ٹرانس جینڈر ایکٹ اور ہم جنس پرستی


ٹرانس جینڈر ایکٹ کے حوالے سے کچھ اور لکھے کا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ پہلے پورا قانون پڑھو اور پھر اس پر لکھو یہ اک مشقت طلب

کام ہے مگر اک دو سوال ایسے تھے کہ ان کی وضاحت ضروری ہے۔

میں جہانگیر محمود ایڈوکیٹ بطور قانون کے طالب علم اور اپنی سوچ اور عقل کے مطابق ان سوالات کے جواب اور قانون کی تشریح کر رہا ہوں، جبکہ ان کی حتمی تشریح کوئی فرد نہیں بلکہ عدالت کرتی ہے۔

اس حوالے سے سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ کوئی بھی فرد اپنی مرضی سے اپنی جنس/ صنف تبدیل کر لے گا۔

اس حوالے سے اس قانون کی دفعہ 3 اور خاص طور پر اس دفعہ کی ذیلی دفعہ 3 کا ذکر کیا جاتا ہے۔ دفعہ 3 مکمل درج ذیل ہے۔

RECOGNITION OF IDENTITY OF TRANSGENDER PERSON
3. Recognition of identity of Transgender Person.- (1) A Transgender Person shall have a
right to be recognized as per his or her self-perceived gender identity, as such, in accordance
with the provisions of this Act.
(2) A person recognized as Transgender person under sub-section (1) shall have a
right to get himself or hersel registered as per self-perceived Gender identity with all
government departments including, but not limited to NADRA.
(3) Every Transgender Person, being the citizen of Pakistan, who has attained the
age of eighteen years shall have the right to get himself or herself registered according to self-
perceived Gender identity with NADRA on the CNIC, CRC, Driving Licence, Educational
Certificates, Passport and Do micile in accordance with the provisions of the NADRA
Ordinance, 2000 or any other relevant laws.
(4) A Transgender Person already issued CNIC by NADRA shall be allowed to change
the name and gender according to his or her self-perceived identity on the CNIC, CRC, Driving

اب یہاں پر اک چیز بڑی واضح ہے کہ کوئی
اپنی شناخت transgender Person self-perceived

کر سکتا ہے اور اس کے مطابق ریکارڈ میں درج یا تبدیل کروا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ اور بھی شرط لگائی گئی ہے کہ اس کے لیے نادرہ یا دیگر متعلقہ قوانین کی پاسداری بھی ضروری ہے۔

ان حالات میں اک عورت مردانہ حلیے میں یا پھر اک مرد زنانہ حلیے میں نادرہ دفتر چلا بھی جائے تو اس قانون کے تحت اس کی صنف تبدیل نہیں ہو جائے گئی۔

یاد رہے کہ نادرہ کے اپنے قوانین رولز اور پالیسی بھی جس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اس قانون کے تحت لیے ٹرانس جینڈر کو اپنی صنف کی پہچان کا حق دیا گیا ہے تاکہ اس کو خسرہ خسرہ کہنے کی بجائے اس کو اس میں موجود امتیازی صنف کے مطابق بلایا جائے اور اس صنف کا فیصلہ وہ خود کرے گا۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ٹرانس جینڈر کون ہوتا ہے؟
اس کی وضاحت اس قانون کی دفعہ 2 (این) میں دی گئی ہے

”Transgender Person“ is a person who is:۔
(i) Intersex (Kunsa) with mixture of male and female genital features or
congenital ambiguities; or
Eunuch assigned male at birth, but undergoes genital excision or castration;
or
(iii)
a Transgender Man, Transgender Women, Khawaja Sira or any person
whose Gender identity and/or Gender expression differs from the social
norms and cultural expectations based on the sex they were assigned at the
time of their birth.

اب اپ خود انگلش کی لغت لے کر اس دفعہ مین موجود الفاظ کو عام فہم اردو میں سمجھ لیں۔ شاید اپ میری کی گئی وضاحت سے مطمئن نہ ہوں۔ میں پھر بھی وہ لکھ دیتا ہوں جو مجھے سمجھ آئی ہے۔

Transgender Person
اک ایسا شخص ہے جو
1۔ درمیانی جنس۔ جو مرد اور عورت کے اوصاف کے ساتھ پیدا ہوا ہو۔
2۔ خواجہ سراء۔ جس کو پیدائش کے وقت مرد دراج کیا گیا ہو مگر جنسی طور پر ناکارہ ہو گیا ہو۔

3۔ ایسے مردانہ ہیجڑا یا زنانہ ہیجڑا، خواجہ سرا یا پھر ایسا فرد جس کے صنفی اوصاف معاشرے کے مروجہ اقدار سے ہٹ کر ہوں یا اس شناخت سے مختلف ہوں جو ان کو پیدائش کے وقت دی گئی ہو۔

اب تک ٹرانس جینڈر پرسن کی وضاحت ہو گئی، وہ ریکارڈ میں کیسے تبدیلی کروا سکتا ہے کی بات ہو گئی اور سب سے اہم یہ سب کرنے کے لیے اس کو ملک میں نافذ العمل تمام قوانین کی پاسداری کرنی ہے۔

عام حالات میں جب اپ نادرہ کے پاس جاتے ہیں تو اپ سے اپ کی ولدیت، والدہ، بچوں، بیوی وغیرہ ہونے کے ثبوت مانگتا ہے، تو کیا وہ اک عورت کی اس بات کو مان کر اس کے ریکارڈ میں اس کو ٹرانس جینڈر پرسن لکھ دیں گے؟

فرض کریں لیں ایسا ہو بھی جاتا ہے ایک مرد اپنے اپ کو عورت ظاہر کر کے شناختی کارڈ حاصل کرتا ہے اور اک مرد سے شادی کرنا چاہتا ہے یا پھر کر لیتا ہے۔ جناب والا سب سے پہلے تو شادی کرنے کے قانون پر عمل ہو گا، فرض کریں اس نے تمام قوانین کو بائے پاس کر کے شادی کرلی اور رجسٹریشن بھی کر والی۔ اس کے بعد کیا اس کو کوئی قانونی حق حاصل ہو جائے گا کہ اس کے پاس اک نکاح نامہ ہے۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ جس وقت یہ بات واضح ہوگی اسی وقت قانون حرکت میں آ جائے اور متعلقہ قوانین کے تحت ان کے خلاف کاروائی ہوگی۔ جناب من ملک میں یہ قانون بھی موجود ہے کہ اپ اگر اپنی شرعی و قانونی بیوی جس کو اپ بڑے ڈھول ڈھمکوں کے ساتھ بیاہ کر لائے ہیں اگر اپ اس کے ساتھ بھی غیر فطری فعل کرتے ہیں تو اپ کے خلاف قانونی کارروائی ہو سکتی ہے۔ اور اپ سمجھتے ہیں کہ اس قانون کے تحت ہم جنس پرستی جائز ہو جائے گئی۔

اس قانون کو ہم جنس پرستی کے استدلال کے طور پر لینا اس طرح ہی ہے کہ اپ کسی کو ڈرائیونگ لائسنس جاری نہ کریں کہ اس کو گاڑی چلانی تو آتی ہے مگر یہ ممکن ہے کہ کل وہ گاڑی چلاتے ہوئے کسی کو مار نہ دے۔ جناب جب بندہ مارے گا تو اس وقت دیگر قوانین حرکت میں آئیں گے، ڈرائیونگ لائسنس والا قانون اس کی کوئی مدد نہیں کر سکے گا۔

اس کے علاوہ اس قانون کے بارے میں یہ بھی افواہ ہے کہ اس کے تحت ٹرانس جینڈر پرسن کو شادی کی اجازت مل گئی ہے تو ایسی کوئی شق اس قانون میں نہیں ہے۔
بے شک اللہ بہتر جاننے ولا اور علم والا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments