رؤف کلاسرا اور حاشر ابن ارشاد کے مابین ایک پرمغز نوک جھونک


گزشتہ دنوں حاشر ابن ارشاد نے اپنی فیس بک وال پر ایک سکرین شاٹ شیئر کیا جس میں رؤف کلاسرا نے اپنے چند سطری خیالات کا اظہار کچھ ان الفاظ میں کیا ملاحظہ فرمائیں۔

”جنہوں نے پڑھی لکھی عورتوں سے شادی کی ہے آج وہ سب تندور سے روٹی لینے کے لیے قطار میں کھڑے ہیں اور جنہوں نے کم پڑھی لکھی عورتوں سے شادی کی ہے ان کو گرما گرم روٹی گھروں میں مل رہی ہے“

اگر کلاسرا صاحب مائنڈ نہ کریں اور شخصی توہین کے قائل نہ ہوں تو عرض یہ ہے کہ اس قسم کے خیالات تضحیک کے زمرے میں آتے ہیں اگرچہ ان کا موقف یہی ہے کہ انہوں نے یہ سب کچھ مزاح کے لہجے میں کہا ہے ہے سنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے مگر سرکار یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسان کی حقیقی سوچ اور اس کا حقیقی اندر مزاح کی صورت میں ہی سامنے آتا ہے، سنجیدہ گوئی تو محتاط اور نپی تلی ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرتی لطائف کی ایک تاریخ ہے جو ایک طرح سے ہماری مجموعی سوچ کی عکاس ہے۔

گالیوں کا ایک مکمل پنڈورا باکس ہے جس میں خواتین کے اعضائے جسمانی کو نشانہ بنا کر اپنا غصہ رام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اگر کوئی مزاح میں بہن یا ماں کی گالی دے اور ساتھ یہ بھی کہہ دے کہ میرا مقصد بہن یا ماں کی تضحیک کرنا بالکل نہیں تھا بلکہ مذاق و غصے کا ملا جلا اظہار تھا تو بات کچھ بنتی نہیں ہے کیونکہ زبان سوچ کی ترجمان ہوتی ہے۔ ان تمہیدی باتوں کو میں کچھ اپنے مشاہداتی واقعات سے جوڑنا چاہوں گا تاکہ گفتگو کا تسلسل برقرار رہے۔

ہمارے ایک پی ایچ ڈی دوست ہیں جنہیں کم وبیش چھ یا سات ماسٹرز کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے، صاحب مطالعہ ہیں اکثر گپ شپ رہتی ہے زندگی کی تقریباً 40 بہاریں دیکھ چکے ہیں مگر اب تک جیون ساتھی سے محروم ہیں۔ پوچھنے پر اکثر یہی کہتے پائے جاتے ہیں کہ رشتے تو بہت سے آئے ہیں مگر ہمارے من کو نہیں بھاتے۔ ایک دن پوچھا کہ جناب اپنے جیون ساتھی میں کون سی اہم خوبی تلاش فرما رہے ہیں؟ فرمانے لگے جناب مجھے ایسی خاتون چاہیے جو بھلے پڑھی لکھی نہ ہو مگر میرے والدین اور کچن کو سنبھالنے کی مکمل مہارت رکھتی ہو۔ کیونکہ یار میں نہیں چاہتا کہ ہم معاوضہ پر کوئی میڈ اپنے کچن کے لیے رکھیں۔ ویسے بھی ہمارے ہاں اس قسم کے چونچلے بالکل نہیں ہیں کہ بیوی کو گھر سے باہر گھماتے پھریں۔ بیوی کا مقصد بچے پیدا کرنا اور گھر داری کو مینج کرنا ہوتا ہے۔ اب یہ بندہ اعلی تعلیم یافتہ اور کچھ اچھے برے میگزین وغیرہ میں لکھنے کے علاوہ ایک پرائیویٹ تعلیمی ادارے میں پڑھاتا بھی ہے مگر سوچ میں کتنا مہان ہے آپ خود ملاحظہ فرما لیں۔

دوسرا واقعہ ملاحظہ فرمائیں، میرے انسٹیٹیوٹ میں ایک صاحب جو باریش اور تبلیغی ذہن رکھنے والے تھے کمپیوٹر کی کوچنگ کے لیے آیا کرتے تھے ان کے گھر بچیاں پارے وغیرہ پڑھنے آیا کرتی تھیں، موصوف کا ایک پر دل آ گیا اور زبردستی کر ڈالی۔ جب وہ اکیڈمی پڑھانے آئے تو چہرہ پر زخم کے نشان تھے پوچھنے پر بتانے سے گریز کیا اور بعد میں پتہ چلا کہ بچی کے ورثا نے یہ حشر نشر کیا ہے اور جو قابل غور بات ہے اس کو سمجھنا بہت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ بد فعلی والے واقعہ سے پہلے اور بعد میں بھی موصوف کا ایک ہی موقف رہا کہ ”جناب مجھے تو سیل پیک بچی چاہیے, چالو نہیں، کیونکہ میں اپنی اولاد ایک نیک سیرت خاتون سے چاہتا ہوں“

اب منافقت کا لیول اور تضاد بیانی آپ خود محسوس کر لیں مگر بظاہر مذہبی شباہت بنا رکھی ہے مگر زبان کے نیچے اور دماغ کے اندر کس قسم کا انسان چھپا بیٹھا ہے کون جانے؟

تیسرا واقعہ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ جس بچی کو والدین یہ کہتے ہوئے گھر سے رخصت کرتے ہیں کہ
” بیٹی اب اگلا گھر تمہارا ہے پیچھے مڑ کر مت دیکھنا“

مگر جس کا حوالہ میں دینا چاہتا ہوں اس بیٹی نے اپنے بل بوتے پر ایک بہادرانہ فیصلہ لیا اور اس گھسے پٹے جملے پر سوالیہ نشان لگا دیا۔ ایک اچھی تعلیم یافتہ بچی کو والدین نے ہمارے گاؤں کے ایک ایسے لڑکے کے ساتھ نکاح کر کے باندھ دیا جو کہ بالکل ان پڑھ، اجڈ یا جمالیاتی حس سے کوسوں دور تھا مگر سلام عقیدت ہے اس بچی کو جس نے پہلی رات میں ہی سب کچھ بھانپ لیا اور صبح ہوتے ہی واپسی کی راہ لی اور والدین کو باور کروا دیا کہ ان کا فیصلہ غلط تھا اور وہ سسک سسک کر زندگی گزارنے کی بجائے اکیلے رہنے کو ترجیح دے گی۔

تعفن و غلاظت صرف کچرے سے نہیں پھیلتا اسے تو چند لوگ مل کر بھی ٹھکانے لگا سکتے ہیں مگر ذہنی غلاظت کا کیا؟ ایک گندا ذہن جو معاشرے میں معتبر ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف تعلیمی اداروں میں پڑھا بھی رہا ہو اور معاشرے میں اپنے معتبر تاثر سے فائدہ اٹھا کر نوجوانوں کے ذہنوں میں گند گھول رہا ہو اس کا کیا توڑ ہو سکتا ہے؟ کیا یہ المیہ نہیں ہو گا کہ حساس مقامات پر اس قسم کے اذہان تعینات ہوں جن کی شخصیت بظاہر یا حادثاتی طور پر بڑی بن چکی ہو مگر وہ اندر سے بونے یا انتہائی کھوکھلے ہوں؟

ایسے معاشروں کی رائے عامہ یا بیانیہ کس سطح کا ہو گا جہاں بونوں کا راج ہو اس کا فیصلہ آپ خود کر سکتے ہیں؟ رؤف کلاسرا چند ایسے جید صحافیوں میں سے ہیں جن کی اچھی خاصی فالونگ ہے اور ان کی باتیں ایک طرح سے رائے عامہ تشکیل دینے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ اس طرح کا قد کاٹھ رکھنے والے انسان کو اس قسم کی ماسٹر ٹیکنیک سے آگاہ ہونا چاہیے کہ ”کیا کہنا ہے اور کیا نہیں کہنا اور لفظوں کا چناؤ کیسا ہونا چاہیے وغیرہ“

اس کے علاوہ مزاح اور تضحیک کے درمیان واضح فرق کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے ممکن ہے کہ آپ کی نیت کچھ اور ہو یا آپ کو مناسب الفاظ نہ مل رہے ہوں مگر اتنی جلدی بھی کیا؟ بڑی شخصیات کے امتحان بھی بڑے ہوتے ہیں، الفاظ اور لہجے ہی اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ آپ کتنے بڑے ہیں۔ ڈگریوں کے بنڈل یا کیمرے کے ایکسپوژر آپ کے الفاظ اور لہجے کے سامنے ڈھیر ہو جاتے ہیں یا ماند پڑ جاتے ہیں۔ تھاٹ ریفلیکشن کے سامنے ان تکلفات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔

آپ کی سوچ آپ کی ڈگریوں یا معاشرتی اسٹیٹس کی اہمیت کو بڑھاتی ہے۔ مزاح میں بھی توازن کے پہلو کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے خاص طور پر ایسے معاشرے میں جو تضادات کا ڈھیر ہو اور جن کے فیصلوں کا معیار چند انچ کی ٹی وی اسکرین پر ٹکا ہو، جن کا پختہ ایمان ہو کہ ٹی وی پر جو کچھ کہا جاتا ہے وہی حرف آخر ہوتا ہے۔ اس قسم کی ذومعنی گفتگو ایک طرح سے پر تعفن بدذوقی کو فروغ دینے کا سبب بنتی ہے اور معاشرہ بھی ایسا ہو جہاں گالیوں کی ڈکشنری کا آغاز ہی خواتین سے ہوتا ہو اور مرد کی مردانگی عورت کے ہائمن کے گرد گھومتی ہو بھلے خود کا جنسی ہائمن درجنوں بار ٹوٹا ہو کیا فرق پڑتا ہے؟

چونکہ معاشرے نے عورت کی وجائنا کے پیمانے تو متعین کر رکھے ہیں جن کی بنیاد پر اسے پاک یا ناپاک ڈیکلیئر کر دیا جاتا ہے مگر مرد کے اعضاء مخصوصہ کی جانچ کا اب تک کوئی پیمانہ نہیں بن پایا تاکہ اس کی پاکیزگی کا بھی پتہ چلتا۔ ہمیں خواتین کے متعلق اپنے ڈی این اے میں چھپے زہریلے رویوں سے چھٹکارا پانا ہو گا، زندگی گزارنے کی مہارتوں کو سیکھنا صرف عورت کی ذمہ داری نہیں ہوتی بلکہ مرد کو بھی سیکھ لینی چاہئیں کوئی حرج نہیں ہے تاکہ زندگی ہموار اور برابری کی سطح پر بسر ہو نا کہ آقا اور غلام بن کر۔ باقی پڑھی لکھی بات یہی ہے کہ مزاح میں بھی وہی کچھ باہر نکلتا ہے جو اندر ہوتا ہے، آج کے دور میں آپ یہ کہہ کر راہ فرار اختیار نہیں کر سکتے کہ ”زیادہ سنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے“۔ شعور کے اس دور میں ہر بات مزاح میں نہیں اڑائی جا سکتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments