ون یونٹ کے سیاہ دور میں سندھی بولی اور ثقافت کو اپنے قومی ہیروز نے کیسے بچایا؟


قوم کی رہنمائی اس کے قومی ہیروز ہی کرتے ہیں اور تاریخ کے مشکل ادوار میں یہ ہی ہیروز اپنی قوم کی رہنمائی کرتے، ان کو بچاتے، آگے بڑھاتے اور اس کی بقا کی ذمے داری لیتے ہیں۔ یہ ہی وہ ہیروز ہوتے ہیں جو وقت آنے پر اپنی قوم اور دھرتی کے لیے جان بھی قربان کر دیتے ہیں۔ جو قومیں اپنی قومی ہیروز کی قدر نہیں کرتی ان کے ذہنوں پر دوسری اقوام کے ہیروز یا پھر خیالی اور افسانوی ہیرو ہی چھا جاتے ہیں۔

پاکستان بننے کے بعد تعلیمی اداروں میں رائج نصاب سے لے کر پڑھائی جانی والی تاریخ میں تحریک آزادی کے اصل ہیروز کے سوا باقی جو تاریخی ہیروز کو پڑھایا جانے لگا ان میں اکثر اس دھرتی کے تھے ہی نہیں، اوپر سے ان کو اتنا دیومالائی بنا کر پیش کیا گیا کہ ہمارے نوجوان کو خود اپنے قومی ہیروز حقیر لگنے لگی۔ نسیم حجازی ٹائپ لکھاریوں نے اپنے افسانوں، ناولوں اور ڈراموں میں خیالی اور افسانوی ہیروز کے ایسے بت تراش دیے جن کے آگے سجدہ ریز ہونے کو دل کرنے لگا۔

پاکستان میں یہ صورتحال کچھ ڈراموں کی مدد سے اس وقت بھی موجود ہے مگر یہ صورتحال ون یونٹ کے دنوں میں اپنے عروج پر تھی۔ کیونکہ ریاست کے اندر موجود قوموں کی صوبائی اکائیاں ختم کی گئی تو سرکاری حکم ہوا کہ تاریخ بھی نئی بنائی جائے۔ تاریخ جو لکھی جاتی ہے وہ اس دور میں بنائی مطلب لکھوائی گئی۔

اس مشکل ترین دور میں سندھ کے ادیبوں اور دانشوروں نے کمال چابکدستی سے اپنا محاذ سنبھالا اور اپنے قومی ہیروز اور شناخت کے لئے وہ کام کر دکھایا جو پنجاب آج اس وقت بھی نہیں کر پا رہا، حالانکہ 18 ویں ترمیم کے بعد پنجاب مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور کے سوا تاریخ میں سب زیادہ سیاسی، معاشی، اقتصادی اور قومی خودمختاری کے دور سے گزر رہا ہے۔

کیا آپ نہیں جاننا چاہیں گی کہ سندھ کے دانشوروں نے ون یونٹ کے سیاہ دور میں بھی اپنے قومی ہیروز، ادب اور تاریخ کے لیے کس قدر شاندار طریقے اور منصوبہ بندی سے کام کیا۔ اس کا اندازہ آپ صرف درج ذیل دو خطوط سے لگا سکتے ہیں، جو اس دور میں سائیں جی ایم سید نے جناب محمد ابراہیم جویو صاحب کو لکھے تھے۔

بتاریخ 20۔ 05۔ 1967 ع
جناب من محمد ابراہیم جویو صاحب
اسلام علیکم

’بزم صوفیاء سندھ‘ کی ورکنگ کا میٹی 4 کا اجلاس 9 اپریل 1967 ع کو سن میں ہوا۔ جس میں پاس کی گئی کچھ قراردادیں آپ سے متعلق ہیں، اس لئے ان کاموں کی تکمیل کے لئے یہ قراردادیں آپ کو ارسال کی جاتی ہیں کہ آپ وہ تمام کام بروقت اور احسن طریقے سے سرانجام دے سکیں۔

زیادہ خیر والسلام
آپ کا غلام مرتضیٰ سنائی

قرارداد نمبر ایک

’بزم صوفیاء سندھ‘ تنظیم کی جانب سے سندھ کی تمام صوفیاء اکرام کی درگاہوں اور سجادوں کے حقوق کے تحفظ کے ساتھ ساتھ سندھ کے صوفی ازم کے اصل پیغام کو آگے بڑھانے، عوام کی نفسیاتی اصلاح، پیغام محبت، اخلاقی درستگی، سندھی ثقافت کی ترقی اور زبان کی ترقی کے لئے اہم شخصیات پر 12 رکنی کمیٹی بنائی جا رہی ہے۔ ضرورت پڑنے پر اس میں دیگر سجادہ نشین یا ادیبوں کے نام شامل کیے جا سکتے ہیں۔

1۔ سید غلام حیدر شاہ، سجادہ نشین، درگاہ شاہ کریم رح۔ چیئرمین
2۔ پیر سید شاہ ڈنو شاہ، سجادہ نشین، درگاہ شاہ عبداللطیف بھٹائی رح۔ میمبر
3۔ صوفی ارشاد عباس صاحب، سجادہ نشین، درگاہ شاہ عنایت شہید رح۔ میمبر
4۔ سید علی اصغر شاہ، سجادہ نشین، درگاہ علی شیرازی، ٹھٹہ۔ میمبر
5۔ صوفی عبدالحق، سجادہ نشین، درگاہ حضرت سچل سرمست رح درازا۔ میمبر
6۔ سید غلام مرتضیٰ شاہ، سجادہ نشین، درگاہ سید علی حیدر شاہ، سن۔ میمبر
7۔ پیر حسام الدین شاہ راشدی، ادیب۔ میمبر
8۔ محمد ابراہیم جویو، ادیب۔ میمبر
9۔ شیخ مبارک (شیخ ایاز) ادیب۔ میمبر
10۔ علامہ غلام مصطفیٰ قاسمی، ادیب۔ میمبر
11۔ قاضی فیض محمد، ادیب۔ میمبر
12۔ ایڈووکیٹ رسول بخش پلیجو، ادیب۔ میمبر

قرارداد نمبر۔ 2

سندھ کے دانشور اور ادیب حضرات کو گزارش کی جاتی ہے کہ پورے 6 مہینے لگا کر سندھ کے اصلی قومی اور تاریخی ہیروز کی سوانح اور تاریخ لکھ کر بزم صوفیاء کے صدر دفتر میں جمع کرائیں۔ اجلاس میں یک رائے طور پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ کون کون سے دانشور و ادیب کیا کیا کام کریں گے اور 6 مہینے کے اندر اس کام کو مکمل بھی کریں گے۔ اس بات کا خاص خیال رکھا جائے گا کہ سندھ کے اصلی قومی اور تاریخی ہیروز کی سوانح اور تاریخ تفصیل سے لکھی جائے گی، جو کم سے کم ایک سو صفحات پر مبنی ہوگی۔

1۔ آزاد سندھ کا حکمران دودو سومرو ”دودو اعظم“ :

اس موضوع پر لکھے گا پروفیسر محرم خان، اور یہ ذمے داری ہوگی محمد ابراہیم جویو صاحب کی وہ اس مضمون کی نگرانی کرے گا، تاریخی اور ادبی پس منظر میں اس نوک پلک درست کرے گا اور چھپوانے کا بندوبست کرے گا۔

2۔ جرنیل دولہہ دریا خان:

سندھ کے سمہ حکمرانوں کے دور کے بہادر فوجی سپاہ سالار جرنیل دولہہ دریا خان کی شخصیت، کارناموں اور تاریخ پر مفصل مضمون لکھنے کی ذمے داری ہوگی غلام ربانی آگرو صاحب (سابق چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان) پر اور اس مضمون کو مکمل کروانے، ادبی اور تاریخی پس منظر میں درست کرنے اور چھپوانے کی ذمے داری محمد ابراہیم جویو صاحب پر ہوگی۔

3۔ شہید مخدوم بلاول رح:

صوفی شخصیت اور دھرتی کے لئے جان قربان کرنے والے شہید مخدوم بلاول کی شخصیت، کردار اور کارناموں پر تفصیلی مضمون سائیں جی ایم سید لکھیں گے، اور اس کو مکمل کروانے سے لے کر چھپوانے کی ذمے داری بھی محمد ابراہیم جویو صاحب پر ہوگی۔

4۔ صوفی شاہ عنایت شہید:

سندھ میں ہاری تحریک کے اہم نام اور ”جو کھیتی آباد کرے وہ ہی کھائے“ کا نعرہ لگانے والے شاہ عنایت شہید کے بارے میں تفصیل سے مضمون لکھنے کی ذمے داری (نامور شاعر اور سندھ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر) شیخ ایاز صاحب کی ہوگی، اس سلسلے میں جناب جی ایم سید صاحب اور غلام ربانی آگرو صاحب (سابق چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان) اس کی مدد کریں گے، اور مضمون مکمل ہونے کے بعد وہ ہی چھپوائیں گے۔

5۔ شیر سندھ میر شیر محمد خان:

ٹالپور دور کے آخری حکمران اور انگریز کے خلاف میدان جنگ میں باقاعدہ ہتھیاروں سے فوجی جنگ لڑنے والے شیر سندھ میر شیر محمد خان کے بارے میں مضمون لکھنے کی ذمے داری مولانا غلام محمد گرامی صاحب کو دی گئی ہے، وہ خود ہی اس کو درست کر کے چھپوانے کے ذمے دار بھی ہوں گے ۔

6۔ جرنیل ہوش محمد شیدی شہید:

انگریز کے خلاف حیدرآباد کے قریب میانی اور دبی کی جنگ میں جوہر دکھانے والے، سندھ کی فوج کے سپاہ سالار اور ”مرسوں مرسوں، سندھ نہ ڈیسوں“ کا نعرہ لگانے والے جرنیل ہوش محمد شیدی کے بارے میں تفصیلی مضمون مولانا غلام محمد گرامی صاحب لکھیں گے اور عام لوگوں تک پہنچائیں گے۔

7۔ دیوان ہرچند رائے :

سندھ کی اہم سماجی شخصیت دیوان ہرچند رائے کی شخصیت، کردار اور کارناموں کے بارے میں تفصیلی مضمون لکھنے اور اسے عام لوگوں تک پہنچانے کی ذمے داری محمد ابراہیم جویو صاحب کو دی گئی ہے۔

8۔ رئیس غلام محمد خان بھرگڑی:

انگریز دور میں سندھ کی سب سے مضبوط سیاسی آواز اور رہنما غلام محمد خان بھرگڑی کی شخصیت اور کارناموں پر مضمون لکھنے اور اسے مکمل کر کے چھپوانے کی ذمے داری محمد ابراہیم جویو صاحب پر ہوگی۔

9۔ شہید اللہ بخش سومرو:

سندھ کے سابق وزیر اعظم اور بہادر سیاستدان شہید اللہ بخش سومرو کی شخصیت، کارناموں اور بہادری کے بارے میں نوجوان نسل کو روشناس کروانے کے لئے تفصیلی مضمون سائیں جی ایم سید لکھیں گے، جبکہ اس کام کی ذمے داری محمد ابراہیم جویو پوری کریں گے۔

10۔ شہید ہیموں کالانی:

قابض انگریز سرکار کے خلاف گوریلا جنگ شروع کرنے والے اور گرفتاری ہونے کے بعد معافی مانگنے کے بجائے سزائے موت قبول کرنے والے شہید ہیموں کالانی کے بارے میں مضمون لکھنے اور اسے مکمل کر کے عام لوگوں تک پہنچانے کی ذمے داری غلام ربانی آگرو کی ہوگی۔

11۔ مائی بختاور شہید:

سندھ میں ہاری تحریک کا اہم نام اور اپنی دھرتی، زمینوں، اناج اور حق کے لئے جان دینے والے عورت شخصیت مائی بختاور شہید جس نے اپنے سرکار کے جانب سے غیر سندھیوں آبادکاروں کو بدین میں زمینیں الاٹ کرنے کے خلاف تحریک میں حصہ لیا اور اناج کی اکیلے سر نگرانی کرتے جان قربان کردی۔ اس کی قربانی کے بدولت سرکار کو زرعی قوانین میں ترمیم تبدیلیاں کرنی پڑی۔ اس عورت شخصیت کے بارے میں تفصیلی مضمون لکھنے کی ذمے داری غلام محمد خان لغاری کو دی گئی ہے۔ وہ ہی اس مضمون کو مکمل کریں گے، اور ذمے داری سے چھپوائیں گے۔

12۔ جمشید نسروانجی مہتا:

سندھ کے سب سے بڑے شہر کراچی کے معمار اور پہلے میئر اور کراچی کو ترقی دینے میں اہم کردار ادا کرنے والے جمشید نسروانجی مہتا جنہوں نے ایک عام شہر کو بین الاقوامی شہر بنایا، سندھ کے لوگوں کو عالمی معیار کو شہر دیا اور اپنی ذاتی سماجی خدمات سے سندھ کو عروج دیا۔ جمشید نسروانجی مہتا کے بارے میں تفصیلی مضمون شیخ ایاز صاحب لکھیں گے اور اس کو چھپوانے کی ذمے داری بھی ان کی ہوگی۔

قرارداد نمبر۔ 2

بزم صوفیاء کے اجلاس میں دوسری قرارداد یہ پیش کی گئی کہ

سندھ میں جتنے بھی شاعر ہیں ان سے رابطے کیے جائیں، اور جتنی بھی شاعری ہو رہی ہے اس کا تجزیہ کیا جائے، شاعروں کو سندھی زبان میں شاعری کرنے کی ترغیب دینے کے ساتھ ساتھ سندھی قومی شاعری کو مرکز بنایا جائے۔ ایک ایسی کمیٹی بنائی جائے جو سندھی زبان میں ہونے والی قومی شاعری کو اکٹھا کرے، اس کا تجزیہ کرے، اور بہترین شاعری کو اکٹھا کرے ایک مکمل کتاب ترتیب دی جائے۔ قومی شاعری کی ایک کتاب کو صرف چھ ماہ کے اندر مکمل کیا جائے اور بزم صوفیاء کے اجلاس میں پیش کیا جائے۔

قومی شاعری کی ایک ایسی شاندار کتاب ترتیب دی جائے جو ہر طرح سے کمال ہو، اور اس کو چھپوا کر سندھ کے ہر شہر میں پہنچائی جائے۔ یہ نہایت اہم کام کسی ایک فرد کے بجائے اہم ترین شخصیات پر مبنی ایک پانچ رکنی کمیٹی کے سپرد کیا جائے اس کمیٹی میں جناب شیخ ایاز صاحب، جناب تنویر عباسی، میاں یار محمد پہنور صاحب، جناب رشید بھٹی اور جناب محمد ابراہیم جویو صاحب شامل ہوں گے ۔

قرارداد نمبر۔ 3

سندھی زبان میں قومی نغموں اور لوک گیتوں کی تیاری

اجلاس میں یہ قرارداد بھی پیش کی گئی کہ سندھی زبان میں قومی شاعری کے بعد اس بات کی ضرورت ہے کہ سندھی زبان کے قومی نغمے اور لوک گیت تیار کروانے کے لئے شاعری کا چناؤ کیا جائے اور سندھ کے مشہور فنکاروں کی آواز میں قومی گیت رکارڈ کروائے جائیں۔ ان قومی گیتوں کے پھر زیادہ سے زیادہ رکارڈز بنوا کر پورے سندھ میں پہنچانے کا بندوبست کیا جائے۔ ہر اہم اجلاس، جلسوں، تقریبات اور مواقع پر وہ قومی گیت اتنے زیادہ چلائے جائیں کہ لوگوں کو ازبر ہوجائیں، اس سے عوام میں قومی جذبہ بیدار ہو گا اور اس سے سندھی بولی اور قومی ثقافت کو فائدہ ہو گا۔ اس شاندار کام کرنے کے لئے بھی کسی ایک فرد کو ذمے داری دینے کے بجائے ایک چار رکنی کمیٹی بنائی جائے جو یہ کام مل کر احسن طریقے سے سرانجام دے سکتے ہیں۔ اس کمیٹی میں جناب محمد ابراہیم جویو صاحب، سائیں جی ایم سید، مولانا غلام محمد گرامی صاحب اور جناب عبدالستار صاحب کو شامل کیا گیا ہے۔

والسلام
آپ کا اپنا
غلام مرتضیٰ سید

سائیں جی ایم سید نے جناب محمد ابراہیم جویو صاحب کو ایک اور بھی خط لکھا۔ دسمبر 28، 1966 ع کو بھیجے گئے ایک اور خط میں لکھا گیا ہے کہ؛

جناب من محمد ابراہیم جویو صاحب
اسلام علیکم

بزم صوفیاء کو ساتھیوں کی جانب سے ایک تجویز آئی ہے کہ کچھ اہم قومی معاملات اور موضوعات پر اہم قلمکاروں سے مضامیں لکھوانے کی طرز پر اب اہم شعراء سے شاعری بھی کروائی جائے۔ اس سلسلے میں ضروری ہے کہ نامور شعراء سے رابطہ کر کے کافیاں، نظمیں، گیت اور بیت لکھوا کر کتابی شکل میں چھپوائی جائیں اور ہر گاؤں اور شہر میں پہنچائی جائیں ساتھ ساتھ موسیقاروں سے موسیقی ترتیب دلوا کر ہی وہاں کے لوک گلوکاروں کی آوازوں مین نے رکارڈ کروائے جائیں۔

اس بات کا خیال رکھا جائے کہ گیتوں کی مصراعیں پانچ سے زیادہ نہ ہوں یہ گانے اور یاد کرنے میں آسان ہوتی ہیں۔ یہ گیت سر کلیان، سر کو ہیاری، سر جوگ، سر بھیروی، سر رانو، سر بھاگیسری، سر ملار اور سر کھماچ میں رکارڈ کیے جائیں، اس سے مختلف سروں کو پسند کرنے والے لوگوں تک اپنا قومی پیغام ان کے پسندیدہ شاعر اور پسندیدہ گلوکار کے ذریعے پہنچ جائے گا۔ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے گا کہ یہ تمام گیت بزم صوفیاء کی ہر تقریب میں پیش کیے جائیں گے اور ساتھ ساتھ شہروں کے مشہور ہوٹلوں، ریستورانوں، اوطاقوں اور دیگر تقاریب میں بھی گائے اور بجائے جائیں۔ (اس سلسلے میں آلات موسیقی فراہم کرنے کے لئے ایک دوست نے ذمے داری لی ہے۔ )

آپ کو اس سلسلے میں ذمے داری دی جاتی ہے کہ آپ نے درج ذیل موضوعات پر شاعری لکھوانی ہے جو پھر مختلف گلوکاروں کو گانے کے لئے دی جائے گی۔

1۔ سندھی زبان میں سندھ کا ایک قومی ترانہ، جو ہر محفل کی شروعات اور اختتام پر ساز اور آواز کے ساتھ گایا جائے گا۔

2۔ سندھی قومیت کا جذبہ بیدار کرنے کے حوالے سے جوش پیدا کرنے قومی نغمے، کافیاں اور گیت لکھوائے جائیں

3۔ سندھی زبان سے محبت کا اظہار شاعری میں کیا جانا چاہیے، اس سلسلے میں گیت، غزل، نظمیں اور بیت لکھوانا

4۔ سندھ میں مذہبی رواداری پیدا کرنے کے لئے ادب کا استعمال کرنا خاص طور پر شاعری میں اظہار کرنا ضروری ہے۔

5۔ شاعری میں سندھ کی سیاسی، اقتصادی اور سماجی آزادی کا اظہار کرنا

6۔ سندھ کے لوگوں میں برادری اور ذات پات سے آگے بڑھ کر قومیت کا وطنی تصور پیش کر کے سب کو ایک لڑی میں پرونے کے بات شاعری میں پیش کرنا

7۔ شاعری میں اس بات کو اجاگر کرنا کہ قومی مفادات انفرادی فائدوں سے اہم ہیں۔ خود مطلبی اور ذاتی اناؤں کو قومی مفادات پر قربان کر دینا

محترم جویو صاحب

مجھے امید ہے کہ آپ اور دیگر ساتھی اس اہم بات کی طرف دھیان دیں گے اور اس سلسلے میں اپنا اہم کردار ادا کریں گے۔

زیادہ خیر والسلام
آپ کا اپنا غلام مرتضیٰ

ان خطوط کے ساتھ ساتھ اور بھی سینکڑوں خطوط جناب ابراہیم جویو صاحب کی گھریلو لائبریری میں موجود ہیں، جن میں ایک تاریخ دفن ہے، درج بالا خطوط جناب محمد ابراہیم جویو صاحب کے پوتے محسن جویو نے اپنی سوشل میڈیا وال پر شیئر کیے تھے، جن کو اس وقت بھی ہزاروں لوگوں نے پسند کیا اور اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا۔

سچ کہتے ہیں کہ ”تاریخ کا مشکل ترین دور ہی اچھی قوموں کے لئے بہترین دور ہوتا ہے۔“ کیونکہ مشکل وقت مین قومیتوں کے کردار، مزاج اور طاقت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد ملک کی تمام قومی وحدتوں کے لیے مشکل ترین دور ون یونٹ کا دور تھا، جس میں قوموں سے ان کی تاریخی شناخت، حیثیت اور زبان چھیننے کی کوشش کی گئی تھی، اس دور میں دوسری قوموں کے ساتھ سندھیوں نے بھی اپنی تہذیبی و قومی شناخت کی بحالی کے لئے ہر قسم کی کوشش کی۔

اس میں سب سے اہم اور دلچسپ بات یہ رہی کہ یہ کوشش سندھ کے اہم ترین شخصیات نے کی، اور اس تحریک میں سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ طلبہ، دانشور، ادیب، شاعر، موسیقار، فنکار، ڈاکٹر، وکیل، ہاری، آباد کار، زمیندار، سرمایہ دار، وکیل، دکاندار، کاروباری حضرات، علماء، صوفیاء، گدی نشین، مرشدین، مریدین، پنڈت، دیوان، مطلب ہر مرد اور عورت نے سیاسی، مذہبی، مسلکی، برادری اور نسلی مفادات سے ماورا ہو کر سندھ، سندھی اور سندھیت کے لئے کام کیا۔ یہ اتنی طاقتور تحریک تھی کہ اس کے اثرات آدھی صدی گزرنے کے باوجود ابھی تک سندھ میں بآسانی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔

کیا یہ ممکن ہے کہ اب پونی صدی گزرنے کے بعد پنجاب بھی یہ سمجھ رہا ہو کہ اپنی دھرتی، بولی، رہتل اور قومیت کی شناخت کی بحالی کی کوشش کی جائے۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں گزشتہ ایک دہائی کی سیاسی تبدیلیاں اب پنجاب کو قومی طور پر جگانی کے لئے زرخیز سال ثابت ہوئے ہیں۔ خاص طور پر پنجاب کو تقسیم کرنے والی وفاقی کوشش نے اس خیال کو اور پختہ کیا ہے کہ پنجابی عوام کی تاریخی بقا صرف اور صرف پنجاب، پنجابی اور پنجابیت میں ہے، اور پاکستان کی اصل ترقی اور بقا بھی اس میں مضمر ہے۔

پنجاب میں پنجابی قومیت کے نام پر سیاسی اور ثقافتی پارٹیوں اور تنظیموں کا بننا، ساتھ میں پنجاب سرکار کی جانب سے سرکاری طور پر پنجاب ثقافتی دہاڑ منانے کے فیصلے نے اس امر کو اور تقویت دی ہے۔ پنجاب کے شاعر اب اردو کے ساتھ ساتھ پنجابی میں شاعری کرتے شرمندگی محسوس نہیں کرتے، یونیورسٹیز کے طلبہ اور افسر شاہی کے بابو ثقافتی دنوں پر پنجابی پگ پہن کر اپنی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کرتے خوشی محسوس کرتے ہیں۔ پنجاب سرکار کے محکمہ تعلیم نے پہلی بار اسکولوں اور کالجوں میں پنجابی بولی کے اساتذہ کو بھرتی کرنے کے لیے اشتہار دیے گئے ہیں۔ اس پوری صورتحال پر سندھ کے لوگ بہت خوش ہیں۔

پنجاب میں قومی تشخص اجاگر کرنے میں کافی دانشوروں کا اہم کردار رہا ہے مگر اس عمل کو سنجیدگی سے آگے نہیں بڑھایا گیا۔ پنجاب کے نامور دانشور اور سیاستدان فخر زمان جیسے پنجاب پرست نے اپنی کتاب ”پنجاب، پنجابی اور پنجابیت“ لکھا ہے کہ ”ایسا لگتا ہے کہ (پنجاب میں ) ہیرو کا تصور بھی ہمیں سندھ کی قومی جدوجہد سے ملا۔ سندھی ادبی سنگت کی تقلید میں ہم نے چند برسوں کے بعد“ پنجابی ادبی سنگت ”قائم کی۔ وہاں سے راجا ڈاہر کا نعرہ بلند ہوا تو ہمارے لوگوں نے بھے ہیرو کا سوال اٹھایا۔ وہاں“ بزم صوفیا سندھ ”کے کارکنوں نے اپنی مادر وطن کے ساتھ اپنی وحدت الوجود کا اعلان کیا تو پنجاب کی یہ تحریک بھی پنجاب کے ساتھ اپنے وحدت الوجود کا اظہار کیے بغیر نہ رہ سکی۔“

سچ مانا جائے تو یہ ایک اچھی بات ہے سندھ اور پنجاب ہزاروں سالوں سے ایک ہی تہذیب کا حصہ رہے ہیں اور ہزاروں سالوں تک ساتھ رہنا ہے۔ یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ تمام تر سیاسی اور اقتصادی مسائل اور اختلافات کے باوجود سندھ اور پنجاب ایک دوسرے کے ساتھ قریب ترین روابط رکھے ہوئے ہیں اور یہ روابط اور باہمی مفادات پاکستان کی مجموعی ترقی اور سلامتی کی ضمانت ہیں۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پنجاب اپنی دھرتی کے قومی ہیروز کو بچانے کی باقاعدہ سعی کرے۔ اس سلسلے میں پنجاب کے دانشوروں، سیاستدانوں اور خاص طور پر پنجاب سرکار کو اہم کردار ادا کرنا ہو گا۔ یہ ایک ضروری اور سوچ سمجھ کر اٹھایا گیا قدم ہو گا جس میں پنجابی زبان میں پنجابی ہیروز کے بارے میں مضامین لکھے جائیں، گیت، غزلیں، نظمیں، واریں، ٹپے اور ماہیے لکھے اور لکھوائے جائیں، اس پورے کام کو ترتیب دے کر کتابی شکل دی جائے، سوشل میڈیا سے لے کر الیکٹرک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کو استعمال کیا جائے۔

پنجابی زبان میں سنجیدہ قومی نغمے لکھے اور گائے جائیں جس میں پنجاب دھرتی، رہتل اور بالی سے عشق کا کھلا اظہار ہو۔ پنجابی قوم کو دوسری قومیتوں سے پیار اور انسیت کا اظہار کرنا سکھایا جائے، اپنی بچوں کو قومی ہیروز کے کام سے روشناس کروایا جائے، بچوں پر قومی ہیروز کے نام (نک نیم) رکھے جائیں، اور کوئی اچھا کام کرنے پر بچوں کو پیار سے دلا، پورس اور بھگت سنگھ جیسے لقب دیے جائیں، بچے خوش ہو جائیں گے۔

پنجاب کی تمام یونیورسٹیز کا چاہیے کہ وہ پنجابی ادب، زبان، تاریخ اور کلچر کے شعبوں میں ذہین طلبہ سے پنجابی شخصیات پر ریسرچ کر کے تھیسز لکھنے پر تیار کرے۔ پنجابی اہم شخصیات کے نام گنوانے کے بجائے یہ کام پنجاب کے دانشوروں، یونیورسٹیز اور سرکار پر چھوڑا جائے کہ وہ کم سے کم 50 پنجابی شخصیات نے نام سلیکٹ کرے اور اس اہم مقصد پر کام شروع کرے، پنجابی مشاعروں کا انعقاد کرے جس میں قومی شاعری پیش کروا کر اس کا مجموعہ بنایا جائے۔ ساتھ ساتھ مختلف شاعروں کے کتابوں سے ایک ایک دو دو ایسی نظمیں یا غزلیں اکٹھی کی جائیں جس میں پنجاب، پنجابی اور پنجابیت سے انسیت اور پیار کا ذکر ہے۔

پنجاب کو جاگنا ہو گا، بہت دیر ہو چکی ہے، زندہ قوموں کو اس سے زیادہ دیر وارے میں نہیں آتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments