکٹروں کی تجویز ہے کہ اس طرح کی علامات جن افراد میں ظاہر ہوں وہ طبی معائنہ کروائیں۔

اگر ٹیسٹس میں اس مرض کی تصدیق ہو جائے تو ان زخموں کے مکمل طور پر مندمل ہو جانے تک خود کو الگ تھلگ رکھنا ضروری ہے۔

انفیکشن، سیکس

Science Photo Library

ان امراض کو کیسے روکا جائے؟

سب سے آسان حل یہ ہے کہ ان طریقوں کا استعمال کیا جائے جن سے منھ کا تھوک جنسی عضوؤں سے رابطے میں نہ آئے۔

ماضی میں خواتین کے کنڈومز کا استعمال اتنا عام نہیں تھا اس لیے ڈاکٹر کچن میں استعمال ہونے والا پلاسٹک ریپ ہی اورل سیکس کے دوران استعمال کرنے کی تجویز دے دیتے تھے۔

مگر جنسی عمل کے دوران اس کے پھسل جانے کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے اس لیے ماہرین خواتین کے کنڈومز کے استعمال کا مشورہ دیتے ہیں مگر اب بھی کئی جوڑے اورل سیکس کے دوران حفاظتی اقدامات نہیں اپناتے۔

ڈاکٹر کیمیلا آہرنس کہتی ہیں کہ ’بمشکل ہی کوئی ایسے افراد ہوں گے جو یہ استعمال کرتے ہیں۔ ہم بار بار ایسے لوگ دیکھتے ہیں جو انفیکشن سے متاثر ہوتے ہیں کیونکہ وہ طبی مشورے پر عمل نہیں کرتے۔

مردوں کے معاملے میں کسی بھی جنسی عمل کے دوران کنڈوم استعمال کرنا نہایت ضروری ہے۔

فیلیپے ٹیوؤن کہتے ہیں کہ ’آپ کو جنسی عضو کو کنڈوم سے ڈھکنا چاہیے اور اسے ہٹانا نہیں چاہیے۔ آپ مردانہ کنڈوم، زنانہ کنڈوم یا دونوں بھی استعمال کر سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ عوامی صحت کی پالیسیوں اور آگہی مہمات کی ضرورت ہے خاص طور پر ان نوجوان افراد اور نو بالغ افراد میں جو کنڈوم نہیں استعمال کرتے۔

وہ افراد جو جنسی طور پر نہایت سرگرم ہیں ان کے لیے ماہرین کی تجویز ہے کہ وہ ہر چھ ماہ میں ممکنہ انفیکشنز کا ٹیسٹ کروائیں۔

فیلیپے ٹیوؤن کہتے ہیں کہ ’سیفیلز کے حامل افراد کو ٹیسٹ کروانا چاہیے۔

جنسی انفیکشنز کو روکنے کے لیے پروفائلیکسز نامی طریقہ بھی سیکس سے پہلے اور بعد میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ مشورے اور ہدایات کے لیے ہسپتال کا رخ بھی کرنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments