مولا جٹ: سوا گیارہ لاکھ میں بننے والی فلم جس پر مارشل لا حکومت نے تین بار پابندی لگائی

طاہر سرور میر - صحافی، لاہور


مولا جٹ
پاکستانی فلم میکر بلال لاشاری نے دہائیوں بعد ہدایتکار یونس ملک کی پنجابی فلم مولا جٹ کا ’غیر سرکاری‘ سیکوئیل بنایا ہے جس کا نام ’دا لیجنڈ آف مولا جٹ‘ ہے۔

پرانی فلم مولا جٹ جہاں ایک کامیاب فلم تصور کی جاتی ہے وہاں اس پر یہ تنقید بھی کی جاتی رہی ہے کہ اس نے پاکستانی سنیما کو بہت ’لاؤڈ‘ کر دیا تھا، جس کے بعد فلمیں تشدد، انتقام اور بڑھک بازی جیسے ایک ہی فارمولا کے تحت بنائی گئیں۔

اس سوچ کے برعکس بلال لاشاری نے سنہ 2013 میں مولا جٹ کو ایک کلاسک فلم اور گنڈاسے کو پنجاب کا کلچر قرار دے کر مولا جٹ کی کہانی اور کرداروں کو اپنی نئی فلم کا موضوع بنایا۔

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان فلم انڈسٹری ’دا لیجنڈ آف مولا جٹ‘ سے دوبارہ بحالی کا سفر شروع کرے گی۔

’ملک میں مارشل لا اور مولا جٹ اکٹھے چل رہے ہیں‘

فلمساز محمد سرور بھٹی اور مصنف ناصر ادیب کی مولا جٹ نو فروری سنہ 1979کو نمائش کے لیے پیش ہوئی جبکہ بلال لاشاری کی مولا جٹ 13 اکتوبر 2022 کو ریلیز ہو رہی ہے۔

نئی اور پرانی ’مولا جٹ‘ کے کردار اور کہانی تو مشترک ہیں لیکن دونوں فلموں کو اپنی نمائش کے موقع پر جس قسم کے سیاسی حالات کا سامنا رہا وہ بھی لگ بھگ گذشتہ نصف صدی سے بدلے نہیں۔

ماضی کے معروف کمپیئر اور فنکار دلدار پرویز بھٹی نے اپنے پنجابی شو ’ٹاکرا‘ میں کہا تھا کہ ’ملک میں مارشل لا اور مولا جٹ اکٹھے چل رہے ہیں۔‘

اس کے بعد دلدار بھٹی کے سرکاری ٹی وی پر آنے اور مولا جٹ کی نمائش دونوں پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔

فلمساز سرور بھٹی: ’مولا جٹ بھٹو اور نوری نت ضیا الحق تھے‘

مولا جٹ ریلیز ہوئی تو اس کے چند ہفتوں بعد جنرل ضیا الحق کی مارشل لا حکومت میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی تھی۔

ملک کی فضا سوگوار اور حالات متشدد ہو گئے تھے۔ ایسے میں ملک میں آزادی اظہار پر پابندی تھی۔

ایک طرف تو ملک میں گھٹن تھی تو دوسری طرف فلم کے پردے پر نوری نت اور سلطان راہی ایک دوسرے کو للکارتے ہوئے گنڈاسے اور کلہاڑی سے ایک دوسرے کو لہولہان کرتے دکھائے گئے۔

فلم کی سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ دونوں لڑتے ہوئے جو ڈائیلاگ بولتے وہ گنڈاسے اور کلہاڑی سے زیادہ تیز دھار تھے۔

اس لڑائی میں ظالم کو شکست اور منصف مولا جٹ کی جیت ہوتی ہے لیکن ولن نوری نت کے کردار کو بے پناہ طاقتور اور گلیمرائز کیا جاتا ہے جو اس سے قبل فلموں میں نہیں ہوتا تھا۔

فلمساز محمد سرور بھٹی نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مولا جٹ ایک غاصب، بے بس عوام اور ان کے محبوب لیڈر کے قتل کی کہانی ہے جس میں مولا جٹ بھٹو اور نوری نت ضیا الحق تھے۔‘

مولا جٹ کے ڈائیلاگ پاکستان کے صدر اور اہم سیاستدانوں نے بھی بولے

مولا جٹ کے ڈائیلاگ کی غیر معمولی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ آصف زرداری نے صحافی سہیل وڑائچ کے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نئیں مر سکدا۔‘

یہی ڈائیلاگ پارلیمان میں بیرسٹر چوہدری اعتزاز احسن بھی اپنی تقریروں میں بولتے رہے ہیں۔

مولاجٹ پر تین مرتبہ پابندی کیوں عائد کی گئی؟

ابتدا میں مولا جٹ کے لیے ’ڈبہ‘ کی آواز لگائی گئی لیکن بعد ازاں اسے ’پنجابی شاہکار‘ قرار دیا گیا۔ مارشل لا کے ضابطہ ایم ایل او 81 کے تحت تین مرتبہ اس فلم کی نمائش پر پابندی عائد کر دی گئی۔

فلمساز محمد سرور بھٹی کو فلم کی نمائش پر پابندی اٹھانے کے لیے دو مرتبہ ہائی کورٹ سے رجوع کرنا پڑا جبکہ ایک مرتبہ ذاتی طور پر ضیا الحق سے ملاقات کر کے انھیں یقین دلانا پڑا کہ مولاجٹ دیکھنے والوں کو کسی قسم کی کوئی ’سیاسی گرنتھ‘ نہیں پڑھائی جا رہی جس سے ضیا الحق کے طویل العمر مارشل لا کو خطرہ ہو۔

مولاجٹ سے جڑی چند دلچسپ باتیں

فلم کے کلائیمکس میں ہیرو سلطان راہی جب ولن مصطفیٰ قریشی کو میدان میں گرا نے کے بعد گنڈاسے سے اس کی ٹانگ کاٹنے لگتا ہے تو سامنے ہاتھ جوڑے نوری نت کی بہن (چکوری) آ جاتی ہے۔

بہن ہاتھ جوڑ کر مولا جٹ سے نوری کو معاف کرنے کی استدعا کرتی ہے، اس پر نوری نت کلہاڑی سے اپنی ٹانگ خود کاٹتے ہوئے کہتا ہے کہ ’بخشش وچ تے مینوں جنت وی ملے تے میں نہ لواں ایہہ تے فیر لت اے۔‘ یعنی بخشش میں تو مجھے جنت بھی ملے تو میں نہ لوں ،یہ تو پھر ٹانگ ہے۔

دراصل مولا جٹ میں ولن کے کردار کو ہیرو بنا دیا گیا تھا۔

سدھیر کی ’بڑھک‘ اور سلطان راہی کا ’اوئے‘ نگار خانوں میں مقبول رہا

ایک موقعہ پر جیلر جب نوری کو جیل میں دنگا فساد سے روکنے کے لیے اپنے دفتر بلاتا ہے تو مصطفیٰ قریشی اسے کہتے ہیں کہ ’نواں آیا ایں سوھنیا۔۔۔‘ یہ ڈائیلاگ پاکستانیوں کو ہمیشہ یاد رہا ہے۔

پنجابی فلموں میں لالہ سدھیر کی جگہ سلطان راہی نے لی تھی۔ لالہ سدھیر کی ’بڑھک‘ اور سلطان راہی کا کسی ڈائیلاگ سے پہلے ’اوئے‘ کا اضافہ کر کے جملے کو ادا کرنے کا سٹائل نگار خانوں میں بے مثل مانا گیا۔

سلطان راہی اونچی اور گرج دار آواز میں ڈائیلاگ بولتے جبکہ مصطفیٰ قریشی انتہائی دھیمے لہجے میں اپنا جملہ ادا کرتے جس سے ایسی بصری جگل بندی سننے اور دیکھنے کو ملتی رہی، جسے مولا جٹ میں سب سے زیادہ سراہا گیا۔

ناصر ادیب نے مولا جٹ کے لیے ساڑھے سات ہزار روپے وصول کیے

دونوں فلموں کے حوالے سے دیگر دلچسپ حقائق یہ ہیں کہ پرانی مولا جٹ کے لیے سلطان راہی نے 70 ہزار، آسیہ نے 60 ہزار اور مصطفیٰ قریشی نے بھی 70 ہزار ڈیمانڈ کیے تھے جبکہ فلم رائٹر ناصر ادیب کو ساڑھے سات ہزار روپے ادا کیے گئے تھے۔

ناصر ادیب کو نئی مولا جٹ لکھنے پر 25 لاکھ روپے ادا کیے گئے جو پرانی مولا جٹ کے دگنا بجٹ سے بھی زیادہ ہیں۔

ناصر ادیب نے بتایا کہ مولا جٹ لکھنے پر انھیں صرف دو ہزار روپے ادا کیے گئے باقی پانچ ہزار روپے اس ورکشاپ کے مالک کو ادا کیے گئے جہاں سے سرور بھٹی نے میری گاڑی کی مرمت کروائی تھی۔

نئی مولا جٹ میں کام کرنے والے فنکاروں کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے کہ فواد خان نے 50 لاکھ، ماہرہ خان نے 40 لاکھ اور حمزہ عباسی نے بھی اتنے ہی پیسے وصول کیے۔

یہ فلم سنہ 2019 عید الفطر پر ریلیز کے لیے تیار تھی لیکن کاپی رائٹ ایکٹ کے تحت پرانی فلم کے پروڈیوسر محمد سرور بھٹی نے عدالت سے حکم امتناعی حاصل کر لیا اور فلم کی نمائش روک دی گئی۔

پروڈیوسر نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ مولا جٹ کا نام اور کردار ان کے تخلیق کردہ ہیں لہذا کوئی دوسرا انھیں استعمال نہیں کر سکتا۔

یہ بھی پڑھیے

کل کے نوری نت آج کی مولا جٹ کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

مولا جٹ اور نوری نت کو سکرین پر آنے میں نو برس کیوں لگے؟

سلطان راہی جنھوں نے ’گنڈاسا کلچر‘ سے 25 سال پنجابی فلموں پر راج کیا

کیا ناظرین سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کو بھُلا پائیں گے؟

برصغیر میں انڈین فلم ’شعلے‘ اور ’مولا جٹ‘ ایسی فلمیں ہیں جن کے ڈائیلاگ لگ بھگ آدھی صدی گزرنے کے بعد بھی کئی نسلوں کی زبان پر ہیں۔

جاوید اختر اور سلیم خان فلم شعلے کے گبر سنگھ کے کردار سے متعلق بتاتے ہیں کہ وہ ’امریکی میکسیکن بینڈٹ‘ سے مستعار لیا گیا تھا۔

غور کیا جائے تو نوری نت پر گبر سنگھ کا کچھ رنگ تو تھا لیکن ناصر ادیب کے طاقتور پنجابی ڈائیلاگ اور مصطفیٰ قریشی کی اداکاری نے نوری نت کے کردار کو گبر سنگھ سے الگ کر دیا تھا۔

فلمی ناقدین کا کہنا ہے کہ شعلے کے گبر سنگھ اور نوری نت کا لہجہ اور ڈائیلاگ کے زیر وبم اور نشست و برخاست ایک ہی تھے۔

گبر سنگھ جب کہتا ہے کہ ’کتنے آدمی تھے‘ تو دوسری طرف نوری کا جیلر سے یوں مخاطب ہونا ’نواں آیا ایں سوہنیا‘ دونوں کرداروں کے لہجے کا سُر اور ٹھاٹھ ہو بہو ایک جیسا ہے۔

واضح رہے کہ شعلے، مولا جٹ سے پہلے بنائی گئی تاہم یہ حقیقت بھی ریکارڈ سے ثابت ہو چکی ہے کہ انڈین فلم انڈسٹری کے فلم میکرز نے پاکستانی مولا جٹ کی نقالی کرتے ہوئے کم از کم پانچ فلمیں بنائیں جن میں سلطان راہی کا کردار دھرمیندر اور انیل کپور جبکہ مصطفیٰ قریشی کا کردار امریش پوری اور دیگر اداکاروں نے ادا کیے لیکن سچ یہ ہے کہ وہ مولا جٹ جیسی مقبول فلم بنانے میں ناکام رہے۔

80 کی دہائی کے آغاز میں انڈین سکھ یاتری جب واہگہ کے راستے لاہور داخل ہوتے تھے تو وہ ننکانہ صاحب ماتھا ٹیکنے کے بعد سینکڑوں کی تعداد میں شبستان سنیما میں مولا جٹ دیکھنے جاتے تھے۔

امجد خان نوری نت اور مصطفیٰ قریشی گبر سنگھ کے پرستار

مصطفیٰ قریشی نے ایک انٹرویو میں یہ بیان کیا تھا کہ انڈین اداکار امجد خان اور ان کی حج کے موقع پر ملاقات ہوئی تو امجد خان ان کے کردار نوری نت کی تعریف کرتے رہے اور میں ان کے گبر سنگھ کی پرفارمنس کی تعریف کرتا رہا۔

مصطفیٰ قریشی نے بتایا کہ پنجابی چونکہ میری زُبان نہیں تھی اس پر سلطان راہی اپنے مکالمے گرج دار اور چیختے چنگاڑتے ہوئے بولا کرتے تھے۔ ان کے سامنے میں نے دھیمے لہجے میں ڈائیلاگ بولنے میں اپنی عافیت جانی۔

’میری خوش قسمتی یہ رہی کہ میری مجبوری ہی میرا سٹائل بن گئی اور نوری نت کے کردار کے ساتھ میں کئی دہائیوں تک اسی کردار سے جانا جا رہا ہوں۔‘

سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کو مولا اور نوری کے کرداروں میں بے حد پذیرائی نصیب ہوئی اور اب فواد خان اور حمزہ عباسی کو اس چیلنج کا سامنا ہے کہ وہ ’شہرہ آفاق پنجابی پروڈکشنز‘ کا مقابلہ کر پائیں گے یا نہیں۔

یاد رہے کہ مولا جٹ کے فلمساز محمد سرور بھٹی اخبار کے اشتہار میں اپنے نام کے ساتھ ’شہرہ آفاق فلمساز‘ لکھوایا کرتے تھے۔

اصلی لیجنڈ کون۔۔۔؟ فیصلہ اکتوبر میں فلم کرے گی

فلم بینوں کو ’دا لیجنڈ آف مولا جٹ‘ کا شدت سے انتظار ہے۔ اس میں نوری نت کا کردار حمزہ عباسی نے ادا کیا ہے۔

اس کے بارے میں ’اصلی‘ نوری نت مصطفیٰ قریشی سے جب سوال کیا گیا کہ وہ حمزہ عباسی کے اس کردار سے کیا توقعات رکھتے ہیں تو اس پر انھوں نے کہا کہ میری دعائیں ’دا لیجنڈ آف مولا جٹ‘ کے ساتھ ہیں لیکن ’سچ یہ ہے کہ اصلی لیجنڈ سلطان راہی اور میں ہوں۔‘

نئی مولا جٹ 100کروڑ کمانے پر کامیاب فلم تصور کی جائے گی

اداکار مصطفیٰ قریشی نے کہا ہے کہ ہماری فلم تو غریبوں کی مولا جٹ تھی جسے امیروں نے بھی سراہا تھا لیکن ’دا لیجنڈ آف مولا جٹ‘ تو امیروں کی فلم ہے، جسے بہت سارے وسائل کے ساتھ بنایا گیا لیکن اس کا فیصلہ عوام کریں گے کہ کونسی فلم زیادہ بہتر ہے۔

پرانی فلم کا بجٹ 11 لاکھ پندرہ ہزار روپے تھا جبکہ نئی فلم کا بجٹ 40 کروڑ روپے بیان کیا گیا ہے۔

نئی فلم چونکہ تاخیر کا شکار ہے اور اس عرصہ میں پاکستان میں مہنگائی کئی گنا بڑھی ہے اس لیے ایک اندازے کے مطابق اس کا موجودہ بجٹ 80 کروڑ سے زیادہ بن جاتا ہے۔

فلمی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر نئی مولا جٹ 100کروڑ سے زیادہ بزنس کرتی ہے تو پھر اسے ایک کامیاب فلم قرار دیا جا سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments