ٹرانس جینڈر ایکٹ: کسی عورت کا مرد بننا یا شناختی کارڈ میں جنس ’ایکس‘ لکھوانا کتنا مشکل

فرحت جاوید - بی بی سی اردو، اسلام آباد


ٹرانس جینڈر

سہیل حال ہی میں ایک عورت سے مرد بنے ہیں۔ جنس کی تبدیلی کے عمل سے گزرنا ایک سخت مرحلہ تھا اور وہ روایتی پختون خاندان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اپنا اصل نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔

اس سے پہلے ان کا نام سندس (فرضی نام) تھا۔ اور سندس سے سہیل میں تبدیلی میں انھیں کم از کم پانچ سال لگے اور لاکھوں روپے خرچ ہوئے۔ اس دوران متعدد نفسیاتی ماہرین اور ڈاکٹروں کی ٹیموں کے علاوہ عدالتوں کے چکر بھی لگانا پڑے۔

آج کل پاکستان میں ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018 سے متعلق بحث جاری ہے۔ یہ معاملہ اب وفاقی شریعت کورٹ تک پہنچ گیا ہے اور اس سے متعلق افواہوں کا ایک بازار گرم ہے۔

اس ایکٹ میں کیا ہے جس پر اتنا شور کیا جا رہا ہے؟ اس بارے میں ہم بتائیں گے مگر اس سے پہلے جنس تبدیل کرنے والے سہیل اور شناختی کارڈ تبدیل کرنے والی ریم شریف کی کہانی سمجھ لیتے ہیں۔

ایک عورت سے مکمل مرد بننے والے سہیل کا تجربہ

سہیل کی زندگی کے یہ پانچ سال اس اذیت سے سہل تھے جب انھیں اپنی شناخت کا علم نہیں تھا۔ یہ ایک مسلسل تکلیف تھی جس سے وہ شب و روز خاموشی سے گزر رہے تھے۔

انھوں نے بی بی سی کو اپنے اس سفر سے متعلق کچھ یوں بتایا ’مجھے کچھ پتا نہیں تھا کہ یہ کیا ہے۔ اپنے اندر سوچتا رہتا تھا کہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔

’میں لڑکیوں کے ساتھ تعلیم حاصل کر رہا تھا اور ہمیشہ ٹاپ کرتا۔ مگر جینڈر ڈسفوریا (بیالوجیکل اور جنسی شناخت میں عدم مماثلت سے پیدا ہونے والی بے چینی) سے زندگی بدل جاتی ہے۔ انسان اپنے اندر ہی الجھا رہتا ہے۔ ایسی صورت میں وہ باہر کی دنیا میں کیسے چل سکتا ہے؟‘

ان کے مطابق ’میں پہلے ماہرِ نفسیات کے پاس گیا تو ان کو سمجھ تو آگیا مگر انھوں نے بھی مجھے وہی عارضی اینٹی ڈپریسنٹ اور نیند کی دوائیاں دے دیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارے معاشرے میں لوگ جینڈر ڈسفوریا کو سمجھتے ہی نہیں ہیں۔‘ یہ ایک ایسا ڈس آرڈر ہے جس میں انسان کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی پیدائشی جنس سے مخلتف ہے۔ یہ ڈس آرڈر اس قدر شدید ہوتا ہے کہ اکثر کیسز میں ایسے افراد خودکشی کی کوشش کرتے ہیں۔‘

سہیل کے مطابق ’ہمارے اردگرد موجود بہت سے افراد جو اس ڈس آرڈر کا شکار ہوں، وہ فیمیلز کو نہیں بتا پاتے اور وہ اینگزائٹی کے مریض بن جاتے ہیں۔‘

’شروع میں تو مجھے بس نیند کی گولیاں دیں۔ پھر میں نے خود ہی اپنے بارے میں ریسرچ شروع کی۔ میں تو کسی سے بات نہیں کر سکتا تھا۔ مجھے لگتا تھا دنیا میں صرف میں ہی ایسا ہوں۔ جب ریسرچ کی تو پتا چلا کہ مجھے جینڈر ڈسفوریا ہے۔ اس کے بعد میں نے ایسے ڈاکٹرز کو تلاش کیا جو اس مرض کا علاج کرتے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ طبی مدد کے حصول کا یہ عمل طویل ہے اور کسی ایک ڈاکٹر تک محدود نہیں۔

ٹرانس جینڈر

’ایسا نہیں کہ آپ کسی ایک ماہرِ نفسیات کے پاس جاتے ہیں۔ یہ دس پندرہ یا بیس ڈاکٹرز بھی ہوتے ہیں، وہ کم از کم دو سال تک آپ کو سائیکالوجیکل سیشنز دیتے ہیں کہ آپ اپنی پیدائشی جنس میں ہی رہیں۔ لیکن اگر کروموسومز ہی مختلف ہوں تو پھر کوئی علاج کارگر ثابت نہیں ہو سکتا۔‘

ہم نے ان سے پوچھا کہ شناختی کارڈ پر مرد سے عورت یا عورت سے مرد میں جنس تبدیل کرانے میں انھیں کن مراحل سے گزرنا پڑا۔

’تمام سائیکاٹرسٹ آپ کو ایک ایک لیٹر جاری کرتے ہیں جس میں لکھا جاتا ہے کہ فلاں مدت تک مریض کا علاج کیا گیا مگر ان کا ڈس آرڈر قائم ہے۔ ان لیٹرز کے بعد کروموسومز کے ٹیسٹ کے لیے بھیجا جاتا ہے جو ایک بہت مہنگا ٹیسٹ ہے۔

’اس کے بعد اینڈوکرانولوجسٹ اور ہارمونز سپیلشسٹ آپ کے ٹیسٹ اور علاج کرتے ہیں اور اس کے بعد ری کنسٹرکٹو سرجن کے پاس بھیجا جاتا ہے۔ وہ بھی مکمل چیک اپ کرتے ہیں۔ اس چیک اپ کے بعد وہ بھی ایک رپورٹ تیار کرتے ہیں، مگر ڈاکٹرز عدالتی حکم نامے کے بغیر سرجری نہیں کرتے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’یہ کاغذوں کا یہ پلندہ جسے اکٹھا کرنے میں تین سال لگ جاتے ہیں، لے کر عدالت جانا پڑتا ہے۔ اگر یہ کاغذات مکمل نہیں ہوں تو عدالت کیس کا اندراج نہیں کرتی۔ پھر عدالتی کارروائی میں بھی خاصا عرصہ لگتا ہے۔ عدالت میڈیکل بورڈ کے ممبران سے رابطہ کرتی ہے، تمام کاغذات کی تصدیق کی جاتی ہے۔ اور عدالتی حکم نامے کے بعد ہی سرجریز کا عمل شروع ہوتا ہے۔‘

’یہ ایک سرجری نہیں ہوتی بلکہ پانچ سے چھے سرجریز ہوتی ہیں جن میں سے کچھ دس سے بارہ گھنٹے پر مشتمل ہوتی ہیں۔ یہ سرجریز انتہائی مہنگی ہیں۔ لاکھوں روپے لگتے ہیں۔ ہر سرجری میں پانچ سے چھے مہینے کا وقفہ ہوتا ہے۔ اس طرح یہ تمام مراحل آپ کے کم از کم پانچ سال لیتے ہیں۔‘

جنس تبدیلی کے ایک طویل اور تھکا دینے والے سفر کے بعد سہیل بتاتے ہیں کہ ان کے لیے یہ عمل اس لیے کچھ سہل تھا کہ ان کے ساتھ ان کے خاندان کی مکمل سپورٹ تھی۔

’میری اپنی فیملی میں ڈاکٹرز ہیں اور وہ مجھے بہت سپورٹ کرتے رہے ہیں۔ وہ مجھے خود سیشنز کے لیے لے کر جاتے تھے۔ مگر ہر کسی کی فیملی ایسی نہیں ہوتی۔ میرے کچھ دوست ہیں جن کے ساتھ ایسے ہی مسائل ہیں مگر ان کے خاندان ان کا ساتھ نہیں دے رہے۔ میرے کچھ دوستوں کی حالت اتنی خراب ہوتی ہے کہ انھیں پاگل پن کے دورے پڑتے ہیں۔‘

ریم شریف
ریم کا ’شناخٹی کارڈ ایک مرد کا تھا۔ میرے والدین کو علم نہیں تھا کہ میں ایک ٹرانس جینڈر عورت ہوں‘

ریم شریف کا شناختی کارڈ مرد سے ’ایکس‘ کیسے بنا

اسلام آباد کی رہائشی ریم شریف ایک سرکاری ادارے میں برسرروزگار ہیں اور ٹرانس جینڈر حقوق کے لیے کام کرتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کی زندگی کا ایک بڑا حصہ یہ سمجھنے میں گزرا کہ وہ کیسے اپنی شناخت سے متعلق اپنے اردگرد لوگوں کو سمجھائیں۔

’یونیورسٹی میں جب دیگر طلبہ مجھے تنگ کرتے اور ان کا ٹرانس فوبک (ٹرانس جینڈر افراد سے نفرت پر مبنی) رویہ ہوتا تو میرے پاس کوئی پلیٹ فارم نہیں تھا، میرے سامنے میرے تحفظ کے لیے کوئی قانون نہیں تھا جس کا میں سہارا لیتی۔ میں ایک برائٹ طالب علم تھی۔ میری پیدائش کے وقت شناخت ایک لڑکے کی تھی تو مجھے لڑکوں کے ہاسٹل میں رہنا پڑتا۔ جہاں میری شدید تضحیک کی جاتی۔ یہ ڈپریشن اور خود سے جنگ اتنی بڑھی کہ میں آخر کار بستر پر گر گئی اور ایک سال تک میں اُٹھ نہیں پائی۔ میں اپنی انجینیئرنگ کی ڈگری مکمل نہیں کر پائی۔‘

ریم کو اس وقت شناختی کارڈ تبدیل کرنے کا موقع ملا جب 2018 کا ایکٹ آیا۔

’میرا شناخٹی کارڈ ایک مرد کا تھا۔ میرے والدین کو علم نہیں تھا کہ میں ایک ٹرانس جینڈر عورت ہوں۔ تب شناختی کارڈ پر تیسرا کوئی باکس تھا ہی نہیں۔ 2018 کا ایکٹ آیا تو میں نے اپنا کارڈ تبدیل کرایا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’خود کو ٹرانس جینڈر بولنا آسان نہیں ہے۔ یہ میرا مشکل فیصلہ تھا مگر میں نے یہ سوچ لیا کہ اب میں اپنی اصلیت کے ساتھ زندگی گزاروں گی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ اس ایکٹ سے پہلے ’میرے جیسے لوگوں کو قتل کر دیا جاتا ہے، مجھ جیسے لوگوں پر تیزاب گرا دیا جاتا ہے۔ اس ایکٹ سے پہلے اگر بھیک مانگنے پر بھی پولیس کسی کو گرفتار کرتی تو ٹرانس جینڈر افراد کے کپڑے اتروا دیے جاتے تھے کہ یہ جان سکیں کہ وہ اصلی ٹرانس جینڈر ہے یا نہیں۔ تو یہ قانون انھیں روکتا ہے کہ وہ کسی کے کپڑے نہیں اتروا سکتے۔‘

’اب اگر تبدیلی آنا شروع ہوئی ہے، ہم اب آپ کے معاشرے میں عزت کے ساتھ بیٹھ رہے ہیں اور کام کر رہے ہیں تو اس میں کوئی ہرج نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے بعد ہمارے پاس بھیک مانگنے والے کم ہو جائیں گے، جسم فروشی کم ہو جائے گی اور وہ جو شادیوں پر دلوں کو لبھاتے اور رقص کرتے ہیں انھیں روزگار ملے گا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے بارہ سال لگے صرف اپنے گھر والوں کو سمجھانے کے لیے کہ میں ایک ٹرانس جینڈر ہوں اور مجھے قبول کریں۔ یہ قانون ایک سہارا ضرور بنا جب میں نے اپنی والدہ کو بتایا کہ یہ اسلامی ملک کے قانون میں مجھے عزت ملی ہے۔‘

ریم کہتی ہیں کہ ان کے لیے یہ دستاویز ’روشنی کی ایک کرن ہے۔‘

’جب میں بیڈ پر تھی تو میرے اردگرد اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ میرے لیے تو یہ ایک سورج ہے جس نے میری زندگی کو روشن کردیا ہے۔‘

سہیل اور ریم شریف کی کہانی سنانے کا مقصد وہ تنازع ہے جو آج کل 2018 میں پاس ہونے والے ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ پر کھڑا ہے۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد سمیت بعض دیگر افراد نے وفاقی شریعت کورٹ میں درخواستیں دائر کی ہیں جن میں اس ایکٹ کو غیر اسلامی قرار دیا گیا ہے۔

بی بی سی نے اس سے متعلق ٹرانس جینڈر ایکٹوسٹس اور قانون دانوں اور نادرا حکام سے بات کی اور اس ایکٹ کو سمجھنے کی کوشش کی۔

ٹرانس جینڈر پراٹیکشن ایکٹ کیا ہے؟

ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ میں خواجہ سراؤں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ خود اپنی جنس کی شناخت کر سکتے ہیں اور اسے تبدیل کروا سکتے ہیں۔

ایڈووکیٹ سیف اللہ
ایڈووکیٹ سیف اللہ کہتے ہیں کہ جنس صرف ایک بار تبدیل ہو سکتی ہے۔ دوبارہ تبدیلی کے لیے متعلقہ شخص کو نادرا کو طبی بنیادوں پر مطمئن کرنا پڑے گا جو کہ ایک مشکل مرحلہ ہے۔

نادرا سمیت تمام سرکاری ادارے اس بات کے پابند ہیں کہ خواجہ سرا اپنی جس شناخت کو چاہیں وہ ہی ان کے شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس اور پاسپورٹ وغیرہ پر درج کی جائے گی۔ خیال رہے کہ اس کا اندراج صرف ’مرد‘ یا ’عورت‘ کے طور پر نہیں ہو سکتا، بلکہ اس کے ساتھ لفظ ’خواجہ سرا‘ یا ’ٹرانس جینڈر‘ لکھا جاتا ہے۔

ایکٹ میں بحیثیت پاکستانی شہری ان کے تمام حقوق تسلیم کیے گئے ہیں۔ انھیں ملازمتوں، تعلیم حاصل کرنے اور صحت کی سہولتوں تک فراہمی کو قانونی حیثیت دی گئی جبکہ وراثت میں ان کا قانونی حق بھی تسلیم کیا گیا ہے۔

خواجہ سراؤں کو کوئی سہولت دینے سے انکار اور امتیازی سلوک پر مختلف سزائیں بھی تجویز کی گئی ہیں۔

اس ایکٹ میں خواجہ سرا کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ تین طرح کے ہو سکتے ہیں: پہلے نمبر پر انٹر سیکس خواجہ سرا ہیں، جن کی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے کہ ان میں مردوں اور خواتین دونوں کی جینیاتی خصوصیات شامل ہوں یا جن میں پیدائشی ابہام ہو۔

دوسرے نمبر پر ایسے افراد ہیں، جو پیدائشی طور پر مرد پیدا ہوتے ہیں مگر بعد میں اپنی جنس کی تبدیلی کے عمل سے گزرتے ہیں۔ تیسرے نمبر پر ایسے لوگ ہیں، جو پیدائش کے وقت کی اپنی جنس سے خود کو مختلف یا متضاد سمجھتے ہوں۔

قمر نسیم خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے کام کرتے ہیں اور مذکورہ قانون کے حوالے سے مہم چلانے والوں میں بھی شامل ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’انٹر سیکس سے مراد پیدائشی مخنث افراد ہیں۔ دوسرے نمبر پر ان مردوں کی تشریح کی گئی ہے جو اپنے جنسی اعضا کی طبی طریقے سے ترمیم کرواتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ تیسرے نمبر پر ایسے افراد ہیں جو اپنی پیدائش کی جنس یا صنف سے متضاد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ’جیسے پیدائشی لڑکا دعویٰ کرے کہ وہ لڑکی ہے یا پیدائشی لڑکی دعویٰ کرے کہ وہ لڑکا ہے۔‘

اس ایکٹ پر کیا اعتراضات؟

اس ایکٹ پر اٹھنے والے کئی اعتراضات میں ’سیلف پرسیوڈ جینڈر‘ جیسے الفاظ شامل ہیں اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ ملک میں ’ہم جنس پرستی کو فروغ دینے کی ایک کوشش ہے۔‘ جبکہ یہ معلومات بھی پھیلائی جا رہی ہیں کہ اس ایکٹ کی وجہ سے کوئی بھی شخص نادرا کے پاس اپنی جنس تبدیل کرانے جا سکتا ہے اور یہ کہہ سکتا ہے ’میں مرد تھا مگر اب ایک عورت جیسا محسوس کر رہا ہوں لہٰذا میری جنس تبدیل کی جائے، یا میں ایک عورت تھی اور ایک مرد جیسا محسوس کر رہی ہوں، سو میری جنس کے خانے میں مرد لکھا جائے۔‘

بعض حلقے دعویٰ کرتے ہیں کہ ’اس طرح لوگ اپنی ہی جنس کے لوگوں سے شادی کریں گے اور ملک میں بے راہ روی پھیلے گی۔‘ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جنس کی تبدیلی کے باعث حق وراثت کے معاملات میں مسائل پیدا ہوں گے۔

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کا کہنا تھا کہ یہ بل سنہ 2018 میں سینیٹ سے منظور ہوا تھا۔ ’یہ بل نون لیگ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق کی چار خواتین سینیٹرز نے تیار کیا تھا۔ اس بل پر ہمیں اس وقت بھی اعتراضات تھے اور اب بھی ہیں۔‘

جماعت اسلامی

ان کے مطابق ’میری تجویز ہے کہ جنس تبدیلی کا معاملہ میڈیکل بورڈ کی اجازت سے مشروط کیا جائے۔

’میڈیکل بورڈ کی رائے کے بغیر کسی کو بھی جنس تبدیلی کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اور اپنی مرضی سے صنفی شناخت اختیار کرنا نہ صرف خلافِ شریعت ہے بلکہ یہ اسلام کے قانون وراثت سے بھی متصادم ہے اور خواتین کے عفت و پاک دامنی اور ہماری روایات کے بھی خلاف ہے۔‘

کیا واقعی اس ایکٹ کے ذریعے ہم جنس پرستی کو قانونی حیثیت مل رہی ہے؟

اس ایکٹ کی حمایت کرنے والے شہری ان تمام باتوں کو ’پراپیگنڈا‘ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اتنا شدید ہے کہ لوگ اس پر آنکھیں بند کر کے یقین کر رہے ہیں۔

سب سے پہلے جانتے ہیں کہ نادرا حکام کا اس معاملے پر کیا کہنا ہے۔

2009 سے پہلے تک ان افراد کا کوئی قانونی سٹیٹس نہیں تھا۔ 2009 میں سپریم کورٹ نے انھیں علیحدہ شناخت کو تسلیم کیا۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2017 کی مردم شماری میں اکیس ہزار افراد بطور ٹرانس جینڈر رجسٹرڈ تھے۔ 2018 میں اس ایکٹ کے آنے کے بعد 2978 افراد نے اپنے نئے شناختی کارڈ بنوائے یا ان میں درستی کروائی۔

ان میں ریم شریف جیسے ٹرانس جینڈر اور سہیل جیسے نان ٹرانس جینڈر افراد شامل ہیں۔

اس برس فروری میں دفتر خارجہ نے یہ سفارش کی کہ جن ممالک میں جنس کے خانے میں ایکس کو تسلیم نہیں کیا جاتا وہاں حکام سے بات چیت کی جائے اور آگاہی پھیلائی جائے تاکہ ان افراد کو حج، عمرہ اور زیارت سمیت دیگر کاموں کے لیے بیرون ملک سفر میں آسانی ہو۔

نادرا حکام کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد تیسری جنس کو ان کی شناخت کا حق دیا گیا۔ اس وقت نادرا ڈیٹا بیس میں دو کی بجائے پانچ قسم کی جنس رجسٹر ہوتی ہے۔ یعنی مرد، عورت، خواجہ سرا مرد، خواجہ سرا عورت اور پانچویں ایسے افراد جن میں یہ تعین نہ ہو سکے کہ ان میں مردانہ صفات غالب ہیں یا خواتین کی۔

’میڈیکل بورڈ میرے لیے تو بے حرمتی ہے‘

پشاور میں ایسے کیسز پر کام کرنے والے ایڈووکیٹ سیف اللہ محب کاکاخیل کہتے ہیں کہ یہ ایکٹ ’صرف ٹرانس جینڈرز کے لیے پاس ہوا ہے۔ یہی بات نادرا حکام نے کی اور کہا کہ اس ایکٹ کا تحت جب بھی جنس تبدیل ہوگی وہ ’ٹرانس جینڈر‘ یعنی خواجہ سرا میں ہی تبدیل ہوگی۔

‘پہلے ان کے شناختی کارڈ پر خواجہ سرا مرد، خواجہ سرا عورت لکھا جاتا تھا مگر شناختی کارڈ کے انگلش میں بننے کے بعد بین الاقوامی معیار کے مطابق مرد کے لیے انگریزی حرف ایم، خواتین کے لیے انگریزی حرف ‘ایف’ جبکہ خواجہ سراؤں کے لیے حرف ’ایکس‘ لکھا جاتا ہے۔‘

حکام کے مطابق ’اگرچہ کارڈ پر جگہ کی کمی کے باعث صرف ایکس لکھا جاتا ہے تاہم نادرا ڈیٹا بیس میں ایکس کی بجائے خواجہ سرا مرد، خواجہ سرا عورت یا یونی سیکس درج ہوتا ہے۔‘

ریم، ٹرانس جینڈر

حکام کے مطابق اس ایکٹ کا اطلاق ان افراد پر نہیں ہوتا جو مرد سے مکمل عورت یا عورت سے مکمل مرد میں جنس تبدیل کرنا چاہتے ہوں۔ ایسی درخواست کے لیے اس شخص کو میڈیکل بورڈ اور عدالت سے رجوع کرنا پڑتا ہے اور ڈاکٹرز ان کے لیے علاج تجویز کرتے ہیں اور اس کے بعد وہ سرٹیفیکیٹ لے کر نادرا کے پاس آتے ہیں۔ نادرا ان تمام دستاویزات کی اپنے طور پر تصدیق کرتا ہے اور اس کے بعد ان کی جنس مکمل طور پر تبدیل ہو جاتی ہے۔

نادرا حکام کے مطابق پاکستان میں اب تک صرف 14 افراد ایسے ہیں جنھیں مرد سے عورت اور عورت سے مرد میں تبدیل کیا گیا جن میں ایک سہیل ہیں جن کا ذکر ہم پہلے کر چکے۔

ماہرین کے مطابق اس قانون کا براہ راست فائدہ تو یہ ہوا کہ ٹرانس جینڈرز میں اب ایک پڑھا لکھا طبقہ نظر آنے لگا ہے۔ اب تعلیمی اداروں میں تیسری جنس کے افراد کے لیے جگہ مختص ہے، ہسپتالوں اور بینکوں میں مرد اور عورت کے ساتھ تیسری جنس کے لیے کاؤنٹر مختص کرنے کا حکم دیا گیا ہے، الیکشن کے دوران پولنگ بوتھ میں اب تیسری جنس کے لیے جگہیں اور کاغذات میں اندراج کیا گیا ہے۔ جبکہ ہر محکمے کو ہدایت ہے کہ وہاں اب تیسری جنس کے افراد کے لیے سیٹیں مختص کی جائیں۔

ایڈووکیٹ سیف اللہ کاکاخیل کہتے ہیں کہ ’یہ آج کل غلط فہمی پھیلی ہوئی ہے کہ ایک ہی جنس کے لوگوں میں شادیوں کی اجازت دیتا ہے۔ مگر یہ صرف ٹرانس جینڈرز کے لیے ہے۔‘

نادرا حکام کے مطابق جن افراد کے شناختی کارڈ پر ’ایکس‘ لکھا ہو گا انھیں شادی کی اجازت نہیں ہے اور نکاح خواں ان کا نکاح نہیں پڑھائیں گے۔ اس لیے یہ تاثر مکمل طور پر غلط ہے کہ اس ایکٹ سے ہم جنس پرستی پھیلے گی یا ہم جنس افراد کو شادی کی اجازت ملے گی۔

ایڈووکیٹ سیف اللہ کہتے ہیں کہ جنس صرف ایک بار تبدیل ہو سکتی ہے۔ دوبارہ تبدیلی کے لیے متعلقہ شخص کو نادرا کو طبی بنیادوں پر مطمئن کرنا پڑے گا جو کہ ایک مشکل مرحلہ ہے۔

اس ایکٹ کے مخالفین یہ مطالبہ بھی کر رہے ہیں کہ ہر جنس تبدیلی درخواست کے ساتھ درخواست گزار کو میڈیکل بورڈ کے پاس بھیجا جائے۔

لیکن ریم شریف اور ان جیسے بہت سے ٹرانس جینڈر ایسے مطالبے کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میڈیکل بورڈ میرے لیے تو بے حرمتی ہے، یہ میری عزت کی پامالی ہے۔ میں تو ایسے کسی عمل سے نہیں گزر سکتی۔‘

تاہم یہ معاملہ اب وفاقی شریعت کورٹ میں زیر سماعت ہے۔

’ذہنیت تبدیل ہونے میں ایک مدت لگے گی‘

دریں اثنا سہیل اب ایک مرد کے طور پر اپنی زندگی کی جانب لوٹ رہے ہیں اور وہ یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جنس کی شناخت اور تبدیلی کے مشکل مرحلے سے گزرنے والے افراد کو ان کے اہلخانہ اور معاشرے کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔

دوسری جانب ریم جیسے بہت سے ٹرانس جینڈرز کے لیے مشکلات اب بھی باقی ہیں۔ انھوں نے حال ہی میں اپنے ساتھ پیش آنے والے ایک واقعے کا حوالہ دیا کہ ’میں ایئرپورٹ پر تھی اور میں نے چیکنگ والی خاتون کو بتایا کہ میرا ایکس کارڈ ہے اور میں ایک ٹرانس جینڈر ہوں۔

’انھوں نے دیگر خواتین کو تو نارمل طریقے سے چیک کیا مگر میری قمیض میں ہاتھ ڈالا۔ جب وہ یہ کر چکیں تو میں نے انھیں غصے میں کہا کہ آپ کے ذہن میں مسئلہ ہے جو آپ نے یہ حرکت کی ہے۔ مجھے بہت غصہ آیا، شرمندگی ہوئی، افسوس اور دُکھ بھی ہوا کہ اس دنیا میں اپنی شناخت تسلیم کروانے کے بعد بھی زمین ہم پر کس قدر تنگ ہے کیونکہ ذہنیت تبدیل ہونے میں ایک مدت لگے گی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32550 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments