ایسی دلہن جس کا شوہر اس سے حد سے زیادہ پیار کرتا تھا


آج میری ایک فنکارہ دوست نے مجھے اپنی ایک نثری نظم سنائی جسے سن کر میں بہت دکھی ہو گیا۔ اس نظم کو سننے کے بعد مجھے اپنے ماضی کا ایک حیران کن اور پریشان کن واقعہ یاد آ گٓیا۔ میں آج پہلے آپ کو اپنے ماضی کا واقعہ سناتا ہوں اور پھر اپنی دوست کی نظم۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں پشاور کے زنانہ ہسپتال اور لیبر روم میں کام کیا کرتا تھا۔ ایک رات مجھے لیبر روم کی نرس نے آدھی رات کو فون کیا اور کہا کہ میں جلدی سے لیبر روم آؤں کیونکہ ایک ایمرجنسی آئی ہے۔

میں جب لیبر روم پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بہت سی خواتین زرق برق لباس زیب تن کیے ہسپتال کے باہر کھڑی ہیں۔ تفتیش کرنے پر پتہ چلا کہ وہ خواتین ایک دلہن کو لے کر آئی ہیں۔

دلہن سے ہسٹری لی تو پتہ چلا کہ وہ ایک شرمیلی باکرہ تھی جس کی اسی دن شادی ہوئی تھی۔ اس نے اپنے دولہا کی بہت منت سماجت کی اور کہا کہ وہ ہمبستری کے لیے تیار نہیں ہے اور وہ چند دن انتظار کرے لیکن اس کے شوہر نے اس کی ایک نہ مانی۔ اس نے سخت اور درشت لہجے میں کہا کہ شوہر کے ساتھ سونا اور اسے جنسی طور پر خوش رکھنا اس کی ازدواجی ذمہ داری اور فرض ہے۔ مرتی کیا نہ کرتی۔ وہ بادل ناخواستہ راضی ہو گئی۔ اس کے شوہر نے اسے یہ بھی بتایا کہ کیا وہ نہیں جانتی کہ وہ اس کا مجازی خدا ہے اور اگر وہ مجازی خدا کو خوش نہیں رکھے گی تو وہ جنت میں بھی نہ جائے گی۔

دلہن نے بتایا کہ وہ خود تو ایک دبلی پتلی لڑکی ہے لیکن اس کے ماں باپ نے جس مرد سے اس کی شادی کی ہے وہ ایک لمبا تڑنگا دیوہیکل انسان ہے جو انسان سے زیادہ حیوان دکھائی دیتا ہے شکل میں بھی اور عادات میں بھی۔

دلہن نے بتایا کہ مباشرت کے دوران پہلے اسے بہت درد ہوا اور پھر وہ شدت جذبات سے چیخنے لگی۔ پہلے تو اسے کچھ سمجھ نہ آئی کہ کیا ہو رہا ہے لیکن جب اس سے اندام نہانی سے زیادہ خون نکلنے لگا تو وہ بہت پریشان ہوئی۔

اسے ایک سہیلی نے بتا رکھا تھا کہ شب عروسی مباشرت کے دوران خون بہنا باکرہ ہونے کی نشانی ہے۔ لیکن اس کا خیال تھا کہ ایسا خون جو پردہ بکارت کے پھٹنے سے بہتا ہے چند قطرے ہوتا ہے لیکن یہاں تو خون کا دریا بہنا شروع ہو گیا۔ دلہن اتنی گھبرائی کہ وہ دولہا کے روکنے کے باوجود چیخی اور بھاگی اور اپنی بہن کے کمرے میں چلی گئی۔

بہن اس کی حالت دیکھ کر اور بھی پریشان ہوئی۔ اس نے گھر والوں کو بتایا اور اسے ہسپتال لایا گیا۔

ہماری پروفیسر نے معائنہ کیا اور اسے جلد از جلد آپریشن تھیٹر بھیجا جہاں اسے خون کی بوتل بھی لگائی گئی ’اس کا آپریشن بھی ہوا اور اس کے زخم بڑی مشکل سے سیے گئے۔

ہماری پروفیسر نے دولہا کو اپنے دفتر میں بلایا اور ہمارے سامنے اسے سمجھایا کہ اس کی دلہن کی اندام نہانی چھوٹی ہے اور اسے مباشرت کے دوران بہت احتیاط سے کام لینا ہو گا۔ اسے یہ بھی بتایا کہ وہ چھ ہفتے اپنی دلہن کے قریب نہ جائے اور اس سے اس وقت تک مباشرت نہ کرے جب تک کہ اس کی دلہن کے زخم مندمل نہ ہو جائیں۔

دولہا سب باتیں سنتا رہا اور پروفیسر کی ہاں میں ہاں ملاتا رہا۔

مجھے شک تھا کہ وہ پروفیسر کو خوش کرنے اور دلہن کو گھر لے جانے کے لیے سب کچھ کہہ رہا ہے۔ میری ایک رفیق کار ایک لیڈی ڈاکٹر دوست مجھ سے متفق نہ تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اب جبکہ دولہا کو دلہن کے مسئلے کا پتہ چل گیا ہے اور پروفیسر نے صاف الفاظ میں اسے مباشرت سے منع بھی کر دیا ہے اس لیے وہ پروفیسر کے مشورے پر عمل کرے گا اور مباشرت سے احتراز کرے گا۔ میں اپنی ہم جماعت ڈاکٹر سے متفق نہ تھا۔ مجھے اس شوہر کے لہجے سے لگتا تھا کہ اس کا کہنا

’ میں اپنی دلہن سے حد سے زیادہ محبت کرتا ہوں‘
منافقت سے زیادہ کچھ نہ تھا۔
اور پھر وہی ہوا جس کا مجھے خدشہ تھا۔

تین ہفتے کے بعد وہ دلہن دوبارہ ایمرجنسی میں آئی۔ اس کا دولہا اس کا مجازی خدا چھ ہفتے بھی انتظار نہ کر سکا۔

آج جب میں نے اپنی دوست کی نثری نظم سنی تو میں ایک دفعہ پھر دکھی ہو گیا۔ آپ بھی وہ نظم سن لیں۔
۔ ۔
بے حد پیار
۔ ۔
”ایک مہینہ پہلے“
گھر جا کے
بس
آرام کرنا
آج تمھاری چھٹی ہو جائے گی
یاد رکھنا
تم
ابھی بہت بڑے آپریشن سے گزری ہو
مرتے مرتے بچی ہو
دھیان میں رکھنا
کہ
تم نے ہی اپنا خیال رکھنا ہے

”نہیں نہیں، میرے شوہر بہت اچھے ہیں
مجھ سے بے پناہ پیار کرتے ہیں
میرا بہت خیال رکھتے ہیں
میرے بغیر رہ نہیں سکتے ”
اچھا بس اس سے کہنا
کہ
پانچ چھ ہفتے پرہیز رکھے

” ہاں ہاں انھوں نے ساری ریسرچ کر رکھی ہے“
”ایک مہینہ بعد“
” ارے؟
تم یہاں؟
دوبارہ ایمرجنسی میں؟
” جی۔ وہ میں نے کہا تھا ناں
کہ
میرے شوہر
مجھ سے
بے پناہ پیار کرتے ہیں
میرے بغیر رہ نہیں سکتے ”
عظمیٰ عزیز
اکتوبر
2022
۔ ۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments