مسی ساگا کی گلیوں میں مرزا یار پھرے سفر نامہ کینیڈا ( 2 )


 

دورہ آنتاریو کے آخری دو دن مسی ساگا میں مرزا یاسین بیگ کے ساتھ گزرے۔ ہم ان کی سدا بہار، ہنستی کھلکھلاتی اور شگفتہ شخصیت سے دو دن تک خوب محظوظ ہوئے۔ ان کا گھر مسی ساگا میں اس گلی کی بغل میں ہے جس کا نام مسی ساگا کے پہلے مئیر رابرٹ اسپیک کے نام پر رکھا گیا ہے۔ مرزا صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں بتایا : ”اس بات کا انکشاف مجھ پر اس وقت ہوا جب میں مسی ساگا کے مئیر کے بارے میں کوئی تحقیق کر رہے تھا۔ وہ دن اور آج کا دن میں کبھی اس گلی میں ننگے پاؤں نہیں گیا، کیلا کھا کر پھینکنے کی جسارت کی اور نہ کبھی تھوکنے کی۔“

ابن انشا ٔ، پطرس بخاری، کرنل محمد خان اور صولت رضا کا مزاح ایک کہانی یا آپ بیتی کی صورت میں تھا۔ اور یہ سچ ہے کہ اس وقت کے سماجی ماحول کے مطابق بہترین مزاح تھا۔ جبکہ اپنے وقت کے سب سے بڑے مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کا طنز و مزاح زیادہ تر واقعاتی، موضوعاتی اور سدا بہار ہے۔ میری حقیر رائے میں یوسفی صاحب کے جانے کے بعد مزاح کا ایک روشن چراغ گل ہو گیا ہے۔ ان کے بعد اردو ادب میں نثری مزاح کے اعتبار سے ایک خلا محسوس ہو رہا تھا۔ جس کو پر کرنے میں مرزا یاسین بیگ کافی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں۔

شاید یہی رہی ہو کہ اردو ادب میں بطور مزاح نگار یاسین بیگ مقبولیت حاصل کرتے جا رہے ہیں۔ ان کی مزاح کی دو کتب، ”دیسی لائف ان کینیڈا“ اور ”پارچے“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔ ’دیسی لائف ان کینیڈا‘ ہر اس پاکستانی کی کہانی ہے جو اپنا وطن چھوڑ کر دیار غیر میں آباد ہو چکا ہے۔ اپنے دوسرے وطن میں تارکین کو کیا کیا تکالیف پیش آتی ہیں؟

مہاجرین نئی زندگی میں اپنے آپ کو کس طرح مربوط کرتے ہیں؟

یہ سب کچھ بہترین طنزو مزاح پر مبنی مضامین کی صورت میں لکھا گیا ہے۔ مرزا یاسین بیگ کی دوسری کتاب، ”پارچے“ بہترین فکاہیوں پر مشتمل ہے۔ جس کے موضوعات متنوع اور جملے کاٹ دار و مزاح سے بھرپور ہیں۔ اس کتاب کو نئے دور کا نیا مزاح کہا جاتا ہے اور اسے دن بہ دن پذیرائی ملتی جا رہی ہے۔ حال ہی میں کینیڈا سے پارچے کا تیسرا ایڈیشن شائع ہوا ہے۔ طنز و مزاح پر مبنی ان کی تیسری کتاب ”قرض ہنسنا“ اشاعت کے مراحل میں ہے۔

”پاپی“ مرزا یاسین بیگ اور ڈاکٹر خالد سہیل کا ایک مشترکہ ناول ہے۔ جس کو مکتوبی ناول کہا جا سکتا ہے۔ جسے اردو ادب میں پہلی بار دو ادیبوں نے مل کر لکھا ہے۔ اس کتاب میں مرزا یاسین بیگ کا قلم انتہائی سنجیدہ روپ لئے ہوئے ہے۔ انھوں نے عورت بن کر خطوط لکھے ہیں جو ایک پاکستانی معاشرے میں عورت کی جدوجہد اور آج کے عہد کی سچائیوں پر مشتمل ہے۔ مرزا یاسین بیگ پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں۔ وہ روزنامہ جنگ کراچی کے علاوہ روزنامہ ایکسپریس کے پہلے میگزین ایڈیٹر تھے۔

کینیڈا میں وہ مزاحیہ ٹی وی شوز لکھتے اور میزبانی کرتے ہیں، اردو اخبارات سے منسلک رہے۔ پاکستانی کمیونٹی میں مقبول یاسین آج کل کینیڈا ون ٹی پر ایک مزاحیہ و ادبی پروگرام کی میزبانی کر رہے ہیں۔ اور ماضی میں پی ٹی وی سے ففٹی ففٹی کے دوسرے جنم پر خاکے لکھ چکے ہیں۔ بچوں کے لیے دو سیریز اور ایک سیریل بھی لکھی ہے۔ اس کے علاوہ کینیڈا آنے سے قبل وہ قاسم جلالی کی ہدایات میں دو سال تک عید کے خصوصی مزاحیہ شوز بھی تحریر کرتے رہے۔ ان پروگراموں میں معین اختر مرحوم نے اپنی اداکاری کے رنگ بھرے تھے۔

یاسین بیگ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے ریڈیو کے لئے سینکڑوں کی تعداد میں کمرشل ریڈیو پروگرام لکھے جن میں اس وقت کے مایہ ناز لیجنڈ صداکار حسن شہید مرزا، محمود علی، قاضی واجد، عشرت ہاشمی، زینت یاسمین، شہزاد رضا، زیبا شہناز وغیرہ اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرچکی ہیں۔ یاسین بیگ کو ریڈیو کی جانب سے بہترین قلمکاری پر متعدد ایوارڈز سے نوازا جا چکا ہے۔ راقم کی ترجمہ شدہ کتاب، مذہب سائنس اور نفسیات، کی تقریب پذیرائی میں مرزا یاسین بیگ نے ایک نہایت سنجیدہ موضوع پر بہت دلچسپ اور مزاحیہ مضمون پڑھا۔ چند اقتباسات پیش خدمت ہیں :

Religion Science & Psychology پڑھتے ہوئے راقم کو مشکل یہ ہو رہی تھی کہ ان میں سے ہر مضمون راقم نے صرف نصاب کی حد تک پڑھا تھا۔ مذہب کے لئے اسلامیات کی کتابیں رٹی تھیں یا پھر مولوی صاحب کے ڈنڈے اعضائے ممنوعہ پر کھائے تھے۔ سائنس کے لئے طبعیات کیمیا اور حیاتیات کے صرف ان صفحات کو کھول کر پڑھا تھا جہاں سے امتحانات میں سوالات پوچھے جانے تھے اب رہ گئی بات نفسیات کی تو اس کے لئے کبھی نفسیات کی کتاب نہیں پڑھی بس اردگرد موجود نفسیاتی مریضوں سے کام چلایا۔ ہم ہی وہ طالب علم تھے جس نے سائنس و آرٹس کی فیکلٹیز کے چکر کاٹ کاٹ کر بالآخر صحافت میں جب ماسٹرز کر لیا تو ابا جان کا تاریخی جملہ سامنے آیا تھا : ”بیٹا تم نے ڈگری حاصل کرلی اب جاوٴ تعلیم حاصل کرو۔“

”ایک دن ہمارے خواب میں نیوٹن سگمنڈ فرائیڈ اور اسٹیفن ہاکنگ تینوں ایک ساتھ آ گئے۔ ہم تینوں کو ایک ساتھ دیکھ کر بوکھلا گئے۔ ہم نے دست بستہ ان سے عرض کیا کہ ہمارے خواب اور خواب گاہ کی جگہ تنگ ہے۔ آپ تینوں کو کہاں بٹھائیں؟“ ان میں سے دو نے یک زبان ہو کر کہا ”چلو جگہ تنگ ہے مگر ہمیں کیوں تنگ کر رہے ہو؟“

ہم نے عرض کیا ”ہم نے آپ کو کب تنگ کیا؟ ہمیں تو آپ کا نام بھی ٹھیک سے لینا نہیں آتا“ ۔ تینوں نے یک زبان ہو کر بولے ”یہ دونوں ڈاکٹر اور یہ دونوں سہیل ہمیں بڑا تنگ کر رہے ہیں۔ کیا ضرورت تھی انھیں فلسفے اور اس سے بھی زیادہ مذہب و نفسیات کو سائنس سے جوڑنے کی۔“ ہم نے ہاتھ جوڑ دیے۔ کہا: ”تشریف تو رکھیں۔ آپ کو چائے پلاتے ہیں“ ۔ بولے ”اپنے پاکستانی ارسطو کی بات کا بھرم رکھو اور چائے پینا پلانا کم کردو۔ کینیڈا میں ہو، پینے والے دیگر مشروب ڈھونڈو“ ۔

ہم نے کہا ”حضور! وہ دونوں سہیل آپ تینوں کو ہماری آج کی نسل میں زندہ کرنا چاہ رہے ہیں“ نیوٹن نے کہا ”پہلی بات تو یہ کہ ہمیں حضور نہ کہو ورنہ ہمارے زندہ ہونے سے پہلے تم مردہ پائے جاو ٴگے“ ہم نے بات گھمائی ”نیوٹن انکل! آپ کو پتہ ہے آپ کشش ثقل والے تھے اور ہم پاکستانی ٹھہرے کشش شغل والے۔ ویسے آپ کے ہاتھ میں آج سیب نہیں ہے؟“ نیوٹن نے سیب کی جگہ آنکھیں نکالیں اور بولے ”سیب استعارہ تھا۔ سیب کو الٹا پڑھنا سیکھو تاکہ تمھاری عقل کی بیس بنے“ ۔ فرائیڈ نے ہماری طرف اشارہ کر کے کہا ”یہ ابھی عقلی طور پر بچہ ہے“

ہم نے کہا ”فرائیڈ انکل ایسا نہ کہیں۔ آپ کی یاد میں ہم ہر تیسرے دن فرائیڈ چکن کھاتے ہیں اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ آپ تو بچوں کے بچپن کو بھی پہچان گئے تھے۔ صاف صاف بتلا دیا تھا کہ بچے بچپن ہی سے جنسی فینٹیسی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ آپ کی اسی تحقیق سے متاثر ہو کر ہماری شاعرہ پروین شاکر نے ایک شعر لکھا تھا“ ۔

جگنو کو دن میں پرکھنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے

اسٹیفن ہاکنگ اب تک خاموش تھے۔ ہم نے ان سے پوچھ لیا ”انکل ہاکنگ کتاب کیسی لگی؟“ زیر چشمہ مسکرائے، پھر اجرام فلکی کی جانب نگاہیں دوڑائیں اور بولے ”دونوں سہیل کی مشترکہ کاوش بہت اچھی ہے۔ سہیل زبیری خالد سہیل کا لڑکپن کا دوست ہے۔ چار سے زائد دہائیوں کے بعد دونوں ملے اور خالد سہیل نے اسے خطوط لکھنے پر آمادہ کر لیا۔ اسے کہنا اس ادبی جادوگر سے بچ کر رہے۔ ویسے بھی خالد سہیل تمھارا وہ واحد سائنٹیفک درویش ہے جو عورتوں کی ڈلیوری سے چلا تھا اور اپنی ڈلیوری میں افسانوں اور نظموں سے ہوتا ہوا اب سائنس اور فلسفے پر آ کر اٹک گیا ہے۔

ایک ہی کتاب میں سترویں صدی کے نیوٹن کو پکڑ لیا۔ پھر انیسویں صدی کے سگمنڈ فرائیڈ کو لے آیا اور بیسویں صدی کی میری وہیل چئیر کو بھی عزت بخش دی۔ اسے مذہب سے دور اور خواتین کے قریب رہنے کا فن خوب آتا ہے۔ سب کچھ باریکی سے کہہ جاتا ہے اور گالیاں دینے والے اس کی زلف اور دراز داڑھی کو دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ تم نے اس کے بارے میں دو جملے خوب لکھے تھے کہ خالد سہیل نے بال بچوں میں سے اپنے بالوں کی پرورش خوب کی اور حق مہر کے علاوہ ہر حق ادا کیا۔

میں تو آج کل اجرام فلکی میں اس کے لئے چاند سا چہرہ ڈھونڈ رہا ہوں۔ میری سائنسی دعا سے ایسی محبوبہ اسے جلد مل جائے گی۔ تم تو جانتے ہو میں نے بھی دو شادیاں کی تھیں“ ۔ ہم نے نیوٹن اور سگمنڈ فرائیڈ انکلز کو بھی ٹٹولا ”آپ دونوں کی کتاب کے بارے میں کیا رائے ہے“ فرائیڈ انکل بولے ”وہ تو میرا اور غالب کا کینیڈین ایڈیشن ہے۔ سوچ میری اور تحریر غالب کے خطوط کی“ ۔ نیوٹن انکل بولے ”مذہب نفسیات اور سائنس کا آپس کا میل ملاپ وہ بھی بغیر ڈاک ٹکٹ والے خطوط کے ذریعے، ایک نیا انداز ہے جو اس کتاب میں ملتا ہے۔ یہ کتاب انگریزی والی ایمیزون پر خوب بکے گی اور اردو ترجمہ مفت میں ملے، تو پاکستانی ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments