ہرمین ہیس اور سدھارتھا کا روحانی سفر


آج میں ایک عظیم ناول نگار ہرمن ہیس اور ان کے مایہ ناز شہ پارے۔ سدھارتھا۔ کے بارے میں اپنے خیالات آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔

ہر مین ہیس 1877 میں جرمنی میں پیدا ہوئے تھے۔ اس کا ناول سدھارتھا بہت مشہور ہوا اور اس کے کئی زبانوں میں تراجم بھی ہوئے۔ ایک ماہر نفسیات ہونے کی حیثیت سے میرے لیے ایک دلچسپی کی بات یہ تھی کہ 1921 میں آدھا ناول لکھنے کے بعد ہرمین ہیس نفسیاتی بحران کا شکار ہو گئے اور ناول مکمل نہ کر سکے۔ وہ اپنے علاج کے لیے ڈاکٹر جوزف لینگ کے پاس گئے۔ چند ملاقاتوں کے بعد ان کے ڈاکٹر نے کہا کہ آپ کا مسئلہ بہت پیچیدہ آپ کو میرے استاد کے پاس جانا چاہیے۔ استاد سے علاج کے بعد ہرمین ہیس دوبارہ لکھنے لگے اور انہوں نے ناول کو دوسرا حصہ تخلیق کیا اور اسے 1922 میں مکمل کیا۔ ان کے نفسیاتی معالج کا نام کارل ینگ تھا۔ ہرمن ہیس کو 1946 میں ادب کا نوبل انعام ملا۔ وہ 1962 میں فوت ہو گئے۔ میں آپ کی خدمت میں ناول کی تلخیص اور اپنی رائے پیش کرتا ہوں

۔ ۔ ۔ ۔

روحانیات اور روحانی سفر کے بارے میں میں نے جتنی کتابیں پڑھی ہیں ان سب میں سے سدھارتھا میری سب سے زیادہ پسندیدہ کتاب ہے۔ اس کتاب میں ہرمین ہیس نے بدھا کی کہانی کو ایک ناول بنا کر پیش کیا ہے۔ میں نے وہ ناول کئی دفعہ پڑھا ہے اور بہت سے دوستوں کو تحفے کے طور پر پیش کیا ہے۔ میں جب بھی اس ناول کو پڑھتا ہوں مجھے اس سے ایک نئی بصیرت ملتی ہے۔ ہرمین ہیس نے بدھا کے عمر بھر کے روحانی سفر کو صرف ایک سو صفحوں میں بیان کر دیا ہے جو ایک تخلیقی معجزہ ہے۔ اس سفر کے آغاز میں وہ سدھارتھا ہوتا ہے اور انجام میں وہ بدھا بن جاتا ہے۔

جب ہم بدھا کی کہانی تاریخ کی کتابوں میں پڑھتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک مالدار گھرانے کا چشم و چراغ تھا اور ہندوستان میں 550 قبل مسیح میں پیدا ہوا تھا۔ بدھا کی ایک محل میں پرورش کی گئی تھی۔ اسے محل سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ جوتشیوں نے بدھا کے باپ سے کہہ رکھا تھا کہ اگر بدھا نے محل سے باہر قدم رکھا اور اس نے زندگی کے چند حقائق دیکھے تو عین ممکن ہے کہ وہ محل چھوڑ کر جنگل میں چلا جائے اور بادشاہ بننے کی بجائے سادھو بننے کے خواب دیکھنے لگے۔ بدھا کے والد نے بہت کوشش کی کہ وہ محل سے باہر نہ جائے لیکن وہ اس کوشش میں کامیاب نہ ہوا۔

ایک دن بدھا محل کے شمالی دروازے سے باہر گیا اور اسے راستے میں ایک اپاہج روتا ہوا نظر آیا۔ نوکروں نے بتایا کہ وہ کوڑھ کا مریض ہے۔

اگلے ہفتے جب بدھا محل کے جنوبی دروازے سے باہر گیا تو اس نے ایک ایسے آدمی کو دیکھا جس کی کمر جھکی ہوئی تھی اور وہ ایک لاٹھی کے سہارے چل رہا تھا۔ نوکروں نے بتایا کہ وہ شخص بوڑھا ہو گیا ہے۔

تیسرے ہفتے جب بدھا مشرقی دروازے سے باہر گیا تو اسے ایک بے جان شخص نظر آیا جو ایک چارپائی پر لیٹا ہوا تھا۔ نوکروں نے بتایا کہ وہ شخص مر چکا ہے اور لوگ اس کی لاش جلانے کا انتظام کر رہے ہیں۔

چوتھے ہفتے جب بدھا محل کے مغربی دروازے سے باہر گیا تو اس نے ایک ایسا شخص دیکھا جو نیم برہنہ تھا اور خود سے باتیں کر رہا تھا۔ نوکروں نے بتایا کہ وہ سادھو ہے اور اس نے دنیا تیاگ دی ہے۔

جب بدھا کا بیماری ’بڑھاپے‘ موت اور روحانیت سے تعارف ہو گیا تو جوتشی کی پیشین گوئی درست ثابت ہوئی اور بدھا نے فیصلہ کیا کہ وہ محل چھوڑ کر جنگل میں چلا جائے گا ’رہبانیت اختیار کر لے گا اور سنیاسی بن جائے گا۔ بدھا کے والد کو جب بدھا کے سنیاسی بننے کی خواہش کا پتہ چلا تو وہ بہت مایوس ہوئے۔ ہرمین ہیس لکھتے ہیں

’سدھارتھا نے اپنے والد سے کہا کہ میں آپ سے اجازت لینے آیا ہوں کہ میں کل گھر چھوڑ کر جنگل چلا جاؤں گا تا کہ سنیاسی بن سکوں۔ مجھے پوری امید ہے کہ آپ مجھے اس بات کی اجازت دے دیں گے۔ والد نے کہا کہ کسی برہمن کو سخت الفاظ نہیں کہنے چاہییں لیکن میرا دل خوش نہیں ہے۔ میں تمہارے منہ سے دوبارہ یہ الفاظ نہ سنوں‘

اس گفتگو کے بعد سدھارتھا کے والد کمرے سے باہر چلے گئے لیکن سدھارتھا وہیں کھڑا رہا۔ سدھارتھا نے اپنے دل میں فیصلہ تو کر لیا تھا کہ اس نے کیا کرنا ہے لیکن وہ چاہتا تھا کہ اس کے والد اسے آشیرباد دے دیں۔ جب سدھارتھا کے والد آدھی رات کو جاگے اور کھڑکی سے باہر دیکھا تو سدھارتھا کمرے میں وہیں کھڑا تھا جہاں وہ اسے چھوڑ کر آئے تھے۔ ساری رات جب بھی وہ جاگتے سدھارتھا کو اسی جگہ کھڑا پاتے۔ صبح ہونے تک انہیں اندازہ ہو گیا کہ سدھارتھا کا ارادہ مصمم ہے۔ ہرمن ہیس لکھتے ہیں ’جب صبح کی روشنی کمرے میں داخل ہوئی تو براہمن نے دیکھا کہ سدھارتھا کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں لیکن اس کا چہرہ پرسکون ہے اس کی آنکھیں دور خلاؤں میں گھور رہی ہیں۔ سدھارتھا کے والد کو اندازہ ہو گیا کہ ان کا بیٹا ان کے ساتھ مزید نہیں رہ سکتا۔ وہ کب کا جا چکا ہے‘ ۔

بدھا کے دور میں ہندوستان میں سنت اور سادھو بننے والے لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کر جنگلوں اور پہاڑوں میں چلے جایا کرتے تھے۔ وہ منافق دنیا سے دور ہٹ کر فطرت کے ساتھ وقت گزارتے تھے۔ وہ اپنے روحانی سفر کے لیے اپنی مادی زندگی کی قربانی دیتے تھے۔ وہ جنگلوں ’پہاڑوں اور وادیوں میں کئی سال اور کئی دہائیاں گزارتے تھے۔ فاقہ کشی کرتے تھے‘ اپنے نفس کو مارتے تھے تا کہ تمام خواہشات سے دست بردار ہو سکیں۔ وہ خوشی اور غم ’دکھ اور سکھ دونوں سے کنارہ کشی اختیار کرنا چاہتے تھے۔

ہرمن ہیس لکھتے ہیں ’سدھارتھا کی زندگی کا ایک ہی مقصد تھا۔ وہ اپنے من کو خالی کرنا چاہتا تھا۔ بھوک سے۔ پیاس سے۔ خواہشات سے۔ خوابوں سے۔ دکھ سے۔ سکھ سے۔ وہ اپنا نفس مارنا چاہتا تھا۔ وہ اپنے من میں سکون حاصل کرنا چاہتا تھا۔ وہ اپنی انا اور اپنی نرگسیت کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ وہ نروان حاصل کرنا چاہتا تھا۔

ہرمن ہیس لکھتے ہیں کہ سدھارتھا جب اپنے سفر پر نکلا تھا تو اس کے ساتھ اس کا بچپن کا دوست گوندا بھی تھا۔ گوندا نے دیکھا کہ جب سدھارتھا نے سلوک کی منزلیں طے کرنی شروع کر دیں تو اس نے باتیں کرنی کم کر دیں اور خاموشی اختیار کر لی۔

آہستہ آہستہ سدھارتھا نے معرفت کی منازل طے کیں اور نروان حاصل کیا۔

بہت سے سنت ’سادھو اور صوفی نروان حاصل کرنے کے بعد بقیہ زندگی کسی جنگل‘ کسی پہاڑ ’کسی غار یا خانقاہ میں گزار دیتے ہیں لیکن بعض دنیا میں واپس آ جاتے ہیں تا کہ اپنے روحانیت کے سفر میں اوروں کو شریک کر سکیں اور خدمت خلق کر سکیں۔

نروان حاصل کرنے کے بعد سدھارتھا نے فیصلہ کیا کہ وہ دنیا میں واپس آ جائے گا۔ واپس آنے کے بعد سدھارتھا ایک عورت کے عشق میں گرفتار ہو گیا۔ اس نے کاروبار کرنا بھی شروع کیا۔ ایک دفعہ جب اسے اپنی مادی اور روحانی زندگی میں تضاد کا احساس ہوا تو وہ پھر گھر چھوڑ کر چلا گیا۔ راستے میں اسے ایک ملاح ملا جس نے اسے زندگی کے کچھ راز بتائے۔ سدھارتھا کو پتہ چلا کہ زندگی کے راز جاننے کے لیے سفر کرنا پڑتا ہے۔

روحانی سفر کے دوران سنت ’سادھو اور صوفی ایک نئی شخصیت تخلیق کرتے ہیں۔ جب کملا نے سدھارتھا سے پوچھا کہ تم نے روحانی ریاض سے کیا سیکھا تو وہ کہنے لگا۔ تین چیزیں

میں سوچ سکتا ہوں
میں روزہ رکھ سکتا ہوں
میں انتظار کر سکتا ہوں

جب کاروبار کے مالک کاما سوامی نے کہا ’بس یہی کچھ۔ ان کا آخر کیا فائدہ ہے؟‘ تو سدھارتھا نے مسکراتے ہوئے کہا ’جب انسان کے پاس کھانے کو کچھ نہ ہو تو روزہ رکھنا دانائی کی بات ہے‘

روحانی سفر کرنے والے وقت کے ساتھ ایک نیا رشتہ قائم کرتے ہیں۔
ہرمین ہیس نے وقت کے فلسفے کو سدھارتھا اور کشتی بان کے درمیان ایک مکالمے سے ظاہر کیا ہے۔

’ کیا تم نے دریا سے یہ راز سیکھا ہے کہ وقت کو کوئی وجود نہیں‘ کشتی بان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ پھر اس نے کہا ’دریا ایک ہی وقت میں ہر جگہ ہے۔ دریا پہاڑوں میں بھی ہے۔ وادی میں بھی ہے۔ اور سمندر میں اترتے ہوئے بھی ہے۔ وہ ہر جگہ موجود ہے۔ اس کے لیے حال اہم ہے۔ اس کا نہ کوئی ماضی ہے اور نہ کوئی مستقبل۔‘

عارفؔ عبدالمتین کا شعر ہے
؎ وقت اک بحر بے پایاں ہے کیسا ازل اور کیسا ابد
وقت کے ناقس پیمانے ہیں ماضی مستقبل اور حال

جب سنت ’سادھو اور صوفی معرفت حاصل کر لیتے ہیں تو وہ اپنی ذات اور کائنات سے ایک نیا رشتہ قائم کر لیتے ہیں۔ انہیں ہر پتھر‘ ہر پھول ’ہو جانور اور ہر انسان میں بھگوان نظر آنے لگتا ہے۔ ان کے لیے ساری دنیا مقدس ہو جاتی ہے۔

ہرمن ہیس لکھتے ہیں ’سدھارتھا جھکا۔ اس نے ایک پتھر اٹھایا اور کہنے لگا‘ یہ ایک پتھر ہے یہ ریت بن جائے گا مٹی میں مل جائے گا۔ اس مٹی سے ایک پودا بنے گا پھر جانور بنے گا پھر انسان، اس دنیا میں ہر چیز بدلتی رہتی ہے وہ سب مایا ہے سب چیزیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں ’۔

بدھا نے اپنے پیروکاروں کو بتایا کہ نروان حاصل کرنے کے لیے وہ کس طرح اس مادی دنیا میں رہ کر بھی بھوک پیاس حرص اور خواہش سے بالاتر ہو کر نروان حاصل کر سکتے ہیں معرفت حاصل کرنے والا انسان کنول کے پھول کی طرح ہوتا ہے کیچڑ میں رہتا بھی ہے اور اس سے اوپر بھی اٹھ جاتا ہے۔

بہت سے سنت ’سادھو اور صوفی ساری عمر گمنامی اور خاموشی کی زندگی گزارتے رہے۔ مرنے کے بعد اور لوگوں کو ان کی عظمت کا اندازہ ہوا۔ مرنے کے بعد اور لوگوں کو ان کی عظمت کا اندازہ ہوا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں خاموشی سے انسانی شعور کے ارتقا کے سفر میں انسانیت کی رہنمائی کی اور انسانوں کو بہتر انسان بننے کی تحریک دی۔ ان کی شخصیت میں سادگی تھی‘ حلیمی بھی اور منکسرالمزاجی بھی۔ انہوں نے مختلف مذاہب اور قوموں کے لوگوں میں پل تعمیر کیے تا کہ وہ محبت ’پیار اور آشتی سے اپنی زندگی گزار سکیں اور جانیں کہ وہ ایک ہی خاندان کے افراد ہیں اور اس خاندان کا نام انسانیت ہے۔ مرنے کے بعد بھی ان کی دانائی ان کے شاگردوں اور پیروکاروں کے لیے مشعل راہ بنتی ہے۔ وہ قبروں میں نہیں اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔

ہرمین ہیس کا ناول ’سدھارتھا‘ روحانی سفر کا استعارہ ہے جس میں روحانی سفر کی نفسیات کو بہت احسن طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔

۔ ۔ ۔
بدھا کا ایک قول
کسی بات کو صرف اس لیے نہ مانو کہ وہ کسی دانا انسان نے کہی ہے
کسی بات کو صرف اس لیے نہ مانو کہ اسے سب مانتے ہیں
کسی بات کو صرف اس لیے نہ مانو کہ وہ کسی مقدس کتاب میں لکھی گئی ہے
صرف اس بات کو مانو جسے تم خود سچ سمجھتے ہو
انسان کا اپنا تجربہ اس کا سب سے بڑا استاد ہے
۔ ۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments