مقبولیت کا زعم: مستند ہے میرا فرمایا ہوا


سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا

شعر تو میر تقی میر کا ہے مگر اس کی ان دنوں عملی تصویر عمران خان ہیں۔ جو آگ اگلتے اور کہتے ہیں کہ میں بہت خطرناک ہوں۔ ان کی تقاریر اور خطابات گفتنی اور ناگفتنی سے بھرپور ہیں۔

خان بولتے ہیں اور بولتے ہی چلے جاتے ہیں۔ کبھی وہ کہتے ہیں کہ میرے خلاف سازش ہوئی۔ میرا پیوٹن سے ملنا انہیں اچھا نہیں لگا اس لیے مجھ سے حکومت چھین لی گئی۔ عوام اس لیے مجھ سے پیار کرتے ہیں کہ میں انہیں خود دار قوم بنانے آیا ہوں۔ جو میں کہہ رہا ہوں وہ بہرصورت ماننا پڑے گا۔ اس لیے کہ ”مستند ہے میرا فرمایا ہوا“ سوال تو مگر بنتا ہے کہ کبھی آپ ہی کہا کرتے تھے کہ تین چوہے میرے شکار کو نکلے میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اللہ نے میری دعا سن لی اور چور ڈاکو اسمبلی میں میرے خلاف تحریک عدم اعتماد لے آئے۔ مگر جب کوشش کے باوجود حکومت نہ بچا سکے تو سازش کی تھیوری گھڑ لی کہ مجھے عالمی لیڈر بننے سے روکا جا رہا ہے۔ خان صاحب نے سیاسی میدان کو کرکٹ کا میدان جانا تو ان کے ساتھی امور سیاست کو تاش کا کھیل سمجھتے رہے۔ اس لیے ہر چال الٹی ہی پڑتی رہی، ذوق کے الفاظ میں :

اس بساط پر ہم جیسے بد قمار
جو چال بھی چلے سو نہایت بری چلے

خان جی نے امر بالمعروف کا نعرہ لگا کر خود کو خیر کا مرکز گردانا۔ جب معاملات ریت کی طرح ہاتھ سے پھسلتے گئے تو بیانیہ گھڑنے کے لیے سفارتی سائفر کو پولیٹیکل سٹنٹ کے طور پر استعمال کیا جس میں بظاہر وہ کامیاب ہو گئے۔ ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں کہ آپ تو بائیس کروڑ میں سے دو کروڑ ووٹوں کے حامل ہیں۔ جنہیں اٹھتے بیٹھتے وہ چور ڈاکو کہتے ہیں انہیں بھی پاکستانیوں نے منتخب کیا ہے۔ کیا جمہوریت ہیرو ازم کا نام ہے؟ آپ اور آپ کے فالورز سے سوالات کریں تو جو اباً گالیوں سے تواضع کی جاتی ہے۔ ہمارا معاشرہ جذباتی ہے، جذبات سے کھیلنے کے فن میں خان صاحب طاق ہیں، جذبات عقل پر حاوی ہوں تو وہاں دلیل کا گزر نہیں ہوتا۔ ہماری ہیرو پرستی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے علم کا سرچشمہ کتاب نہیں تقریریں ہیں۔

امریکی سازش کا بیانیہ امریکہ میں لابنگ سے افادیت کھونے لگا تو عمران خان نے قاسم سوری کا اسلامی ٹچ فعال کر لیا۔ ان کا ہر خطاب لا الہ الا اللہ اور ایاک نعبدو کی تکرار کے ساتھ ان ملفوظات پر مبنی رہا۔

» اللہ نے اچھائی کا ساتھ دینے کا حکم دیا ہے اس لیے میرا ساتھ دو کیونکہ میں سچائی پر ہوں۔
» اللہ نے جس طرح اپنے نبی کو تیار کیا ویسے ہی مجھے بھی تیار کر رہا ہے (نعوذ باللہ)۔
»قرآن اللہ نے میرے جیسے کے لئے بتایا ہے کہ یہ حق پر ہے اس کا ساتھ دو ۔

»آج کل حالات ایسے ہیں کہ والد نون لیگ یا پیپلز پارٹی کے لیے محنت کر رہا ہے، گھر آتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ بیوی بچے تحریک انصاف میں شامل ہو گئے ہیں۔ ایسے لگ رہا ہے کہ جیسے پرانے زمانے میں میں جب میرے نبی نے تبلیغ کی اور لوگوں کو اسلام کی طرف لے کر آئے تو ایک وقت ایسا تھا کہ آدمی کہیں اور ہوتا اور گھر میں عورتیں اور نوجوان اسلام قبول کرلیتے تھے۔

»آپ نے ہمارے مخالف کو ووٹ دیا تو آپ نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی۔
، »قبر میں سوال ہو گا کہ آپ نے عمران خان کا ساتھ کیوں نہیں دیا؟
»جیسے نبیوں نے اللہ کی تبلیغ کی ایسے ہی آپ لوگوں نے گھر گھر جا کر میری تبلیغ کرنی ہے۔
»جس نے مجھ سے بغاوت کی اس نے شرک کیا۔

نواز شریف اور آصف علی زرداری الیکشن سے اس لئے بھاگ رہے ہیں کہ یہ نومبر میں اپنی مرضی کا آرمی چیف لگانا چاہتے ہیں۔

»ایک لاکھ 40 ہزار پیغمبر ہیں۔
»نیوٹرل تو جانور ہوتے ہیں۔
»پاکستان کی آبادی 1947 میں 40 کروڑ تھی۔ متوالے نے لقمہ دیا نہیں 40 لاکھ تھی۔
»موجودہ آرمی چیف جنرل باجوہ کو توسیع دی جائے۔

عمران خان مقبولیت کے زعم میں یہ لاف زنیاں کر رہے ہیں گھمنڈ کا یہ عالم ہے کہ وہ قانون کو خاطر میں لا رہے ہیں نہ اداروں کو ۔ انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے بھی کئی ایسے سیاست دان گزرے ہیں جنہیں عوام کی محبوبیت حاصل تھی۔ وہ مقبولیت ہی کے گھمنڈ میں اذیت ناک انجام سے دوچار ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو مقبول ترین لیڈر تھے۔ ان کی مقبولیت انہیں پھانسی سے نہ بچا سکی۔ جنرل ضیا الحق ایک دہائی تک ملک کے سیاہ و سفید کے مالک تھے۔

ان کی مقبولیت بھی ان کے ساتھ دفن ہو گئی۔

پرویز مشرف بھی اقتدار کے ایام میں کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے انہیں وردی بھی اتارنی پڑی اور اقتدار بھی نہ بچا سکے۔ آج وہ آخری وقت ملک میں گزارنے سے قاصر ہیں۔ تین بار کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو دو تہائی اکثریت پر ناز تھا، انہیں اقامہ پر وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھو نے پڑے۔ اقتدار سے بے دخلی کے وقت نواز شریف مقبولیت کی معراج پر تھے، جلسوں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوا کرتی تھی، اسلام آباد سے لاہور تک ان کا سفر جس عوامی سیلاب کے ساتھ ہوا، وہ تاریخ کا حصہ ہے لیکن یہ عوامی سیلاب انھیں دوبارہ اقتدار نہیں دلا سکا۔ الطاف حسین کہاں ہیں جن کے ایک اشارے پر اڑھائی کروڑ آبادی کا شہر کراچی بند اور لاکھوں افراد سڑکوں پر آ جایا کرتے تھے۔ انہیں لندن فرار ہونا پڑا اور آج ان کا نام لینا بھی جرم ہے۔

عمران خان عوامی مقبولیت کی ان عبرتناک مثالوں سے سبق حاصل کریں۔ عمران خان کا انداز بیان ریاست اور اداروں کو بلیک میل کرنے والا ہے۔ وہ مقبولیت کی آڑ میں جرائم کا این آر او چاہتے ہیں، عدلیہ اور اداروں کو دھمکانا ان کا معمول ہے۔ وہ اداروں پر دباؤ سے دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے خواہاں ہیں، وہ اس پر جذبذ ہیں کہ انہیں منصوبے کے مطابق دو ہزار اٹھائیس تک اقتدار میں کیوں نہیں رہنے دیا گیا؟ خان صاحب یاد رکھیں صرف عوامی مقبولیت کسی کو نہیں بچا پائی، ماضی کی مثالیں آپ کے سامنے ہیں۔

اس وقت ملک سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے دنیا پاکستان میں سیلاب پر پریشان ہے، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی پاکستان آ کر عالمی برادری کو سیلاب کے نتیجے میں تیس ارب ڈالر کے نقصان سے آگاہ کیا ہے، دنیا پاکستان کی مدد کو آ رہی ہے لیکن خان صاحب ایک طرف سیاسی جلسوں میں مصروف ہیں۔ اور دوسری جانب ان کے فالوورز انڈیا کی دکانوں پر بکنے والے برطانوی آٹے کے تھیلوں کی تصاویر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو ٹیگ کر کے امداد روکنے کے لئے پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ امداد کے منتظر سیلاب زدگان کے لئے اس سے بڑا دکھ کیا ہو گا کہ عوام کی مقبولیت کی دعوے دار جماعت کے کارکن مصیبت کے وقت عوام کو ریلیف سے محروم رکھنے کے لئے کوشاں ہوں۔ عوامی مقبولیت کے زعم کا شکار عمران خان ماضی کے سیاستدانوں کے انجام سے سبق سیکھیں اور غلط فیصلوں سے بچیں۔

عمران خان کے ان فرمودات اور رویے پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ
”کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی“

اب وہ نیا بیانیہ بنانے رہے ہیں کہ انہیں ٹیکنیکل ناک آؤٹ کیا جا رہا ہے۔ ماضی میں وہ مخالفین کو قانون کا سامنا کرنے کے بھاشن دیا کرتے تھے اپنی باری آنے پر قانون شکنی کو عمران خان اور ان کے فالوورز مقبولیت کا استحقاق گردان رہے ہیں۔ وہ دور نبوی کی مثالیں بھی دیتے ہیں کہ حضور ﷺ نے چوری کرنے والی خاتون کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا تھا۔ بدعنوانوں کے لیے کوئی معافی نہیں۔ لیکن خود توشہ خانہ، فارن فنڈنگ، مالم جبہ اور ہیلی کاپٹر کیس کی کرپشن کی تحقیقات پر یا حکم امتناع لئے بیٹھے ہیں یا تاخیری حربے استعمال کر رہے ہیں اور اب ٹیکنیکل ناک آؤٹ کی اصطلاح کی چھتری تلے اپنی بدعنوانیوں چھپانے کے خواہاں ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments