جبری نکاح یا زنا بالجبر


نکاح دراصل وہ معاہدہ ہے جو ایک مرد اور عورت کے مابین تشکیل پاتا ہے، جس کی رو سے اب وہ ایک دوسرے کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم کرنے میں آزاد ہو جاتے ہیں۔ نکاح نامی رشتے کا وجود ازل سے موجود ہے اور تمام مذاہب کے اندر اس کا ثبوت ملتا ہے۔ ایک عورت نکاح کے تحت جب، کسی مرد کے ساتھ منسوب ہوتی ہے، تو ایک عام تصور یہی ہے کہ گویا وہ عورت مرد کی ملکیت میں آ گئی ہے، جو اس عورت کو جیسے چاہے استعمال کرے، جو مرضی اس کے ساتھ سلوک کرے، اسے اس بات کی کھلی آزادی ہے۔

گویا عورت نکاح کے بعد اب آزاد انسان نہیں، ایک غلام ہے جو نکاح کے بعد اپنے جسم کی ملکیت سے دستبردار ہوجاتی ہے۔ یہ بات عمومی طور پر ہمارے ہاں تسلیم کی جاتی ہے کہ نکاح کرنے سے قبل عورت اور مرد دونوں سے ان کی رضامندی پوچھ لینی چاہیے، لیکن کچھ عوامل کی وجوہات کی بنا پر یہ تکلف گوارا نہیں کیا جاتا اور والدین ( بشمول بہن، بھائی) جہاں دل چاہتا ہے، اور جس سے دل چاہتا ہے وہیں بچوں کی شادی کر کے اپنے تئیں اس فریضے سے سبکدوش ہو جاتے ہیں۔ لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا اس جبری نکاح یا جوڑ سے طے کیے گئے رشتے کو شادی کا نام دیا جا سکتا ہے، اور کیا یہ عمل جائز ہے؟

ہم جانتے ہیں کہ شادی ایک بنیادی اور فطری انسانی تقاضا ہے، جس کا مقصد ذہنی سکون اور آرام ہے۔ اور یہ بات صرف اسی صورت میں ممکن ہے، جب زوجین کے مابین مکمل ہم آہنگی، محبت اور اعتماد کا رشتہ موجود ہو، وہ شادی سے قبل ایک دوسرے کو جانتے ہوں، ایک دوسرے کو سمجھتے ہوں اور اس بندھن میں خوشی سے بندھے ہوں۔ لیکن جہاں دو جیتے جاگتے انسانوں کو جبری طور پر نکاح کے نام پر یوں باندھ دیا جائے، کہ وہ عمر بھر کے لئے اب ایک دوسرے کے شریک زندگی تو بن جائیں، مگر اس بندھن کے لئے نہ تو لڑکا راضی ہو اور نہ ہی لڑکی، تو اس کی مثال ان حیوانوں کی سی ہے جن کو زبردستی کھونٹے سے باندھ دیا گیا ہو، جہاں ان کی اپنی نہ تو مرضی شامل ہے اور نہ ہی اب وہ یہاں سے آزاد ہو سکتے ہیں۔ گویا اب وہ اس تعلق کو نبھانے پر مجبور ہیں، کیونکہ ہماری اقدار اور روایات میں یہی بات شامل ہے۔

ہم اپنے معاشرے میں اگر مشاہدہ کریں، تو یہاں بے شمار ایسے بے جوڑ کے بندھن میں جڑے افراد مل جاتے ہیں، جو اپنی شادی شدہ زندگی کو مجبوری کے تحت گزار نے پر مجبور ہیں۔ دونوں افراد کی منزل، چاہت، پسند اور محبت الگ الگ تھی۔ وہ اپنی الگ دنیا بسانے کے خواب دیکھتے تھے، وہ اپنا ہم سفر تلاش کر چکے تھے، وہ اس کے ساتھ عمر بھر تعلق نبھانے کا پیمان باندھ چکے تھے، وہ ایک ایسی زندگی کا خواب دیکھ رہے تھے جس کے ہر قدم پر وہ ساتھ ساتھ تھے، ان کی چاہتیں، امنگیں، آرزوئیں اپنے ہم سفر کے ساتھ منسلک تھیں۔

مگر اس کے ساتھ ساتھ ان کے گھر والے، ان کی پسند نا پسند سے بے خبر اپنی خواہشات کے مطابق، ان کی زندگی کا فیصلہ کیے بیٹھے تھے، جس میں محبت، مرضی اور اختیار تو نہیں، البتہ خاندانی وجاہت، مال و دولت، عہدہ، قبیلہ سبھی کچھ شامل تھا۔ اور یوں اچانک دونوں کی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ، ان سے پوچھے بنا کر دیا جاتا ہے۔

ہم اس بات کو اگر اس تناظر میں دیکھیں کہ ایسا نکاح جس میں ایجاب و قبول کی بنیاد جھوٹ پر ہو، اور ہر دو افراد محض دباؤ کے تحت سب کے سامنے ایک دوسرے کو قبول کریں، تو کیا یہ نکاح منعقد ہو جائے گا؟ کیا یہ عمل جس میں دو آزاد انسانوں کو لاتعداد دھمکیوں، اندیشوں، لالچ اور مختلف حیلوں بہانوں سے مجبور کر کے انجام دیا گیا ہو، اس کو ہم نکاح کہیں یا نکاح بالجبر؟ اگر یہ نکاح، نکاح بالجبر ہے تو کیا یہ چیز زنا بالجبر کے زمرے میں نہیں آتی؟

ہم زنا بالجبر کی یہی تعریف کرتے ہیں جس میں دوسرے فریق کی مرضی شامل نہ ہو، مگر نکاح بالجبر میں تو جب دونوں فریق ہی راضی نہیں ہیں، تو گویا اس کی کراہت زنا بالجبر سے بھی زیادہ شدید ہے۔ دوسری طرف زنا بالجبر شاید ایک مرتبہ ہو جانے کے بعد ، تادیبی کارروائی کے نتیجے میں رک جائے، لیکن جبری نکاح میں یہ بات ممکن ہی نہیں۔ یہاں تو عمر بھر کا تعلق ہے، جس میں جبر و کراہ سے دو آزاد انسانوں کے جسموں کو تو جوڑ دیا گیا ہے، مگر ان کے دل کسی اور کے لئے دھڑکتے ہیں، ان کی سانسیں کسی اور کی نام کی مالا جپتی ہیں، وہ ایک ہی چھت تلے رہنے کے باوجود اجنبی ہیں، وہ جنسی تعلق کے لئے جب قریب آتے ہیں تو ان کے خیالوں میں تصور ان کے محبوب کا ہی ہوتا ہے۔

وہ ان حسین لمحات سے باہمی لطف اندوز ہونے کی بجائے، پتھرائی آنکھوں سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اور اس پہ مستزاد ان کی روح ہے، جو مسلسل یہ کچوکے کھانے کے بعد اب جگہ جگہ سے اس قدر ادھڑ چکی ہے کہ اب رفو گری ناممکن ہے۔ وہ اس قدر زخمی ہے کہ اب جسم کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہے۔ وہ روز مرتی ہے، روز جیتی ہے۔ گویا ایک قید بامشقت ہے جسے بادل نخواستہ کاٹنا ہے اور رہائی کا وقت موت ہے۔ ایک لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو غلامی کی قبیح ترین شکل سے بھی، یہ زندگی بدتر ہے، جہاں اولاد کو اپنی انا کی بھینٹ چڑھا کر، والدین قلبی مسرت اور ذہنی راحت محسوس کرتے ہیں، وہ سب کچھ دیکھ رہے ہوتے ہیں، مگر پھر بھی ان کو اپنی آنکھوں کے سامنے گھومتے دو لاشے نظر نہیں آتے، جن کو انہوں نے خود اپنے ہاتھوں زندہ درگور کیا تھا۔ یہ دو انسان نہیں، دو زندہ لاشیں ہیں، جو حقیقی طور پر تو مر چکی ہیں، بس ظاہری موت کا آنا باقی ہے، جس کے بعد یہ آزاد روحیں اپنی آزاد فضاؤں میں محو پرواز ہو کر اپنے محبوب کے وصل کو پالیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments