گردشِ ماہ سال (افسانہ)۔


زندگی میں لوگ اور لہجے بدلتے تو اس نے بہت دیکھے تھے مگر اب تک وہ اس چیز کی عادی نہیں ہوئی تھی۔ کیا ہوا تھا؟ فقط چھوٹی سی تو بات تھی کہ شادی کے بعد بھائی کے رویے میں تبدیلی آ گئی تھی۔ اور ان کا جھکاؤ بھا بھی کی طرف زیادہ ہو گیا تھا مگر یہ فطری عمل تھا۔ اصولاً ًتو اسے اس بات پہ کوئی شکایت نہیں ہونی چاہیے تھی۔ ہوتا یہ تھا کہ بھابھی کوئی چیز منگواتیں تو اکثر اپنے کمرے، میں ہی نوش فرما لیتی، کبھی بھائی ان سب کے لیے بھی لے آتے مگر احسان یہ ہوتا کہ اس مہنگائی کے دور میں سب کا پورا کرنا بہت مشکل کام ہے۔

وہ تمام خرچہ نہیں اٹھاتے تھے مگر اس کے باوجود بھی بھابھی ہر وقت احسان ہی جتاتی رہتیں کہ احسن کو بہنوں کی وجہ سے سخت محنت کرنی پڑتی ہے۔ در حقیقت ایسا نہیں تھا۔ ابو کی پنشن آیا کرتی تھی اور وہ دونوں بہنیں بھی جاب کیا کرتی تھیں اور برابری سے گھر کے خرچہ میں پیسے دیا کرتی تھیں مگر ان کا نام تو کہیں نہیں آتا تھا۔ احسن بھائی کا احسان بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا۔

وہ گھر میں داخل ہوئی تو امی کا پارہ بہت ہوئی ہو رہا تھا۔ پتہ یہ چلا کہ صبح سے بھا بھی صاحبہ کمرا بند کر کے پڑی ہیں ”کیا ہوا خیر تو ہے آپ اتنی پریشان کیوں ہیں“ نا چاہتے ہوئے بھی اسے امی سے پوچھنا پڑا۔

۔ ”تم تو صبح کی جاتی ہو تمھیں کیا کوئی مرے یا جیے! صبح تمھارے دودھیا لی رشتے دار آ گئے تھے رابعہ کو پتا تھا کہ میں گھر میں اکیلی ہوں مگر پھر بھی کسی کام کو نہیں ہلی۔ میری تو اب عمر نہیں ہے کام کرنے کی مگر انہیں کیا پرواہ۔ وہ تو مہارانی بن کر آئی ہیں ہمیں ہی سمجھوتا کرنا پڑے گا“ امی کے لہجے سے تلخی عیاں تھی۔ ان کو اس بات کا بہت صدمہ تھا کہ بھابھی ہر حوالے سے بہت کوری تھیں۔ نہ شکل، نہ عقل، نہ دنیاوی تعلیم نہ دینی تعلیم، نہ پہننے اوڑھنے کا سلیقہ نہ گفتگو کے آداب۔

اگر امی کو انتخاب کا حق حاصل ہوتا تو وہ کبھی بھی رابعہ بھابھی کو اس گھر کی بہو نہ بننے دیتیں۔ مگر برا ہوا اس محبت اور پسندیدگی کا جو بھائی کو رابعہ بھابھی سے تھی۔ جس میں اضافے کا ایک سبب یہ بھی رہا تھا کہ وہ شادی سے پہلے ان کے گھر بہت تواتر سے جاتے تھے اور رابعہ بھابھی اور ان کی والدہ کو بہت معصوم سمجھتے تھے۔ بھائی آج بھی بھابھی کی والدہ کو انتہائی نیک تصور کرتے تھے۔ ابیہا اور نیہا کے خیالات نہ صرف بھائی کے بارے میں بدل گئے تھے۔ بلکہ گھر کے دوسرے مکینوں سے بھی ان کا دل خراب ہوتا جا رہا تھا۔ وجہ بظاہر تو کوئی نہ تھی مگر گھر میں قدم رکھتے ہی رابعہ بھابھی نے سب کو اپنے اشارے پر چلانا چاہا تو وہ چیخ اٹھی

”آخر آپ چاہتی کیا ہیں کہ ہم کھانا پینا پہننا اوڑھنا سب چھوڑ دیں“ ابیہا نے انتہائی تلخ لہجے میں رابعہ سے پوچھا تو وہ بے طرح تنک گئیں۔

”لو میں ایسا کیوں چاہوں گی بھلا؟ مگر یہ دیکھنا تو میرا فرض ہے کہ کیا چیز کتنی مقدار میں استعمال ہو رہی ہے؟ کون کیا کھا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے؟ کہیں تمھارے بھائی کا پیسہ فضول عیاشیوں میں تو ضائع نہیں ہو رہا“

انہوں نے ابیہا کے تاثرات سے حظ اٹھاتے ہوئے بظاہر انتہائی سادہ لہجے میں کہا۔ درحقیقت وہ اتنی سادہ نہیں تھیں جتنی نظر آنے کی کوشش کر رہی تھیں۔

”کیا ضروری ہے کہ ہم کچن میں آئیں تو آپ سر پر موجود ہوں؟ اگر کہیں آئیں جائیں تو آپ کو بتا کر جائیں؟ اس کا لہجہ مزید بلند ہوا تو بھابھی نے فیل مچانا شروع کر دیا“ امی آپ مجھے اس لیے شادی کر کے لائی تھیں کہ آپ کی بیٹیاں مجھے باتیں سنائیں؟ یہ ہر وقت میری بے

عزتی کریں اور میرے حقوق تسلیم نہ کریں ”انھوں نے بلند آواز سے رونا شروع کر دیا تو وہ چولھا بند کر کے جلتی ہوئی کچن سے باہر نکل گئی۔ آفس سے تھکا ہارا آنے کے بعد بس ایک کپ چائے کی خواہش تھی۔ جو اس بدمزگی کی نظر ہو گئی تھی۔ بھابھی کی آواز سن کر احسن بھی باہر آ گئے“ امی میں نے کہا بھی تھا کہ ابھی میری شادی نہ کریں! دیکھ لیا ان بہنوں کو ان سے میری خوشی برداشت نہیں ہوئی۔ دو دن میں رابعہ کا جینا حرام کر دیا ہے ”بھائی کے تن فن کرنے کی آواز اندر تک آ رہی تھی۔

“ امی آپ کہہ کر تو دیکھیں میں رابعہ کو ابھی طلاق دے دیتا ہوں بیویاں تو اور مل جائیں گی مگر ماں باپ اور بہن بھائی تو نہیں ملیں گے نا؟ ”انھوں نے دوسرا ٹریک اختیار کیا۔ جبکہ امی طلاق کے نام پر ہی ان کو سرزنش کرنے لگیں کہ انہوں نے ایسی بات منہ سے نکالی کیوں؟ ان تمام باتوں پر اندر بیٹھی ہوئی ابیہا اور نیہا دونوں جل رہی تھیں۔ سب کو معلوم تھا کہ دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کے کہنے پر چلتے ہیں اور یہ ہی وجہ تھی کہ وہ بھائی کے اس طرح کے ڈراوے پر خاموش نہ رہ سکی اور کمرے سے باہر نکل آئی۔“ بھائی اگر آپ کچھ نہیں کر سکتے تو بس الگ ہوجائیں اگر الگ نہیں بھی ہوتے تو اوپر شفٹ ہوجائیں ہم مزید ٹینشن برداشت نہیں کر سکتے ”ابیہا نے نپے تلے لہجے میں کہا تو بھائی کو آگ ہی لگ گئی

”امی دیکھ لیں یہ کس لہجے میں بات کر رہی مجھ سے، اگر آپ کو رابعہ کو ساتھ نہیں رکھنا تو میں ابھی طلاق دے دیتا ہوں اسے مگر الگ نہیں ہوؤں گا۔“ احسن بھائی نے بات کو سمجھے بغیر جذباتی ہتھکنڈہ استعمال کیا تو اس کا دل چاہا کہ اپنے آپ کو ختم کردے۔ باہر سے آیا ہوا ایک بندہ اپنی عادتیں تبدیل کرنے کے بجائے پورے گھر پر ہولڈ قائم کرنا چاہ رہا تھا اور گھر کے مکینوں کو تکلیف میں مبتلا کر رہا تھا مگر بھائی صرف اپنی ناموری کی خاطر الگ ہونے کو تیار نہ تھے۔

بھابھی کون سا امی ابو کی خدمتیں کر رہی تھیں یا پھر گھر کے دیگر کاموں میں ہاتھ بٹا رہی تھیں؟ صفائی کے لیے ماسی آتی تھی جس سے کام امی اپنی نگرانی میں کرواتی تھیں۔ وہ دونوں اپنا ناشتہ خود بناتی تھیں اور پھر آفس چلی جاتی تھیں جب کہ امی ابو اور دوسرے بھائیوں کو ناشتہ بنا کر دیتی تھیں۔ بھابھی ساڑھے دس بجے تک باہر آتیں اتنی دیر میں عموماً صفائی کا کام نمٹ چکا ہوتا تھا امی ناشتے کا کام بھی نمٹا چکی ہوتی تھیں اور ساتھ ساتھ سنک میں ڈھیر برتن بھی دھوتی جاتیں اسی دوران کپڑے دھونے والی ماسی کو بھی ہدایات جاری کرتی رہتیں۔

جو بھی پکانا ہوتا اس کی تیاری بھی امی خود ہی کر دیتی تھی۔ پھر اگر بھابھی کا موڈ ہوا تو سالن پکا لیا ورنہ صرف آٹا گوندھ کر روٹی ڈالنا ہی ان کا کام تھا۔ باقی کاموں سے ان کو کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اکثر تو وہ روٹی ڈالنے کے پیچھے بھی بہت آفت ڈھاتی تھیں۔ اپنے اماں ابا کی اکلوتی بیٹی تھیں۔ اپنے گھر میں انہوں نے کبھی کوئی کام نہیں کیا تھا اس لیے سسرال میں چند روٹیاں بھی ان کو

بھاری پڑتی تھیں۔ صبح کے وقت اکثر لوگ غیر حاضر ہوا کرتے کرتے تھے اور روٹیاں بھی بہت کم مقدار میں بنا کرتی تھیں مگر انہیں چند روٹیاں بنانا بھی بہت ناگوار گزرا کرتی تھیں۔ بد دلی سے بنی ہوئی وہ روٹیاں کھانے والوں پہ بھی بار بن جایا کرتی تھیں۔ انہیں حساب کتاب رکھنا خوب آتا تھا اگر روٹی کم پڑتی تو فوراً جواب آتا کہ آج فلاں نے تین روٹیاں کھائی ہیں۔ یا فلاں نے دو اس وجہ سے کم پڑ گئی ہیں۔ حالانکہ گھر والے تو اتنا ہی کھا رہے تھے فرق صرف یہ تھا کہ پہلے کھانا پکانے اور سرو کرنے کا انتظام بیٹیوں کے ہاتھ میں تھا مگر بہو کے ہاتھ میں جاتے ہی بجٹ دن بہ دن نیچے کی طرف جا رہا تھا۔

گھر میں پکی ہوئی سادہ غذا بھابھی کی نظر میں جچتی نہ تھی اس لیے کباب پراٹھے روز ہوٹل سے آنے لگے تھے۔ چٹ پٹی چھولوں کی چاٹ کے بناء تو ان کے منہ کا ذائقہ ہی ٹھیک نہیں ہوتا تھا۔ بہت ساری چھوٹی چھوٹی باتیں ایسی تھیں جو عموماً تنازعوں کا سبب بنتی تھیں اور بات کا اختتام بھائی کی طلاق کی دھمکی پر ہوا کرتا۔ اگر احسن بھائی ذرا سی مصلحت اور دور اندیشی سے کام لیتے تو انھیں اس بات کا فورا اًندازہ ہو جاتا کہ ان کی بیوی گھر والوں کے تعاون کے باوجود سسرالیوں کے ساتھ رہنے پر تیا ر نہیں ہے۔ ٭٭٭٭٭٭

ابیہا اور نیہا کی عمر دن بہ دن بڑھتی جا رہی تھی اور شادی کے کوئی آثار نہ تھے۔ جس میں کچھ حصہ گھر والوں کا بھی تھا۔ اول تو کوئی رشتہ آتا ہی نہ تھا۔ اگر بھولے بھٹکے کوئی پروپوزل آ بھی جاتا تو اس میں تینوں بھائیوں میں سے کوئی نہ کوئی نقص نکال کر رد کر دیتا تھا۔ بھائیوں میں سے کوئی بھی لڑکے کی چھان بین پر تیار نظر نہیں آتا تھا۔ بڑے دونوں بھائی شادی کے بعد علیحدہ ہوچکے تھے۔ اور اسی بات کو بنیاد بنا کر خرچہ بھی نہیں دیتے تھے۔

اگر ان دونوں بہنوں کی شادی ہوتی تو یقیناً بھائیوں کو بھی کچھ نہ کچھ ذمہ داری اٹھانا پڑتی اسی وجہ سے وہ چاہتے ہی نہ تھے کہ بہنوں کی شادیاں ہوں۔ رابعہ بھابھی کی وجہ سے گھر کا ماحول اور امی ابو کی صحت دن بہ دن خراب ہوتی جا رہی تھی۔ وہ دونوں بہنیں بھی بہت ٹینشن کا شکار رہنے لگی تھیں وجہ محض اتنی تھی کہ اگر بھابھی کو طلاق ہوتی، یا وہ گھر جا کر بیٹھ جاتیں ہو صورت میں اس کا ذمہ دار ان دونوں بہنوں کو قرار دیا جاتا۔ جب کہ لڑائی جھگڑے کی صورت میں بھی بدنامی ان کے ہی حصے میں آنی تھی۔ اسی لیے وہ دونوں رابعہ کی حرکتوں پر خون کے گھونٹ پینے پر مجبور تھیں۔

کیا ہوا جو وہ تعلیم یافتہ تھیں؟ کیا ہوا جو وہ پروفیشنل زندگی میں بے حد کامیاب تھیں؟ لیکن گھریلو اور معاشرتی زندگی تو ان دونوں کی صفر تھی ان دونوں نے رشتہ داروں اور دوستوں سے ملنا چھوڑ دیا تھا۔ وجہ وہ ہی ازلی تھی کہ ہر ملنے والا محض یہ ہی سوال کرتا کہ شادی کب ہو رہی ہے تمھاری؟ کہیں رشتہ طے ہوا وغیرہ وغیرہ۔ اگر وہ دونوں موجودہ دور کی لڑکیوں کی مانند خود اپنے لیے رشتہ ڈھونڈ لیتیں تو زیادہ مناسب تھا۔

مگر جو شرافت کی گھٹی انہیں دی گئی تھی وہ اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی کہ وہ اس معاملے کو از خود آگے بڑھائیں۔ دونوں بہنوں کی عمر تیس سے تجاوز کرچکی تھی مگر کیسی کو احساس ہی نہ تھا۔ خاندان میں موجود اکثر لڑکیاں بیس سال کی عمر میں ہی اپنے لیے بر منتخب کرچکی تھیں اور ان پر خاندان والوں نے کوئی باتیں بھی نہیں بنائی تھیں۔ حالانکہ اس دور میں موبائل، انٹر نیٹ، ٹیلی فون جیسے ذرائع ہونے کے باوجود بھی ان کی ذہنیت انیسویں صدی کی خواتین کی ہی مانند تھی۔ ابیہا کو وقت کے ساتھ ساتھ اندازہ ہوتا جا رہا تھا کہ معاشرے میں نام کے ساتھ شوہر کے نام کا اضافہ عورت کی حیثیت کو مستحکم کر دیتا ہے مگر اس معاملے میں دونوں بہنوں کی ناکامی مسلمہ تھی

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

”ابیہا تمھارے لیے ایک رشتہ آیا ہے۔ لڑکا صرف انٹر پاس ہے مگر دوبئی میں ایک اچھی کمپنی میں ویلڈنگ کا کام کرتا ہے۔ شکل صورت اور خاندان کے حوالے سے بھی ٹھیک ہے میری ایک پرانی جاننے والی نے بتایا ہے اگر تمھیں کوئی اعتراض نہیں تو میں لڑکے والوں کو اتوار کو بلوا لوں؟“ امی نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ اس نے خاموشی سے ذرا کی ذرا نظریں اٹھائیں اور دوبارہ سے کمپیوٹر اسکرین پر نظریں جما دیں۔ امی کو اس کی کیفیت کیا فوراً ہی اندازہ ہو گیا تھا۔

جب ہی تو کہنے لگیں ”تمھیں علم ہے کہ تمھاری جاب اور پیسے کی وجہ سے تمھارے بھائی تمھاری شادی نہیں کرنا چاہتے۔ تمھاری بھابھی کا دن بہ دن خراب ہوتا ہوا رویہ اور تمھارے ابو اور میری گرتی ہوئی صحت کا تقاضا یہ ہی ہے کہ تم اس بارے میں سوچ ہی لو تو یہ تمھارے حق میں بہتر ہو گا۔ بے شک ایم۔ اے پاس ہو اچھا کھا کما رہی ہو لیکن سفید پوش گھرانے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اس عمر میں کوئی اچھا رشتہ آنا ممکن نہیں۔ اگر ہوتیں تم حسین اور خوبصورت تو بیس سال کی عمر میں ہی نمٹ چکی ہوتیں۔

اس رشتے کے لیے ہاں کہنا تمھارے اپنے حق میں بہتر ہے۔ ورنہ ساری عمر بھائی بھاوج کی جوتیاں سیدھی کرتی رہنا اور بھتیجا بھتیجیوں کے فرمائشی پروگرام پورے کرتی رہنا۔ نہ کوئی حاصل نہ وصول۔ آخری عمر میں کوئی پانی ڈالنے والا بھی نہ ہو گا عورت کو خدمت اپنے مقام پر رہ کر ہی کرنا چاہیے ورنہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ تمام دنیا میں تو اس بات کا ہی ڈنکا ہے کہ تمھارا خرچہ تمھارا بھائی اٹھاتا ہے۔ اب دنیا والوں کو کون بتائے کہ اپنا خرچہ تم خود اٹھاتی ہو اچھی طرح سوچ لو صبح مجھے جواب دے دینا۔“

امی نے انتہائی سفاکی سے تجزیہ کیا اور اٹھ کر چل دیں۔ پیچھے اس کے لیے سوچوں کا ایک طویل سلسلہ تھا۔ ان کا کہنا ٹھیک ہی تو تھا۔ گھر میں تمام کام اب بھابھی کی مرضی سے ہونے لگے تھے۔ ان دونوں بہنوں کے لیے تو دائرہ ہر جگہ تنگ ہوتا جا رہا تھا۔ جہاں جاتیں سوال کیا جاتا کہ مسز ہیں؟ یا پھر آپ کے شوہر کہا ہیں؟ ضروری تو نہیں کہ ہمیں ہر چیز ہمارے معیار کے مطابق ملے۔ اپنی معاشرتی حیثیت مضبوط بنانے کے لیے کہیں نہ کہیں کم پر بھی تو کمپرومائز کرنا پڑتا ہے۔ تمام حالات کا حقیقت پسندانہ نظر سے جائزہ لینے کے بعد ابیہا نے اس پروپوزل کے لیے ہاں کہہ دی۔ ضروری تو نہیں کہ ہر لڑکی کو ہم پلہ شریک سفر ملے۔ البتہ اس طویل زندگی کے لیے شریک سفر کا ہونا بہت ضروری تھا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments