کامیابیوں کو سراہیں مگر اپنی توہین مت کریں!


جب ہم بچوں کو ان کی کامیابیوں کے لیے سراہتے ہیں تو ہمیں فطری صلاحیت یا ذہانت پر کم اور کوشش پر زیادہ توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ جیسا کہ ہمیں انھیں بتانا چاہیے کہ ”آپ نے اس ہوم ورک پر بہت محنت کی!“ بجائے اس کے ”آپ بہت ذہین ہیں“ ۔ اسی طرح بچوں کی موجودگی یا عدم موجودگی، ہر دو صورتوں میں دوسروں کے سامنے بھی ہمیں بچوں کی فطری صلاحیتوں کی بجائے اختیاری خوبیوں کو اجاگر کرنا چاہیے۔

کسی کامیابی کی تعریف کرتے وقت آپ کو بچے کی تعریف کرنے یا جس کامیابی کے لئے یہ تعریف کی گئی اس پر توجہ دینے کے بجائے بچے کی کوشش کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کیونکہ یہ حوصلہ افزائی کرنا اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ در حقیقت یہ کوشش ہے جو اصل اہمیت کی حامل ہے۔ کوشش اور جدوجہد کو اجاگر کرنے سے اعراض بچوں کو بیرونی توثیق کی ضرورت کی طرف لے جا سکتا ہے۔ لیکن عموماً بڑوں کے پاس بچوں کی تعریف کرنے کا ایک طریقہ ایسا بھی ہے جس کے منفی اثرات دور رس ہیں۔ جیسا کہ بچوں کے سامنے ان کی صلاحیتوں سے موازنہ کر کے اپنی صلاحیت کی توہین کرنا۔

جاب سیکٹر میں میرا تعلق زیادہ تر ایجوکیشن سے رہا ہے اس لیے میں نے والدین/ اساتذہ کی بہت سی میٹنگز میں دیکھا جہاں والدین بچوں کو بتاتے ہیں کہ ان کے لیے ریاضی اور سائنس کے مضامین میں فیل ہونا ٹھیک ہے کیونکہ جب وہ اسکول میں تھے تو وہ بھی فیل ہوئے تھے۔ اپنے کام کے دوران اکثر بڑوں کو بچوں سے یہ کہتے ہوئے سنا، ”واؤ، آپ اتنے اچھے مصور ہیں! میں اتنی اچھی پینٹنگ کبھی تخلیق نہیں کر سکا،“ یا ”شاندار، آپ میتھ میں با کمال ہیں، میں اتنے کم وقت میں اتنا سلیبس کبھی نہیں نمٹا سکا۔“ اس طرح کے جملے کا استعمال بچوں (یا کسی بھی دوسرے شخص کو) سکھاتا ہے کہ

الف) تمام ٹیلنٹ مسابقتی ہے۔ آپ کسی چیز میں کتنے اچھے ہیں اس کا تعین اس بات سے ہوتا ہے کہ آپ دوسروں سے کتنے بہتر ہیں۔

ب) اگر کسی ایک شخص کی کامیابی یا بہتر کارکردگی دوسروں کے لئے خود ان کے بارے میں باعث ندامت ہے، تو اسی اصول کے تحت دوسروں کی بہتر کارکردگی یا کامیابی سے خود اس شخص کو بھی اپنے بارے میں برا محسوس کرنا چاہیے۔

ہم سب شاید کبھی نہ کبھی اس کیفیت سے گزرے ہوں۔ میری ڈرائنگ میرے بھائی سے بہتر رہی اور وہ میتھ کو اس طرح سمجھتا ہے جس طرح میں نے کبھی نہیں سمجھا۔ لیکن کسی ایک شخص کی کامیابی محض کسی دوسرے کی ناکامی کی وجہ سے کامیابی نہیں کہلا سکتی۔ بلکہ اس کامیابی میں کسی کی کوشش اور محنت کا دخل ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کسی کو کمپلیمنٹ کرتے ہوئے محنت اور کوشش کو اجاگر کرنا اور مثبت انداز فکر اختیار کرنا ضروری ہے۔ جیسے، ”واہ آپ آرٹ/ڈرائنگ میں بہت اچھے ہیں! مجھے امید ہے کہ اگر میں پریکٹس کرتا رہوں تو میں بھی کسی دن اتنا اچھا بن سکتا ہوں! یا غیر تقابلی مثبت بیانات، جیسے،“ واہ تم آرٹ میں بہت اچھے ہو! کچھ نیا بنانے کے لیے اپنی تخیل کو استعمال کرنے میں بہت مزہ آتا ہے۔ ”

کارل مارکس کا ایک قول سید سبط حسن نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ”موسیٰ سے مارکس تک“ میں درج کیا ہے۔ جسے یاداشت کے سہارے یہاں شامل کیا جا سکتا ہے۔ ”اچھی کتابیں (کالم) پڑھنا ایک اچھا مشغلہ ہے لیکن پڑھنے کے لائق کچھ تحریر یا تخلیق کرنا اس سے کہیں زیادہ خوشی اور راحت مہیا کرتا ہے۔ تخلیق کا عمل انتہائی ذمہ داری کا متقاضی ہے۔ جیسے جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔ ایسے ہی نو آموز قاری کی دنیا و آخرت بہت حد تک تخلیق کار کی قلم کی نوک یا مقرر کے زبان تلے دھری ہوتی ہے۔

یہ گفتگو صرف بچوں کے حوالے سے نہیں بلکہ اس کے دائرے میں ہر شخص آتا ہے۔ مثلاً میں آپ کو بتاؤں کہ آپ کا گھر کتنا پیارا ہے، اس بات کا ذکر کیے بغیر کہ لمحہ موجود میں میرا اپنا گھر گویا جنجال پورہ کا منظر پیش کر رہا ہے۔ دوسروں کو اوپر اٹھانے کے لیے خود کو گرا ہوا دکھانے کا غیر ارادی نتیجہ ہو سکتا ہے کہ ہر شخص کسی دوسرے کامیاب شخص کے بارے میں سوچ کر خود اپنے بارے میں برا محسوس کر سکے۔

عاجزی یا انکساری کے اظہار کے لئے بھی کبھی خود کی تحقیر نہ کریں۔ ایسا کرنا کمینگی کی علامت ہے۔ نماز کے لئے دوڑ کے آنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اذان کی آواز سنتے ہی گلیوں اور سڑکوں پر ریس کا منظر نظر آنے لگے۔ نماز کے لئے با وقار انداز میں چل کر مسجد آنے کا حکم ہے۔ دوران خطبہ نا مکمل صفوں کو مکمل کرنے کے لئے کندھے پھلانگ کر آگے جانا، بیٹھے ہوئے شخص اور آگے جانے کے منتظر، ہر دو افراد کے وقار کے منافی ہے۔

قرآن مجید میں سو کے لگ بھگ دعائیں موجود ہیں۔ ہر دعا میں انسانی وقار کا پہلو دکھائی دیتا ہے۔ وہاں تو کہیں ایسے الفاظ نہیں ملتے کہ ”اے رب ہم بد کار ہیں یا فلاں ہیں، فلاں ہیں“ ۔ پست آواز یا دل ہی دل میں اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی چاہنا خود ایک باوقار عمل ہے۔ اور خود کو دودھ کا دھلا سمجھتے ہوئے مائیک سامنے رکھ کر دعاؤں میں کبائر گنوا کر آمین کہنے والوں کی تحقیر کرنا خود اس شخص کی خفی نفسیاتی گرہوں کا اظہار ہے۔

اپنے آپ کو کبھی بھی نہ گرائیں، کبھی نہیں۔ نہ خود کو اور نہ دوسروں کو۔ خواہ اشارہ میں، چاہے اس کی تصدیق بھی موجود کیوں نہ ہو۔ جن معاشروں میں انکساری اور عاجزی کے نام پر افراد کو کمتر شخص بننے کی تربیت دی جاتی ہے جو ہمیشہ اپنے آپ کو کمتر سمجھتے ہیں اور دوسروں کو اوور پلے کرتے ہیں۔ وہاں بڑک باز اور مستقل جھوٹے لوگ خود کو ناگزیر مسیحا بنا کے پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ حالانکہ کے ایسے کذاب مسیحاؤں سے قبرستان بھرے پڑے ہیں۔ احساس کمتری اور عزت نفس سے محروم لوگ ایسے مسیحاؤں کے پیچھے خود کو خوار کرتے چلے جاتے ہیں۔ حتیٰ کے اس کذاب مسیحا کے انجام تک پہنچنے کے بعد پھر سے کوئی کذاب اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ اور استحصال کا یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).