وکٹم بلیمنگ اور ہمارا معاشرہ


دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی کوئی ظلم، زیادتی یا جرم ہوتا ہے تو اس کی نوعیت، وجوہات اور مستقبل میں اس کے سد باب کے لئے حل ڈھونڈے جاتے ہیں، جبکہ ہمارے ہاں اس سے پہلے اس ظلم کا نشانہ بننے والے انسان کو مورد الزام ٹھہرا کر اس کا کردار جانچنا ایک روایت بن چکا ہے، جسے وکٹم بلیمنگ کہتے ہیں، بالخصوص جب متاثرہ شخص کوئی خاتون ہو، کوئی جنسی یا مذہبی اقلیت ہو یا کسی کمزور طبقے سے تعلق رکھتا ہو۔

ہمارے معاشرے میں اکثر لوگوں کو کسی زیادتی کا شکار ہونے کے بعد انصاف کے لیے آواز اٹھاتے ہوئے کسی نا کسی سطح پر اسی ججمنٹل رویے کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے۔ ایک تو ان کو انصاف کے لیے سالہاسال عدالتوں کے چکر لگانے پڑتے ہیں اور اس وکٹم بلیمنگ کے ذریعے ان کو روز احساس دلایا جاتا ہے کہ اس سب میں کہیں نہ کہیں وہ خود قصور وار ہیں۔ بعض اوقات گھر یا خاندان سے ہی یہ سب شروع ہوتا ہے۔

پاکستان میں خواتین کی تعداد کل آبادی کا تقریباً 49 فیصد پر مشتمل ہے لیکن جب بھی ان کے ساتھ کوئی ایسا واقعہ رونما ہو تو انہی کی کردار کشی پہلے کی جاتی ہے کیونکہ پدرشاہی نظام کے تحت خاندان کی عزت انہی سے منسوب کی جاتی ہے۔ مثلاً جب کوئی لڑکا کسی لڑکی کو ورغلا کر گھر سے لے جائے تو یہ بات اخباروں میں یوں پڑھنے کو ملتی ہے کہ ”لڑکی اپنے آشنا کے ساتھ فرار ہو گئی“ ۔

اسی طرح ریپ کے بیشمار واقعات بدنامی کے ڈر سے رپورٹ نہیں کیے جاتے یا پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ لڑکی وہاں گئی ہی کیوں تھی؟ بالخصوص ایسے واقعات کے بعد مجرم کی بجائے متاثرہ شخص ہی شرمندہ نظر آتا ہے۔ عموماً خواتین کے ہی ”ظاہری حلیے“ کو ریپسٹ کے جذبات محرک کرنے کا سبب کہا جاتا ہے، کیونکہ ”وہ کوئی روبوٹ تو نہیں!“ مثلاً عمران خان صاحب نے اپنے مشہور زمانہ بیان میں خواتین کے لباس کو ریپ جیسے جرائم کی وجہ قرار دیا تھا۔ ایک دوسرے موقعے پر موبائل فون کے غلط استعمال کو جنسی جرائم کا سبب بتایا۔ مردہ خواتین، جانوروں یا کمسن بچوں نے کون سی بے لباسی کر کے جذبات مجروح کیے ہوتے ہیں؟ جبکہ ایک مولانا تو رو رو کر بہن بیٹیوں کی جینز اور بے پردگی کو زلزلے کا سبب تک بتاتے ہیں۔

ابھی چند روز قبل چک شہزاد میں ایاز امیر کے بیٹے شاہنواز امیر نے اپنی تیسری بیوی کا سر ورزشی ڈمبل سے بار بار مار کر بے رحمی سے قتل کر دیا اور اس کے گرنے کے بعد ، اس نے اسے باتھ ٹب کے اندر رکھا اور پانی ڈال دیا۔ ان کی شادی تین ماہ قبل ہی ہوئی تھی۔ اس پر سے لوگ مقتولہ پر شاہنواز میر سے شادی کرنے کا الزام لگا رہے ہیں اور اسے ”گولڈ ڈگر“ بھی کہہ رہے ہیں جو خود کینیڈا سے آئی تھیں۔ سوشل میڈیا پر گویا ہمارے ہاں کردار کشی کے پلیٹ فارم کا کام لیا جاتا ہے۔ جتنی سنگین نوعیت کا جرم ہو گا اتنا ہی زیادہ سوشل میڈیا پر وکٹم بلیمنگ کی جاتی ہے۔

نور مقدم کے بیہمانہ قتل کے بعد بھی معاشرہ دو حصوں میں منقسم ہو گیا اور غیر حساس تبصرے اور مقتولہ کی ہی کردار کشی کی گئی۔ موٹر وے ریپ کیس میں بھی زیادتی کا نشانہ بننے والی خاتون کو ان کا پیٹرول چیک نہ کرنے کا الزام لگایا گیا۔ اسی طرح جب خواجہ سراؤں کو گاہے بگاہے بے دردی سے قتل کیا جاتا ہے تو بھی ان پر ہی الزام لگایا جاتا ہے۔ دعا زہرا کیس میں بھی نا بالغ بچی کو ورغلانے پر مجرم کی بجائے اسی کی کردار کشی کی گئی۔

اسی طرح اگر کوئی متاثرہ شخص اپنے خلاف ہونے والے ظلم پر آواز کچھ وقت کے بعد اٹھائے (چونکہ ایسی صورتحال میں گہرے نفسیاتی صدمے کی وجہ سے بعض اوقات حوصلہ اور ہمت جمع کرنے میں وقت لگتا ہے ) تو ایسے کیس میں یہ کہا جاتا ہے کہ اگر ایسا کچھ ہوا تھا تو اتنی تاخیر سے کیوں آواز اٹھائی گئی؟ جیسا کہ می ٹو موومنٹ میں دیکھا گیا۔

اب اگر ایسے حالات میں کوئی متاثرہ شخص اپنی کہانی بتائے تو یہی وکٹم شیمنگ اسے مزید ٹروما میں مبتلا کر دیتی ہے اور ہم کسی کی نفسیاتی حالت سمجھے بغیر اسی پر کمنٹس شروع کر دیتے ہیں۔ ویسے بھی مینٹل ہیلتھ تو ہمارے ہاں کوئی مسئلہ ہی شمار نہیں کیا جاتا۔ متاثرین کو ان کی بد قسمتی کا ذمہ دار ٹھہرانا عمومی رویہ بن گیا ہے۔

اگر کوئی کام یا تعلیم کے دوران ہراسانی کا شکار ہو تو اسے کہا جاتا ہے کہ تم وہاں اتنی دیر رکی ہی کیوں تھی یا جو لڑکی گھر سے باہر کمانے یا کسی وجہ سے بھی جائے تو اس کو ہراساں کرنے یا اس کی کردار کشی کرنا تو ویسے ہی فرض ہو جاتا ہے۔

کچھ عرصہ قبل تک، پاکستان نے متنازعہ ”ٹو فنگر ٹیسٹ“ کو غیر قانونی قرار نہیں دیا تھا۔ اس ٹیسٹ سے حکام کو یہ سمجھنے میں ”مدد ملتی“ کہ آیا عصمت دری کا شکار ہونے والی خاتون پہلے سے جنسی طور پر متحرک تھیں یا نہیں۔ اس ٹیسٹ کا استعمال عصمت دری کے متاثرین کو بدنام کرنے کے لیے کیا گیا تھا جو جنسی طور پر متحرک تھے۔ اگرچہ اس قانون کو کالعدم قرار دینا ایک مثبت تبدیلی ہے جس کی بہت ضرورت تھی، لیکن در حقیقت یہ ہمارے معاشرے کی خطرناک ذہنیت کی نمائندگی کرتا ہے۔

متاثرہ شخص کے کردار کو مورد الزام ٹھہرانا اور فیصلہ کرنا ہمارے معاشرے کا ایک مجرمانہ فعل ہے جسے دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر معاشرہ ذمہ داری سے کام کرے اور قانون کا نظام ایسے معاملات کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرے تو متاثرین کو انصاف ملنے کی امید ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments