یونس وریام کا فن و شخصیت


Dr Shahid M shahid

فاضل دوست یونس وریام شہر لاہور کا باسی ہے۔ اس کا ادب کے ساتھ والہانہ لگاؤ ہے۔ میری ان کے ساتھ کئی رسمی اور غیر رسمی ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ ہمیشہ خلوص اور محبت سے ملیں ہیں۔ جہاں ان کی شخصیت میں علم دوستی ہے وہاں ملنساری کا جذبہ بھی پنہاں ہے۔ اگر فطرت میں محبت اور خوشی کا عنصر ہو تو ادب دوستی کا حق ادا ہوتا ہے۔ جو لوگ مذکورہ صفات سے جان چھڑاتے ہیں وہ اکثر تنہا رہ جاتے ہیں۔ مگر یونس وریام نے اس سلسلے میں ہمیشہ اپنے قد کو بلند رکھا ہے۔ ادب کا روگ ہر کوئی اپنی فطرت میں نہیں پالتا اور نہ اس کی پرورش کرتا ہے۔ کیونکہ ہر کام محنت لگن اور جستجو سے پایا تکمیل تک پہنچتا ہے۔ کیونکہ یہ بات یقین کامل ہے کہ کسی بھی کام میں جب تک مسلسل ریاضت نہ کی جائے وہ پھل دار ثابت نہیں ہوتا ہے۔

ادبی میدان میں یونس وریام کی شخصیت کئی خصوصیات کی حامل ہے۔ جہاں وہ عمدہ شاعر اور نثر نگار ہیں۔ وہاں وہ کالم نگار، سفر نامہ نگار بھی ہیں۔ اردو پنجابی زبان میں لکھتے ہیں۔ شعر و سخن سے والہانہ لگاؤ نے انہیں بلند مقام عطا کیا ہے۔ پڑھتے اور لکھتے بھی ہیں۔ ادب کے ساتھ کئی عشروں سے وابستگی ہے۔

میرے علم کے مطابق اب تک ان کی چار کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔
1۔ سٹ وچھوڑے دی (پنجابی شاعری)
2۔ چن سورج تے تارے ( اردو، پنجابی گیت )
3۔ گڈ بائے لنکا وی ( سفرنامہ )
4۔ ٹھہرو چلے جانا ( اردو شاعری)

کائنات قدرت کا خوبصورت تنوع ہے۔ فطری آگاہی اپنے اندر بہت سے پیغام رکھتی ہے۔ ہر پیغام کی اپنی سمت اور کرشمے ہیں۔ کون کس سمت سفر کرتا ہے یہ ہر انسان کی اپنی قوت فیصلہ ہے۔ البتہ بہتر اور فیض اسی فیصلے سے ملتا ہے جو استعداد قبولیت سے اثر پذیری پیدا کرے۔ قدرت کے کاموں کی تعریف و توصیف نہ قابل بیان کام ہے۔ ہمارے الفاظ شاید اس کے کاموں کی اس طرح مدح سرائی نہ کر سکیں جیسے قدرت کاملہ نے کائنات کا ایک مربوط نظام تخلیق کیا ہے۔

خدا کی ہر نعمت قابل رشک ہے جسے دیکھنے کے بعد رشک و تحسین کیا جاتا ہے۔ یقیناً اس کی بزرگی اور وڈیائی اتم بدرجہ ہے۔ میرے نزدیک تخلیق سے مثبت سوچ کا گہرا رشتہ ہے۔ اسے پروان چڑھانے کے لئے سرشت میں فطری آگاہی، دلی اطمینان، محبت و خوشی، زبان کی شگفتگی اور قلمی توانائی کا جذبہ تخلیق کو جنم دیتا ہے۔ کیونکہ تخیل جتنا زیادہ بلند پرواز ہو گا اسے اتنی ہی زیادہ پذیرائی ملے گی۔ اسے تخلیقی تحقیقی اور تنقیدی طور پر پرکھا جائے گا۔

خدا کائنات کے ذریعے ہم سے ہم کلام ہوتا ہے۔ جبکہ شاعر اور ادیب اپنے کلام کی بابت تخلیقی فن پاروں کی بدولت اپنی آواز قارئین تک پہنچاتا ہے۔ پھر فیصلہ عوام الناس کی عدالت میں چلا جاتا ہے۔ پسندیدگی اور ناپسندیدگی کا اظہار مطالعہ کے بعد کیا جاتا ہے۔ البتہ دنیا میں کسی کو شہرت کے پر بہت جلد لگ جاتے ہیں اور کچھ کو پھلنے پھولنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ ہر انسان کے پاس پرکھ کا پیمانہ فرق ہے۔ البتہ ایک شاعر یا ادیب کو جو چیز ممتاز کرتی ہے وہ اس کا کنٹریبیوشن ہے جو اسے تخلیقی میدان میں کھڑا کرتا ہے۔

مسیحی تخلیق کاروں میں یونس وریام کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ان کے والہانہ لگاؤ نے انہیں عزت مقام اور شہرت عطا کی ہے۔ میرے مطالعہ میں ان کی ساری کتب ہیں۔ لیکن آج میں جس کتاب پر بات کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ وہ ان کا شعری مجموعہ ”ٹھہرو چلے جانا“ ہے۔ جس میں غزلیں نظمیں گیت اور ملی نغمے شامل ہیں۔ بلاشبہ کتاب اپنے نام و عرفان میں باکمال ہے۔ جس میں محبت انتظار اور دوستی کا پیغام ہے۔ فاضل دوست نے اپنی شاعری کے ذریعے اس بات کا پرخلوص طریقے سے جواب دیا ہے کہ زندگی نعمت خداوندی ہے۔ ہر وقت اپنے رب کا شکر کرو۔ اسے غنیمت جانو۔ ایک دوسرے سے محبت رکھو۔ انتظار کی عادت ڈالو۔ خلوص سے ایک دوسرے سے باتیں کرو۔ کیونکہ اسی سے باتوں اور یادوں کا گھر تعمیر ہوتا ہے۔ وہ اپنی شاعری میں صبح شام کا ذکر کرتے ہیں۔ کبھی وہ چاہت کا دیا جلاتے ہیں اور اور کبھی محبت سے دوسروں کی راہ دیکھتے ہیں۔

بے شمار موضوعات ہیں جو ان کے احساس و تخیل کے متعلق آگاہی فراہم کرتے ہیں۔ چند موضوعات میں حمد، ہاتھ، خاموشی، سورج، موسم، چاند، پتھر، سمندر، ماں، باپ ہیں۔ ان پر جو باتیں منکشف ہوئی ہیں انہوں نے بڑی دلجمعی اور عرق ریزی سے صفحہ قرطاس پر بکھیرا ہے۔

مجھے ان کے کلام میں ندرت، ہمہ گیری، سچائی، رشتوں کا تقدس، وطن سے محبت، اشاروں سے باتیں، دکھ درد، بادلوں کا برسنا، مسافروں کی منزل، ماں کی ممتا، باپ کی شفقت، بھائی چارے کی فضا اور سیاحت و سیاست کے مناظر پڑھنے کو ملے ہیں۔ فاضل دوست نے اپنے خیالات کو شعر و سخن کی زبان دے کر اپنے نظریات سے آگاہ کیا ہے۔

ان کی نظم کا ایک ٹکڑا قارئین کے مطالعہ کی نذر کرتا ہوں۔
ڈھلتا سورج دیکھ کر
میرے شہر کے لوگو!
کیوں اداس ہوتے ہو
بے بس انسانو!
کل بھی سورج نکلے گا
جانے ہم کہاں ہوں گے
جاناں ہم نہیں ہوں گے

بلاشبہ یونس وریام کی شاعری تاثراتی اہمیت کی حامل ہے۔ جہاں انہوں نے کائناتی موضوعات پر طبع آزمائی کی ہے۔ وہاں دیگر موضوعات بھی اپنی آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔ زندگی کے مختلف موضوعات پر قلم اٹھاتے ہیں۔ اس میں اپنا نظریہ فکر بیان کر دیتے ہیں۔ ظاہر ہے دوسروں تک اپنا نظریہ بیان کرنے کے لیے قلم بہترین ذریعہ ہے جہاں واقفیت اور آگاہی کا دروازہ کھلتا ہے۔ اسی طرح انسانی زندگی ایک سفر ہے اس سفر میں مشکلات کے کھڈے ہیں۔ انسان ان کھڈوں کو عبور کر کے اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔ موصوف سفرنامہ پر بھی قلم اٹھاتے ہیں۔ ایک سفر نامہ با عنوان ”گڈ بائے لنکاوی“ لکھ چکے ہیں۔ جسے ادبی حلقوں میں عزت کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔

فاضل دوست نے ”ٹھہرو چلے جانا“ میں احساس اور محبت کی روح کو پھونکا ہے تاکہ ہر شخص اپنی زندگی پر سوچ بچار کرے۔ میں یونس وریام صاحب کو ”ٹھہرو چلے جانا“ کی اشاعت پر خلوص دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

خدائے عزوجل سے دعا گو ہوں خدا انہیں علم و ادب کے میدان میں مزید ترقی بخشے۔ وہ اپنی زیر طبع شدہ کتب کو جلد از جلد چھپوا کر اپنے قارئین تک پہنچائیں تاکہ انہیں ادبی حلقوں میں اور زیادہ عزت و وقار کی نگاہ سے دیکھا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments