انسان آزادی اور امن


ایک نوجوان نے ایک مرد جہاندیدہ سے پوچھا
’ کیا میں آزاد ہوں اور ہوں تو کتنا آزاد ہوں؟‘
بزرگ نے فرمایا ’اپنا دایاں پاؤں ہوا میں اٹھاؤ‘
نوجوان نے بڑی آسانی سے دایاں پاؤں اٹھا لیا۔
پھر بزرگ نے فرمایا ’اب اپنا بایاں پاؤں اٹھاؤ‘
نوجوان نے بہت کوشش کی لیکن نہ اٹھا سکا
بزرگ نے مسکراتے ہوئے کہا ’بس تم اتنے آزاد ہو‘
سب انسان آزاد ہیں لیکن وہ آزادی محدود ہے۔
قوانین فطرت اس حد کا تعین کرتے ہیں۔
۔ ۔

اگر ہم اپنے مہمان کے آگے مشروبات سے بھرے تین گلاس رکھ دیں
پہلا دودھ سے بھرا گلاس
دوسرا اورنج جوس سے بھرا گلاس
تیسرا شراب سے بھرا گلاس

مہمان کو پورا اختیار ہے کہ وہ کون سے گلاس کا مشروب پیتا ہے لیکن ایک دفعہ وہ اپنے ہونٹ گلاس پر رکھ دیتا ہے اور اس مشروب کو پی لیتا ہے تو پھر اس کا اختیار ختم ہو جاتا ہے۔ وہ یہ اختیار نہیں رکھتا کہ شراب کا گلاس پیے اور یہ امید رکھے کہ اس کے جسم پر دودھ کے اثرات مرتب ہوں گے۔

مشروب پینے کے بعد فطرت اپنے اثرات مرتب کرتی ہے۔
۔ ۔

جب ہم جانوروں اور انسانوں کا مقابلہ کرتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی فطرت اور شخصیت میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ جانور اپنے جبلت کے پابند ہیں لیکن انسانوں کو یہ اختیار ہے کہ وہ اپنی جبلت پر عمل کریں یا نہ کریں

ہم سب جانتے ہیں کہ
گائے گھاس کھاتی ہے اور شیر گوشت کھاتا ہے۔
کسی نے بھی گائے کو گوشت کھاتے اور شیر کو گھاس کھاتے نہیں دیکھا ہو گا۔
لیکن انسانوں کو اختیار ہے کہ وہ کیا کھائیں اور کیا نہ کھائیں اور چاہیں تو اپنی رائے بدل لیں۔
بہت سے ہندو گوشت کی بجائے سبزیاں کھاتے ہیں اور بہت سے مسلمان بڑے شوق سے گوشت کھاتے ہیں۔
لیکن بعض ہندوؤں نے گوشت کھانا شروع کر دیا ہے اور بعض مسلمانوں نے گوشت کھانا چھوڑ دیا ہے۔

انسانی بچے جو جبلتیں لے کر پیدا ہوتے ہیں ان میں سے ایک جبلت جارحیت ہے۔ اسی لیے اگر بچوں سے ان کے پسندیدہ کھلونے یا کھانے چھین لیے جائیں تو وہ لڑنے لگتے ہیں۔ بچوں کو ان کے والدین اور اساتذہ سکھاتے ہیں کہ وہ دوسرے بچوں سے کس طرح پیار محبت سے کھیلیں اور اپنے کھلونے اور کھانے شیر کریں۔

جب بچے جوان ہوتے ہیں تو ان کی جنسی جبلت فعال ہو جاتی ہے۔
بعض نوجوان اس جبلت پر بغیر سوچے سمجھے عمل کرنے لگتے ہیں اور بعد میں پچھتاتے ہیں۔

نوجوانوں کے والدین اور اساتذہ اور بزرگ انہیں سمجھاتے ہیں کہ وہ جنسی جبلت کو جارحیت سے جوڑنے کی بجائے محبت اور اپنائیت اور قربت سے جوڑیں۔

جوں جوں انسان مہذب ہوتے جا رہے ہیں وہ جنس اور جارحیت کی جبلتوں پر قابو پانا سیکھ رہے ہیں۔

بعض تہذیبوں نے جارحیت کی جبلت کے مثبت اظہار کے راستے بنائے۔ اس کی ایک مثال یونان کے اولمپک کھیلوں کی روایت ہے۔ یونانیوں نے نوجوانوں کو سکھایا کہ وہ اپنی جارحیت کا اظہار جنگ و جدل اور دنگا فساد کی بجائے کھیل کے مقابلوں میں کریں۔

انسان کی جنس کی جبلت کا مثبت اظہار فنون لطیفہ میں ہوتا ہے۔
چاہے وہ شاعری ہو یا افسانہ نویسی
چاہے وہ رقص ہویا موسیقی
یہ جب جبلت کا ارتفاعی اظہار ہے۔

جہاں انسانوں نے جارحیت کی جبلت کے مثبت اظہار کے طریقے سیکھے ہیں وہیں انسانوں نے جارحیت کے اظہار کے منفی طریقے بھی سیکھے ہیں۔ یہ منفی طریقے وہ نظریات ہیں جو جارحیت کو معزز و معتبر و مقدس بنا دیتے ہیں۔

یہ نظریات مذہبی بھی ہیں اور غیر مذہبی بھی اور لا مذہبی بھی۔

مذہبی جارحیت کی ایک مثال وہ عیسائی ہیں جنہوں نے معصوم مسلمانوں پر ظلم کیے اور انہیں کروسیڈز کی مقدس جنگ کا نام دیا۔ اس کی دوسری مثال وہ مسلمان ہیں جنہوں نے غیر مسلموں کو قتل کیا اور پھر اسے جہاد کا نام دیا۔ مقدس جنگ میں مارے گئے تو شہید کہلائے زندہ رہے تو غازی۔

انسانوں کا خون بہانے والے مذہبی لوگ ہی نہیں ہیں اس قبیل میں غیر مذہبی لوگ بھی شامل ہیں۔

سیکولر روایات میں ایک روایت حب الوطنی کی ہے۔ لوگ اپنی قوم کی محبت میں دوسری قوم کے انسانوں کا خون بہاتے ہیں اور پھر وہ انعام و اکرام سے نوازے جاتے ہیں۔ جنگ کی فتوحات کے بعد انہیں تمغے دیے جاتے ہین۔ سیکولر روایت کی دوسری مثال کمیونزم ہے۔ اس فکر کے لوگوں نے منصفانہ نظام قائم کرنے اور استحصال کا خاتمہ کرنے کے لیے ہزاروں لاکھوں جانوں کی قربانی دی اور مختلف ممالک میں خونی انقلاب لے کر آئے۔

ایک انسان دوست ہونے کے ناتے میں ان تمام مذہبی اور غیر مذہبی اور لا مذہبی روایات کے خلاف ہوں جو مذاہب اور نظریات کی کامیابی و کامرانی کے لیے معصوم انسانوں کا خون بہاتے ہیں۔

انسان کو اپنی زندگی میں اختیار بھی ہے آزادی بھی۔
وہ سوچ سمجھ کر زندگی کے فیصلے کر سکتا ہے۔
انسان جتنے مہذب ہوں وہ سوچ سمجھ کر زندگی کے فیصلے کریں گے۔

ساری دنیا کے انسان دوست امید رکھتے ہیں کہ ایک دن انسان انفرادی اور اجتماعی طور پر ایسے فیصلے کریں گے جو ساری انسانیت کے لیے سود مند ہوں گے۔

اکیسویں صدی میں انسانیت ایک دوراہے پر کھڑی ہے۔
انسانوں کو اختیار ہے کہ وہ جنگ و جدل کا راستہ اختیار کریں اور دوسرے انسانوں کا خون بہائیں

یا مل جل کر رہنا سیکھیں اور کرہ ارض پر پر امن معاشرے قائم کریں۔ یہ اس وقت ممکن ہو گا جب انسان یہ جان لیں گے کہ ہم سب دھرتی ماں کے بچے ہیں اور ہمارے دشمن بھی ہمارے دور کے رشتہ دار ہیں۔

۔ ۔ ۔

نوٹ:میں اپنے سائنسدان دوست ڈاکٹر سہیل زبیری کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جن کے پر مغز مقالے WHAT IS FREE WILL؟

نے مجھے یہ کالم لکھنے کی تحریک دی۔
۔ ۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments