ظہور الہی، شجاعت حسین اور پرویز الہی کی سیاست پارٹ 2۔


ذوالفقار علی بھٹو سے دشمنی نے ہی انہیں ضیاء الحق کے قریب کر دیا تھا۔ سیاست بڑا بے رحم کھیل ہے۔ گجرات کے چوہدری برادران نے ”نواز شریف دشمنی“ میں اپنے باپ کے قاتلوں و معاف کر دیا اور پیپلز پارٹی کی حکومت جوائن کر لی۔ نواز شریف کی جانب سے جاتی امرا میں چوہدری برادران کے اعزاز میں دیے جانے والے ظہرانہ کی منسوخی ان کی سیاست میں ”ٹرننگ پوائنٹ“ بن گئی ذوالفقار علی بھٹو نے چوہدری ظہور الہی کی دعوت میں عین وقت پر گجرات آنے سے معذرت کی توان کے اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان ایسے فاصلے پیدا ہوئے جو زندگی بھر ختم نہ ہو سکے۔

چوہدری ظہور الہی ایک وضع دار سیاست دان تھے۔ مہمان نوازی کوئی ان سے سیکھے۔ خان عبد الغفار خان پہلی بار لاہور آئے تو ان کی میزبانی کا اعزاز چوہدری ظہور الہی کو حاصل ہوا اکبر بگٹی لاہور آتے ان کی میزبانی سے لطف اندوز ہوتے یہی وجہ ہے چوہدری ظہور الہی کو گرفتار کر کے کوہلو لایا گیا تو گورنر اکبر بگٹی نے ان کے قتل کی سازش میں فریق بننے سے انکار کر دیا۔ ذوالفقار علی نے بلوچ رہنما شیر محمد مری المعروف شیروف کو قید کر دیا تو یہ چوہدری ظہور الہی ہی تھے جنہوں نے لاہور ہائی کورٹ میں ان کی رہائی کے لئے قانونی جنگ لڑی۔

ان کی خوبیوں کی ایک جھلک ان کے صاحبزادے چوہدری شجاعت حسین میں نظر آتی ہے۔ خوش گفتاری اور حس مزاح ان کی شخصیت کا پر تو ہے۔ میں نے ان سے کم و بیش 40 سالوں پر مبنی دوستی میں کبھی غصے میں نہیں دیکھا 12 اکتوبر 1999 ء کے ”پرویزی مارشل لاء“ میں ماڈل ٹاؤن لاہور میں شریف خاندان کی خواتین نے اپنی گرفتاری کا خطرہ محسوس کیا تو انہوں نے جناب مجید نظامی کی رہائش گاہ پر پناہ لے لی۔ چوہدری شجاعت حسین کو معلوم ہوا تو وہ انہیں لینے کے لئے جناب مجید نظامی کی رہائش گاہ پر پہنچ گئے او یہ کہہ کر اپنے گھر لے گئے ”دیکھتے ہیں۔ ہماری ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کو کون گرفتار کرتا ہے؟“ ۔

نواز شریف کی گرفتاری کے ابتدائی ایام میں بیگم کلثوم نواز کی اسلام آباد آمد پر چوہدری شجاعت حسین اپنی رہائش گاہ ان کے لئے خالی کر دی جاتا تھا لیکن پرویز مشرف کے ”جبر“ نے دونوں خاندانوں کے درمیان ایسے فاصلے پیدا کیے جو اب چوہدری شجاعت حسین اور شریف خاندان کی حد تک تو ختم ہو گئے ہیں لیکن چوہدری پرویز الہی کی حد تک اب تک قائم ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہی نواز شریف یا عمران خان میں کسی ایک کا ساتھ دینے کے ایشو پر سیاسی طور پر الگ ہو گئے ہیں جب کہ چوہدری شجاعت حسین کے چھوٹے بھائی چوہدری وجاہت حسین بھی عمران خان کے کیمپ میں جا بیٹھے ہیں۔ چوہدری پرویز الہی نہ چاہتے ہوئے بھی ”نواز شریف دشمنی“ میں عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

25 ستمبر 1981 ء کی دوپہر چوہدری ظہور الہی کی شہادت کی خبر پورے ملک میں آگ کی طرح پھیل گئی میں اور شیخ رشید احمد (سابق وفاقی وزیر) نامور خطیب، صحافی و دانشور آغا شورش کاشمیری کی صاحبزادی صوفیہ شورش مرحومہ کی شادی کی تقریب میں شرکت کے لئے لاہور آئے تھے۔ جب چوہدری ظہور الہی کی شہادت خبر صوفیہ شورش کی بارات میں پہنچی تو شادی کی تقریب بھی غم میں تبدیل ہو گئی۔ اگلے روز ناصر باغ لاہور میں چوہدری ظہور الہی شہید کی نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں میں نے شرکت کی۔

چوہدری ظہور الہی اپنی مرسڈیز کار کی اگلی نشست پر سوار تھے جب کہ پچھلی نشست سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مولوی مشتاق حسین اور ایم اے رحمنٰ ایڈوکیٹ بیٹھے تھے۔ یہ وہی مولوی مشتاق حسین تھے جنہوں نے نواب احمد خان کے قتل میں ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنائی تھی۔ مرسڈیز گاڑی پوری بلٹ پروف نہ تھی۔ قاتلوں نے مرسڈیز کے اس حصے سے فائرنگ کی جو بلٹ پروف نہیں تھی۔ چوہدری ظہور الہی نے کسی فوجی ”نرسری“ میں پرورش نہیں پائی بلکہ دن رات محنت کر کے سیاست میں بلند مقام پایا۔ وہ ایوب خان کے مارشل لاء میں ”ایبڈو“ کی زد میں آنے والے سیاست دانوں میں شامل تھے۔ وہ ان تین سیاست دانوں میں سے ایک تھے جنہوں نے ایبڈو کی پابندیوں کو چیلنج کر کے عدالت سے عملی سیاست میں حصہ لینے کی اجازت حاصل کی۔ بے نظیر بھٹو چوہدری برادران سے صلح کرنا چاہتی تھیں لیکن چوہدری ظہور الہی کی صاحبزادیاں ”سیاسی صلح“ کی راہ میں حائل ہو گئیں اور بے نظیر بھٹو کے ظہور پیلس میں استقبال کی تقریب منسوخ کرنا پڑی۔

چوہدری پرویز الہیٰ کی خوبی کہیں یا کمزوری وہ اپنے دوست کی ”دشمن“ سے دوستی برداشت نہیں کرتے۔ وہ نواز شریف سے دوستی رکھنے والے اخبار نویس دوستوں سے برملا اپنی ”ناراضی“ کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ چوہدری ظہور الہی نے ملکی سیاست میں شاندار روایات قائم کی ہیں۔ ان کا وسیع دسترخوان تھا۔ وہ ایک غریب پرور سیاست دان تھے۔ غریب آدمی کی مدد کرنا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے تھے۔ ان کے سیاسی وارثوں نے بھی اس روایت کو قائم رکھا ہے۔

آج کے دور کے سیاسی کارکن اور صحافی چوہدری ظہور الہی کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ میں نے چوہدری پرویز الہی جیسا ”صحافی دوست“ سیاست دان بھی کم ہی دیکھا ہے جس نے اپنے دور اقتدار میں پنجاب ہاؤسنگ فاؤنڈیشن قائم کر کے بلا امتیاز راولپنڈی، لاہور اور ملتان کے پریس کلبوں کے ارکان کو سر چھپانے کی جگہ دی۔ وہ نواز شریف سے دوستی رکھنے والے اخبار نویس دوستوں سے برملا یہ بات کہہ دیتے کہ ”مجھ سے نواز شریف بارے کوئی بات کہے تو میں اس سے 6 دن تک بات نہیں کرتا“ ۔

چوہدری برادران اور شریف خاندان کے درمیان پائے جانے والے فاصلے 15 سال میں ختم نہیں ہو سکے۔ اب جب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی اور پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے منصب کی بندر بانٹ ہوئی تو چوہدری شجاعت حسین شریف خاندان کے قریب ہو گئے اور چوہدری پرویز الہی نے اپنا سیاسی کیریر عمران خان سے وابستہ کر لیا۔ چوہدری پرویز الہی کے شریف خاندان سے فاصلے مزید بڑھ گئے۔ نواز شریف اور عمران خان کے درمیان لڑائی نے سب سے زیادہ نقصان چوہدری خاندان کو پہنچایا۔ پچھلے 40 سال میں چوہدری شجاعت حسین نے اپنی حکمت عملی سے اس خاندان کا اتحاد برقرار رکھا لیکن یہ اتحاد سیاسی مصلحتوں کی وجہ قائم نہ رہ سکا۔ مسلم لیگ (ق) کی قیادت کا تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ چوہدری برادران ایک دوسرے کے خلاف قانونی جنگ لڑ رہے ہیں۔ آنے والے دنوں دوبارہ اتحاد قائم ہونے امکانات کم ہیں۔ چوہدری مونس الہی وزارت اعلی کے انتخاب میں چوہدری شجاعت کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے تو انہوں نے کہا ”ماموں (چوہدری شجاعت حسین) آپ نے مجھے خالی ہاتھ بھیج رہے ہیں۔ میں آج آخری بار آپ کے گھر آیا ہوں“ (ختم شد) ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments