خبردار! ٹرانس جینڈر کا عذاب نازل ہونے والا ہے


چار سال قبل ٹرانس جینڈر کے حوالے سے ایک بل پاس ہوا تھا۔ جس پر جماعت اسلامی کے ایک سینیٹر مشتاق نے اب اس وقت طوفان اٹھا دیا اور اس پر وہ طبقات عذاب الٰہی کے مزید قائل ہو گئے جو موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب آنے والے سیلاب کو ہماری شامت اعمال کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کو دیر سے یہ بات سمجھ آئی لیکن سمجھ تو آ گئی۔ پانچ سال تک کے پی کے میں بصد سامان رسوائی عمران حکومت کا ساتھ دینے کے بعد جماعت نے اپنے انتخابی نشان ترازو کو جھاڑ پونچھ کر نکالا ہے، دیکھا تک نہیں کہ پانچ سال کی مٹی کیچڑ گرد و غبار نے دونوں پلڑے متوازن بھی رہنے دیے ہیں یا نہیں۔

البتہ یہ دعویٰ کر دیا کہ اب مسائل کا حل صرف جماعت اسلامی کے پاس ہے۔ سینیٹر مشتاق وہ حل ٹرانس جینڈر بل کی قبر کشائی سے نکال لائے اور شیریں مزاری جس نے بجا طور پر اس بل کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی تھی اب وہ اور ان کی جماعت تحریک انصاف اسے دوسروں کے سر منڈھ کر خادم حسین رضوی کی بچی کھچی باقیات کو اشتعال دلا کر کسی نئے دھرنے پر اکسا نے کی کوشش کر رہے ہیں، وہی خادم حسین رضوی جن کے پہلے دھرنے کے بارے میں جسٹس فائز عیسیٰ کا تحریری فیصلہ موجود ہے اور دوسرے دھرنے کے موقع پر جب خادم حسین رضوی نے کہا تھا کہ اگر ہمارے مطالبات نہ مانے گئے تو میں بتا دوں گا کہ ہمیں کس نے دھرنا دینے کو کہا تھا۔

پھر خادم حسین مر گئے، ٹی ایل پی کالعدم قرار پائی، کچھ لوگوں نے بیچ میں پڑ کر ٹی ایل پی اور حکومت میں ایک اور معاہدہ کرا دیا خادم حسین رضوی کے وارث سعد رضوی نے دھرنا ختم کر دیا اور حکومت نے ٹی ایل پی کو عدم سے وجود عطا کر دیا، ساتھ میں ایک اور مہربانی فرمائی اور ٹی ایل پی کو انتخابی سیاست میں حصہ دینے کا وعدہ بھی کر لیا۔ اب جب بھی ٹی ایل پی کو دو سیٹیں مل گئیں وہ کسی بڑی جماعت سے سودا بازی کر کے شریک اقتدار ہو جائے گی۔ جماعت اسلامی ٹرانس جینڈر بل کا مسئلہ اکھاڑ لائی اور ٹی ایل پی کو للکارا جا رہا ہے۔ کہ کب دھرنا دو گے۔

ٹرانس جینڈر پر جناب محمد حنیف اور جناب وجاہت مسعود نے بھی اپنے کالموں میں روشنی ڈالی ہے۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ اس موضوع سے دامن بچا بچا کر ہم کب تک رہ سکیں گے میں اس کے ان تمام پہلوؤں کو سامنے لانا چاہتا ہوں۔ جنھیں سامنے لانا شاید گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔ اگر میرا ایڈیٹر سمجھے کہ اس سے فحاشی پھیلتی ہے یا اس سے معاشرے کی اخلاقیت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں تو انھیں بے رحمانہ ایڈیٹنگ کی اجازت دینا میرا منصب ہی نہیں ایڈیٹر کا حق ہے۔ وہ چاہیں تو تو پورا مضمون ناقابل اشاعت قرار دے دیں۔

تمہید کافی طویل ہو گئی ہے اور میں موضوع کے اتنے پہلوؤں پر لکھنا چاہتا ہوں کہ مجھ سے ترتیب پر قابو رکھنا کافی دشوار ہو گا۔ جب ٹرانس جینڈر بل کے حوالے سے سوشل میڈیا پر بات چلی تو ٹویٹر پر ایک صاحب نے لکھا ”ہمیں اس کا سخت نوٹس لینا چاہیے یہ کفر اور اسلام کا معاملہ ہے“ ۔ میں نے اسے جواب دیا کہ یہ گناہ ثواب کا مسئلہ تو ہو سکتا ہے کفر اور اسلام کا مسئلہ نہیں ہے۔ ان صاحب نے میرے جواب کو پوسٹ کر دیا لیکن کسی نے بھی اس پر بحث نہیں چھیڑی، یہاں ایک وضاحت کردی جائے کہ فرقہ خارجیہ کے سوا کوئی دوسرا فرقہ گناہ کو کفر نہیں سمجھتا۔

کفر اور اسلام اور گناہ کے حوالے سے بات کرنے والوں کا خیال ہے کہ اس سے لواطت کا دروازہ کھل جائے گا۔ وہ اس پر ذرا بھی دھیان نہیں دیتے کہ اس بل سے ٹرانس جینڈرز کو انسان کی طرح جینے کا حق دیا گیا ہے۔ میرے خیال میں ٹرانس جینڈر کی تھوڑی سی وضاحت بہت سے قارئین کے لئے مفید ہوگی۔ پیدائش کے وقت ہر بچے کی جنس اس کے خدو خال اور جنسی اعضاء کے حوالے سے پہچانی جاتی ہے ماں باپ اسے مذکر یا مؤنث قرار دے کر اس کا نام رکھ دیتے ہیں اور پھر اسے یہی حیثیت برقرار رکھنا پڑتی ہے۔

لیکن پیدائشی طور پر مرد یا عورت کے خد و خال کے برعکس ایسے فرد میں متضاد احساسات اور جذبات بھی پائے جا سکتے ہیں۔ ہم جو قدرت پر بہت مضبوط ایمان رکھتے ہیں اور کسی بڑے سے بڑے حادثے اور اپنی غلطیوں کو اللہ کی مرضی اور اس کی قدرت قرار دے کر آگے بڑھ جاتے ہیں اس جنسی الجھاؤ کو اللہ کی قدرت اور اللہ کی مرضی جان کر قبول نہیں کرتے۔ ایسے بچے کو ماں باپ مار پیٹ کر مرد بنائے رکھنے پر بضد رہتے ہیں۔ میں خود ایسے مظلوم افراد پر ڈھائے جانے والے مظالم کا گواہ ہوں۔

ایک نہیں کئی ایسے لوگ جو خصوصاً بھائیوں کی مار پیٹ کا نشانہ بنتے ہیں۔ محلے کے اوباش کبھی انہیں ڈرا دھمکا کر کبھی مار پیٹ سے تحفظ دے کر جنسی استحصال کا نشانہ بناتے ہیں۔ وہ با امر مجبوری اسی زندگی کے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں، یا گھروں سے بھاگ کر ہیجڑوں کی ٹولی میں جا ملتے ہیں۔ اس طرح مارپیٹ سے نجات کے ساتھ ساتھ روزی روٹی کا مسئلہ بھی حل ہوجاتا ہے۔ اس طرح وہ ایک گناہ آلود زندگی گزارنے لگتے ہیں جو اکثر انھوں نے ارادی طور پر اختیار نہیں کی ہوتی۔

اس زندگی میں بھی انھیں تحفظ نصیب نہیں ہوتا معاشرے کا ایک طبقہ ان کو جنسی تسکین کا آلہ سمجھتا ہے اور زور زبردستی اور زر سے ان سے جنسی تسکین حاصل کرتا ہے۔ بعض اوقات جنس فروش خواتین کی طرح یہ نیم مرد بھی اسی زندگی کو اپنی قسمت سمجھ کر قبول کرلیتے ہیں اور کبھی مار پیٹ کر گھر سے نکالنے والے ماں باپ بہن بھائیوں کی کفالت کے لئے بھی اپنے آپ کو سربازار نیلام کرنا پڑتا ہے۔ معاشرے کا ایک اور طبقہ انھیں جینے کا حق تک نہیں دینا چاہتا ان کی نظر میں یہ لوگ چلتی پھرتی گناہوں کی پوٹ ہیں جنھیں جہاں موقع ملے موت کے گھاٹ اتار کر معاشرے کو اس برائی سے پاک کر دینا چاہیے۔ یہ ان دو انتہاؤں کے بیچ زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

انھیں ایک برائی سمجھنے والے سمجھتے ہیں کہ ان کی وجہ سے معاشرے میں میں لواطت کو فروغ ملتا ہے۔ حالاں کہ لواطت اور نسوار جو کبھی خیبر پختونخوا (تب کے سرحد) سے منسوب کی جاتی تھی اب سارے پنجاب میں وہاں سے کہیں زیادہ پائی جاتی ہے۔ لاہور میں چائے خانوں ( جنھیں ہوٹل یا چائے کے ہوٹل کہا جاتا ہے ) ایک تو بچہ مزدوری کے گڑھ ہیں دوسرے ہوٹل کا ”استاد“ ان بچوں کے جنسی استحصال کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ یہ بات سنی سنائی نہیں خود میرا مشاہدہ ہے۔ میں واقعات بیان کر کے اس تحریر کو بیمار ذہنوں کی لذت کشی کا سامان نہیں بنانا چاہتا۔ لیکن میں پوری ذمہ داری سے اپنے ذاتی مشاہدے کی بنا پر لکھ رہا ہوں کہ نسوار اور لواطت اس وقت پنجاب میں سابق سرحد سے سے کہیں زیادہ ہے۔ مجھے دوسرے صوبوں کا علم نہیں۔

لواطت ایک غلط اصطلاح ہے۔ مرد سے مرد کی رغبت قوم لوط میں پائی جاتی تھی۔ لوط علیہ السلام پیغمبر تھے اور دوسرے پیغمبروں کی طرح اپنی قوم کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحدانیت کی طرف بلاتے تھے اور اور اس قبیح حرکت سے بھی منع فرماتے تھے جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے لیکن، اس قبیح فعل کو ایک پیغمبر سے منسوب کرنا سراسر نا انصافی بلکہ گناہ ہو سکتا ہے۔

جو لوگ لوطیوں کو سزائیں دینا چاہتے ہیں، شوق سے سے سزائیں دے لیں لیکن محض کسی کو ادھوری جنس کا حامل دیکھ کر سزا نہیں دی جا سکتی۔قرآن میں زنا کی سزا ہے اور عہد نبوی ﷺ میں اس سے مختلف سزا کا بیان بھی ملتا ہے تاہم یہ مجرم کے اعتراف گناہ کی صورت میں دی گئی تھی۔ فقہا ء نے زنا کی سزا کے لئے چار عاقل بالغ چشم دید گواہوں کی جو شرط لگائی ہے اور اس پر یہ بھی کہ انھوں نے جنسی اعضاء کا حقیقی دخول کا مشاہدہ کیا ہو تو ایسے چار گواہ اگر زنا کے لئے نہیں ملیں گے تو لوطیوں کو سزا دینے کے لئے کہاں سے سے لائیں گے۔

میں کوئی فقہی اور مذہبی بحث نہیں چھیڑنا چاہتا البتہ کسی کو شوق ہو تو میں اس کے لئے بھی حاضر ہوں۔ ہاں میں ان لوگوں کو جواب دینا چاہتا تھا جو فوراً کہہ دیتے ہیں انھیں حقوق نہیں شرعی سزائیں دیں انھیں سنگ سار کریں۔ اگر ہم کوٹھے پر جسم فروشی کے لئے بیٹھی ہوئی ساری کی ساری جسم فروش عورتوں کو سنگ سار نہیں کرسکے تو سارے کے سارے ٹرانس جینڈرز کو لوطی قرار دے کر کیسے سنگ سار کیا جا سکتا ہے؟

ٹرانس جینڈر بل کے مطابق ہر شخص ( ٹرانس جینڈر) کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی جنس کا تعین کرے۔ اس کے ماں باپ جو اس پر تھوپ دیں وہ لازمی طور پر اس جنس کے تحت نہ پہچانا جائے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض ٹرانس جینڈر بچے اگر مار پیٹ کے بعد بھی گھر سے نہیں نکالے گئے تو ماں باپ نے زبردستی ان کی شادی کسی قسمت جلی سے کرا دی اب یا وہ عورت زندگی بھر جلتی کڑھتی رہے یا گناہ کے راستے پر نکل پڑے یا پھر طلاق لے لے، تینوں طریقوں میں اس کی رسوائی بھی ہے اور گناہ بھی تو اگر ٹرانس جینڈر کو یہ اختیار مل جائے کہ وہ اپنی جنس کا تعین کر کے کسی عورت کی زندگی برباد کرنے سے باز رہے تو اس میں کیسا کفر اسلام اور کیا گناہ ہے؟

اور اس کی جنس کے تعین کے لئے کسی میڈیکل بورڈ کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں ہونا چاہیے۔ کسی مرد کو مرد کہلانے اور کسی عورت کو اگر عورت قرار پانے کے لئے کسی میڈیکل بورڈ کی حاجت نہیں تو کسی ٹرانس جینڈر پر یہ پابندی کیوں لگائی جائے۔ جنس کا احساس اندر کی بات ہے اور احساس کو کوئی میڈیکل بورڈ نہیں ماپ سکتا۔ آخر کسی ٹرانس جینڈر کا اپنے اندر کے احساس کے تحت اپنے لئے جنس کے تعین سے معاشرے میں کیا خرابی پیدا ہوتی ہے؟

اگر ہوسٹلوں اور گھروں میں لڑکے مل کر رہ سکتے ہیں لڑکیاں ہوسٹلوں اور گھروں میں مل جل کر رہ سکتی ہیں ہیں تو ٹرانس جینڈرز کے مل کر رہنے کو جنسی تعلق ہی کیوں سمجھا جائے جبکہ جنسی تعلق لڑکیوں لڑکیوں اور لڑکوں لڑکوں میں بھی ہو سکتا ہے۔ تو کیا لڑکوں اور لڑکیوں کے ہوسٹلوں پر بھی پابندی لگا دی جائے۔ ایسا لگتا ہے قدرت نے کسی سکیم کے تحت جن لوگوں کی جنس کو ان کے ظاہری اعضاء سے ظاہر نہیں کیا ہم انہیں جینے کا حق نہیں دینا چاہتے کیوں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی تخلیق پر اعتراض ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments