سر ڈھانپو ورنہ سر توڑ دوں گا


میرا سوال بہت سادہ ہے۔ مغرب میں حجاب پر امتیاز اور پابندی کو اسلامو فوبیا کا نام دیا جاتا ہے۔ حجاب کے نام پر مسلمان مرد جب مسلمان عورتوں کو قتل کرتے ہیں، اس کو کون سا فوبیا کہتے ہیں؟

ایرانی کرد، شناخت کی حامل نوجوان لڑکی مھسا امینی کو صرف اس لئے قتل کر دیا گیا کہ اس نے سر نہیں ڈھانپا ہوا تھا۔ اس کو ریاست کی قائم کردہ بدمعاش اخلاقی پولیس نے گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا۔ وہ بے ہوش ہوئی اور کومے میں جا کر دم توڑ دیا۔ تشدد کرنے والے پولیس اہلکاروں کی مردانگی اس قدر نحیف اور عقیدے کا درست نفاذ اس قدر اہم تھا کہ کمزور سمجھے جانے والی عورت کی تشدد کے دوران ناک تک کاٹ دی۔

بستر پر پڑی آخری سانسیں لیتی مھسا کا سر ڈھانپنے کا خیال تب کسی کو نہیں آیا کیونکہ ایک جیتی جاگتی، ہنستی کھیلتی، سیر و تفریح کرتی عورت کی خوشی اور راحت ہی ہے جو پدرسری نظام کے حلق میں چبھتی ہے۔

”دوپٹہ پہنو ورنہ میں تمھارا سر کاٹ دوں گا“
”سر ڈھانپو، نہیں تو اس سر کو اتار دوں گا“
”جو عورتیں حجاب نہیں کرتی، ان کو گولی سے اڑا دینا چاہیے“

یہ جملے ہمارے خاندان کے چند مرد بڑے رعب و جلال سے کم سن بچیوں کو کہا کرتے تھے جن میں میرا بھی شمار ہوتا تھا۔ ایسے الفاظ کم سن بچیوں کو کہنے کی توجیح صرف یہی بتائی جاتی کہ بچیوں میں ”حیا“ اور خوف پیدا ہو گا اور وہ چادر سے سر کو ڈھانپا کریں گی۔ جن معاشروں میں کم سن بچیوں کو پردہ کرانے کی ترغیب اور تربیت دی جاتی ہو، وہاں بچوں کے خلاف غیر اندراج شدہ جنسی تشدد کی کیا شرح ہو گی، اس کا اندازہ آپ خود کر لیجیے۔

حجاب کی ”محبت“ کا راگ جو مغرب کے مسلمان اس خطے کی مسلمان بچیوں اور لڑکیوں کو یوٹیوب اور فیس بک پر آ کر الاپتے ہیں، وہ کس قدر محبت ہے اس کا تعین ہم جیسی وہ لڑکیاں کر سکتی ہیں جن کو بچپن میں اپنے سر کے تن سے جدا ہونے کا ڈر تھا یا کہیں نازک سر پر کوئی بھاری بھرکم ہاتھ تھپڑ نہ مار دے۔ اس نام نہاد محبت کی تصویر مسھا امینی اور اس جیسی وہ تمام عورتیں اور بچیاں ہیں جو صرف اس کی وجہ سے ضربیں سہتی آئی ہیں۔ میں حجاب کے خلاف نہیں، مجھے ان مردوں سے اتنی ہی خار ہے جو اپنے نظریے کے مطابق حجابی لڑکیوں کو برا جانتے ہیں۔ ہمیں طاقت، عقیدے، رنگ، اور پیسے کے اس نظریے سے اختلاف ہے جس کی بھینٹ عورت چڑھائی جاتی ہے۔

پھر آپ کو وہ بل بورڈ تو یاد ہو گا جس میں پاکستانی عورتوں کو دھمکایا گیا تھا کہ ان کی عزت تب ہی کی جائے گی، اگر وہ حجاب لیں گی (وہ بھی جو ان کا مختص کردہ ہو گا) ۔ ہمارے شہروں کی دیواریں اور رکشوں پر آویزاں ہر تحریر ہمیں دھمکاتی ہی ہے۔

مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کہ میں کس جماعت میں پڑھتی تھی، ہاں اتنا یاد ہے کہ میں نے تب تک پانچویں پار نہیں کی تھی اور پانچویں میں میں نو سال کی تھی یعنی میں نو سال سے کم عمر تھی۔ نانی کے گھر سے باہر جب میں اپنی خالہ کے ساتھ چاہ میراں بازار جانے کو نکلی تو خاندان کے کسی مرد نے مجھے بڑے سخت لہجے میں سر پر دوپٹہ لینے کو کہا تھا۔ میں تب عورت مارچ سے وابستہ تھی نہ مجھے اس زمانہ کی کسی بھی حقوق نسواں تحریک کا علم تھا۔ مگر اس وقت بھی مجھے حاکمانہ انداز گفتگو پسند تھا نہ ہی یہ درست لگا کہ کوئی مجھے ایسا کیوں کہے۔ اس لئے جواب میں، میں نے بھی اس کو سر پر ٹوپی پہننے کو کہا اور چل دی۔

غیر ملک میں ہراسانی سے محفوظ چند ماہ گزارنے کے بعد جب پاکستان واپس آئی تو اگلے ہی روز یونیورسٹی جاتے ہوئے ایک آدمی نے مجھے اس کی موٹر سائیکل پر بیٹھنے کی دعوت دی کہ میں اس کے ساتھ اس کے گھر چلوں (نوجوان لڑکیوں کو اس نوعیت کی ہراسانی کا سامنا معمول کے مطابق رہتا ہے) اور تھوڑا سا ہی آگے چلنے پر ایک آدمی نے مجھے نہایت بدتمیزی سے سر ڈھانپنے کو کہا اور دفع ہو گیا۔ یاد رہے کہ ہوا چلنے سے میرا دوپٹہ سرک رہا تھا۔

یہ سب میرے لئے معمول کی بات نہیں رہا تھا کیونکہ مجھے ہراسانی کے بغیر رہنے کی عادت ہو گئی تھی۔ وطن لوٹتے ساتھ مجھے یاد دلایا گیا کہ میں اپنے وطن واپس لوٹ آئی ہوں اور کیوں لوٹ کر آئی ہوں۔

دوپٹے اور لباس کو لے کر یہ سب سے کم گھناؤنے واقعات کا بیان ہے۔ پاکستان میں سر ڈھانپنے کے نام پر معصوم بچیاں اور نوجوان لڑکیاں قتل کی جاتی رہی ہیں۔ ہاں یہ باتیں نشر نہیں ہوتی مگر سر ڈھانپنے کو لے کر جو تشدد ہے وہ رائج ہے۔ اکثر بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں طالبات جو عام طور پر سر پر آنچل نہ لیتی ہوں، کچھ ایسے مرد اساتذہ کے سامنے دوپٹہ لے لیتی ہیں کہ کہیں امتیاز کے باعث وہ ان کو سب کے سامنے ڈانٹ نہ دیں یا نمبر کم نہ لگائیں۔

”رابعہ جب گھر یا یونیورسٹی سے باہر نکلو تو دوپٹہ لے لیا کرو، اس لئے نہیں کہ اس تشدد پسند معاشرہ کے عقائد اور قواعد کو ہم تسلیم کرتے ہیں، بلکہ اس لئے کہ یہ غافل اور بدمعاش لوگ ہمارا وقت ضائع نہ کرے“۔ میرے ہم خیال دوست کا یہ مشورہ میرے لئے قابل احترام اور عقل مندانہ ہے کیونکہ عورت زندگی جیتی نہیں، زندہ رہنے کی کوشش کرتی ہے۔ جہاں دفاع کی کوشش ہو، وہ جنگ ہوتی ہے۔

پڑوسی ملک ایران میں خواتین پر لاٹھیاں برسانا اس لئے عام ہے کہ ریاست کی اخلاقی پولیس کو عورت کے مکمل نظر آنے والے بالوں سے خوف آتا ہے۔ کسی کو مرد کے بازاروں میں چلتے پھرتے ریپ کرنے والے جسم سے خوف نہیں آتا مگر عورت کے سیاہ و رنگین گیسو اخلاق کی پامالی کا باعث بنتے ہیں جن کو دیکھ کر وہاں کے مردوں اور ریاستی عقائد کو ایذا پہنچتا ہے کہ طاقت کا سرچشمہ کہیں ماند نہ پڑ جائے۔

ایرانی خواتین کی حجاب کے قانونی طور پر لاگو ہونے کے خلاف تحریک سنہ 2014 سے جاری ہے۔ حجاب مخالف اس تحریک کا مقصد ہرگز مرضی سے حجاب اوڑھنے والی خواتین سے حجاب اتروانا نہیں جبکہ یہ حجاب کو لازمی قرار دینے والے قوانین کے خلاف ہے جو انقلاب ایران کے بعد سے اب تک رائج ہے۔

مسھا امینی، ایک بائیس سالہ کرد شہری کو ریاستی پولیس نے صرف اس لئے زدوکوب کر کے قتل کیا کہ وہ حجاب نہیں کیے ہوئے تھیں۔ ایران میں حجاب قانون کی پابندی نہ کرنے والی خواتین کو سزائیں اور جرمانے ہوتے رہتے ہیں۔ ان خواتین کو پولیس اور قدامت پرست شہریوں سے ہراسانی بھی جھیلنی پڑتی ہے جو تشدد تک آ پہنچتی ہے۔ مھسا جو تہران میں سیر و تفریح کی غرض سے آئی تھی، اس کی پولیس تشدد زدہ لاش واپس جائے گی۔ اس کی موت کی وجہ صرف یہ رہی کہ مھسا کے سر کے بال نظر آرہے تھے۔ وہ بال جن کو دیکھ کر مردوں کو برا لگتا ہے اور اتنا برا لگتا ہے کہ عورت کی جان لے لیتے ہیں۔

سر ڈھانپنے کے مدعے پر مسھا دنیا اور اس خطے کی پہلی مسلمان لڑکی نہیں ہے جس کی جان لی گئی ہو۔ سر نہ ڈھانپنے والی اکثر لڑکیوں کو ان کے اپنے ہی سر اتارنے اور توڑنے کی دھمکی دے کر زبردستی حجاب پہناتے ہیں۔ بیٹی اور بہن کے جسم کو اچھے سے تاک کر ان کو دوپٹہ اور چادر کرنے کا بدتمیزی سے حکم بھی دیتے ہیں۔

ایک نہایت بدمعاش، بدکردار، بدکار اور پرتشدد شوہر جب اپنی بیوی کو ذرا برابر احتجاج اور شکایت کرنے پر پہلا طعنہ جو دیتا ہے وہ یہی ہوتا ہے کہ اس نے کبھی اس عورت پر چادر برقعہ کی پابندی نہیں لگائی تو یہ ہوتی کون ہے جو اس کے تشدد اور ظلم کو ظلم یا تشدد سمجھے۔ یہی اس خطے کا دستور ہے جو خالصتاً پدرسری انا اور طاقت میں مخلوط ہے۔

جب ہندوستانی مسلمان لڑکیاں حجاب کے لئے احتجاج کر رہی تھیں تب ایرانی لڑکیاں حجاب قانون کے نفاذ کے خلاف برابر کی برسر پیکار تھیں۔ مرد اور بیشتر عورتیں یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کسی انسان کو اس کی مرضی کے بغیر چلایا نہیں جا سکتا۔ زبردستی نہ حجاب اتارا جانا چاہیے نہ ہی زبردستی حجاب پہنانا چاہیے۔ دھونس سے انسان یا تو غلام بنتا ہے یا نفرت کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سنہ 2020 میں کی جانے والی تحقیق میں ثابت ہوا کہ پچاس ہزار نوجوان ایرانی شہریوں میں آدھے شہری مذہب کے دل سے منکر ہو چکے، 68 فیصد کا ماننا تھا کہ قانونی سازی اور مذہب کو جدا رکھنا چاہیے جبکہ بہتر فیصد شہری حجاب کے نفاذ کے خلاف تھے۔

ہمارے یہاں مغرب میں رہنے والی مسلمان عورت کے حجاب کے لئے تو تحریکیں چلیں گی مگر اپنے ملک میں تشدد سے جان گنوانے والی کے لئے کوئی دن مناتا ہے نہ سوگ۔ جب تک اس دنیا میں پدرشاہی اپنے خود ساختہ دستور اور عقائد کو عورت پر لاد لاد کر اپنی انا کو تسکین اور جیب کو فائدہ پہنچاتی رہے گی تب تک حجاب پہننے اور نہ پہننے والی دونوں عورتوں کی جان خطرے میں اور عورت مسلسل ہراساں ہوتی رہے گی۔ اس دنیا میں حجاب پہننے کی آزادی اور توقیر ہونی چاہیے تو حجاب نہ پہننے کی بھی اتنی ہی آزادی اور وقار ہونا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments