تیری مل تو وہیں کھڑی ہے، میری فصلیں ڈوب گئیں


پانی پانی کے اک شور میں کتنی چیخیں ڈوب گئیں۔
پہلے کچھ آوازیں ابھریں، آخر سانسیں ڈوب گئیں۔
کون سدھائے بپھرا پانی، کون اسارے مٹی کو۔
دریاؤں پر پشتے باندھنے والی بانہیں ڈوب گئیں۔
پانی کا عفریت اچھل کر شہ رگ تک آ پہنچا تھا۔
بچے جس پر بیٹھے تھے اس پیڑ کی شاخیں ڈوب گئیں۔
پتھر کوٹنے والے ہاتھوں میں بچوں کے لاشے تھے۔
شہر کو جانے والی ساری ٹوٹی سڑکیں ڈوب گئیں۔
بربادی پر گریہ کرنے کی مہلت بھی پاس نہ تھی۔
آنسو بہنے سے پہلے ہی سب کی آنکھیں ڈوب گئیں۔
بستی میں کہرام مچا تھا، آدم روزی مانگ رہا تھا۔
”رازق“ ”رازق“ کہتے کہتے سب کی نبضیں ڈوب گئیں۔
نیر جگ کی اونچ نیچ نے پانی کا رخ موڑ دیا۔
تیری مل تو وہیں کھڑی ہے، میری فصلیں ڈوب گئیں۔

شہزاد نیر کی یہ نظم مون سون کی غیرمعمولی بارشوں کی وجہ سے پاکستان میں آنے والے سیلاب کی منظر کشی کر رہی ہے۔ 14 جون 2022 سے بارشوں کا آغاز ہوا اور سیلابی صورتحال پیدا ہوئی۔ اب تک 3 کروڑ 50 لاکھ سے زائد افراد اس سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ 2005 کے زلزلے سے بھی زیادہ بڑی آفت ہے۔ دو ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود اقتدار کی رسہ کشی میں مصروف حکمرانوں اور سیاستدانوں نے اس کی طرف توجہ دینے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔

بلوچستان میں سب سے زیادہ ابتر صورتحال ہے۔ اس وقت وہ تمام ملک سے کٹا ہوا ہے جنوبی پنجاب کی تباہ حالی کے باوجود وفاقی کیا صوبائی حکومت بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ خیبرپختونخوا کے بعض اضلاع میں ابتدائی سیلابی ریلے کم نقصان کا باعث رہے مگر حالیہ ریلے نے تباہی مچا دی ہے۔ کالام، بحرین، مٹہ، خوزہ خیل اور سوات میں قیامت صغریٰ کے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ یہ سطور لکھنے تک 130 کلومیٹر سے زائد سڑکیں، 13 سے زائد رابطہ پل تباہ ہو چکے ہیں، مینگورہ کے دیہات میں بھی پانی داخل ہو گیا ہے۔ دریائے کابل میں بھی انتہائی سیلابی صورتحال ہے۔ سوات، چارسدہ اور نوشہرہ میں بھی سیلابی ریلے داخل ہوچکے ہیں۔ ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کے لئے کہا جا رہا ہے۔ پشاور کے نواحی علاقوں میں پانی داخل ہو گیا ہے۔

دریائے سوات کی بے رحم موجوں نے مختلف شہروں اور دیہاتوں میں قیامت ڈھا دی ہے اور یہ موجیں مکانات،

سکول، مساجد، بڑے بڑے ہوٹلز اور گاڑیوں کو بہا کر لے گئی ہیں۔ مٹہ کے علاقے چاتیکل میں پہاڑی تودہ گرنے سے ایک ہی خاندان کے 6 افراد ملبے تلے دب کر جاں بحق ہو گئے۔ امدادی کارروائی کے لیے جانے والے لوگ بھی راستوں میں سیلابی ریلوں کی نذر ہو گئے ہیں۔ بعض علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ سے کئی لوگ جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ڈیرہ اسماعیل کا 60 فیصد علاقہ زیر آب ہے جس کے باعث نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے اور لوگ محفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی پر مجبور کئی مقامات پر کھلے آسمان تلے حکومتی امداد کے منتظر ہیں۔

بالاکوٹ اور وادی کاغان میں بھی ندی نالوں میں طغیانی سے درجنوں دکانیں اور ہوٹل منہدم ہو گئے۔ وادی کاغان میں 14 افراد پانی میں بہہ گئے جن میں سے 10 افراد کی لاشیں دریائے کنہار سے نکالی جا سکیں جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ دریائے پنجکوڑہ اور دریائے سوات نے ایک ہلے میں دس ارب سے زائد کا انفراسٹرکچر تباہ کر دیا۔ اس دوران سفاکی کے بہت سے نمونے اور حکومتی بے حسی بھی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ کوہستان میں پانچ گھنٹے تک پھنسے رہنے والے 5 افراد کی امداد کے لیے سوشل میڈیا پر دہائیاں دی جاتی رہیں لیکن خیبرپختونخوا کی حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ بالآخر وہ بے رحم موجوں کی نذر ہو گئے۔ عوام جن ناگفتہ بہ حالات کا شکار ہیں اس میں سیاست دان اپنی سیاست چمکانے میں مصروف ہیں، جلسے ہو رہے ہیں، ایک دوسرے پر مقدمات قائم کیے جا رہے ہیں، صبح و شام پوائنٹ سکورنگ ہو رہی ہے۔ عوام مر کھپ جائیں انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ان کا عوام سے تعلق بس ووٹ کی حد تک ہے ووٹ لینے کے بعد اقتدار تک پہنچنے کے لیے داؤ پیچ کھیل کر اقتدار کی سیڑھی چڑھ گئے تو انہیں عوام کے دکھ درد سے کیا لینا دینا۔

ان کے سارے ہتھکنڈے اقتدار میں آنے، اقتدار بچانے اور اس سے دوام بخشنے کے لیے ہیں۔ ان کی مراعات اور عیاشیاں برقرار رہیں انہیں عوامی مسائل سے کوئی دلچسپی پہلے تھی نہ اب نظر آتی ہے۔ ملک میں ہر طرف ہاہا کار مچی ہے تو عمران خان بھی ہیلی کاپٹر سے اترے اور شہباز شریف کو بھی بعض دورے منسوخ کرنے پڑے لیکن ابھی بھی ریلیف کے کاموں میں ”عوامی نمائندوں“ کی حصہ داری نظر نہیں آ رہی۔ ترقیاتی اور رفاہی پروگرام آئی ایم ایف کی خوشنودی کے لئے بند ہیں اسی لیے حکومتی ارکان ن کو بھی سیاست چمکانے کا موقع نہیں مل رہا جو قارونی خزانوں کے مالک ہیں وہ بھی عوام پر ایک دھیلہ لگانے کو تیار نہیں۔

حکومت تو حکومت رہی پاکستان میں این جی اوز امداد کے نام پر کئی دہائیوں سے ”غیر ملکی ایجنڈا“ پھیلانے کے لئے ہمہ وقت سرگرم دکھائی دیتی ہیں۔ خواتین کے حقوق، اظہار رائے کی آزادی کے لیے، چائلڈ لیبر اور غیرت کے نام پر قتل کے خلاف متحرک نظر آتی ہیں، انسانی حقوق کے لیے فنڈ ریزنگ کرتی ہیں اور کہنے کو مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرتی ہیں وہ اس موقع پر کہیں نظر نہیں آ رہیں۔ مشروم کی طرح اگنے والی یہ این جی اوز مصیبت کی اس گھڑی میں کہیں دکھائی دیں تو ضرور آگاہ کیا جائے ویسے تو یہ اپنی چھوٹی سے چھوٹی سرگرمی کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہیں، کیونکہ ان کا سارا کام تصویری ہوتا ہے لیکن لگتا ہے عوام کے لیے یہ تصوراتی ہے۔

این جی اوز کے عالمی نیٹ ورک کے مقابلے میں ہمارے ہاں کئی سماجی، مذہبی، سیاسی تنظیمیں اور جماعتیں خدمت خلق میں متحرک تھیں مگر انہیں عالمی برادری کی طرف سے دہشت گردی کا سرٹیفکیٹ دے کر کالعدم قرار دے دیا گیا۔ گزشتہ دہائی میں آزاد کشمیر اور بالاکوٹ وغیرہ میں آنے والے قیامت خیز زلزلے میں ان تنظیموں نے انتہائی جاں فشانی سے قابل تعریف خدمات انجام دی تھیں۔ 2010 کے سیلاب کے دوران لوگوں کو محفوظ مقامات پر تیزی سے منتقلی میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔

پاکستان کو فیٹف ( فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ) کی گرے لسٹ میں ڈالے جانے بعد انتہائی عجلت میں پاس کیے جانے والے قوانین نے ان تنظیموں کو کالعدم کر دیا۔ اگر سفارت کارانہ مہارت کا مظاہرہ کیا جاتا تو ان تنظیموں کے خدمت خلق کے شعبوں کو بچایا جا سکتا تھا۔ فیٹف کی بنیاد پر آفات میں انسانی خدمت کی اجارہ داری تو حکومت اور ریاست نے حاصل کرلی مگر تربیت یافتہ رضا کاروں اور وسائل کی عدم دستیابی کے ساتھ ساتھ وہ جوش و جذبہ کہاں ہے جو فلاحی تنظیموں کا سرمایہ ہے۔

مغرب کے کہنے پر ان پر پابندی تو لگادی گئی لیکن حکومت کے پاس متبادل آپشن نہیں ہے۔ دو ماہ سے زائد وقت گزرنے کے باوجود حکومت اس آفت پر قابو پانے کے لیے کوئی حکمت عملی وضع نہیں کر سکی۔ امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک میں فلاحی تنظیمیں نہ صرف قائم ہیں بلکہ ان کو چندہ دینے والے سرمایہ داروں کو ٹیکسز میں رعایت بھی دی جاتی ہے ان مثالوں کو پیش کر کے ہوش مندانہ سفارت کاری سے اس نظام کو بچایا جا سکتا تھا مگر ہمارے ہاں غور و فکر اور بروقت درست فیصلے کرنے کا شعور نہیں ہنگامی طور پر کیے جانے والے فیصلوں کا خمیازہ عوام بھگت رہی ہے اور نہ جانے کب تک بھگتتی رہے گی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments