لکھم پور: انڈیا میں دو بہنوں کے ریپ کے بعد قتل کے واقعے میں اٹھنے والے کئی سوالات


Lakhimpur rape-murder case
Anshul Verma
اس ماہ کے اوائل میں انڈیا کی شمالی ریاست اتر پردیش میں دو نوجوان بہنوں کی ایک درخت سے لٹکی ہوئی لاشیں ملنے کے چند گھنٹوں بعد ہی پولیس نے جرم کی اس واردات کو حل کرنے اور چھ افراد کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا۔

لیکن متاثرہ بہنوں کے لواحقین اور ملزمان کے خاندان والوں نے پولیس تحقیقات پر سنگین سوالات اٹھائے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ حقیقت پولیس کے موقف سے مختلف ہے۔

جبکہ چند سیاستدانوں اور میڈیا کی جانب سے ملزمان کے مذہب پر توجہ دلانے کی کوشش پر بھی تنقید کی جا رہی ہے۔

بی بی سی کی نامہ نگار گیتا پانڈے اور ونیت کھرے نے ضلع لاکھم پور کا دورہ کیا۔ جو ریاستی دارالحکومت لکھنو سے 200 کلومیٹر کی مسافت پر ہے تاکہ وہ جرم کی اس کہانی کے سرے جوڑ سکیں جو انڈین میڈیا کی شہ سرخیوں میں ہے۔ .

پولیس کی کہانی، گرفتاریاں اور اعتراف جرم

اس جرم کے سرزد ہونے کے 24 گھنٹوں سے کم وقت میں پولیس نے ایک پریس کانفرنس کی جس میں انھوں نے ملزمان کی نشاندہی کی اور ان کی گرفتاری کے متعلق بتایا۔

ان کے مطابق دو بہنوں کے ریپ کے بعد قتل کی واردات میں مرکزی ملزم متاثرہ خاندان کا ایک دلت برادری سے تعلق رکھنے والا پڑوسی جبکہ قریبی گاؤں کے پانچ مسلمان افراد بھی شامل تھے۔

پولیس سپرنٹنڈنٹ سنجیو سمن کا کہنا تھا کہ گرفتار ملزمان نے ’اعتراف جرم‘ کر لیا ہے اور جرم کی تفصیلات بتا دی ہیں۔

انھوں نے کہا تھا کہ ’مرکزی ملزم‘ نے لڑکیوں کا دو مسلمان برادری کے افراد سے تعارف کروایا تھا اور ان میں دوستی ہو گئی تھی اور وہ اپنی ’رضامندی سے ان کے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھ کر گئی تھیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ملزم کا کہنا تھا کہ ان میں جھگڑا ہو گیا جس پر مسلمان برادری کے افراد (ملزمان) نے تیش میں آ کر لڑکیوں کا ریپ کیا اور ان کا گلا دبا کر قتل کر دیا کیونکہ وہ ان پر شادی کے لیے دباؤ ڈال رہی تھیں۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے دو اور ساتھیوں کو بلایا اور ان کی مدد سے انھوں نے لڑکیوں کی لاشوں کو درخت کے ساتھ لٹکایا۔‘

پولیس کے اس دعوے کی ملزمان کے اہل خانہ نے سختی سے تردید کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے بے قصور ہیں، ان کے ساتھ دوران حراست برا سلوک کیا گیا ہے اور ان میں سے کچھ نابالغ ہیں۔

لڑکیوں کے خاندان کا کیا کہنا ہے؟

لڑکیوں کے خاندان نے بھی پولیس کے موقف پر سوال اٹھاتے ہوئے رد کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے ’ان کی بیٹیوں کو بدنام کیا گیا۔‘

لڑکیوں کی والدہ اور ان کے اغوا کی واحد عینی شاہد کا کہنا ہے کہ دونوں بہنیں 15 اور 17 برس کی تھیں اور انھیں موٹر سائیکل پر آنے والے تین افراد نے اغوا کیا تھا۔

انھوں نے روتے ہوئے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب میں نے ان کا پیچھا کرنے کی کوشش کی تو ان میں سے ایک شخص نے میرے پیٹ میں لات ماری اور میں زمین پر گر گئی۔’

ان کا کہنا ہے کہ جب تک میں دوبارہ کھڑی ہوئی تو وہ افراد ان کی بیٹیوں کو لے کر قریبی کھیتوں میں غائب ہو چکے تھے۔

دو کمروں پر مشتمل اس گھر میں رہنے والا دلت خاندان (جنھیں پہلے اچھوت بھی کہا جاتا تھا) ایکڑوں پر محیط گنے کے کھیتوں کے قریب رہتا ہے جہاں اونچی فصل کے درمیان غائب ہو جانا آسان ہے۔

لڑکیوں کے والد کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت کھیتوں سے واپس آ رہے تھے جب ان کی بیوی نے انھیں یہ بری خبر سنائی۔

گاؤں والوں نے فوری طور پر لڑکیوں کی تلاش کے لیے گروہ بنا کر گنے کے کھیتوں کو چھاننا شروع کر دیا۔ ڈھائی گھنٹے بعد، انھیں دونوں لڑکیوں کی لاشیں ایک درخت سے لٹکی ہوئی ملیں جو ان کے گھر سے زیادہ دور نہیں تھا۔

لڑکیوں کے والد کا مزید کہنا ہے کہ ’اچانک سب نے چلّانے شروع کر دیا کہ وہ یہاں ہیں، وہ یہاں ہیں۔‘ انھوں نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے فوراً پولیس کو اطلاع دی۔‘

لڑکیوں کے اہل خانہ نے پولیس کا یہ موقف مسترد کیا کہ لڑکیاں ملزمان کو جانتی تھیں، ان کا کہنا ہے کہ دونوں لڑکیاں بہت محنتی تھیں، گھر کا سارا کام کاج کرتی تھیں اور وہ باہر نہیں آتی جاتی تھیں بلکہ خود کو گھر تک محدود رکھتی تھیں۔

ان کے بھائی کا کہنا ہے کہ ’وہ کبھی کہیں بھی اکیلی نہیں گئی تھیں۔‘ ان کے والد کا مزید کہنا تھا کہ ‘ہماری بچیاں بہت سادہ اور شریف تھیں، پولیس ان کے متعلق کہانیاں بنا رہی ہے۔‘

ملزم اور گولی کا چلنا

متاثرین کے گھر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر پانچ مسلمان ملزمان کے گھر ہیں۔ ان ملزمان کے والدین کا کہنا ہے کہ انھیں نہیں معلوم کہ ان کے بیٹے ان دونوں بہنوں کو جانتے تھے یا نہیں، لیکن ان کا اصرار ہے کہ ان کے بچے قاتل نہیں ہیں۔

ایک ملزم کے بارے میں پولیس کا دعویٰ ہے کہ اسے پولیس کے ساتھ مدبھیڑ کے بعد گرفتار کیا گیا تھا جس میں اس ملزم کی ٹانگ میں گولی لگی تھی۔ اس ملزم کے والد بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بار بار رو پڑتے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ پولیس رات گئے ان کے گھر پہنچی اور ان سے اپنے بیٹے کو فون کرنے کو کہا جو حیدرآباد جا رہا تھا جہاں وہ کام کرتا تھا۔ ان کا بیٹا بیلیبھٹ کے قریب بس سے اتر گیا جہاں سے اسے پولیس نے گرفتار کیا تھا۔

اس ملزم کے والد پولیس پر الزام عائد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘میں اس وقت پولیس کے ساتھ گاڑی میں موجود تھا، لیکن انھوں نے میرے بیٹے کو ایک اور گاڑی میں ڈالا، انھوں نے مجھے اس سے ملنے بھی نہیں دیا۔’

وہ کہتے ہیں کہ ‘بعد میں پتہ چلا کہ میرے بیٹے کی ٹانگ میں گولی لگی ہے، مجھے کچھ پتہ نہیں کہ انھوں نے میرے بیٹے کو گولی کیوں ماری۔’

پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم پر گولی اس لیے چلائی گئی کیونکہ وہ بھاگنے کی کوشش کر رہا تھا۔

ملزم کے والد سوال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘لیکن وہ بھاگ نہیں رہا تھا، وہ تو واپس آ رہا تھا، اگر اس کا بھاگنے کا ارادہ ہوتا تو وہ ایسا کیوں کرتا؟’

ان کا کہنا ہے کہ ‘اگر وہ قصوروار ہے تو اسے پھانسی دے دو لیکن کم از کم صحیح طریقے سے تحقیقات تو کرو۔’ وہ مزید کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں صرف وفاقی تحقیقاتی ادارے سے ہی حقیقت سامنے آ سکتی ہے۔

دونوں بہنوں کے ریپ کے بعد قتل نے خاندان کو بکھیر کر رکھ دیا ہے۔ ملزمان کے خاندان والے پولیس کے اس دعوے کی بھی نفی کرتے ہیں کہ تمام ملزمان بالغ ہیں۔

حکومت کے جاری کردہ شناختی کارڈ کے مطابق ملزمان میں سے ایک سنہ 2008 میں پیدا ہوا ہے جس کے حساب سے اس کی عمر 14 برس بنتی ہے جبکہ دوسرا 17 برس کا ہے۔

دو دیگر ملزمان کی ماؤں کا دعویٰ ہے کہ ان کے بیٹے بالغ نہیں ہیں جبکہ ان میں سے ایک ماں نے اپنے بیٹے کا شناختی کارڈ دکھایا ہے جس کے مطابق اس کی عمر 18 سال ہے لیکن ماں کا اصرار ہے کہ ان کا بیٹا 17 سال کا ہے۔

تاہم پولیس سپرنٹنڈنٹ نے دونوں خاندانوں کے دعوؤں کو مسترد کیا ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ’ایسے کوئی شواہد نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ یہ ملزمان نابالغ ہیں۔ میڈیکل رپورٹس بھی اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ یہ بالغ ہیں۔ لہٰذا جب تک ہمیں کوئی اور مصدقہ اطلاع نہیں مل جاتی ہم ان کے ساتھ بالغوں کی طرح کا سلوک کریں گے۔’

The father and grandfather of one of the accused

Anshul Verma

یہ بھی پڑھیے

دو بہنوں کا ریپ اور قتل: ’میں ان آدمیوں کو پھانسی پر لٹکا دیکھنا چاہتی ہوں جنھوں نے یہ سب کیا‘

انڈیا: دو بہنوں کا ریپ اور قتل، لاشیں درخت سے لٹکتی ہوئی ملیں

گجرات فسادات: ’کبھی کبھی فسادیوں کے خلاف گواہی دینے پر پچھتاوا ہوتا ہے‘

انڈیا: اجتماعی ریپ کی شکایت درج کروانے والی لڑکی سے تھانیدار کا مبینہ ریپ

‘لو جہاد’ پر بحث

اگرچہ دلت اور مسلمان دونوں برادریوں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ان کے خیال میں اس جرم کا کوئی مذہبی زاویہ نہیں تھا، لیکن انڈیا اور ریاست کی حکمران جماعت ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے کچھ اراکین نے اس کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی ہے۔

انڈیا کے ایک ٹی وی چینل کے پرائم ٹائم پروگرام میں بات کرتے ہوئے، اتر پردیش میں بی جے پی کی ترجمان انیلا سنگھ نے کہا کہ یہ جرم ‘لو جہاد’ کا معاملہ ہو سکتا ہے۔

انڈیا میں لو جہاد کی اصطلاح بنیاد پرست ہندو گروپ استعمال کرتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان مرد، ہندو خواتین سے شادی کر کے ان کا مذہب تبدیل کرواتے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘تحقیقات سے پتہ چل جائے گا کہ آیا یہ لو جہاد کا معاملہ تھا یا نہیں۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘ایسا ممکن ہے، کیونکہ ہم نے ایسے واقعات نہ صرف اترپردیش میں دیکھے ہیں،بلکہ پورے انڈیا اور دیگر دنیا میں بھی دیکھے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ ہاں، لو جہاد ہوتا ہے۔’

اس کیس کا دو سال قبل ہاتھرس ضلعے میں ایک 19 سالہ دلت لڑکی کے مبینہ گینگ ریپ سے موازنہ بھی کیا جا رہا ہے۔ یہ واقعہ عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہا تھا۔

اس واقعے میں متاثرہ خاتون کی جانب سے اپنے سے اونچی ذات کے چار افراد کو نامزد کرنے کے باوجود پولیس نے انھیں گرفتار کرنے میں کئی دن لگا دیے تھے اور بی جے پی سے تعلق رکھنے والے ایک رہنما نے ملزمان کے حق میں ایک ریلی بھی نکالی تھی۔

اگرچہ بہت سے لوگوں نے لکھم پور کیس کو اتنی جلدی حل کرنے پر پولیس کی تعریف کی ہے، لیکن کچھ گاؤں والوں اور مقامی صحافیوں نے ملزمان کے ناموں کا اعلان کرنے میں پولیس کی ‘جلد بازی’ پر سوال اٹھایا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس کا تعلق ریاست میں اقلیتی مسلمان برادری کو نشانہ بنانے کے ساتھ ہے جبکہ مقامی بی جے پی وکیل ششانک ورما نے اس الزام کی تردید کی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘ذمہ دارانہ انداز سے تحقیقات کی جا رہی ہیں، اس معاملے میں ملزمان کا مذہبی تعلق غیر اہم اور بے معنی ہے۔ مجرم، مجرم ہوتا ہے۔’

On Wednesday, police took four of the accused back to the Tamoli Purva village to

گذشتہ بدھ کو نو عمر بہنوں کی پھندا لگی لاشیں ملنے کے ٹھیک ایک ہفتہ بعد، پولیس چار ملزمان کو تمولی پوروا گاؤں واپس لے گئی تاکہ جائے واردات پر ‘جرم کا منظر دوبارہ بنایا جا سکے۔’

جائے واردات پر واپسی

گذشتہ بدھ کو نو عمر بہنوں کی پھندا لگی لاشیں ملنے کے ٹھیک ایک ہفتہ بعد، پولیس چار ملزمان کو تمولی پوروا گاؤں واپس لے گئی تاکہ جائے واردات پر ‘جرم کا منظر دوبارہ بنایا جا سکے۔’

ان ملزمان میں وہ ملزم بھی شامل تھا جس کی ٹانگ پر گولی لگی تھی، اور وہ کچھ لڑکھڑا کر چل رہا تھا اور اس کی دائیں ٹانگ پر پلستر چڑھا ہوا تھا۔

جب وہ ملزمان پولیس اہلکاروں کے گھیرے میں چل رہے تھے، تو اس وقت ایک رپورٹر نے ان سامنے مائیکرو فون کیا اور سوال پوچھا کہ کیا انھیں اپنے کیے پر پچھتاوا ہے۔

ان میں سے ایک نے جواب دیا’ ہم نے کچھ نہیں کیا، ہم تو اس دن یہاں تھے ہی نہیں۔’

اس تحریر کے لیے لکھم پور میں پرشانت پانڈے نے اضافی رپورٹنگ کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32537 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments