اجتہاد سے فرقہ پرستی تک


حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب پیٹ کے زخم کے باعث وفات کے قریب پہنچے تو انہوں نے چھ صحابہ کرام پر مشتمل کمیٹی بنائی جس کو اگلے امیرالمومنین کے انتخاب کا کام سونپا گیا۔ کمیٹی کے ارکان یہ تھے :

علی بن ابی طالب
عثمان بن عفان
عبد الرحمن بن عوف
سعد بن ابی وقاص
زبیر بن عوام
طلحۃ بن عبیداللہ
یہ وصیت بھی کی کہ عبداللہ بن عمر کو امارت نہ سونپی جائے۔

کمیٹی نے اتفاق رائے سے عبدالرحمٰن بن عوف کو اختیار سونپ دیا۔ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا انتخاب کیا اور آپ کے پاس تشریف لے گئے۔ خلافت کے لئے یہ شرائط پیش کیں :

1۔ کتاب اللہ
2۔ سنت رسول ٌ

اور 3۔ اجتہاد ابوبکر و عمر کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ حضرت علی رض نے تیسرے شق سے اختلاف کیا اور توجیہہ پیش کی کہ ابوبکر کا اجتہاد ان کے زمانے کے لئے تھا، عمر کا اجتہاد عمر کے زمانے کے لئے تھا۔ میں اپنے وقت کے مطابق اجتہاد کروں گا اور میرے بعد آنے والے اپنے حالات کے مطابق اجتہاد کے مجاز ہوں گے۔

حضرت علی رض کو محمد نے باب العلم کہا تھا۔ ان کا صرف یہ ایک اصول بھی اپناتے تو آج نہ فرقوں کا جھگڑا ہوتا اور نہ مسالک کا۔ اس سے قبل پیغمبر نے اجتہاد کا اصول معاذ بن جبل کو یمن کا گورنر بناتے وقت طے کیا تھا حالانکہ اس وقت ان کی عمر بہت کم تھی۔ جب رسول کریمﷺ نے پوچھا کہ فیصلہ کیسے کرو گے تو معاذ نے جواب دیا کہ کہ کتاب اللہ سے، پھر سوال ہوا کہ اگر وہاں سے جواب نہ ملا تو معاذ نے سنت رسول کا حوالہ دیا۔ اور پھر جب سوال ہوا کہ وہاں بھی مثال نہ ملی تو؟ حضرت معاذ نے کہا کہ میں خود اجتہاد کروں گا۔ اس پر رسول کریم بہت مسرور ہوئے۔

اجتہاد سے منہ موڑنے، اس پر پابندی لگانے اور دین الٰہی کو دوسری صدی ہجری میں حنوط کرنے کی وجہ سے ہم دنیا میں مذاق بن کر رہ گئے ہیں۔ ان مسلمان سائنس دانوں اور فلسفیوں جن پر آج ہم فخر کرتے ہیں ان کو اپنے وقت کے خلفاء نے قیدوں میں ڈالا، کئی ایک کو شہید کیا، علمائے وقت نے فاسق، فاجر اور رافضی کے فتوے لگائے۔ کئی ایک جلاوطنی میں فوت ہوئے لیکن ان کی تعلیمات سے یورپ کا تاریک دور ختم ہوا اور آج اسی علم کو جلا دے کر پوری دنیا پر راج کر رہا ہے۔

جبکہ ہم نے ہر طریقے سے جہالت کو پروان چڑھایا۔ کبھی پرنٹنگ پریس پر پابندی لگا کر جہالت کو فروغ دیتے گئے اور کبھی لاؤڈ سپیکر میں شیطان کی آواز تلاش کرتے رہے۔ اجتہاد کو بریک لگا کر بدعتوں کا طوفان کھڑا کر دیا۔ مثلاً گنگوہی اور نانوتوی کے ناجائز تعلقات پر کتابیں بھری ہوئی ہیں ہم ان کو تو چوم کے چھوڑ دیتے ہیں لیکن ٹرانس جینڈر کے سائنسی ماہرین سے مشورہ کیے بغیر ہر ایرا غیرا فتوے دے رہا ہے۔ حتیٰ کہ دوسری تیسری صدی کی متروک اصطلاحات تک استعمال کر رہے ہیں جب طبی علم ابتدائی مراحل میں تھا بلکہ جھاڑ پھونک زیادہ معتبر تھا۔

اس وقت جب پورے پاکستان میں بی بی سی اور وائس آف امریکا ہمارے مرکز پر آ کر آگاہی کے لئے ڈاکومنٹری بنا رہے ہیں، اسمبلی میں غیر متعلقہ بحث چھیڑنے سے پہلے ہمارے پاس آ کر ان اصطلاحات کو سمجھ تو لیں۔

اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہمیں کسی کے اوپر فتویٰ لگانے کا حق ہی نہیں۔ یہ حق صرف مالک یوم الدین کا ہے۔ آپ اپنا نقطہ نظر بیان کر سکتے ہیں لیکن کسی کی بے عزتی یا مار کٹائی نہیں کر سکتے۔ جب ہمارے پیارے نبی نے مستند منافق اور اس کے تین سو ساتھیوں کو کبھی مسجد سے نہیں نکالا کجا کہ اسلام سے خارج کرتے، تو ہم کون ہوتے ہیں کسی کی ذاتی زندگی پر اعتراض کرنے والے۔ حضرت عمر رض جیسے سخت گیر خلیفہ ایک شرابی کے گھر گھس کر سزا دینے لگے تو چادر اور چاردیواری کا حوالہ سن کر پسپا اور پشیمان ہو گئے۔ اب وہ دن ہوا ہوئے کہ تعلیمی اداروں میں کلاشنکوف کے زور پر موسیقی کے آلات توڑے جاتے تھے۔ اور نہیں تو کم از کم اپنے ہی امیرالمومنین طیب اردگان ہی سے آداب حکومت سیکھ لیں۔

پس تحریر: سود کا نظام ہی لیجیے۔ ہر طرف ہاہاکار مچی ہوئی ہے کہ خدا سے جنگ ہے۔ مان لیا۔ لیکن ضیاءالحق دس سال پروفیسر خورشید کے سہارے پر رہا کہ اب نیا نظام آیا کہ تب۔ مولانا مودودی نے سود کی ضد میں ایک کتاب لکھی اور پروفیسر صاحب نے نہ تو سودی نظام کا قابل عمل متبادل پیش کیا اور نہ اس نکتے پر کبھی کچھ غور کیا کہ کیا موجودہ دولت جو یا تو سافٹ فارم میں انٹرنیٹ پر پڑا ہوا ہے یا صرف کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے۔ کیا وہی سونے چاندی والی دولت ہے؟

اس کی قیمت افراط زر سے ہر دن کم ہوتی جاتی ہے۔ اس کا کیا حل ہو گا؟ سونے اور چاندی کے سکوں کی قوت خرید میں اب تک کسی قسم کی عملی کمی نہیں ہوئی۔ پندرہ سو سال قبل سونے کے ایک دینار (بلحاظ وزن) کے عوض اس وقت بھی ایک بکری ملتی تھی اور اب بھی۔ چاندی کے درہم سے ایک مرغی اس وقت بھی خریدی جا سکتی تھی اور اسی وزن کی چاندی سے آج بھی۔ بینکوں کے اخراجات اور شیئر ہولڈرز موجودہ زمانے کے مظاہر ہیں اور موجودہ حالات کے مطابق ہی ان پر اجتہاد کیا جاسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments