وجاہت مسعود کی کتاب: “طالبان یا جمہوریت – پاکستان دوراہے پر”


وجاہت مسعود سینئر صحافی، کالم نگار اور ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ ہے۔ وہ پاکستان میں جاری آمریت کے خلاف لکھتا رہتا ہے۔ پاکستان کے سیاسی اور معاشی مسائل پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان مسائل کا وہ ایک ہی حل پیش کرتے ہیں کہ جب تک ان مسائل کو جمہوری انداز میں حل کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی تب تک ان مسائل کا کوئی اور حل ممکن نہیں۔

طالبان یا جمہوریت پاکستان دوراہے پر وجاہت مسعود کی دوسری کتاب ہے اس سے پہلے ”محاصرے کا روزنامچہ“ 2008 میں سانجھ پبلیکیشنز نے شائع کی ہے اور یہ کتاب بھی سانجھ پبلیکیشنز نے 2014 میں شائع کی ہے۔

طالبان یا جمہوریت پاکستان دوراہے پر ان کا کالمی مجموعہ ہے جو پاکستان میں جاری مسلم بنیاد پرستی اور سیکولر جمہوری نقطۂ نظر کے درمیان کشمکش کو عیاں کرتی ہے۔ پاکستانی ریاست کو درپیش بحران سے چھٹکارا پانے اور طویل مدتی عوامی پالیسیاں بنانے پر زور دیتے ہیں۔ وجاہت مسعود سیکولر روایات کا پیروکار اور جمہوریت پسند شخصیت ہے۔

اس کتاب کے پہلے کالم میں وجاہت مسعود ”پاکستانی ریاست کو درپیش بحران“ کے عنوان سے کالم میں بحران کی نشاندہی کرتے ہوئے اس بحران کا جمہوری حل بھی پیش کرتا ہے۔ وجاہت مسعود اس جاری بنیاد پرستی پر گہرا نظر رکھتے ہوئے اور اس پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ نصاب تعلیم کا مشمولات مذہبی پیشوا کرتے ہیں اور ذرائع ابلاغ پر بھی ان کا اجارہ ہے۔ اسی طرح سے قانون سازی میں ملا کو حق استرداد حاصل ہے اور انہیں لوگوں کی ذاتی زندگی میں دخل اندازی کی کھلی چھٹی ہے۔ معیشت کو ملا کی متلون فہم کے تابع کیا گیا ہے گلی کوچوں میں وہی اقدار قابل قبول ہیں جن پر ملا کا نشان انگوٹھا ثبت ہو۔ اس کے علاوہ مصنف نے اور بھی بہت سے مسائل کی طرف نشاندہی کی ہے جس کی بنیادی وجہ غیر جمہوری روایات ہیں۔

ان تمام مسائل کا حل جمہوری انداز میں دیکھتے ہوئے وجاہت مسعود لکھتے ہیں کہ آج علم کی بنیاد سائنسی منہاج ہے۔ سیاسی اقتدار کا ماخوذ عوام کی رائے ہے اور معاشرت کی بنیاد اخلاقیات ہے جسے انسانی تجربے اور نتائج سے استنباط کیا جاتا ہے۔

دیگر کالمز میں سے ایک کالم متحدہ مجلس عمل کی شکست پر لکھا گیا ہے جس میں پہلے متحدہ مجلس عمل کا 2002 الیکشنز میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد مرکز میں حکومت کا حصہ بنی اور ایک صوبے میں حکومت بنائی۔ اس کے بعد 18 فروری کے الیکشنز تک ان کی کارکردگی مایوس کن رہی اور اسی دفعہ وہ دوبارہ اینٹی امریکہ جیسے سلوگنز سے دوبارہ عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کے لئے انہی کھوکھلے نعروں کا استعمال کرتے تھے مگر اس دفعہ عوام نے انہیں مسترد کیا کیونکہ ان کی کارکردگی صفر ہے جبکہ یہ بنیاد پرستی کو بنیاد بنا کر چند وقت کے لئے عوام کو بیوقوف تو بنایا جاسکتا ہے لیکن ہر وقت کے لئے نہیں بنا سکتے۔

مذہبی دہشت گردی کی عفریت کے عنوان سے مصنف نے ایک کالم میں لکھا ہے کہ مذہبی دہشت گردوں نے ملک کی بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کے اجتماعات کو کراچی اور راولپنڈی میں نشانہ بنایا۔ جن میں محترمہ بینظیر بھٹو سمیت دو سو کے لگ بھگ شہری ہلاک ہوئے پیپلز پارٹی ہی کی طرح معتدل اور روشن خیال نقطۂ نظر کی حامل جماعت عوامی نیشنل پارٹی پر تاک تاک کا نشانے لگائے گئے۔ اس کالم میں انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی ہے کہ دراصل یہ لوگ پاکستان پر قبضہ جمانا چاہتے ہیں اور اپنی مرضی کا حکومت کرنا چاہتے ہیں جو کہ یہاں کے لوگوں کے لئے پریشان کن امر ہے۔

وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ یہ لوگ لال مسجد کی صورت میں بتا چکے ہیں کہ یہ پاکستان کے حساس ترین شہر کو مفلوج کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پاکستان کے اقتصادی مرکز کراچی میں ان کے اڈے موجود ہے۔ یہ لڑائی پاکستان کی جنگ ہے جسے محض پولیس کی کارروائیوں یا فوجی بمباری کے ذریعے حل نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لئے پاکستان کے سیاستدانوں کو یکسو ہو کر پاکستان کی جسد سیاست اور معاشرت سے وہ زہر نکالنا ہو گا جسے پی کر یہ سانپ اژدہے کی شکل اختیار کر رہا ہے۔

اسی طرح بدستور آگے کالمز میں مشرف جیسے امر کی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کرتے ہیں کہ انہوں نے جمہوری روایات کو بہت نقصان پہنچایا اور پاکستان سے سیاسی کلچر کے خاتمہ کے لئے پوری توانائی استعمال کرنے کی کوشش کی۔ ملک کے دو بڑے جمہوری پارٹی کے سربراہان جلاوطنی کی زندگی پر مجبور کرنے میں بھی مشرف کا ہاتھ تھا یہ سب آمریت اور مذہبی بنیاد پرستی گٹھ جوڑ کی پالیسیاں تھیں۔ اسی طرح مصنف نے جمہوریت کے خلاف جو سازشیں ہوئی ان کو بھی قلمبند کیا گیا ہے مثال کے طور پر پاکستان میں جمہوریت کو کمزور کرنے کے لئے جو حربے استعمال ہوئے اس پر مختلف کالمز لکھے ہیں۔

طالبان یا جمہوریت پاکستان دوراہے پر کتاب میں وجاہت مسعود نے مختلف عنوانات پر مختلف کالمز لکھے ہیں تاہم 9 / 11 کے بعد جو پاکستان کی صورت حال تھی زیادہ تر کالم اس کے متعلق ہے۔ یہ کتاب اس وقت کے حالات کی بہترین عکاس ہے۔ یہ کتاب ہر پاکستانی کو پڑھنا چاہیے تاکہ اس وقت کے جو حالات تھے اس کے بارے میں آگاہ ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments