مخنث


زوبیہ بڑی کم گو، خاموش طبع سی بچی تھی۔ وہ ہر وقت ڈری سہمی رہتی اس کا کوئی دوست نہیں تھا سوائے حسن کے، حسن کی بھی زوبیہ کے علاوہ کسی سے دوستی نہیں تھی، وہ اکٹھے سکول جاتے اور ایک ہی اکیڈمی میں پڑھتے تھے۔ زوبیہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی اور حسن تین بہنوں کا اکلوتا بھائی دونوں کی پرورش بڑے پیار اور خاص توجہ اور دھیان سے کی جا رہی تھی۔ زوبیہ کے والد فاروق اور حسن کے والد احمر دونوں بزنس پارٹنر تھے۔ احمر اور نجمہ بیگم کی تین بیٹیاں تھیں ان کو بیٹے کی بڑی خواہش تھی وہ چاہتے تھے کہ ان کی بیٹیوں کا کوئی بھائی بھی ہو آخر کار ان کے ہاں ایک اور اولاد ہوئی۔

لیڈی ڈاکٹر کافی پریشان لگ رہی تھی باہر احمر میاں کب سے انتظار میں کھڑے تھے، کہ کب ڈاکٹر باہر آ کر ان کو بیٹے کی خوش خبری سنائے گی، مگر شاید قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ لیڈی ڈاکٹر باہر آئی اور یخ بستہ سے لہجے میں کہنے لگی! احمر میاں تمہارے ہاں لڑکا پیدا ہوا ہے۔ مگر

مگر کیا ڈاکٹر صاحبہ؟
تمہارے ہاں لڑکا پیدا ہوا ہے مگر وہ مخنث ہے۔
کک، کیا کہہ رہی ہیں مخنث؟

احمر میاں کا سر گھومنے لگا، انہیں لگا کہ وہ زمین پر گر جائیں گے انہوں نے دیوار کا سہارا لے کر خود کو گرنے سے روکا۔ احمر نے یہ راز صرف اپنی بیوی کو بتایا اور دونوں میاں بیوی نے یہ راز اپنے سینے میں ہمیشہ کے لیے دفن کر لیا۔ نجمہ بیگم نے ایک ہی دفعہ دل کھول کر رو لیا اور پھر ایک لمبی چپ سادھ لی۔ ایک دن وہ چپ چاپ لیٹی کمرے کی چھت کو گھور رہیں تھیں کہ اچانک سے رونے لگیں روتے روتے کہنے لگیں احمر! کیا آپ جانتے ہیں ہمارے معاشرے میں رب کی اس تخلیق کا کیا مقام و مرتبہ ہے؟ معاشرہ ان کو تسلیم کرنے کوہی تیار نہیں ہوتا، ہمارے سماج کے نزدیک خواجہ سراؤں کا کام صرف شادیوں میں ناچنا اور بھیک مانگنا ہے۔ لوگ ان کو زنانہ، چھکا، ہیجڑا کہہ کر پکارتے ہیں ان کا مذاق بناتے ہیں سڑک پر چلتے خواجہ سراؤں کو پتھر مارتے ہیں۔ ان کی کوئی شناخت نہیں ہوتی معاشرہ ان کو ان کی شناخت دینے سے قاصر ہے۔ کسی سڑک کے کنارے یہ ہی ذی روح مخلوق کسی مہلک بیماری سے تڑپ تڑپ کر مر جاتی ہے مگر کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ مسیحائی کا دعویٰ کرنے والے بھی جنس میں فرق کر نے لگ جاتے ہیں۔ ہمارا مہذب اور اخلاقیات کا راگ الاپنے والا معاشرہ ان لوگوں کو فحاشی پھیلانے کا بڑا ذریعہ سمجھتا ہے۔ لوگوں نے ہر دروازہ اس مظلوم مخلوق پر بند کر رکھا ہے۔

بس کر دو نجمہ بیگم، بس کر دو، اب ایک اور لفظ مزید مت کہنا، میرا کلیجہ پھٹ جائے گا حسن ہماری اولاد ہے میرا بیٹا ہے کیا میں اپنے بیٹے کے ساتھ ایسا جانوروں سے بھی بدتر سلوک کروں گا یا معاشرے کو اس سلوک کی اجازت دوں گا؟ ہر گز نہیں، میں بلکہ نجمہ ہم دونوں مل کر اپنے بچے کو اعلی سے اعلی تعلیم دلوائیں گے اس کی بہت اچھی تربیت کریں گے۔ تم دیکھنا ہمارا حسن معاشرے میں اپنا ایک مقام اپنا ایک نام پیدا کرے گا۔

پھر ان دونوں میاں بیوی نے حسن کی تربیت بہت شاندار طریقے سے کی۔ دن گزرتے گئے اور حسن بڑا ہوتا گیا۔ وہ سکول سے کالج اور کالج سے یونیورسٹی پہنچ چکا تھا۔ زوبیہ بھی اس کے ساتھ ساتھ رہی۔ حسن اور زوبیہ یونیورسٹی میں ایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے دونوں کا آج بھی ایک دوسرے کے علاوہ کوئی دوست نہ تھا۔ وہ دنوں اپنی کلاس کے ذہین طالبعلم تھے اور دونوں ایک دوسرے کو پسند بھی کرتے تھے۔ یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد حسن نے اپنے ماں باپ کے سر پر بم پھوڑا اور کہنے لگا! ماما میں زوبیہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔

حسن تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے بیٹا زوبیہ سے تمہاری شادی نہیں ہو سکتی۔ کیوں نہیں ہو سکتی ماما؟ کیوں کہ تم مخن۔ ۔ ۔

او پلیز ماما بس کر دیں، پوری زندگی آپ کے منہ سے اپنے لیے یہ لفظ سنے ہیں کہ یہ مت کرو کیوں کہ تم مخنث ہو وہ مت کرو کیوں کہ تم مخنث ہو۔ مگر اب آپ کی ایک بات نہیں سنوں گا اور زوبیہ سے شادی کر کے رہوں گا۔

اور پھر نجمہ بیگم خود غرض بن گئیں انھوں نے اپنے مخنث بیٹے کی شادی زوبیہ سے کر دی۔ اب احمر کو فاروق کے ساتھ اپنی سالوں کی دوستی خطرے میں نظر آنے لگی نجمہ کو بس ایک ہی فکر ستاتی کہ زوبیہ نے اپنے والدین کو حسن کے بارے میں بتا دیا تو کیا ہو گا۔ فاروق کہے گا کہ ہم نے دھوکے سے اس کی بیٹی کی زندگی برباد کر دی۔ یہ ہی حال احمر میاں کا بھی تھا۔ ایسے ہی دن گزرتے چلے گئے دونوں میاں بیوی کے دن رات سخت عذاب میں گزر رہے تھے کہ ایک دن اچانک فاروق اور اس کی بیوی آ گئے۔

ان کو دیکھ کر نجمہ بیگم کو اپنا دم نکلتا محسوس ہوا۔ نجمہ کا زردی مائل چہرہ دیکھ کر فاروق کہنے لگا بھابھی احمر، زوبیہ اور حسن کو بلائیں ہم کوئی ضروری بات کرنے آئے ہیں۔ اور کچھ ہی دیر بعد وہ سب سر جھکائے ڈرائنگ روم میں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے تھے۔ فاروق نے بات شروع کرنے میں پہل کی کہنے لگے احمر اور نجمہ ہم نے آپ لوگوں سے ایک بہت بڑی بات چھپائی ہے ہم لوگوں کو معاف کردو ہم لوگوں نے آپ لوگوں کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔ اس پر احمر نے کہا دھوکہ، کون سا دھوکہ فاروق؟

احمر ہماری بیٹی زوبیہ مخنث ہے ہم نے یہ بات آپ لوگوں سے چھپائی ہمیں معاف کر دو پلیز۔
کیا کہا مخنث؟ یہ سنتے ہی احمر اور نجمہ کے منہ حیرت سے کھل گئے۔

خنسا سعید
Latest posts by خنسا سعید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments