یہ طوفان بدتہذیبی کہاں جا کر تھمے گا؟


مریم اورنگزیب صاحبہ کے خلاف پی ٹی آئی کے حامیوں کی لندن میں بدتمیزی اور ہراسانی کا واقعہ قابل مذمت اور نہایت افسوس ناک ہے۔ ان کو لندن کے ایک ریسٹورنٹ میں کافی خریدتے ہوئے پی ٹی آئی ٹرولز نے ہراسانی کا نشانہ بنایا اور اس کی وڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دیں۔ ویڈیوز کے اپ لوڈ ہوتے ہی پی ٹی آئی والوں نے اس بدتہذیبی پر خوب طنز و تشنیع کے تیر برسائے اور واہ واہ کی۔ البتہ باشعور لوگوں نے اس کی بجا طور پر مذمت کی۔ اس واقعے میں مریم اورنگزیب نے جواباً خاموشی اختیار کرتے ہوئے کوئی رد عمل ظاہر نہ کیا۔ یوں انہوں نے نہ صرف ذہنی پختگی کا ثبوت دیا بلکہ ان بدتہذیب لوگوں کے عمل کو بے اثر بھی کر دیا۔

یہ واقعہ افسوس ناک اس لئے نہیں کہ وہ حکمران جماعت یا نون لیگ کی وزیر اطلاعات ہیں بلکہ اس لئے کہ وہ انسان اور عورت ہیں۔ اگر عمران خان کو دیکھ کر غیر اخلاقی نعرے لگائے جائیں تو یہ بھی قابل افسوس ہو گا۔ ہمارا دین یا معاشرتی روایات تو دشمن کا بالخصوص ان کی عورتوں کا بھی احترام کرنے کا حکم دیتا ہے، لیکن پی ٹی آئی کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔ ان کے ہاں سیاسی مخالفین یا حزب اختلاف کے لئے احترام ناپید ہے۔ اگر آپ کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے تو حکمران اتحاد کی جماعتوں کے لوگوں کی تضحیک اور توہین آپ کا حق ہے، یہ وہ غلط فہمی ہے جس نے پی ٹی آئی کی سیاست اور جماعت کے معیار کو نئی پستیوں سے ہمکنار کیا ہے۔ انگلینڈ جیسے ملک میں رہ کر بھی اگر کوئی یہ تہذیب نہ سیکھے کہ کسی سیاسی جماعت اور اس کی حکومت کے لئے قبولیت اور انکار کا اظہار اور فیصلہ ووٹ کے ذریعے کیا جاتا ہے، تو اس ناپختگی پر افسوس ہے۔

مذکورہ واقعے میں ملوث لوگوں کا یہ موقف ہے کہ چور کو چور نہ کہیں تو کیا کہیں۔ ٹھیک ہے لیکن چور کو چور کو کہنے کا مہذب طریقہ بھی ہوتا ہے۔ اور سب سے اہم بات ہے چور کی چوری کا ثبوت اور اس کا چور ثابت ہونا۔ واقعے میں ملوث لوگوں کے پاس مریم اورنگزیب یا نون لیگ کی چوریوں کا کیا ثبوت ہے؟ اگر ہے تو اسے منظر عام پر آنا چاہیے۔ نون لیگ کے خلاف عدالت میں مقدمات زیر سماعت ضرور ہیں لیکن تاحال ان کا فیصلہ آنا باقی ہے۔

یوں سڑکوں پر عدالت لگا کر کسی کے خلاف چور چور، لٹیرے، بے غیرت جیسے الفاظ سنا کر آپ اپنا ہی امیج خراب کرتے ہیں، دوسرے کا نہیں۔ دوسرا شخص خواہ کتنا ہی برا ہو، اسے سر عام گالی دینا اور ہراساں کرنا اخلاقی پستی کے زمرے میں آتا ہے۔ مگر افسوس کہ عمران خان نے زومبیز (zombies) کی جو نسل تیار کی ہے، وہ اخلاقی انحطاط کے سر عام اظہار کو برا نہیں سمجھتی۔ مریم اورنگزیب صاحبہ اس گروپ میں بھی شامل تھیں جسے عمرہ ادائیگی کے موقع پر بھی مسجد نبوی میں ہراساں کیا گیا تھا۔

یہاں ایک نکتہ واضح کردوں، جلسے جلوس میں کسی کے خلاف نعرے بازی کرنا اور ایک خاتون کو سر بازار ہراساں کرنا دو مختلف باتیں ہیں۔ اگرچہ اول الذکر بھی قابل قبول نہیں لیکن مریم اورنگزیب کو ہراساں کرنا، آوازے کسنا، اور اس کے ساتھ ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دینا کہیں زیادہ قابل مذمت ہے۔ بعد ازاں اس حوالے سے مریم صاحبہ نے اسی ریسٹورنٹ میں ایک خاتون سے بات کرتے ہوئے نہایت باوقار انداز میں اپنا کیس پیش کیا۔ ”اگر آپ کی والدہ یا بہن کو کوئی اس طرح سر عام ہراساں کرے اور آوازے کسے تو کیا آپ کو اچھا لگے گا؟ ایسی باتوں سے میرے قد میں اور اضافہ ہوتا ہے۔ اگر آپ کسی کو پسند نہیں کرتے تو اس کے اظہار کا درست طریقہ ووٹ ہے۔ “

عبدالعلیم خان ماضی میں پی ٹی آئی سے وابستہ رہے ہیں۔ انہوں نے اس جماعت اور زومبیز کی ذہنیت کو ایک پریس کانفرنس میں بڑی خوبصورتی سے بیان کیا تھا۔ ”جو پی ٹی آئی کے ساتھ ہے، وہ محب وطن ہے۔ اور جو ساتھ نہیں ہے، وہ غدار ہے؟“ ان لوگوں نے یہی بات ایمان کی حد تک درست سمجھ لی ہے، جبکہ ان کے سامنے عمران خان کی کرپشن کا ذکر کریں تو یہ تسلیم نہیں کرتے۔ واقعے میں ملوث افراد پر یقیناً برطانیہ کے ماحول نے کوئی اثر نہیں کیا، یا پھر ان کا عمل با معاوضہ تھا۔ ”جواب جاہلاں باشد خموشی“ اور ”کوئی رد عمل نہ دینا بہترین رد عمل ہے“ ، ان دونوں باتوں کا عملی مظاہرہ ہم نے مریم صاحبہ کی خاموشی میں دیکھ لیا۔ عمل اور رد عمل کا موازنہ کریں تو مریم اورنگزیب فاتح قرار پاتی ہیں۔

برطانیہ کی پولیس کی طرف سے تادیبی کارروائی کی صورت میں ملوث افراد کو خاصے نقصان کا سامنا ہو سکتا ہے جیسے سعودی حکومت نے مسجد نبوی ﷺ کی بے حرمتی والے واقعے میں ملوث پاکستانیوں کو قید اور جرمانے کی سزا دی اور نوکریوں سے بھی برخواست کر دیا تھا۔ لندن واقعے میں ملوث افراد کے بھی پاسپورٹ بلاک کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ایسی صورت میں ان کا خود ہی دماغ ٹھکانے پر آ جائے گا۔ ان کے سربراہ عمران خان صاحب حال ہی میں عدالت میں جج زیبا چوہدری صاحبہ کے کمرے میں بذات خود معافی مانگنے کے لئے تشریف لے کر گئے۔ چاہے لیڈر ہو یا اس کے پیروکار، ایسا عمل کریں ہی کیوں جس پر بعد میں معافی مانگنی اور شرمندگی کا اظہار کرنا پڑے؟ اس کے برعکس بشریٰ بی بی، فرح خان گوگی، عمران خان کے گھر یا ان کی پارٹی کی کسی خاتون کو نون لیگ کے پیروکاروں نے کبھی اس طرح سر عام ہراساں نہیں کیا۔

اداکار منیب بٹ اور عتیقہ اوڈھو نے مریم اورنگزیب سے انسٹاگرام پر اظہار یک جہتی کیا۔ عتیقہ اوڈھو صاحبہ نے مریم اورنگزیب ہی کے الفاظ کو اپنی انسٹا گرام سٹوری میں دہراتے ہوئے کہا کہ اپنے جذبات کا اظہار ووٹنگ کے ذریعے کریں۔ اگر بیرون ملک مقیم پاکستانی نون لیگ یا پیپلز پارٹی کو مسترد کرتے ہیں تو آئندہ انتخابات میں پاکستان آ کر اپنا ووٹ کاسٹ کریں۔ نون لیگ کے رہنماؤں کو ہراساں کر کے اور گالیاں دے کر وہ پاکستان کی کوئی خدمت نہیں کر رہے بلکہ الٹا دیار غیر میں اس کا امیج خراب کر رہے ہیں۔ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ایسے غیر مہذبانہ روئیے بیرون ملک پاکستانی کی بدنامی کا سبب ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ یہ بدنامی پاکستانیوں ہی کے ہاتھوں ہوئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments