سارہ انعام کا سوشل میڈیا پہ آخری پیغام اور بہشتی زیور


”میرا ایمان ہے کہ میں اسے بدل دوں گی۔ اس نے جس طرح میری زندگی میں رنگ بھرے ہیں، میں نے خود کو زندہ محسوس کیا ہے۔ وہ اندر سے ٹوٹ چکا ہے۔ اور مجھے یقین تھا کہ میں اس کے سبھی درد ختم کر دوں گی۔
شاہ شمس تبریز کہتے ہیں،
کھنڈرات میں خزانے چھپے ہوتے ہیں
ٹوٹے دل میں بھی خزانے چھپے ہوتے ہیں

میں نے محسوس کیا کہ میں اس کی کھوئی ہوئی محبتوں کے گہرے گھاؤ کی تلافی کر سکوں گی۔ میں اس کے غموں سے پریشان تھی۔ میں دعا گو ہوں کہ اسے وہ سکون ملے جس کا وہ متلاشی ہے“

مہر بخاری کی زبانی یہ پیغام سننے کو ملا۔ حیران ہوئے نا آپ؟ حیران سے زیادہ شاید پریشان کہ اتنی ذہین اور تعلیم یافتہ لڑکی کیسے ایک درندہ صفت شخص کو معصوم اور مظلوم سمجھ بیٹھی؟ اور مرے پہ سو درے خود کو مسیحا اور اس کے غم اور گھاؤ پہ مرہم رکھنے کو دل و جان سے تیار۔

ہمیں نہ حیرت ہوئی نہ پریشانی! کیوں ہوتی بھلا؟ کیا دنیا بھر کی کتابیں نہیں پڑھیں یا زندگی کو برت کر نہیں دیکھا؟ یہی تو ہے جس سے ہر لڑکی کا خمیر گوندھا جاتا ہے، شعوری یا غیر شعوری طور پہ، دنیا بھر میں۔

دنیا بھر کی کتابیں، فلمیں، ڈرامے، تماثیل، لوک کہانیاں، لوک گیت، شاعری، اقوال دانش، روایات، حکایات، کہانیاں اور افسانے بھرے ہوئے ہیں اس بیانیے سے کہ۔ ۔ ۔

تند خو مرد ہو یا مغرور، وحشی نظر آتا ہو یا بکھرا ہوا، بگڑا ہوا رئیس زادہ ہو یا بے وفائی کے داغ لے کر جینے والا، خزانہ چھپائے کھنڈر ہو یا خالی عمارت، سر تاپا غموں بے حال نظر آتا ہو یا خوش اخلاقی کا نقاب اوڑھے ہو، زمانے کی تلخیوں سے گھبرا کر شراب کے نشے میں ڈوبا ہو یا دنیا سے کنارہ کش ہوا بیٹھا ہو، محبت کے گھاؤ کھا کر نڈھال ہو یا زندگی سے بیزار، ٹوٹا ہوا نظر آتا ہو یا کرچیوں کو جوڑنے کی کوشش کر رہا ہو۔ جیسا بھی ہو جہاں بھی ہو جس حال میں بھی ہو، اس کے اندر ایک ہیرو چھپا ہوتا ہے، ایک معصوم گھائل روح، محبت کی تلاش میں زخمی پرندہ، بھٹکتا ہوا راہی بے چارہ۔

اس بھٹکتے مسافر، زخموں سے نڈھال، غم کی شدت سے بے حال، کٹھن زندگی گزارنے والے کو زمانے کی ٹھوکروں نے اس حال تک پہنچا دیا ہے۔ اس کا اصلی جوہر کوئی دریافت ہی نہیں کر سکا۔

ہائے بے چارہ!
یہ ہے وہ بیانیہ جو پوری دنیا میں عورت کو یہ ترغیب دے کر ایک دیوی کے روپ میں ڈھالتا ہے۔

اونچے پیڈسٹل پر کھڑی رحم دل نیک عورت جو اس کے کرچی کرچی وجود کو سمیٹ لے، اس کے سارے درد خود میں جذب کر لے، اس کے گھاؤ بھرنے کے لیے اپنی زندگی پیش کر دے۔ جو اس کی زندگی کے کانٹے اپنی انگلیوں کی پوروں سے چنے۔ اس بے چارے کے اندر نئی روح پھونک دے تاکہ کھنڈر میں چھپے ہوئے خزانے سب کی نظر خیرہ کر دیں۔

نتیجہ کیا نکلتا ہے؟
عورت اپنے آپ کو عورت نہیں سمجھتی، ماں بن جاتی ہے اور وہ مرد بچہ۔ بگڑا ہو بچہ۔

چاہے وہ عورت بیوی ہو، گرل فرینڈ ہو، محبوبہ ہو، کزن ہو، دوست ہو، کلاس فیلو ہو، کولیگ ہو، بیٹی ہو، بہن ہو، ہمسائی ہو، ہم سفر ہو۔ وہ ساتھ چلتے مرد کی ماں بن کر اس میں چھپا ہیرو برآمد کرنا چاہتی ہے۔ وہ ہیرو جو ابھی تک اس کی وحشت سے آزاد نہیں ہو سکا۔

”میں اسے بدل دوں گی، میں اسے اچھا انسان بنا دوں گی، میں اسے سکھاؤں گی، میں اس کا ساتھ دوں گی، میں اسے جینا سکھاؤں گی۔ میں اس کے دکھ پر پھاہا رکھوں گی“

یہی کہا تھا نا سارہ نے اور شاید نور نے بھی!

معاشرے، تہذیبیں، رسوم، رواج، روایات نے عورت کے جس روپ کو آئیڈیل مان کر عورت کے ذہن میں جو بیج بویا ہے وہ وہی ہے جو آج ہر کوئی سارہ انعام اور نور مقدم کے لیے کہہ رہا ہے۔

”سادہ طبیعت، نرم لہجہ، ملنسار، خوش گفتار، ذہین، انسان دوست، صلح جو، بے لوث، باعتماد، حساس، ہمدرد، لڑائی جھگڑے سے دور رہنے والی، کتاب دوست، گھر اور خاندان کا خیال رکھنے والی“

معاف کیجیے گا یہ عادات آپ کو قربانی کے چبوترے تک ضرور لے جائیں گی، جنگل کے قانون کے مطابق جینا نہیں سکھائیں گی۔

لیجیے آئسنگ اون دی کیک، بہشتی زیور کا ایک اقتباس۔

”اگر غصے میں کچھ برا بھلا کہے تو تم ضبط کرواور بالکل جواب نہ دو۔ وہ چاہے جو کہے، تم چپکی بیٹھی رہو۔ غصہ اترنے کے بعد دیکھنا خود پشیمان ہو گا اور تم سے خوش رہے گا اور پھر تم پر غصہ نہیں کرے گا۔ اگر تم بھی بول اٹھیں تو بات بڑھ جائے گی پھر پتہ نہیں کہاں تک نوبت پہنچے ( یہ نکتہ سارا انعام کا قتل یاد دلاتا ہے ) ۔

یاد رکھو کہ مردوں کو خدا نے شیر بنایا ہے۔ دباؤ اور زبردستی سے ہر گز زیر نہیں ہو سکتے۔ ان پر غصہ کر کے دباؤ ڈالنا بڑی غلطی اور نادانی ہے، اس کا خراب نتیجہ پیدا ہو گا“
روئیں یا ہنسیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments