جب ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف بغاوت میں طوائفوں کے کوٹھے باغیوں کی پناہ گاہ بنے

وقار مصطفیٰ - صحافی و محقق، لاہور


لوگ انھیں ’کنجری‘ کہتے تھے مگر پھر سولھویں صدی میں ہندوستان پر 46 سال حکومت کرنے والے مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر نے انھیں ’کنچنی‘ پکارنے کا حکم دیا۔

اکبر کے سنہ 1556 سے 1602 تک کے دور میں انتظام سلطنت کی دستاویز ’آئین اکبری ‘میں لکھا ہے کہ ’ان سے منسلک مرد پکھاوج اور رباب بجاتے ہیں جبکہ عورتیں گاتی اور ناچتی ہیں۔‘

شاعر اور مؤرخ محمد حسین آزاد ’سخن دانِ فارس‘ میں لکھتے ہیں کہ ’کنجر اور کنجری ہندی میں زنِ رقاصہ کو کہتے تھے۔ اکبر نے ایک دن خوش ہو کر کہا کہ انھیں کنچنی (زرنگار یا سنہری) کہا کرو۔‘

لکھاری رعنا صفوی کے مطابق کنچنی ماہر گلوکاروں اور رقاصوں کو کہا جاتا، گروہ یا بینڈ کو طائفہ (جمع طوائف) اور انتہائی ماہر موسیقار، گلوکار اور رقاص کو طوائف۔ یہ تعظیم کی اصطلاح تھی۔

ہندوستان میں مسلمانوں کی رسموں پر سنہ 1832میں چھپنے والی ایک کتاب میں ’کنچنی کا طائفہ‘ کے بارے میں لکھا ہے کہ ’اسے شہزادے اور شرفا دعوتوں پر بلاتے ہیں۔ پونگی، میردنگ، جھانجھ، گھگھری، سارنگ (سارنگی یا تنبورا) تمام ساز مرد بجاتے ہیں۔ گھنگھرو عورتیں ناچتے اور گاتے پہنتی ہیں۔ ان کی تعداد تین سے کم اور پانچ سے زیادہ نہیں ہوتی۔‘

ثقافتی ورثے کا اٹوٹ حصہ

ماہر تعلیم اور مصنف روتھ وینیتا برطانوی اور ہندوستانی ادبی تاریخ میں صنف اور جنسیت پر مہارت رکھتی ہیں۔ وہ دلیل دیتی ہیں کہ طوائف کی ثقافت ہائبرڈ ہندو مسلم تھی۔

طوائفیں برصغیر کے ثقافتی ورثے کا ایک اٹوٹ حصہ تھیں جن کا ان کے فن، فارسی اور اردو ادب اور شاعری کے حوالے سے انتہائی احترام کیا جاتا۔ گو کہ وہ مغل دور سے پہلے بھی شرفا کی تفریح طبع کا سامان کرتی تھیں اور مغلیہ دور حکومت میں انھیں عروج حاصل ہوا۔

مصنف اور تاریخ دان پران نیویل نے لکھا ہے کہ ’بہترین طوائفیں، جنھیں ڈیرے دار طوائفیں کہا جاتا ہے، شاہی مغل درباروں سے اپنا نسب جوڑتی ہیں۔‘

’وہ بادشاہوں اور نوابوں کے خدام میں سے تھیں۔۔۔ ان میں سے بہت سی نامور رقاصائیں اور گلوکارائیں تھیں، جو آرام اور عیش و عشرت میں رہتی تھیں۔۔۔ طوائفوں سے وابستہ ہونا حیثیت، دولت، نفاست اور ثقافت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔۔۔ انھیں کوئی بری عورت یا قابل رحم چیز نہیں سمجھتا تھا۔‘

پران نیویل نے اپنی کتاب ’ناچ گرلز آف انڈیا‘ میں بتایا ہے کہ کس طرح شمالی ہندوستان کی طوائفوں کو دولت، طاقت، عزت اور سیاسی رسائی حاصل تھی اور انھیں ثقافت پر اتھارٹی سمجھا جاتا تھا۔ شریف خاندان اپنے بیٹوں کو تہذیب، آداب اور ’گفتگو کا فن‘ سیکھنے کے لیے ان کے پاس بھیجتے تھے۔

برصغیر

خاتون اشرافیہ

سلیم قدوائی کا کہنا ہے کہ بہت سے مغل صوبوں اور سلطنتوں میں تمام ہندو اور مسلم درباروں میں طوائفوں نے ایک با اثر خاتون اشرافیہ تشکیل دی تھی۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں اور بعض اوقات سیاسی معاملات میں بھی کافی سرگرم رہتی تھیں۔

ایک مثال سردھنا کی حکمران بیگم سمرو (1753-1836) ہیں جنھوں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز ایک طوائف کے طور پر کیا تھا۔

صحافی سومیا راؤ لکھتی ہیں کہ طوائفیں دولت اور رتبے والی خواتین تھیں، فنکاروں کی درجہ بندی میں طوائفوں کا درجہ سب سے اوپر تھا، یہ ایک ایسا طبقہ تھا جو گلیوں میں پرفارمنس کرنے والوں اور جسم فروشوں سے الگ تھا۔

مؤرخ اور ماہر تعلیم دانش اقبال کا خیال ہے کہ طوائفیں فنکاروں کی درجہ بندی میں ایک ایسے وقت میں سر فہرست تھیں جب پدرانہ ہندوستانی معاشرے میں خواتین کو کوئی جگہ یا کردار نہیں ملتا تھا اور وہ زیادہ تر اپنے گھر کی چار دیواری تک محدود تھیں۔ مردوں کے زیر تسلط معاشرے میں، یہ خواتین اثر و رسوخ رکھتی تھیں۔

’وہ صرف فن اور ثقافت کا ذخیرہ نہیں بلکہ آزاد خواتین تھیں۔ مرد ان پر منحصر تھے نہ کہ اس سے الٹ۔ مرد ان کے ملازم تھے، موسیقار ہوں یا موسیقی اور رقص کے اساتذہ، مرد ان کے گاہک، مرد ان کے دلال۔‘

مہ لقابائی چندا اردو کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ ہیں۔ ان کا دیوان سنہ 1898 میں مرتب ہوا۔ مہ لقابائی کا ایک شعر ہے:

غمزہ و ناز و ادا شیوہ ہے خوبوں کا مگر

ہر سخن میں روٹھ جانا کون سا دستور ہے

جب ثقافت تباہ ہو گئی

صفوی کہتی ہیں کہ سنہ 1857 کے بعد، صرف مغل خاندان یا نواب ہی نہیں تھے جو تباہ ہوئے بلکہ ایک دور تباہ ہوا، ایک ثقافت تباہ ہو گئی۔ ’اربابِ نشاط‘ یا کتھک رقاص اور کلاسیکی گلوکار اب (انگریز حکمرانوں کے مطابق ) ’ناچ گرلز‘ تھیں۔

صحافی سومیا راؤ کا کہنا ہے کہ تب تک مغلیہ سلطنت کئی دہائیوں سے زوال کا شکار تھی۔ دلی کو چھوڑ کر، بہت سی طوائفیں ریاست اودھ کے لکھنؤ چلی گئی تھیں جہاں نوابوں نے ان کے فن کی سرپرستی کی۔

فارسی اور ہندوستانی رقص کے مرکب ،کتھک نے ٹھمری، دادرا اور غزل کے ساتھ بالاخانہ اور اودھ کے درباروں میں مقبولیت حاصل کی۔ نواب واجد علی شاہ، جو خود کتھک کے باصلاحیت رقاص، گلوکار اور شاعر تھے، نے فنون کی حوصلہ افزائی کی۔ یہ موسیقی اور رقص کا سنہری دور تھا۔

لیکن لکھنؤ میں بھی ان کی قسمت بدلنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ انگریزوں نے سنہ 1856 میں ریاست اودھ پر قبضہ کر لیا۔

برصغیر

انگریزوں کے خلاف بغاوت

اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ کی اہلیہ بیگم حضرت محل، بعض حوالوں کے مطابق، شادی سے پہلے ایک طوائف تھیں۔ بغاوت کے دوران، جب ان کے شوہر جلا وطنی میں تھے، تو ان کی قیادت میں باغیوں نے مختصر طور پر لکھنؤ پر قبضہ کر لیا اور ان کے بیٹے کو حکمران نامزد کر دیا۔

جب برطانوی افواج نے سنہ 1858میں لکھنؤ پر دوبارہ قبضہ کیا تو حضرت محل نے نیپال میں پناہ لی اور 1879میں اپنی وفات تک وہیں مقیم رہیں۔

ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف عدم اطمینان بڑھ رہا تھا۔ طوائفوں نے پردے کے پیچھے سے اس ’بغاوت‘ میں فعال کردار ادا کیا۔ وہ اپنے برطانوی گاہکوں کی جاسوسی کرتیں، انھیں بات کرنے کی ترغیب دیتیں اور ان سے حاصل معلومات ’باغیوں‘ کو فراہم کرتیں۔

کوٹھے کہلانے والے ان کے ادارے باغیوں کے ملنے اور چھپنے کے ٹھکانے بن گئے۔ دولت مند طوائفیں ’باغیوں‘ کو مالی مدد بھی فراہم کرتیں۔

راؤ لکھتی ہیں کہ کانپور کی ایک طوائف عزیز النسا (عزیزن بائی) نے سنہ 1857 کی بغاوت میں انگریزوں کے خلاف جنگ بھی لڑی۔ جب انگریز بغاوت کے مجرموں کو سزائیں دے رہے تھے تو ان کا غضب طوائفوں پر بھی نازل ہوا۔

سومیا راؤ کہتی ہیں کہ شمالی ہندوستان میں طوائف، جنوب میں دیوداسی، بنگال میں بائی جی اور گوا میں نائیکن کہلاتی، ان پیشہ ور گلوکاروں اور رقاصاؤں کو برطانوی دور حکومت میں ’ناچ گرلز‘ کہا جانے لگا اور ان کے پیشے کو 19ویں صدی کے آخر میں جسم فروشی سے جوڑ دیا گیا تھا۔

یوں ہندوستان کے کلاسیکی فنون میں ان کی شراکت کو اجتماعی شعور سے دور کر دیا گیا اور ان کی کہانیوں کو تاریخ کے حاشیے میں بھی کوئی جگہ نہیں ملی۔

مؤرخ پروفیسر وینا اولڈن برگ نے اپنی کتاب ’دی میکنگ آف کولونیئل لکھنؤ‘ میں لکھا کہ ’طوائفوں کو جسم فروشی سے جوڑنا اس ادارے کی ایک انتہائی بددیانت تصویر کشی ہے۔‘

اولڈن برگ، جنھوں نے لکھنؤ کی طوائفوں پر بڑے پیمانے پر تحقیق کی ہے، نے لکھا کہ جب انگریزوں نے 1857 کی بغاوت میں شامل لوگوں کا پیچھا کیا تو معلوم ہوا کہ وہ ’ناچنے اور گانے والی لڑکیاں‘ تھیں اور ’ ٹیکس ریکارڈ میں وہ سب سے زیادہ کے ٹیکس بریکٹ میں تھیں یعنی شہر میں سب سے زیادہ انفرادی آمدن کی حامل۔‘

ان کے مکانات، باغات، کارخانے اور کھانے پینے اور تعیش کی اشیا کے خوردہ ادارے، برطانوی حکام نے ’لکھنؤ کے محاصرے اور سنہ 1857میں برطانوی حکمرانی کے خلاف بغاوت میں ملوث ہونے کی وجہ سے‘ ضبط کر لیے۔

برصغیر

صرف جائیداد کی ضبطی کافی نہیں تھی، سب سے پرکشش طوائفوں کو فوجیوں کی خدمت کے لیے برطانوی چھاؤنیوں میں بھیج دیا گیا۔ وہ طوائفیں جنھوں نے کلاسیکی موسیقی، رقص اور اردو ادبی روایت میں شاندار کردار ادا کیا تھا اور انھیں آداب پر ایک اتھارٹی سمجھا جاتا تھا، اب عام جسم فروش بن چکی تھیں۔

شریف گھرانوں کے بیٹوں کو جن کے پاس معاشرے میں چلنے کے آداب سیکھنے کے لیے بھیجا جاتا تھا اب انھیں انگریز افسروں اور فوجیوں کی جسمانی خواہشات کی تسکین کرنا تھی۔

وہ خواتین جو کئی فن پاروں کی مؤجد اور انھیں مقبول کرنے کی ذمہ دار تھیں اور کتھک، دادرا، غزل اور ٹھمری کے فن میں کمال حاصل کیا تھا اور ان فنی شکلوں کو زندہ رکھنے کے لیے بہت کچھ کیا تھا، انھیں صرف رقص تک محدود کر دیا گیا۔

19ویں صدی کے آخر میں نوآبادیاتی انتظامیہ، مسیحی مشنریوں اور ہندوستانی مصلحین نے ناچ مخالف تحریک کا آغاز کیا اور رائے عامہ طوائفوں اور رقاصاؤں کے خلاف ہوتی گئی۔ روزی روٹی تباہ ہونے کے بعد، ان میں سے کچھ نے اپنا پیٹ بھرنے کے لیے سیکس کے کام کا رخ کیا، جس سے جسم فروشی کے ساتھ ان کی وابستگی مزید مضبوط ہو گئی۔

کرزیزٹوف ایوانیک لکھتے ہیں کہ ’مانا کہ طوائفیں پڑھی لکھی اور اعلیٰ درجہ کی خواتین تھیں اور یہ کہ انھوں نے ہندوستانی فنون میں اپنا حصہ ڈالا، اس حقیقت پر پردہ نہیں ڈالنا چاہیے کہ انھیں مردوں کو جسمانی خدمات بھی فراہم کرنا پڑتیں۔ بہت سی طوائفوں پر مردوں کا غلبہ تھا۔ کچھ کو جسمانی طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، کچھ کو قیدیوں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا یا جب مرد اپنے آپس میں ان کے جسم کے لیے لڑتے تھے تو نتیجہ انھی کو بھگتنا پڑتا۔‘

طوائف کی دنیا کے بتدریج گرہن کی جھلک کچھ ادبی تصانیف میں نظر آتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

برصغیر کی خوبصورت مغنیہ جن کی تصویر والے پوسٹ کارڈ دگنی قیمت پر فروخت ہوتے تھے

والیِ خیرپور جن کے لیے ہیرا منڈی کی گائیکہ کا عشق جوگ سے روگ بن گیا

استنبول کی ’طوائف گلی‘ کی تھیوڈورا سلطنت روم کی ملکہ کیسے بنی؟

نسیم آرا نے 1960 کی دہائی میں لکھی گئی امرت لال نگر کی کتاب ’یہ کوٹھے والیاں‘ کی ایک کہانی میں کہا ہے کہ 19ویں صدی کی ڈیرے والی طوائفوں کے ایک شخص کے ساتھ جسمانی تعلقات ہوتے تھے، جو عام طور پر پورے خاندان کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ اگر سرپرست مر گیا تو انھوں نے اپنی زندگی اس کی بیوہ کی طرح گزاری۔

بیسویں صدی کے اوائل میں عبدالحلیم شرر نے نوابوں کے زیرِ انتظام اودھ کی زندگی اور ثقافت پر اپنی کتاب ’گذشتہ لکھنؤ‘ لکھی۔

وہ لکھنؤ میں طوائفوں کے تین طبقے بیان کرتے ہیں اور کنچنی ان میں سے ایک ہیں۔ دوسرا طبقہ جس کا وہ ذکر کرتے ہیں، ’چوناوالی‘ ہیں، وہ عورتیں جو پہلے چونا بیچتی تھیں لیکن اب بازاری عورتیں بن چکی ہیں، اور تیسری ’نگرانٹ‘ جن کا تعلق گجرات سے ہے۔ وہ ان تینوں گروہوں کو ’بازاروں کی رانیاں‘ کہتے ہیں۔

ان کا بنیادی پیشہ جسم بیچنا ہے تو تبدیلی آ چکی تھی۔ یقیناً ایک وجہ یہ ہو گی کہ نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی کے دلی پر حملوں کے بعد مغلیہ سلطنت بکھر رہی تھی اور شاہی سرپرستی اب اعلیٰ طرز زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے کافی نہیں رہی تھی۔

وہ اتنی امیر اور طاقتور تھیں کہ شرر لکھتے ہیں کہ ’حکیم مہدی جیسے شائستہ شخص، جو بعد میں وزیر (اودھ کے وزیر اعظم) بنے، اپنی ابتدائی کامیابی کے لیے پیارو نامی ایک طوائف کے مرہون منت تھے۔‘

’پیارو نے اودھ صوبے کے گورنر کے طور پر ان کے پہلے تقرر پر حکمران کو تحفہ دینے کے لیے رقم دی تھی۔ یہ مضحکہ خیز باتیں اس حد تک بڑھ گئیں کہ کہا جاتا ہے کہ جب تک کوئی شخص طوائفوں سے رفاقت نہ رکھتا ہو وہ مہذب نہیں کہلاتا تھا۔ اس وقت (سنہ 1913 میں) اب بھی کچھ طوائفیں موجود ہیں جن کی صحبت قابل مذمت نہیں اور جن کے گھروں میں کھلے عام اور بے دھڑک داخل ہوا جا سکتا ہے۔‘

ظاہر ہے کہ شرر سنہ 1856 کے بعد لکھ رہے تھے جب روایتی طوائف کا ادارہ انگریز تباہ کر چکے تھے۔

قاضی عبدالغفار صاحب کا ناول ’لیلیٰ کے خطوط‘ سنہ 1932 میں منظر عام پر آیا۔ یہ شاید اردو کا پہلا ناول ہے جس میں خطوط کی تکنیک کو استعمال کیا گیا۔

انھوں نے ایک ایسی طوائف کی زندگی کو پیش کیا جو مردوں کے بنائے ہوئے سماج سے بیزار ہے۔ اپنے خطوط میں وہ اس سماج پر گہرے طنز کرتی ہے۔

اسی بنا پر عزیز احمد نے ’لیلیٰ کے خطوط‘ کو پہلا ترقی پسند ناول قرار دیا حالانکہ ترقی پسند تحریک اس ناول کی اشاعت کے تقریباً چار سال بعد وجود میں آئی تھی۔

پریم چند کی تحریر ’بازار حسن‘ کا موضوع بھی یہی ہے۔

چند دستیاب داستانوں میں سے ایک ملکہ پکھراج کی ہے، جو جموں و کشمیر میں مہاراجا ہری سنگھ کے دربار سے وابستہ گلوکارہ اور رقاصہ تھیں۔ سلیم قدوائی نے ان یادداشتوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔

گو کہ طوائف عام طور پر ایک جسم فروش کے طور پر داغ دار ہو گئی تھی۔ 1960 کی دہائی کے وسط تک، شاعر نیاز فتح پوری یاد کرتے ہیں کہ ’میرے والد نے مجھے ان محفلوں میں بھیجنا شروع کیا اور یہیں سے میرے ادبی کیریئر کا آغاز ہوا۔۔۔ شہر کی معروف طوائفوں کی حیثیت ایک ایسے عالم کی تھی جس کی گفتگو اور آداب سے اشرافیہ نے لکھنؤ کے صحیح آداب سیکھے۔‘

تھیٹر اور فلم

شریا اِلا انسویا کے مطابق تھیٹر اور فلم میں طوائفوں کی شراکت نے پرفارمنگ اور ادبی فنون کو بے حد تقویت بخشی۔ جدن بائی، ہندوستانی سنیما کے بانیوں میں سے تھیں۔ اسی طرح بیگم اختر ہندوستان کی سب سے قابل احترام اور کامیاب گلوکاروں میں سے ایک تھیں، جنھیں فن میں مہارت کے لیے ملکہ غزل (غزل کی ملکہ) کہا جاتا تھا۔

اور کچھ طوائفوں نے ہندوستانی ثقافت پر دیرپا نقوش چھوڑے۔

سب سے مشہور گوہر جان تھیں۔ وہ 20ویں صدی کے شروع میں، گراموفون پر اپنا گانا ریکارڈ کرنے والی پہلی ہندوستانی فنکارہ تھیں۔ آرمینیائی باپ اور برطانوی ماں کی اولاد، گوہر جان نے اپنی پوری زندگی ہندوستان میں گزاری۔ گوہر جان نے 1900 کی دہائی میں ریکارڈنگ آرٹسٹ کے طور پر بے پناہ کامیابی حاصل کی۔

مہاتما گاندھی نے تحریک آزادی کی حمایت کے لیے سوراج فنڈ میں حصہ ڈالنے کے لیے ان سے رابطہ کیا۔ وہ اس شرط پر فنڈ جمع کرنے کے کنسرٹ منعقد کرنے پر راضی ہوئیں کہ گاندھی ان کی پرفارمنس میں شرکت کریں گے۔

وکرم سمپت ’مائی نیم از گوہر جان‘ میں لکھتے ہیں کہ گاندھی نہ آ سکے اور گوہر جان نے 24,000 روپے میں سے 12,000 انھیں بھیجے۔

1920سے 1922 تک گاندھی کی زیرقیادت عدم تعاون کی تحریک کے دوران واراناسی میں طوائفوں کے ایک گروہ نے جدوجہد آزادی کی حمایت کے لیے طوائف سبھا تشکیل دی۔ سبھا کی صدارت کرنے والی حسینہ بائی نے گروہ کے ارکان سے اپیل کی کہ وہ احتجاج کی علامت کے طور پر زیورات کے بجائے لوہے کی بیڑیاں پہنیں اور غیر ملکی سامان کا بائیکاٹ کریں۔

انسویا لکھتی ہیں کہ جدن بائی بھی ایک طوائف اور ایک معروف گلوکارہ تھیں۔ انھوں نے سنہ 1934 میں ہندوستان کی پہلی فلم پروڈکشن کمپنی ’سنگیت مووی ٹون‘ قائم کی۔

انھوں نے نہ صرف فلمیں تیار کیں بلکہ ان کے سکرپٹ بھی بنائے، ان کے لیے موسیقی اور مکالمے بھی مرتب کیے اور اداکاری بھی کی۔ جدن بائی کی بیٹی نرگس 1950-60 کی دہائی میں بالی وڈ کے روشن ستاروں میں سے ایک تھیں۔

صوفی کتھک رقاصہ منجری چترویدی کا کہنا ہے کہ طوائف ہماری تاریخ کا ایک لازمی حصہ ہے۔ ’مرزا غالب کا علم نہ ہوتا اگر کوئی طوائف (نواب جان) ان کی شاعری نہ گاتیں۔ یہ ایک طوائف تھیں جنھوں نے ہمیں غالب سے روشناس کرایا۔‘

طوائف کے فن اور ثقافت کو جسم فروشی کے ساتھ جوڑ کر حقیر بنا دیا گیا۔

رعنا صفوی یوں کہتی ہیں کہ ’آج جسم فروش کے لیے طوائف کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ جو گانا اور ناچنا سیکھتی ہیں وہ اب غالب یا داغ کی غزلیں نہیں، گاہک کو خوش کرنے کے لیے فحش فلمی گانے گاتی ہیں۔کوئی بالاخانہ نہیں، جہاں موسیقی اور رقص پروان چڑھے، بس کوٹھے ہیں جہاں اکثر لڑکیوں کو اغوا، لالچ اور ان کی مرضی کے خلاف جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32547 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments