شہباز گل صاحب کو مارا مگر شیری رحمان صاحبہ کا بل کہاں گیا؟


عمران خان صاحب نے ایک انٹرویو میں یہ دعویٰ کیا کہ حراست میں شہباز گل صاحب کو ننگا کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا تاکہ وہ ان کے خلاف گواہی دے دیں۔ اور انہوں نے کہا کہ تشدد کر کے شہباز گل صاحب سے پوچھا جا رہا ہے کہ جنرل فیض حمید کتنی مرتبہ عمران خان صاحب سے ملے تھے۔ پنجاب کے وزیر داخلہ محمد ہاشم ڈوگر صاحب نے اس خبر کی تردید کی کہ شہباز گل صاحب پر کسی قسم کا تشدد کیا گیا ہے۔ محمد ہاشم ڈوگر صاحب کا تعلق بھی تحریک انصاف سے ہے۔

دوسری طرف شہباز گل صاحب کے وکیل شعیب شاہین صاحب نے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ جب آدھے گھنٹے کے لئے شہباز گل صاحب سے ملے تو انہوں نے بتایا کہ ساری رات ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اور ننگا کر کر ان کی گردن سے لے کر پاؤں تک ان پر جسمانی تشدد کیا گیا ہے۔ اور آج ہی فواد چوہدری صاحب نے یہ مطالبہ کیا کہ ایک غیر جانبدار میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جائے جو کہ اس بات کا جائزہ لے کہ ان پر تشدد کیا گیا ہے کہ نہیں۔

یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ سیاسی قیدیوں کی طرف سے تشدد کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ ماضی قریب میں بھی بارہا ایسے الزامات لگائے گئے ہیں کہ بعض سیاسی قیدیوں کو تشدد اور انتہائی بد سلوکی کا نشانہ بنایا گیا۔ ان میں ایک نمایاں نام محترم پرویز رشید صاحب کا ہے۔ محترمہ مریم نواز صاحبہ نے بھی یہ الزام لگایا تھا کہ جب انہیں گرفتار کیا گیا تھا تو جیل کے کمرے میں اور واش روم میں بھی کیمرے نصب کیے گئے تھے۔ اگر یہ الزام صحیح ہے تو اس حرکت سے اس وقت کی حکومت کو فائدہ تو کوئی نہیں ہو سکتا البتہ ان پست ذہنیت کا اندازہ ضرور ہوتا ہے۔

یہ ذکر نا مکمل رہے گا اگر ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے اس بیان کا ذکر نہ کیا جائے جو کہ بھٹو صاحب نے سپریم کورٹ میں دیا جب وہ اپنی زندگی اور موت کا مقدمہ لڑ رہے تھے۔ پاکستان کی تاریخ میں اس تقریر کا ایک مقام ہے۔ جب بھٹو صاحب نے یہ بیان شروع کیا تو انہوں نے کہا

” میں موت کی کوٹھری جس کا رقبہ 7 ضرب 10 فٹ ہے میں ایک برس سے زائد عرصہ سے بند ہوں۔ جس کے نتیجے میں اس کمرے میں اپنے آپ کو دھندلایا ہوا محسوس کرتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ میں اس کمرے میں اپنی موجودگی کو اس کے رکھ رکھاؤ اور اس میں موجود لوگوں میں اپنے آپ کو پوری طرح ایڈجسٹ نہیں کر سکتا ہوں۔ لوگوں کو دیکھنا بہت نفیس اور اچھا لگتا ہے۔ میں اس معزز عدالت میں ان افراد کے سامنے جو غیر ملکی ہیں اس حقیقت کا تذکرہ نہیں کرنا چاہتا کہ مجھ پر کیا گزر چکی ہے۔ میں ان غیر ملکی دوستوں کا احترام کرتا ہوں۔ میں اپنے جسم پر نشانات یا ایسی چیزوں کو ان کے سامنے نہیں دکھانا چاہتا“

بھٹو صاحب کو راولپنڈی منتقل کر کے کس حال میں رکھا گیا تھا؟ اس کے بارے میں بھٹو صاحب نے کہا

”صحن سپاہیوں سے بھرا پڑا تھا۔ وہ ہر جگہ پر منڈلا رہے تھے۔ حتی کہ برآمدوں میں بھی۔ کوریڈور غلاظت سے بھرا ہوا تھا۔ کوئی وہاں بمشکل ہی کھڑا ہو سکتا تھا۔ وہاں چھ کوٹھڑیاں تھیں۔ موت کی کوٹھڑی بالکل کھلی تھی اور اس میں مکھیوں کو روکنے کا کوئی انتظام نہ تھا۔ موسم گرم تھا۔ گرمی پڑ رہی تھی۔ میرا سارا چہرہ مکھیوں اور مچھروں سے بھرا ہوا تھا۔ محافظوں تک کے کمروں کو جالیاں لگی ہوئی تھیں۔ وہاں مکھیاں نہیں جا سکتی تھیں۔ میں اس پر خوش ہوں مجھے بھی ایسی ہی کوٹھڑی دی جا سکتی تھی۔ لیکن مجھے ابھی تک ایسی کوٹھڑی نہیں دی گئی تھی اور مائی لارڈز باتھ مکمل طور پر کھلا تھا اور مجھ سے یہ توقع کی جاتی تھی کہ جب ہر وقت وہاں اوپر سے نیچے آدمیوں کا مارچ ہوتا رہتا تھا تو میں اسے استعمال کرنے کے لیے جاؤں۔“

[ذوالفقار علی بھٹو۔ ولادت سے شہادت تک مصنفہ سجاد بخاری ص 243 و 267 ]

بلاشبہ بعض مرتبہ یہ خبریں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں کہ فلاں سیاستدان کو جیل میں وی آئی پی سہولیات دی جا رہی ہیں تو ہماری نیندیں حرام ہوجاتی ہیں لیکن جب کسی سیاستدان کو جیل میں امتیازی تشدد اور بد سلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس کے خلاف بہت کم لوگ آواز اٹھاتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے لیکن ایک اور حقیقت بھی قابل توجہ ہے اور وہ یہ کہ قانون سازی کا اختیار تو سیاستدانوں کے ہاتھ میں ہے۔ قوانین پر عمل درآمد تو ایک طرف رہا، اب تک پاکستان میں ایسی موثر قانون سازی بھی نہیں کی جا سکی جس کے ذریعہ حراست میں تشدد اور بد سلوکی کے خلاف اقدامات اٹھائے جائیں اور اس پہلو سے پاکستان اب تک دنیا کے اکثر ممالک سے بہت پیچھے ہے۔ پاکستان کی سب سیاسی جماعتیں کبھی نہ کبھی حکومت میں رہی ہیں اور اقتدار سے نکل کر ان کے لیڈر اس قسم کے تشدد کا نشانہ بنتے رہے لیکن ہماری پارلیمنٹ کو یہ توفیق نہ ملی کہ وہ حراست میں تشدد کے خلاف عالمی معیار کی قانون سازی کر لے۔ بلکہ سیاسی جماعتوں نے اس عمل کو روکنے میں اپنا کردار ادا کیا۔

اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 12 جولائی 2021 کو سینٹ میں پیپلز پارٹی کی شیری رحمان صاحبہ نے زیر حراست تشدد اور تشدد سے اموات اور زیر حراست ریپ اور جنسی ہراسانی کوکو روکنے کے لئے ایک جامع بل سینٹ میں پیش کیا۔ تحریک انصاف کی شیریں مزاری صاحبہ نے نہ صرف اس بل کی مخالفت نہیں کی بلکہ اس کا خیر مقدم کیا۔ یہ بل منظور کر لیا گیا۔ اب قانونی طور پر یہ بل قومی اسمبلی میں پیش ہونا چاہیے تھا۔ قومی اسمبلی اس پر بحث کر کے اس کو منظور کرتی یا اس میں ترمیم کرتی یا اسے رد کرتی۔

شازیہ مری صاحبہ اور دو دوسرے ممبران نے قومی اسمبلی میں یہ مطالبہ کیا کہ اب اس بل کو قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے۔ اس وقت ملک میں تحریک انصاف کی حکومت تھی اور اسی جماعت کا سپیکر نیشنل اسمبلی کو چلا رہا تھا۔ اگست 2021 کو یہ بل ایجنڈا میں شامل کیا گیا لیکن پھر یہ بل پر اسرار طور پر ایجنڈا سے غائب کر دیا گیا۔

اور اس کی جگہ اس وقت کے وزیر داخلہ شیخ رشید صاحب ایک مختلف بل جو کہ شیری رحمن صاحبہ کے بل سے بہت نرم تھا اسمبلی میں لے آئے اور شیری رحمن صاحبہ کا بل غائب ہو گیا۔ اب تو شیخ رشید صاحب وزیر داخلہ نہیں ہیں اور نہ تحریک انصاف کا سپیکر قومی اسمبلی میں موجود ہے۔ لیکن اس کے با وجود یکم اگست 2022 کو قومی اسمبلی میں شیخ رشید صاحب کا بل ترمیم کے ساتھ منظور کر لیا گیا۔ اس بل میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے تشدد کو روکنے کے لئے وہ اقدامات موجود نہیں ہیں جو کہ شیری رحمن صاحبہ کے بل میں موجود تھے۔ قومی اسمبلی کی کمیٹی کے چار ممبران نے اپنا اختلاف ریکارڈ کرایا لیکن قومی اسمبلی کے اراکین کی اکثریت نے شاید یہ محسوس بھی نہ کیا ہو کہ کس طرح خفیہ ہاتھ ان کے ساتھ کھلواڑ کر گئے ہیں۔

مثال کے طور پر سینٹ سے منظور کیے جانے والے بل میں ذہنی تشدد کو تشدد یا ٹارچر کی تعریف میں شامل کیا گیا تھا لیکن شیخ رشید صاحب کے بل میں ذہنی تشدد کا ذکر غائب کر دیا گیا۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ 75 سال سے سیاستدان باری باری پولیس کی چھترول اور ایجنسیوں کے تشدد کا نشانہ بنے جا رہے ہیں۔ لیکن مل کر اس سلسلہ کی روک تھام کے لئے موثر قانون سازی نہیں کر سکتے۔ جب بھی ان کے پاس اکثریت ہوتی ہے یا وہ حکومت میں ہوتے ہیں تو یہی ادارے جو پہلے ان پر تشدد کر رہے تھے انہیں یہ یقین دلا دیتے ہیں کہ حضور والا اگر ایسا قانون بن گیا تو آپ کی گرفت کمزور ہو جائے گی۔ حضور کے دشمنوں کو منہ زوری کا موقع مل جائے گا۔ اور صاحب بہادر ان باتوں میں آ جاتے ہیں۔ ایک دو سال میں یہ صاحب بہادر اقتدار سے باہر ہوتے ہیں اور انہیں اداروں کے ہاتھوں ان کی عزت افزائی ہو رہی ہوتی۔ اور یہی کچھ شہباز گل صاحب کے ساتھ ہوا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments