عبدالمجید کھوکھر یادگار لائیبریری: رسائل و جرائد کا فقید المثال گنجینہ


کائنات کی وسعت کا اندازہ لگانا انسانی عقل کے بس کی بات نہیں تو بالکل اسی طرح انسان اور اس کے ممکنات کا پوری طرح ادراک ناممکن عمل ہے۔ انسان کی داخلی دنیا وہ راز ہے جس سے کوئی دوسرا بندہ پردہ نہیں اٹھا پایا۔ ہر انسان دوسرے سے اپنی طبع، شوق، مزاج، پسند نا پسند کی بنیاد پر مختلف ہے اس لیے مکمل تعریف نہیں ہو پاتی۔ عموماً ہر انسان دوسرے کو اپنی ضروریات اور مطلب کی تکمیل کی بنیاد پر اچھا اور برا گردانتا ہے۔

اس لیے کسی کے بارے کوئی رائے قائم کرنا صرف اسی شخص کی ذاتی پسند نا پسند کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ہم سب جس دنیا میں رہتے ہیں یہ مختلف زمانوں سے گزر کر یہاں تک آئی ہے۔ ہر زمانے میں کوئی نہ کوئی غالب بیانیہ یا نظریہ رہا مگر جب سے سرمایہ دارانہ نظام اس دنیا میں مضبوط ہوتا چلا گیا تب سے پچھلے تمام نظام کو نظریات کی کتاب میں قید کر کے اپنے نظریے یا بیانیے کی آزادی اور فتح کے بگل بجائے جاتے ہیں۔ باقی نظریات کے گرد ایک ایسی چار دیواری کھینچ دی گئی ہے جس میں اپنے

علاوہ سب نظریات کو اس کال کوٹھری میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اس قید خانے کا نظام بہت عجیب ہے۔ جس میں مختلف پچھلے نظریات کو جبری قید کیا گیا ہے۔ اس قید کی مدد سے یہ سرمایہ دارانہ بیانیہ اپنے زیر تسلط ملکوں میں ان کی عوام کے منشاء کے خلاف comprador class کی مدد سے اسے زبردستی مسلط کروا دیتے ہیں۔ ریاستی سطح پر میڈیا کی مدد سے اس کی باقاعدہ آبیاری کی جاتی ہے۔

جب کہ ہر نظریہ ایک مخصوص وقت، حالات، ذہنی سوچ، پہلے سے رائج نظریات کی استحصالی کے خوف، ذاتی فائدہ کی پید اور ہوتا ہے۔ اس لیے یہ نظریات حالات کے تغیر اور وقت گزرنے کے ساتھ نئے نظریات آنے سے اپنی نشو و نما و ترقی کھو بیٹھتے ہیں۔ مثلاً ہم تاریخی طور پر نظریاتی اصلاحات دیکھیں تو مذکورہ بات سچی ثابت ہوتی نظر آتی ہے مثلاً لبرل ازم، سیکولر ازم، نیشنلزم، مارکسزم، سوشلزم، کمیونزم، فاشزم اور پوسٹ ماڈرنزم۔ ہمارے میڈیا پر سرمایہ داری طاقتوں کی یلغار رہتی ہے ہمیں علم ہی نہیں ہو پاتا کہ اس کے علاوہ بھی کوئی دنیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے نظریات ہمارے راستوں اور منزلوں کا تعین کرتے ہیں مثلاً ہماری بیماری کا علاج، خوراک، خوراک

پیدا کرنے کے طریقے، پڑھنے پڑھانے کے انداز وغیرہ۔ ہم اسی کو علم ماننے پر مجبور ہیں جس کی حدیں سرمایہ دارانہ نظام نے کھینچ دی ہیں۔ ان متعین حدوں کے دائرے میں جو اپنے آپ کو اسیر مان لے وہ رائج سرمایہ دارانہ ضابطوں کی مدد سے شہرت اور ترقی کی منازل طے کر جاتا ہے۔ دوسری طرف جو اس مذکورہ نظام کا باغی بن جائے اسے اس کے معیاری کام اور فن کے باوجود شہرت اور ترقی سے دور رکھا جاتا ہے۔

18 جولائی 2022 ء کو میرے پی ایچ ڈی کے نگران ڈاکٹر عرفان وحید عثمانی نے 20 جولائی کو مجھے لاہور اس لیے بلایا کہ میگزین کی کولیکشن دیکھنے گوجرانوالہ جانا ہے۔ میں وفور شوق سے ایک رات پہلے ان کے پاس پہنچ گیا تاکہ اپنے پی ایچ ڈی کے کام کے بارے ان سے مزید رہنمائی بھی حاصل کر لوں۔ بیس تاریخ کی صبح میں ابھی اٹھا ہی تھا کہ سر مجھ سے مخاطب ہوئے کہ منیلا کا فون آیا۔ اس نے کہا: ”آج کا پروگرام کینسل کر دیں کیونکہ کہ موسم کی پیشین گوئی ٹھیک نہیں۔ بارش اور طوفان کا امکان ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم راستے میں پھنس جائیں“ ۔ سر نے جواب میں کہا: ”یہ سویٹزرلینڈ کا موسم نہیں۔ یہاں تو بل کہ بارش میں سفر کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے اور بارش اور طوفان میں پھنسنے والی بات تو ذہن سے نکال دیں ”۔ منیلا سویٹزرلینڈ میں رہتی ہیں اور امریکن یونیورسٹی سے برصغیر کی عورتوں کے بناؤ سنگھار اور زیورات کے موضوع پر ، پی ایچ ڈی کر رہی ہیں اور فیلڈ ورک کے سلسلے میں کچھ دنوں سے پاکستان میں مقیم ہیں۔ منیلا نے یہاں کے موسم کو بھی سویٹزرلینڈ کے موسموں کی طرح سمجھ لیا تھا۔ اسی لیے وہ تھوڑا متررد تھیں بہرحال ہم چاروں یعنی ڈاکٹر عرفان وحید عثمانی، منیلا، راقم اور ڈرائیور سر کے گھر سے گوجرانوالہ کے لیے روانہ ہو گئے۔

منیلا نے پاکستان آنے سے پہلے پورا ایک سال بھارت میں گزارا جہاں انہوں نے اپنے فیلڈ ورک کے ساتھ اردو زبان سیکھنے میں بھی پورا اہتمام صرف کیا۔ اسے کچھ میگزین وہاں سے نہ مل سکے تو وہ پاکستان چلی آئیں۔ کیونکہ اس کے امریکہ میں مقیم پاکستانی نگران ڈاکٹر منان احمد آصف نے بتایا کہ اس کی یہ طلب پاکستان جاکر پوری ہو گی اور ساتھ انہوں عثمانی صاحب کو فون کر دیا تھا کہ ان کی شاگرد اپنی تحقیقی ضروریات سے پاکستان آ رہی ہیں۔ ان کا گوجرانوالہ میں ضیاء الرحمن کھوکھر سے ملاقات کا بندوبست کر

دیں۔
ڈاکٹر منان احمد کولمبیا یونیورسٹی میں تاریخ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ آپ جنوبی ایشیا اور 1000۔ 1800 عیسوی کے درمیان مغربی بحر ہند کی دنیا کے مورخ ہیں۔ اب تک آپ کی تین کتب شائع ہو چکی ہیں۔
1.Where the Wild Frontiers Are: Pakistan and the American Imagination in 2011,
2۔ A Book of Conquest: The Chachnama and Muslim Origins in South Asia in 2016 اور
3۔ The Loss of Hindustan in 2020۔
ڈاکٹر منان decolonisation کی اسکالرشپ کا ایک معتبر حوالہ ہیں۔

راستے میں عثمانی صاحب کو جی سی یو لاہور میں ضروری کام سے رکنا پڑا۔ پھر یہ سفر بنے رکے اپنی منزل کی طرف جاری رہا۔ منیلا کو ڈاکٹر منان نے بطور خاص بتایا تھا کہ مطلوبہ رسائل و جرائد اسے گوجرانوالہ میں ”عبدالمجید کھوکھر یادگار لائیبریری“ سے ہی ملیں گے۔ وہ بڑے اشتیاق سے ہمارے ساتھ سفر کر رہی تھیں اور کوشش کر کے ہمارے ساتھ اردو زبان

میں بات کرتی تھیں۔ ہم ڈیڑھ گھنٹے بعد گوجرانوالہ شہر میں ٹھیک اس جگہ پہنچ گئے، جو ہمیں بتائی گی تھی۔ یہ جگہ لاری اڈے کے عقب میں ایک پر سکون مقام ہے۔ کھوکھر صاحب نے ہمارے باتونی ڈرائیور کو اس جگہ کا پتا فون پر اچھی طرح سمجھا دیا تھا۔ اس لیے ہمیں یہاں تک پہنچنے میں کہیں دشواری پیش نہیں آئی۔ جب ہم پہنچے تو کھوکھر صاحب اپنے گھر کے باہر گلی میں بڑی بے چینی سے ہمارا انتظار کر رہے تھے۔

سبھی آنے والوں میں سے کسی کے وہم و گماں میں بھی نہ تھا کہ پہلوانوں، کاروبار اور کھانوں کی وجہ سے شہرت رکھنے والے شہر میں ہم کیسی ہستی کے

پاس آ گئے ہیں؟ وہ علم و فضل کے ایسے خزانے کے وارث ہیں جس کی برصغیر اور منیلا کے بقول ”میں نے پوری دنیا میں اتنی بڑی پرائیویٹ رسائل کی کلیکشن کا نہیں سنا“ ۔ تمام رسائل کی سال بہ سال فائل بنا کر ان کو آرٹ پیپر قسم کی پیکنگ میں محفوظ کیا گیا ہے۔ ہر فائل کو گرد اور دیمک وغیرہ سے محفوظ کرنے کے لیے ان پہ مزید پلاسٹک کور چڑھایا گیا ہے۔ پھر ان فائلوں کو اور ان کے ساتھ کتب کو بھی موضوعات اور ان کے محلے اجراء کی مناسبت سے زمین سے چھت تک بنے ہوئے لوہے کے racks میں اس طرح ترتیب سے لگا دیا گیا ہے اور ہر ریک کے اوپر ان کا سنین کی مناسبت سے ایسی خوب صورتی، ترتیب اور نفاست کے

ساتھ آراستہ و پراستہ کر دیا گیا ہے کہ دیکھنے والا ورطہ حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ وہ کام جو ایک ادارہ اور کہیں افراد کی شبانہ روز محنت کے بغیر ممکن نہیں تھا اسے ایک فرد نے تن تنہا سر انجام دے دیا ہے۔

اس کے لیے وہ کسی سے کسی صلہ و اجرت کا خواست کار نہیں بل کہ الٹا وہ آنے والوں کی خدمت و میزبانی کو اپنا سرف سمجھتا ہے۔ ایک آدمی جس کا سینٹری کا کاروبار ہے۔ اس نے محض اپنے کاروبار کو فروغ دینے کی بجائے اپنی زندگی کو ایسی علمی و تحقیقی خدمت کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ میرے دریافت کرنے پر ضیاء الرحمن کھوکھر صاحب نے بتایا: ”میں 1945 ء میں یہیں اسی شہر پیدا ہوا۔ رسائل و کتب کی جستجو اور اپنے وسائل سے انہیں جمع کرنے کا ذوق و شوق مجھے اپنے والد سے ورثے میں ملا۔ ہمارے گھر“ لیل و نہار ”اور“ امروز ”آ تے تھے۔ جن کو پڑھنے سے میرے اندر یہ شوق پیدا ہوا۔ میں نے یہ کلیکشن زیادہ جمع پاکستان میں سے لاہور، پشاور، سرگودھا، ملتان، فیصل آباد اور تین بار انڈیا کے سفر کے دوران میں دہلی، بنارس، اعظم گڑھ سے فراہم کر کے جمع کی ہے ”۔ میرے مزید استفسار پر کھوکھر صاحب نے بتایا:
”لیل و نہار کا ساتواں صفحہ بہت معیاری تھا“

سب رنگ رسالے کی تعریف کی۔ حیران کن بات یہ رہی کہ منیلا کو جو رسائل کلونیل دور کے بھارت سے نہ مل سکے وہ سب یہاں سے با آسانی مل گئے۔ رسائل کے اس سمندر میں سے ایک رسالے کا یہاں حوالہ دینا جو قارئین کی مزید دل چسپی کو بڑھائے گا اور اس بات کی بھی گواہی بنے گا کہ گوجرانوالہ جیسے شہر میں ایک لائیبریری اور اس کا مالک اپنے دامن میں کیسے کیسے نادر و نایاب موتی سموئے بیٹھا ہے۔

”سہیلی“ رسالہ جسے نوبابہ خاتون قریشی جو مولوی عبدالحق کی بیٹی تھیں بطور مدیر جاری کرتی تھی۔ اس رسالے کا اجراء کرنے والی ساری ٹیم عورتوں پر مشتمل تھی۔ جس میں عورتوں کی سماجی زندگی پر مضامین شامل کیے جاتے تھے۔ آرٹ کے ذریعے ان کو سلائی کڑھائی سکھانے کے لیے باقاعدہ سٹیپ تصویر بنا کر بتائے جاتے جس کی پیروی کرتے ہوئے کوئی بھی آسانی سے اس فن کو سیکھ سکتا تھا۔ نیچے دی گئی تصاویر دیکھ کر آپ آسانی سے اس رسالے کی قدروقیمت اور معیار کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اس مجلے کی فہرست میں مضامین کے عنوان میں تنوع اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ اس زمانے کے لوگ اپنے کام میں کتنے جنونی، محنتی اور مخلص تھے۔ سہیلی اور اس جیسے ہزاروں رسائل کھوکھر صاحب کے سمندر کی موجیں ہیں۔

جب میں نے کھوکھر صاحب سے پوچھا:کیا آپ کے پاس پاکستانی محقق بھی آتے ہیں؟ تو ان کا جواب تھا ”نہ ہونے کے برابر زیادہ تر بیرون ممالک سے آتے ہیں“ ۔ اس پر میں سوچ میں پڑ گیا کہ یہ ہی وجہ ہے کہ ہم تحقیق کے میدان میں اتنا پیچھے کیوں رہ گئے ہیں؟ منیلا سویٹزرلینڈ سے یہاں اپنے کام کو معیاری بنانے کے لیے آئی ہوئی تھی۔ وہ صرف چند گھنٹوں کے لیے کھوکھر صاحب کے پاس آئی مگر جب اسے معلوم ہوا کہ اس کی سارے سال کی مشقت کا حاصل تو کھوکھر کے پاس ہے تو اس نے اپنا اگلے روز کا واپس بھارت جانے کا ارادہ ملتوی کر کے مزید کچھ دن یہیں گزارنے کا فیصلہ کر لیا، تاکہ اپنے تحقیقی کام کو تسلی سے پایہ تکمیل تک پہنچا سکے۔ ہمارے دانشوروں کا تو یہ حال ہے کہ ایک دفعہ ایک محقق تحقیق کے لیے کراچی سے ان کے پاس آیا سارا دن رسائل دیکھتا رہا مگر جاتے ہوئے وہ ان کی ایک قیمتی کتاب چرا کر ساتھ لے گیا۔ یوں اس کے بعد وہ پاکستانی اہل تحقیق سے تھوڑا بددل ہو گے۔ ورنہ پہلے انہوں فوٹو کاپی والی مشین، پرنٹر سکینر اپنے پاس رکھے ہوئے تھے اور آنے والوں کی خدمت کے ساتھ مطلوبہ مواد بھی مفت ان کو دے دیتے تھے۔

یہ لائیبریری عالمی سطح کے سینکڑوں تحقیقی مقالوں کے لیے سرچشمۂ علم و دانش ہے۔ بیرون ملک سے تو ارباب فکر و نظر یہاں آ کر اپنی علمی و تحقیقی پیاس کو تو بجھا رہے ہیں مگر جن کے ملک میں یہ سمندر موجزن ہے۔ وہ بد قسمتی سے اس سے یوں بیگانہ اور بے خبر ہیں۔ یہ ہی وجہ

ہے کہ ہمارے تحقیقی کام صرف ملکی لائبریریوں کے ریک کی زینت بن رہے ہیں لیکن عالمی سطح پر اپنی علمی قدروقیمت کہیں منوا نہیں پا رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہی ہے کہ ہم تحقیق کو بھی ڈگری اور اس سے جڑے مالی فائدے کے تناظر میں لیتے ہیں۔ جس سے تحقیق کے لیے جو لگن، محنت، شوق، جنون درکار ہوتا ہے وہ کہیں نظر نہیں آتا۔ محقق ڈگری کی تکمیل کے لیے شارٹ کٹ اختیار کرتا ہے۔ جس سے اس کی اپنی بطور محقق کی تربیت نامکمل رہ جاتی ہے اور یوں کل کو جب وہ نگران بنتا ہے تو اس کے پاس ان صلاحیتوں کی کمی ہوتی ہے جو ایک گراں قدر تحقیق کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ دوسری طرف ہماری

ریاست اور ہمارے ذرائع نشرو اشاعت اور جدید میڈیا بھی، سب ملت کی ذہن سازی و رہنمائی سرمایہ دارانہ ذہنیت کے رجحانات کی روش پر کر رہے ہیں۔ نتیجتاً اس عمل نے پوری قوم کو اس کی مضبوط کرنے والی بنیادوں سے ہٹا کر سارا دن سیاسی لڑائیوں، ٹک ٹاک، دوسروں پر لعن طعن، بے راہ روی کے راستے پر لگا دیا ہے۔ جس سے ہم من حیث القوم عدم برداشت، کاہلی، انتہا پسندی، جدیدیت پرستی، شدت زدہ بن گئے ہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ہمارے ہیروز بھی متصنع دانش ور

(pseudo intellectuals)

بن کر منظر عام پہ صرف اپنے ملک میں ہی اپنا علمی کاروبار چمکا رہے ہیں اور اپنی شہرت کی قیمت عوام سے وصول کر رہے ہیں اور اگر کسی پاکستانی اسکالر کا معیاری کام سامنے آتا بھی ہے تو ان کی اکثریت کسی باہر کی یونیورسٹی سے پڑھی ہو گی۔ جن کا میڈیم انگریزی ہوتا ہے جس کی وجہ سے غیر انگریزی یافتہ طبقہ ان کے کام سے محروم رہتا ہے۔ وہ جو اصل حقیقی ہیروز ہیں انہیں کہنی مار کر پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے، اور یوں ان کی سوچ جو سچ میں اس قوم کی آبیاری کر سکتی تھی دب کر رہ گئی۔ بناوٹی ہیروز

سے عوام کا وہ قلبی تعلق پیدا نہیں ہو پاتا اور یوں یہ ہیروز اپنی موت مر جاتے ہیں۔ اگر ہم کھوکھر صاحب جیسے بندوں کے کام سے فائدہ اٹھائیں اور ان کی اس کاوش کو ریاستی سطح پر سراہیں اور قومی سطح کا ہیرو بنا کر پیش کریں تو وہ دن دور نہیں جب نئی نسل ان کو آئیڈیل مان کر ان کی راہ پر چلے گی اور آنے والی نسلوں کا سوچتے ہوئے ان کی راہوں کو آسان بنا دے گی۔ جب میں نے پوچھا: ”کیا آپ کا یہ شوق آپ کے بچوں میں بھی منتقل ہوا؟

“ تو ان کے چہرے پر ایک افسردگی تھی۔ جب میں نے کہا: ”کیا کبھی کسی سرکاری ادارے یا یونیورسٹی نے آپ کے بعد سے کلیکشن کو محفوظ کرنے کے لیے رابطہ کیا ہو؟“ ان کے چہرے پر پراسرار خاموشی خود بہت بڑا سوال تھی۔ کھوکھر صاحب نے اپنے اہتمام سے پانچ کتب کی صورت میں اپنی لائیبریری کی اشاریہ سازی منظر عام پر لانے کا جو کام سرانجام دیا ہے وہ بھی لائق داد و تحسین ہے۔ جس کی تفصیل یہ ہے۔ فہارس الاسفار:یہ کتاب ان سفر ناموں کا ایک بیش قیمت اشاریہ ہے۔ جو 2004 ء تک ملکی و غیر ملکی شخصیات کی گویا تیرہ سو داستانیں ہیں، نوادرات: یہ ان سفر ناموں کی فہرست جو 1997 ء تک کے سفر ناموں کا جو لائبریری

میں موجود ہیں، احاطہ کرتی ہیں، تعلیم گاہوں کے رسائل و جرائد:جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ یہ کتاب برصغیر کے بہت سے تعلیمی اداروں سے شائع ہونے والے ان رسائل و جرائد کے ناموں سے قارئین کو ایک تاریخی آگاہی فراہم کرتی ہے۔ جو 1894 ء سے 2005 ء تک اس لائیبریری میں کھوکھر صاحب کی علم و دانش کے لیے بے لوث جستجو کا منہ بولتا ثبوت ہیں، بچوں کی صحافت کے سو سال: یہ کتاب بچوں کی ادبیات کی ایک خوب صورت فہرست ہے جو 2006 ء تک بچوں کے شائع شدہ علم و ادب کے بارے میں رسائل و جرائد کا وقیع اشاریہ ہے۔

بچوں کے ادب پر کام کرنے والے محققین اور صحافیوں کے لیے علم و تحقیق اور صحافت کے کئی نئے در کھول سکتا ہے۔ کھوکھر صاحب کی یہ کاوش ہزاروں لاکھوں رسائل و جرائد میں ان ماہانہ رسائل کے ناموں کی گردآواری (Collection) کا مجموعہ ہے۔ جو مختلف موضوعات پر اپنے اپنے دور کے خصوصی نمبروں کے طور پر 1902 ء سے 2005 ء تک برصغیر ہند و پاک میں شائع ہوتے رہے۔

ہم کھوکھر صاحب کی لائیبریری میں تقریباً آٹھ گھنٹے ٹھہرے اس دوران میں انہوں نے یہ تمام وقت ہمارے ساتھ گزارہ۔ انہوں نے بیٹھتے ساتھ ہمیں پھل پیش کیے۔ پھر دوپہر کو پر تکلف کھانا کھلایا اور عصر سے تھوڑا پہلے چائے پلائی۔ اسی دوران میں ہم کھوکھر صاحب سے سوالات اور مختلف موضوعات پر بات جیت کرتے رہے۔ ہم نے لائیبریری کے مختلف سیکشن کا خود بھی معائنہ کیا۔ جس سے ہم نے بہت سی قیمتی معلومات حاصل کیں۔

ضیاء الرحمن کھوکھر کے پاس عبدالمجید کھوکھر یاد گار لائیبریری کسی ایک زبان سے متعلق رسائل و جرائد اور کتب کا محض دفینہ نہیں بل کہ پانچ بڑی زبانوں اردو، پنجابی، فارسی، عربی اور انگریزی میں منظر عام پر آنے والے رسائل و جرائد اور کتب کا بیش بہا خزینہ ہے۔ حکومت پاکستان سے ہماری درخواست ہے کہ کھوکھر صاحب کے اس عظیم کام اور علم و دانش کی خدمت میں ان کے اس بے لوث اہتمام کی ریاستی سطح پر پذیرائی و قدر افزائی کی جائے اور ان کے بعد رسائل و جرائد کے اس نیستان کو محفوظ کرنے کا مناسب بندوبست کیا جائے تاکہ ہمارے ارباب علم و تحقیق کے اس گرانقدر سرمائے کو زمانے کی دست برد اور غفلت و لاپروائی کی آگ نگل نہ جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عبدالمجید یادگار لائیبریری اور اس

جیسے اور بہت سے کتب خانے جیسے آج کل سیلاب میں گھرے ہوئے شہداد کوٹ سندھ میں پروفیسر گل محمد بخاری کی بیس ہزار تک کتب کی لائیبریری جس میں تقریباً دس ہزار کتب مختلف زبانوں میں سیرت نبوی پر موجود ہیں، اور کتنی معروف و غیر معروف ذاتی لائبریریاں اور ایسے نادر و نایاب علمی ذخیروں کے دفینہے ہیں۔ ان سب کا ریاستی سر پرستی میں سروے کر کے اندازہ لگایا جائے کتنی لائبریریاں اپنے اندر کیا کیا لال و گہر سموئے ہوئے ہیں تاکہ ایسی اہل تخلیق ان وسائل کو بروئے کار لا کر عالمی سطح پر اپنا مقام پیدا کرنے والی تحقیق میں اپنا حصہ ڈال سکے۔

مغرب سے تھوڑا پہلے میرے ایم اے تاریخ کے کلاس فیلو اور پیارے دوست شہباز احمد جو گورنمنٹ اسلامیہ گریجوایٹ کالج گوجرانوالہ میں تاریخ کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ وہ ڈاکٹر عرفان وحید عثمانی کی زیر نگرانی

”Mulana Obaid Ullah Sindhi: A Progenitor
of Islamic Socialism in South Asia ”
کے موضوع پر پی۔ ایچ۔ ڈی کر رہے ہیں، کو جیسے ہی معلوم ہوا کہ ہم کھوکھر صاحب کی طرف آئے ہوئے
ہیں تو وہ فوراً ہم سے ملنے یہیں آ گئے۔

وہ ہمیں آئس کریم پارلر سے آئس کریم کھلانے کے بعد مصر تھے کہ ہم باقی وقت بھی ان کے ساتھ گزاریں۔ یہ تو ممکن نہ ہوا سو ہم نے شکریے کے ساتھ واپسی کے لیے عزم باندھا۔ راستے میں میں نے منیلا سے اس کے ملک سے متعلق چند بنیادی سوال کیے ۔ میرے سوال سیاسی، سیاحتی، مذہبی، تعلیمی نظام اور معاشرتی قدروں کے متعلق تھے جن کے اس نے بڑے دل چسپ، فکر انگیز اور معنی خیز جوابات دیے۔ پھر میں نے ان کے انداز فکر کا اندازہ کرنے کے لیے اس سے پوچھا: ”آپ پاکستانیوں کی ایک خوب صورت بات یا خوبی اور ایک خامی بتائیں؟

تھوڑی دیر سوچنے کے بعد کہنے لگی: ”پاکستانی لوگ بہت مہمان نواز ہیں۔ مگر یہاں کے ڈرائیور حضرات ہم کو دیکھتے ساتھ ہی کرایہ ڈبل سے بھی زیادہ مانگ لیتے ہیں ”۔ جس پر سر عثمانی اور میں چند دن میں منیلا کے ہمارے معاشرے کے متعلق گہرے مشاہدے پر حیران ہوئے۔ واپسی کے اس سفر میں بھی میرے دل و دماغ پر عبدالرحمن کھوکھر اور ان کی لائیبریری کا ماحول چھایا رہا۔ میں ہر لمحے صرف اس لائیبریری کے متعلق سوچ رہا تھا۔ جس میں دو لاکھ سے زائد رسائل اور تیس ہزار سے زائد کتب کا ذخیرہ موجود ہے۔

اس طرح یہ حیرانیوں سے بھرپور سفر منیلا کو ماڈل ٹاؤن میں اس کے بتائے ہوئے پتے پر چھوڑنے سے اپنے اختتام کو پہنچا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments