جدت، محبت اور ثقافت کا سنگم ‘طلسم ہوش افزا’


زمانہ قدیم کے داستان گو کے ہاں افکار و خیال سے کہیں بڑھ کر کہانی کہنے کا انداز معانی رکھتا تھا، اس کے الفاظ کا اتار چڑھاؤ سننے والوں کے دلوں میں بھی جوار بھاٹے کا باعث بنے یہ اس کی کامیابی تھی۔ وہ اپنے الفاظ سے تخیل کا ایک جہان تخلیق کرتا اور اس کے سننے والے ساتھ ہی ساتھ ان جزیروں کی سیر کرتے، باغوں کے ثمرات سے لطف و اندوز ہوتے، جانوروں سے ہم کلامی کرتے اور دیوؤں و بلاؤں کی دہشت سے تھر تھر کانپتے، یہ سب ایجاز ان کے کہانی کہنے کا انداز کا تھا۔ اشفاق احمد بھی ایسے ہی ایک داستاں گو تھے جن کے کہانی کہنے کے انداز کے آگے سب ہیچ پڑ جاتا تھا، جہاں قاری کہانی میں آگے ہی آگے بڑھنا چاہتا تھا اور یہ خواہش بھی اس کے اندر سر اٹھاتی کہ یہ کہانی کبھی نہ تھمے۔

اشفاق احمد نے اپنی زندگی میں کئی روپ بدلے، ادب میں ”گڈریا“ جیسا افسانہ تخلیق کیا، ریڈیو میں ”تلقین شاہ“ کے انداز نے سب کو گرویدہ رکھا ان کے ڈراموں نے پاکستان میں ڈرامہ لکھنے اور بنانے کا اصل شعور پیدا کیا، اخیر عمر میں انہوں نے زاویہ کے بابا اشفاق بن کر آسانیاں فراہم کرنے کی کوشش کی۔ جہاں ان کی پذیرائی کی گئی وہی ان کے ساتھ بہت سے اختلافات بھی رکھے گئے، لیکن نظریاتی اختلافات کے باوصف کوئی بھی اس داستاں گو کی کہانی سے اپنے آپ کو جدا نہیں کر پایا۔ ”طلسم ہوش افزا“ اشفاق احمد کے ایسے افسانوں کا مجموعہ ہے جو مستقبل کے قاری کے لیے تخلیق کیا۔ ان افسانوں کا مادہ جہاں ہندوستان کی زمین، اس کی ثقافت سے اٹھا ہے وہی اس کی مجموعی فضا سائنس فکشن کے وسیع جہان کا حصہ ہوتی ہے۔

انسائیکلو پیڈیا برٹینکا میں سائنس فکشن کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے۔

’Science fiction, abbreviation SF or sci fi, a form of fiction that deals principally with the impact of actual or imagined science upon society or individuals.‘

اردو ادب کی روایتی میں اس طرح کے افسانے پہلے کہیں نظر نہیں آتے، مغرب میں اس طرز تحریر کی بدولت ان گنت تخلیقات سینہ قرطاس کی زینت بنی۔ انیسویں صدی کے اخیر میں جب مغرب کے انسان نے مشینی ترقی کے منازل طے کیے تو یہ معلوم ہونے لگا کہ سائنس میں وہ قوت ہے جس کی بدولت وہ اپنے ازل سے دیکھے گئے خواب پورے کر سکتا ہے یوں سائنس اور مشینری اس کے تخیل کا ایک مضبوط ترین حصہ بن گئے، اس نے ایسی کہانیاں تخلیق کی جن میں سائنسی ایجادات کبھی تو دشمن کے روپ میں ابھرتے تو کبھی انسان کے سب سے بڑے رفیق۔ اردو میں سائنس فکشن کی تحریر اس طرح سے موجود نہیں اس لیے جب اشفاق احمد نے یہ افسانے تخلیق کیے تو ان کے سامنے کوئی نمونہ موجود نہ تھا اس کے باوصف انہوں نے سائنس فکشن کو جس طرح سے اپنی دھرتی سے جوڑا، اس کی نظیر تلاش کرنا ممکن نہیں۔

اشفاق احمد کی تمام تر زندگی پر مقامی ثقافت کے گہرے نشانات موجود تھے، ”طلسم ہوش افزا“ کے اندر بھی انہوں نے اس مٹی کے خمیر سے اٹھی ہوئی کہانیوں، یہاں کے توہمات، یہاں کے رسم و رواج کو سینہ قرطاس پر اتارا۔ انہوں نے اس خطے کی لوک دانش اور سائنس کو ایک ہی لڑی میں پرو دیا۔ عمومی طور پر سائنس کے ساتھ مقامی زبانوں یہاں تک اردو زبان میں بھی ایک اجنبی سا سلوک نظر آتا ہے۔ یہاں پر چراغوں کا دھواں اس طرح سے سانس سے گندھا ہے کہ الیکٹرک لیمپ کبھی اس مقام کو پا ہی نہیں سکتا، جہاں بجلی کے کھمبے لگنے کو ایک سانحہ شمار کیا جاتا ہے اور تاروں بھری اندھیری رات کی یاد بار بار سر اٹھاتی۔

اشفاق احمد بھی اپنی ثقافت کے، یہاں کے پیروں فقیروں، پیڑوں، گھوڑوں اور پرندوں کے دلدادہ تھے لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ ان کے اندر ایسا انسان بھی موجود تھا جو مغرب کی رنگا رنگی تخلیقات و ایجادات کو متجسس نظر سے دیکھتا تھا اور ان سے متاثر ہوتا ہے جس کے دل کے کسی گوشے میں، ان تمام دریافتوں کے لیے اور ان تمام سہولیات کے لیے جو یہ اپنے ساتھ لاتے تھے، ایک بڑی جگہ تھی۔ اس کے پیش نظر انہوں نے ایسی کہانیاں تخلیق کی تاکہ سائنس اور مشینری کوئی اجنبی چیز نظر نہیں آتی۔ بلکہ یہاں کی کہانیوں اور یہاں کے رشتوں کے ساتھ گندھی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔

اپنی ذات میں مشرق و مغرب کے اسی امتیاز کی بدولت اشفاق احمد جیسا تخلیق کار اردو ادب میں انوکھا نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر سلیم اختر اسی تناظر میں لکھتے ہیں کہ

” اشفاق احمد وسیع المطالعہ انسان تھے۔ اگر ایک طرف سائنس اور سائنس فکشن سے دلچسپی تھی تو دوسری طرف تصوف سے بھی ذائقہ شناس تھے۔ اشفاق احمد دراصل دانش کی اسی گم شدہ میراث کی تلاش میں تھے۔ یہی نہیں بلکہ خم شدہ لوگ دانش کے وہ خود ہی سب سے بڑے امین تھے۔“ 2 ؎

پنجاب کے نیلی بار کے علاقے میں یہ ایک روایت مشہور ہے کہ اگر کسی گھوڑے کے سامنے اس کے مالک کو قتل کیا جائے تو وہ اپنے بے گناہ مالک کے خون کا بدلہ ہر حالت میں لے کر رہتا ہے۔ اس سے وابستہ کئی قصے مشہور ہیں۔ اشفاق احمد نے اسی لوک داستان کو لے کر ”قصاص“ تخلیق کیا۔ جہاں ”سابو“ اور ”دینو“ دو بھائیوں کی کہانی بیان کی۔ جہاں دیہات کی زندگی سادگی اور سست رفتاری کا مرکب ہوتی ہے وہیں وہاں پر زمینوں کے لیے برپا ہونے والی لڑائیاں قتل و غارت بھونچال کا باعث بنتے ہیں اور وہاں دشمنی کسی ایک قتل پر ختم نہیں ہوتی بلکہ خون کا رنگ سات نسلوں تک اپنا رنگ نہیں میلا نہیں ہونا دیتا۔

افسانے کے آغاز میں یہ دونوں اپنے ایک گاؤں سے کسی کام کے سلسلے میں لاہور کی جانب ”لینڈ روور“ میں سفر کرتے نظر آتے ہیں دشمنوں کے خطرے کے پیش نظر ان کے ساتھ ایک گارڈ بھی موجود ہوتا ہے۔ تمام راستے وہ ایک دوسرے کو لوک دانش کی ایک مشہور کہانی سناتے ہیں جس میں اپنے بے گناہ مالک کے قتل کا بدلہ گھوڑا لیتا ہے۔ لاہور داخل ہوتے ہی ایک چوراہے پر سامنے دشمن ان سر پر پہنچ جاتے ہیں اور آنا فانا فائر چلا کر دونوں بھائیوں اور گارڈ کا خون کر دینے بعد فرار ہو جاتے ہیں۔

پولیس پہنچ جاتی ہے تفتیش کا آغاز ہوتا ہے گاڑی کو اس مقام پر رہنے دیا جاتا ہے اور اس کے پاس ایک سپاہی کو کھڑا کر کے چلے جاتے ہیں۔ سپاہی تھوڑی دیر کے لیے آرام کرنے کے لیے وہاں سے روانہ ہوتا ہے تو اس کے پیچھے وہ دونوں قاتل دوبارہ سے جائے واردات پر پہنچ کر صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں اور ایک دوسرے کو صاف اس طرح بچ جانے پر داد دے رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اس مقام پر اشفاق احمد نے اپنی صناعی دکھائی ہے ان قاتلوں کو یوں مسکراتے ہوئے دیکھ کر گاڑی کی آنکھوں میں خون اتر آتا ہے اور وہ دو لمحوں میں انہیں کچل کر اپنے مالکوں کا بدلہ لیے لیتی ہے۔

”رات کا سماں، اونچی اور مدہم سٹریٹ لائٹس، قاتلوں کے چہرے پر شیطنت، ساتھ ہی تحقیر اور خود بینی و خود رائی کے تاثرات، آنکھوں میں شرارت اور لبوں پر مسکراہٹ تھی۔ قاتلوں کو اتنا قریب، اس قدر پر سکون اور ایسے گھمنڈی اور مغرور دیکھ کر لینڈ روور کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور اس کی بتیاں ایک روشن ہو گئیں۔ پھر اس نے فرسٹ گیئر میں ایک سو بیس میل کی سپیڈ پر اپنے آپ کو ابھارا اور اینٹوں سے اچھل کر بمپر جوڑ کے گورے قاتل کو ٹکر ماری جو کچھ دیکھے، سوچے، بولے بغیر وہیں ڈھیر ہو گیا۔“ 3 ؎

اشفاق احمد نے جس طرح سے اس افسانے میں گاڑی کو ایک جیتے جاگتے وجود میں بدلا، وہ ان کے فن کا منہ بولتا ثبوت ہے، جہاں گاڑی کی آنکھوں میں کبھی خون نظر آتا ہے تو کبھی یہی گاڑی اپنے مالکوں کا بدلہ لینے کے بعد صاف بچ جانے پر مسرور نظر آتی ہے۔ قصاص ایک المیہ بھی ہے کہ کسی طرح بدامنی، قتل و غارت گری معصوم، بے زبانوں کے ساتھ ساتھ کبھی تو بے جانوں کو درندگی کی راہ پر چلنے کے لیے مجبور کر دیتی ہے۔

مشینری کو زندگی وہ اپنے ایک افسانے ”سونی“ میں دیتے ہوئے نظر آتے ہیں، گو کہ یہ افسانہ بھی معاشرتی قدروں اور بنیادی انسانی رشتوں کے شکستہ ہونے کا ایک نوحہ ہی ہے جہاں امیر ماں باپ اپنی اولاد کو ایک دوسرے سے صرف اس نسبت سے بیاہ دیتے ہیں کہ وہ ”ہم خیال“ ہو یا نہ ہو کم از کم ”ہم حال“ ہیں ایسے میں ان کے اندر محبت کا تعلق کبھی نہیں پنپ پاتا۔ خجستہ اپنی زندگی میں مصروف نظر آتی ہے تو بختیار کی اپنی دلچسپیاں اسے خجستہ کی جانب دھیاں نہیں دینے دیتی۔

وہ اپنے الیکٹرانک سامان کو دیوانگی کی حد تک پیار کرتا ہے۔ انہیں خجستہ کے ساتھ شریک کرنا ابھی اس کے لیے سوہان روح ہے۔ جب وہ بزنس ٹرپ پر جانے کے لیے تیاری کرتا ہے تو خجستہ اس سے ”سونی وی سی آر“ اپنے حوالے کرنے کی خواہش کرتی ہے وہ بڑی تکلیف کے ساتھ اسے اجازت دیتا ہے کہ اس کے بعد وہ وی سی آر اٹھا کر لے آئے کیونکہ خود اپنے ہاتھوں سے وہ ایسا نہیں کر سکتا۔ یہاں وہ ہمیں مشینوں کے ساتھ دیوانگی کی حد تک محبت میں مبتلا نظر آتا ہے، جہاں یہ مشین خجستہ سے اس کی دوری کو مزید مستقیم کرتی ہیں وہی بزنس ٹرپ سے واپس آنے کے بعد خجستہ کی بے وفائی کے ثبوت بھی یہی ”سونی وی سی آر“ فراہم کرتی ہے۔ سونی وی سی آر بختیار کو خجستہ کی بے وفائی کے ثبوت دکھانے کے بعد ان لفظوں میں گویا ہوتی ہے۔

”صبر! اے تاجر بچے! انسانوں کے یہی کام ہیں، یہ آج سے نہیں ازل سے یہی کچھ کرتے آئے ہیں محبت کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔ پہلے ان سے جانے میں یا انجانے میں کوئی غلطی ہوجاتی ہے پھر ساری عمر احساس جرم میں گزر جاتی ہے۔ ہمیں دیکھو اور ہم سے پوچھو کہ تمہاری یاد میں ہم نے کس طرح سے یہ گھڑیاں کاٹی ہیں۔ سارے تہہ خانے میں کسی نے بھی خوشی کا ایک ثانیہ نہیں دیکھا۔ سب تمہی کو یاد کرتے رہے ہیں۔“ 4 ؎

گو کہ بختیار ان مشینوں کی محبت کو کافی جانتا ہے لیکن قاری کے دل میں یہ سوال سر اٹھاتا ہے کہ جس طرح خجستہ نے باہر کے کسی انسان کے ساتھ محبت کی اور بختیار نے مشینوں کو۔ اگر وہ ایک دوسرے کے ساتھ اسی الفت کا مظاہرہ کرتے تو یہ حالات کبھی سامنے نہ آتے۔

اردو ادب میں سائنس اور سائنسی ایجادات سے نفرت کا مظاہرہ رومانوی اور علامتی تحریروں میں ہوتا رہا، اشفاق احمد کے ہاں صورت حال اس کے برعکس نظر آتی ہے یہاں مشینری گو انسان سے انسان کو دور کرتی ہے لیکن وہ تنہا اور بے معنی نظر نہیں آتا نہ ہی خالی ہاتھ۔ اس کے برعکس وہ اپنے جدید دور کے اس جدید رفیق کو سینے سے چمٹائے ہوئے ہیں۔ یہ ایک بدلے ہوئے وقت کے افسانے ہیں، آنے والے وقت۔ اشفاق احمد نہ صرف اپنی تخلیق میں، بلکہ اپنی ذات میں سائنس کی طرف گہری رغبت رکھتے تھے، اور ان ایجادات کو اپنی زندگی میں خاصا درجہ دیتے تھے گو کہ یہ ان کے یہ کوئی جذباتی وابستگی نہیں بلکہ ایک تجسس، علم کی تڑپ انہیں ان چیزوں کی جانب مائل کرتی ہے۔

ممتاز مفتی رقم طراز ہیں کہ

”اسے مشینوں سے محبت ہے اور گیجٹ اس کی جان ہیں میرے سکوٹر کو دیکھ کر وہ ہمیشہ اجتجاجاً بڑ بڑ کرتا رہتا ہے۔ ظالمو تم اس ننھی سی جان کا ذرا نہیں خیال نہیں رکھتے۔ ظالمو اس ننھی سی جان کا کچھ تو خیال کیا کرو اس کے گھر میں مشینوں، گیجٹوں اور اوزاروں کی ایک بھیڑ لگی ہوئی ہے۔ چاہے اس کی جیب میں پھوٹی کوڑی نہ ہو۔ دکان میں نئے گیجٹ کو دیکھ کر بچے کی طرح مچل جائے گا۔ اسے غور سے دیکھے گا۔ اس کے ورکنگ کو سمجھے گا۔ اس سے کھیلتا رہے گا۔ پھر اس کو خریدنے کے لیے تڑپتا رہے گا۔ جب تک خرید نہ لے گا چین سے نہیں بیٹھے گا۔“ 5 ؎

یوں ان کے ذات کے اس رخ نے انہیں اردو کے باکمال سائنس فکشن لکھنے میں مدد دی جہاں مطالعے کے ساتھ ساتھ تجرباتی طور پر ان چیزوں کے ساتھ جڑا رہنا بھی ان کا مددگار ثابت ہوا۔

طلسم ہوش افزا کے افسانوں میں ایک اور اہم پہلو محبت ہے، محبت یوں بھی اشفاق احمد کی افسانوی دنیا کا اہم ترین حصہ ہے لیکن یہاں ہماری تہذیب، انفرادی اور اجتماعی محبت اور اس کے ساتھ ساتھ سائنس کو انہوں نے ایک دھاگے میں پرو دیا۔ کہیں تو یہ محبت شفا کا باعث بنتی نظر آتی ہے کہ بستر مرگ پر پڑے ہوئے مردہ بے جان جسم کو پھر جان بخش دیتی ہے۔ افسانہ ”آخری حملہ“ میں سارے بیکٹریا اور وائرسز اسی محبت کی طاقت سے خوفزدہ نظر آتے ہیں کہ یہ کون سی طاقت ہے کہ ایک انسان کے ہاتھ تھماتے ہی دوسرے انسان کے وائٹ بلڈ سیلز پھرتی سے کام کرنے لگتے ہیں۔ دیکھا جائے تو انسان کی زندگی اور اس کے جینے کا تعلق اس کے جسم سے زیادہ اس کی خواہش کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور ہماری تہذیب میں اسی کے پیش نظر مریض کو محبت و تیمار داری سے رکھا جاتا ہے۔ اشفاق احمد ہماری تہذیب کے اسی پہلو کو سامنے لانے کی کوشش کی۔

اشفاق احمد ان افسانوں میں ایک اور تکنیک کا استعمال بھی کرتے نظر آتے ہیں جہاں آخری حملہ میں محبت بیکٹریا کو ہارا کر انسان کو جیتا دیتی ہے وہی ”بدنی ضرورت“ میں یہی جراثیم دو انسانوں کو پاس لانے، انہیں ایک ساتھ رکھنے پر مجبور کرتے ہیں یعنی یہاں جراثیم کی محبت انسانوں کے قرب کا باعث بنتی ہے اور جب صحت افزا مقام پر جانے کی وجہ سے یہی جراثیم کا خاتمہ ہوتا ہے تو محبت بھی اپنے اختتام پہنچتی ہے۔

”اب رضیہ اور صادق کے بدنوں کے درمیان وہ پہلے والی گہما گہمیاں، آوا جاویاں، ہنگامہ خیزیاں اور ریشہ دوانیاں باقی نہیں رہی تھیں۔ بیمار محبت کے مریض کچے دھاگوں کو پہاڑوں، دریاؤں، چشموں اور ندی نالوں کی صحت افزا ہواؤں نے کاٹ کے رکھ دیا تھا اور دو محبت کرنے والے بدنوں کے درمیان قدر مشترک کا ایک بھی رشتہ باقی نہیں رہا تھا۔“ 6 ؎

”بدنی ضرورت“ میں رضیہ کا جسم، صدیق کے جسم سے اس صحت کا بدلہ تین فائر کر کے لیتا ہے کیونکہ یہ ظلم، بے وفائی، ناقدری اور بے بسی اس کے جراثیم کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہے۔

”طلسم ہوش افزا“ میں صرف انفرادی محبت و بے وفائی کا ذکر ہی نہیں بلکہ اجتماعی محبت کی معجزہ کاریوں کا بیانیہ بھی ہے۔ اجتماعی معاشرہ اور ان کی محبت کا تصور خصوصی طور پر اسی خطے کے ساتھ منسوب ہے۔ مغرب میں اسے انفعلاعی کے مانند قرار دیا جاتا ہے لیکن اشفاق احمد نے ”کوٹ ادو پاور ہاؤس“ میں اسی محبت کی تخلیقی قوت کو موضوع بنایا ہے کہ کیسے کوٹ ادو کے ایک انجینئر کو وہاں کے لوگوں کی عمیق و پختہ محبت کی قوت کا احساس ہوتا ہے اور وہ اس محبت سے بجلی گھر قائم کرتا ہے۔ اس گاؤں کے لوگوں میں محبت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے ایک دوسرے کو خوشحال دیکھ کر ان کی روح سر شار ہوجاتی ہے انا کا ان کے اندر شائبہ نہیں ہوتا جس کی بدولت وہاں کے لوگ محبت و الفت سے بنے ہوئے اس گاؤں سے فوائد حاصل کرتے ہیں ان پر فقط ایک شرط ہوتی ہے۔

”تم اپنے درمیان محبت کے موجودہ خزانے کو ختم نہ ہونے دو اور انسانی چاہت کے دفینوں میں کمی نہ آنے دو۔ تمہارے چہرے اسی طرح بشاش، دل اسی طرح مسرور اور روحیں اسی طرح شاداں اور فرحاں رہیں۔ اگر آپ کے ذہن میں سے اٹھنے والے شیشہ دل کے اندر ذرا سا بھی بال آ گیا اور اس میں آنٹ، عداوت، حسد، جلن کا غبار اپنی جھلک دے گیا تو پھر تمہارا سارا علاقہ گھپ اندھیرے میں اور تمہارے اپنے اندر گہری تاریکی میں ڈوب جائیں گے۔“ 7 ؎

محبت کی اختراعی قوت پر یہ یقین ان کے باقی افسانوں میں بھی ملتا ہے، وہ محبت کو وجہ کائنات جانتے ہیں اسی سبب سے یہ کوئی بعید از فہم بات نہیں کہ اس کی مدد سے بجلی نہ بنائی جا سکے۔ اگر دو بے جان چیزوں کے آپس میں رگڑ کھانے سے میگنیٹک فیلڈ پیدا ہو سکتی ہے تو انسان جو قوت و توانائی کا منبع ہے اس کی محبت سے کیسے یہ ممکن نہ ہو گا۔

اشفاق احمد کے ہاں محبت کے اسی تخلیقی قوت کو ڈاکٹر سفیر حیدر ان الفاظ میں بیاں کرتے ہیں کہ

”اشفاق احمد کے یہاں مرکزی جذبہ محبت ہے اور اس کے مختلف روپ ہیں جو سو افسانوں کو جنم دیتے ہیں۔ اس پختہ یقین کا اعادہ بار بار ہوتا ہے کہ محبت ہی وہ اسم اعظم ہے جو انسان پر ذات اور کائنات کے بند دروازے کھول سکتا ہے۔ ’اور بھی کچھ ہے محبت کا پھیلاؤ ہے۔ ‘ “ 8 ؎

لیکن محبت کی اس قوت کو شک کا زہر اس طرح سے ڈستا ہے زمانوں کے اندر بنائی گئی محبت کی وہ عمارت، روشنیوں کا وہ شہر لمحوں میں اندھیروں میں ڈوب جاتا ہے۔

اشفاق احمد نے جب ریڈیو پروگرام سے ناتا جوڑا تو تلقین شاہ کے کردار کے طنز و نشتر نے انہیں جلد ہی مقبول کر دیا۔ یہی طنزیہ انداز ان کے افسانوں میں بھی نظر آتا ہے جہاں ”پوری جان کاری“ میں وہ ایسی قوموں پر اور ایسے لوگوں پر طنز کرتے ہیں جو خود و علم کے مقام عروج پر بیٹھا ہوا سمجھتے ہیں۔ لیکن اشفاق احمد کے نزدیک علم کی معراج تجسس ہے اور جس قوم میں اس کا فقدان ہو جائے وہ اپنی موت آپ مر جاتی ہے۔ ”بولتا بندر“ میں وہ انسانی ارتقا کے نظریے پر ایمان رکھنے والوں کے سامنے یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر کوئی دھماکہ ہوا تھا تو دھماکہ کرنے والا کہاں ہے۔ جہاں سائنس تخلیق کو تو مانتی ہے لیکن تخلیق کار کے لیے ان کی عقل پر پردے پڑ جاتے ہیں۔ ”کہکشاں ٹیکسی سٹینڈ“ میں ان کے چند جملے معاشرے کی چند بنیادی کمیوں کو سامنے لاتے ہیں۔

”پہلے وقتوں میں جن دو ستارے ٹکرا جاتے تھے تو مہینہ مہینہ بھر ستاروں میں روشنی نہیں رہتی تھی کسی کے ہاں چراغ تک نہیں جلتا تھا لیکن اب کہکشائیں ٹکرا جاتی ہیں اور کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ میں نے کہا ’ہمارے یہاں بلیک ہول تو نہیں ہوتے البتہ مین ہول ضرور ہوتے ہیں جو بلیک ہولوں کی طرح منہ کھولے انسانوں کو نگلتے رہتے ہیں“ 9 ؎

جان انسانی کی ارزانی بیسویں صدی کا سب سے بڑا المیہ ہے اور اشفاق احمد اسے کہکشاں کے ٹکرانے کے عمل کے مشابہ قرار دیتے ہیں کہ جانے کتنے ستارے ٹوٹے کوئی حساب ہی نہیں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ یہ طنز بھی کرتے نظر آتے ہیں کہ بڑے پیمانے پر تو جو ہو رہا ہے لیکن خود عام انسان کتنا کسی کے راستے میں آسانی پید ا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

”طلسم ہوش افزا“ اشفاق احمد ایک ایسا افسانوی مجموعہ جو یہ احساس دلاتا ہے کہ اپنی تکنیک، اپنے اسلوب میں، اپنے خیالات میں غرض ہر رنگ میں اشفاق احمد کی نثر میں جدت اور قابلیت موجود ہے گو یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ ”طلسم ہوش افزا“ کو بڑی بے دردی سے نظر انداز کیا جاتا ہے حالانکہ اس طرز پر افسانہ لکھ کر انہوں نے اردو کو مغرب کے سائنس فکشن کی روایت سے ملا دیا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ اپنی تہذیب کی خوشبو بھی اس میں انڈیلی یوں یہ فکشن لوک دانش کے خزینے سے مالا مال نظر آتا ہے۔

حوالہ جات:

https://www.britannica.com/art/science-fiction
Accessed date 14 august 2021

2؎سلیم اختر، ڈاکٹر، ”گمشدہ لوک دانش کا کھوجی“ ، مشمولہ زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا، مرتبہ اعزار احمد آزر (لاہور:خالد بک ڈپو، 2004 ء) ، ص 161۔

3؎اشفاق احمد، طلسم ہوش افزا (لاہور:سنگ میل پبلی کیشنز، 2005 ء) ، ص 14۔
4؎ایضاً، ص 37۔
5؎ممتاز مفتی، ”داستان گو“ ، چہار سو، شمارہ 16، 17 ( 1993 ء) ، س 23۔
6؎اشفاق احمد، طلسم ہوش افزا، ص 110۔
7؎ایضاً 151۔

8؎سفیر حیدر، ڈاکٹر، ”اشفاق احمد کے افسانوں کی فکری مرکزیت۔ محبت کا آفاقی رنگ“ ، تحقیق نامہ، شمارہ 19 ( 2016 ء) ، ص 340۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments