آواز دوست : تعارف و اہم شخصیات


آواز دوست مختار مسعود کی کتاب ہے جو پیشے کے اعتبار سے ایک بیوروکریٹ تھے۔ اس کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے حصہ اول ”مینار پاکستان“ کے عنوان سے اور حصہ دوئم ”قحط الرجال“ کے عنوان سے۔ اصناف ادب کے حوالے سے اس کتاب کو رپورتاژ میں شمار کیا جاتا ہے۔ رپورتاژ ایک صحافتی صنف ہے جسے بطور ادبی صنف صرف اردو ادب میں برتا گیا۔ لفظ Reportage انگریزی میں report کے ہم معنی ہے لیکن اگر اس میں ادبی اسلوب اور تخیل کی آمیزش اور خارج کے ساتھ داخل کو بیان کر دیا جائے تو یہ صحافت سے علیحدہ ہو کر ادبی صنف بن جاتی ہے۔ اردو ادب میں پہلا باقاعدہ رپورتاژ کرشن چندر نے ”پودے“ کے عنوان سے لکھا۔ یہ ایک ایسی ادبی صنف ہے جس میں چشم دید واقعات کو موضوع بنایا جاتا ہے لیکن ساتھ میں متخیلہ کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے۔ سنے سنائے واقعات پر لکھی گئی کوئی تحریر ناول، افسانہ یا ڈراما تو ہو سکتی ہے رپورتاژ نہیں۔

آواز دوست میں تاریخ کو موضوع بنایا گیا ہے جو کہ ان کے تاریخ کے گہرے مطالعے کا ثمر ہے۔ آواز دوست میں شامل پہلے مضمون ”مینار پاکستان“ میں انھوں نے تاریخ پر اچھی خاصی روشنی ڈالی ہے۔ ان کے اس مضمون کے بارے میں ملا واحدی نے کہا تھا کہ لفظ لفظ قابل داد ہے بعض فقرے لاجواب اور بعض صفحات داد سے بالاتر ہیں۔ مینار پاکستان کے بارے میں مصنف نے لکھا ہے کہ یہ واحد مینار ہے جو کسی قرار داد کی یاد میں تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کے بڑے میناروں بارے میں بھی مصنف نے اپنی کتاب میں تفصیلات پیش کی ہیں۔ مینار پاکستان اور دنیا بھر کے میناروں کے ذکر سے مختار مسعود کے تاریخی و تہذیبی نظریات کا پتا چلتا ہے کہ وہ تاریخ کو کتنی اہمیت دیتے ہیں اور ساتھ ہی وہ طنز و مزاح سے قاری کی دل چسپی کو قائم رکھتے ہیں۔

آواز دوست میں مصنف نے کامیاب انسانوں کے اوصاف بھی بیان کیے ہیں۔ انہوں نے جن لوگوں سے آٹو گراف لیے، جن سے ملے انہیں اپنی کتاب میں موضوع بنایا ہے۔ وہ باریک بینی سے ان کے اوصاف بیان کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ قدرت کا سارا نظام اصولوں کے تابع ہے اور بڑے انسان کسی بھی قوم کو انعام کے طور پر دیے جاتے ہیں۔ آواز دوست کے دوسرے مضمون ’قحط الرجال ”میں مختار مسعود جن اشخاص کو موضوع بناتے ہیں ان میں میاں نصیر احمد، محمد بہادر علی خان، ای ایم فاسٹر، ملا واحدی، مولانا حسرت موہانی، مولانا ظفر علی خان، نواب بھوپال، حمید اللہ، سروجنی نائیڈو، آرنلڈ ٹائن بی اور قائد اعظم محمد علی جناح کے نام واضح ہیں

محمد بہادر خان کے اوصاف کو موضوع بناتے ہوئے مختار مسعود لکھتے ہیں کہ ان کی طبیعت ساری عمر ایک ہی محور کے گرد گھومتی رہی وہ محور آقا دو جہاں حضرت محمد ص کی محبت کا تھا۔ بہادر خان نے اپنی قلیل زندگی میں طمع و لالچ کو اپنے قریب نہ پھٹکنے دیا۔ بہادر خان کی سیاسی بصیرت کا ذکر پڑھیں تو پتا چلتا ہے کہ وہ ایک باریک بیں انسان تھے۔ ان کی پیش گوئیاں ہمیشہ صحیح ثابت ہوتی تھیں۔

ای ایم فاسٹر کو موضوع تحریر بناتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک طویل جنگ کو بہت قریب سے دیکھنے کے باوجود ان کے چہرے پر کوئی ملال نہ تھا۔ وہ حالات سے مقابلہ کرنے والے تھے نہ کہ شکوہ کرنے والے۔ فاسٹر کا ادبی ذوق و شوق واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ تیس برس کی عمر میں آپ کے چار ناول منظر عام پر آ چکے تھے اور قناعت کا یہ عالم تھا کہ اگلے پندرہ برس میں صرف ایک ناول لکھا اور انہی ناولوں کی کمائی سے عمر بسر کی پیسہ کمانے کی خاطر کوئی شعبہ نہ اپنایا۔

فاسٹر کی شخصیت کا ایک اور اہم پہلو اسلامی دنیا کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھنا بھی تھا۔ انہوں نے جو تحریریں لکھی اور جس دنیا کے بارے میں لکھیں وہ اپنی معائب و محاسن سمیت اپنے عہد کی عکاس ہیں۔ ملا واحدی کے کی شخصیت بھی ”آواز دوست“ کا موضوع بنی ہے۔ مختار مسعود نے ملا واحدی کی شخصیت کے تین امتیازات بتائے ہیں عبارت، ادارت اور رفاقت۔ سر وجنی نائیڈو کو بھی اپنی کتاب کو موضوع بناتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان کی آواز مترنم، صاف اور بلند ہوتی تھی کہ سننے والے اس کے سحر میں مبتلا ہوئے بغیر نہ رہ سکتے تھے اور تقریر اس قدر مبالغہ آمیز ہوتی کہ فارسی قصائد کی یاد آ جاتی۔

اس کے علاوہ بھی ”آواز دوست“ میں بہت سی شخصیات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ جن سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف کی دل چسپی کے امور کیا ہیں اور وہ کن شخصیات کی حیات میں پناہ لیتے ہیں۔ ان اشخاص کے ذکر سے یہ گمان گزرتا ہے کہ آواز دوست ایک خاکوں کا مجموعہ ہے۔ ان اشخاص کے ذکر سے مختار مسعود کی شخصیت کا بھی علم ہوتا ہے کہ وہ قناعت پسندی، عشق رسول ص کو کس قدر اہمیت دیتے ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments