شاہ رخ جتوئی، امید کی کرن


شاہ رخ جتوئی کا کیس پاکستان کے امیر ترین طبقے کی خواہشات کی بھرپور ترجمانی ہے۔ پاکستان کا امیر طبقہ اپنے بچوں کی تربیت اس اعتماد کے ساتھ کرتا ہے کہ وہ کوئی بھی کارنامہ سرانجام دیں گے پاکستان کی مڈل کلاس اور غریب طبقے کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے نہ صرف احکام بجا لائیں بلکہ ان کی ہر طرح کی حرکات کو برداشت کریں بغیر چوں چرا کیے۔ اس ساری عمل کی انتہا یہ ہے کہ دانستہ قتل بھی جرم نہیں سمجھا جاتا بلکہ کہا جاتا ہے بچہ ہے غلطی ہو گئی درست بچے صرف امیر کے ہوتے ہیں مڈل کلاس اور غریبوں کے بچے بچے تھوڑی ہوتے ہیں وہ تو پیدا ہوتے ہی بوڑھے ہو جاتے ہیں اور ساری عمر روٹی، کپڑا، دوائی، بچوں کی فیس، شادی کے اخراجات کے گورکھ دھندوں میں غلطاں اس غلطی فہمی کا شکار ہوتے ہیں کہ وہ زندگی گزار رہے ہیں درحقیقت زندگی ان کو گزار رہی ہے جلدی گزرو زندگی کی سڑک خالی کرو۔

پاکستان میں غریب امیر کے درمیان فرق کسی بھی عام سرمایہ درانہ سماج کی مانند انتہا پر ہے جس طرح آپ امریکہ میں ایک طرف بلند و بالا عمارتیں، بڑی گاڑیاں اور دولت کی بھرمار کے ساتھ بے گھر لوگ، طبی سہولیات کے کیے سسکتے لوگ، یونیورسٹی یا نوکری کے درمیان فیصلہ کرتے نوجوان دیکھتے ہیں اسی طرح پاکستان میں آپ کو امیروں کے بلند و بالا مکان، گاڑیاں، شاندار طرز زندگی، اور علاج کے لیے صرف بیرون ملک جانے کی سہولت رکھنے والے امراء اور دوسری طرف روز بروز مہنگائی کے نیچے دبتی مڈل کلاس، تباہ حال کسان مزدور غریب طبقہ جن کے لیے ریاست سوتیلی ماں جیسی تو کیا بالکل ہی لاش ہے، نظر آتے ہیں۔

اس ساری تفریق کے دوران جلتی پر تیلی کا کام دیت کے قانون نے کیا جو 1990 میں متعارف کرایا گیا ایک ایسا وقت جب پاکستان افغانستان کی جنگ کے تحفوں اسلحہ اور منشیات کی بھرمار ہو رہی تھی اس قانون نے دولتمند طاقتور طبقے کو نئی طاقت کے نشے سے روشناس کرایا کہ اگر وہ جرم بھی آپ سے سرزد ہو گیا جس کے لیے کہا گیا کہ ایک انسان کا قتل تمام انسانوں کا قتل ہے اس کی سزا سے بھی بچنے کی صورت نکل آئی اور وہ تھا کہ آپ مقتول کے خاندان کو قاتل کو معاف کرنے کے لیے راضی کر لیں، چاہے وہ پیسے لے کر معاف کریں یا بغیر پیسے کے۔

اس قانون کو جس طرح سے پاکستان میں اس قانون کو پامال کیا گیا یہ اپنی مثال آپ ہے۔ 1990 میں قتل کے مقدمات میں سزا کی شرح 29 فیصد تھی جو سن 2000 میں صرف 12 فیصد رہ گئی۔ اس قانون کی بھیانک شکار وہ خواتین سب سے برے طریقے سے ہوئیں جن کو ان کے اپنے ہی غیرت کے نام پر موت کے گھاٹ اتارتے ہیں اور پھر خود ہی اپنے آپ کو، مقتولہ کے بھائی، باپ، بیٹے، خاوند آپس میں مل کر ایک دوسرے کو معاف کر دیتے ہیں اس کی ایک مثال قندیل بلوچ کا قتل ہے جہاں آخر کار تنگ آ کر والدین نے دباؤ کے آگے دو سال کے بعد ہتھیار ڈال دیے اور اپنے بیٹے کو معاف کر دیا اور اسی طرح کی قسمت کا سامنا ان سب خواتین کو ہے جن کی لاشیں ان کے خاندان والے چھپانے میں ناکام رہے کہ صحن میں گڑھا کھود کر گاڑ دینا عدالت کے چکر لگانے سے چاہے وہ اپنے آپ کو معاف کرنے کے لیے ہی کیوں نہ ہو کہیں زیادہ آسان ہے۔

اس کے ساتھ پاکستان کے امراء نے پچھلی 2 دہائیوں میں اس کو بے پناہ اپنے آپ کو بچانے کے لیے استعمال کیا اور ہم نے دیکھا کہ جیسے جیسے اس کا استعمال امراء نے اپنی گردن بچانے کے لیے کیا ریاست کے اوپر عوام کی طرف سے چاہے وقتی طور پر ہی دباؤ بڑھا کہ وہ مداخلت کرے لیکن باوجود اصلاحات کے اس قانون کو اس طرح سے مسخ کیا گیا کہ ہر وہ آدمی جس کے پاس طاقت اور پیسہ تھا وہ قتل جیسے جرم سے بھی باآسانی بری ہونے لگے۔ اس میں چاہے رینجرز کے ہاتھوں مارا جانے والا سرفراز ہو، صلاح الدین ہو، ساہیوال کا خاندان ہو یا پھر شاہ زیب ہو مقتولین کے ورثا ء کو آخر میں دباؤ میں آ کر قاتلوں کو معاف کرنا پڑا چاہے اس کی تشہیر اس طرح کی جاتی ہے کہ ان کو تو اپنے پیارے کی ضرورت ہی نہیں ان کو پیسوں کی ضرورت تھی وہ ان کو مل گیا پیسے اور جان کو ایک اکویشن میں رکھ کر ایسے بیان کیے جاتا ہے جیسے وہ کولیٹرل ڈیمج ہے اوہ اگر امیر سے طاقتور سے حفاظتی اداروں کے افراد سے آپ کا بچہ مارا گیا ہے آپ ہمارے سے پیسے لے لیں اور مزے کریں جانیں تو آپ کے پاس بہت ہیں۔

اگر مقتولین کے گھر والے پیسے لینے سے یا معاف کرنے سے انکار کر دیں تو اس وقت تک ان کی جان نہیں چھوڑی جاتی جب تک وہ تنگ آ کر معاف نہ کر دیں اور پھر اشتہار لگتے ہیں سخاوت کے۔ کافی سارے لوگ یہ دلیل دیتے دیکھے جاتے ہیں کہ گھر والے معاف کیوں کرتے ہیں اتنے دکھی ہیں تو معاف نہ کریں۔ وکٹم بلیمنگ کی بہت شکلیں ہیں اور یہ بھی ایک ہے۔ یہ سب ارسطو ذرا ایک منٹ کے لیے اپنے آپ کو اس جگہ پر رکھیں جہاں وہ مقتول کے خاندان والے کھڑے ہیں اور سوچیں کہ آپ نے اپنے پیارے کو خون میں لت پت دیکھا ہے اس کا جنازہ اٹھایا ہے آپ کے گھر میں قیامت کا منظر ہے اور اس میں پولیس کچری کے چکر ہیں وسائل کی کمی ہے اور دھمکیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے باقی بچے ہیں جن کی حفاظت کے لیے آپ فکر مند ہیں۔ اس میں کتنا عرصہ آپ دباؤ برداشت کر سکتے ہیں اور مقتول کے ورثا کی تصویریں بتا رہی ہوتی ہیں کہ وہ کس کرب میں اور یہ معافی ان کو کس طرح کے کچوکے لگا رہی ہے۔

شاہ زیب ہو یا ناظم جوکھیو ورثاء کی جان اس وقت تک نہیں چھوڑی گئی جب تک معاف نہیں کر دیا اور صرف بات معافی کی نہیں پولیس ملزم دیکھ کر ایف آئی آر سے اس عمل کا آغاز کر دیتی ہے ناقص ایف آئی آر، ناقص تفتیش رپورٹ میں اہم شواہد کی عدم موجودگی ایسے کیس میں بڑے بڑے چھید بناتے ہیں کہ اگر ایسا بھی گواہ ہو کہ اس کے سامنے قتل ہو تب بھی ملزم بچ جائے، پھر ملزم کے گھر والے تگڑا وکیل کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ دوسری طرف کا وکیل بھی ان سے آ ملے پھر جج کی باری آتی ہے اور یہ سب اٹھا کہ ورثاء کے منہ پر مارا جاتا ہے کہ ابھی نہیں معاف کو گے تو چھوٹ پھر بھی جائیں گے تمھاری ضرورت صرف ہمیں اپنی نیک نام شہرت کی تشہیر کے لیے ہے کہ ہم کتنے سخی ہیں۔

شاہ رخ کے وکیل لطیف کھوسہ اس کہ شاندار مثال ہیں پیسہ ملنا چاہیے کھوسہ صاحب ہر کالے کو سفید کرنے کا ہنر جانتے ہیں یہ پیسہ تھا جو کھوسہ صاحب کے منہ سے ٹی وی پر کہلوا رہا تھا کہ شاہ رخ بچہ تھا اس سے غلطی ہو گئی اس کی زندگی کے دس سال جیل میں ضائع ہو گئے، قتل غلطی نہیں ہوتا اور شاہ زیب کی تو زندگی ہی ختم ہو گئی۔ اس کا باپ غم سے مر گیا اور شاہ رخ نے تو دس سال میں بیشتر وقت بیماری کا بہانہ کر کے ہسپتال میں گزارا اور جیل میں بھی سہولیات میسر رہیں۔

اس سارے عرصے میں جس میں شاہ رخ جیل میں رہا وہ لطیف کھوسہ کے لیے ضائع ہو گئے اور جو جان سے ہی چلا گیا وہ رزق خاک تھا خاک نشین ہوا کیونکہ پیسے اور امارت میں اگرچہ شاہ زیب کا خاندان پاکستان کی اپر مڈل کلاس اور پڑھا لکھا تھا لیکن طاقت میں اور پیسے میں کہیں کم یہی ناظم جوکھیو کے ساتھ ہوا کہ آخر میں مجبور ہو کر بیوہ اور بھائی نے معاف کر دیا۔

چاہے شاہ رخ ہو یا جام کریم، ظاہر جعفر ہو یا شاہنواز امیر ان سب قاتلوں میں یہ قدر مشترک ہے کہ انہوں نے اس اعتماد کے ساتھ قتل کیا کہ کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ نور مقدم اور سارہ انعام کے قتل میں بھی انہی روایتی ہتھکنڈوں کا استعمال ہے کہ ملزم ذہنی مریض ہے اسے کچھ پتہ نہیں اس نے کیا کیا ہے اور والدین کی طرف سے مگر مچھ کے آنسو اور دوسری طرف اپنی اولاد کے بچاؤ کی پوری کوشش۔

اس گلے سڑے نظام میں شاہ رخ پاکستان کے امیروں کے لیے امید کی کرن ہے جو پاکستان کے مڈل کلاس اور غریبوں کی بولنے کی عادت سے، سوشل میڈیا سے، مٹھی بھر سوشل مسائل پر آواز اٹھاتے صحافیوں سے نالاں ہیں۔ اس کیس نے، ناظم جوکھیو کیس نے اور اس طرح کے اور ہائی پرو فائل کیسوں نے پاکستان کے امراء کے سارے خدشات دور کر دیے ہیں اب وہ اپنے بچوں کو اس اعتماد سے پالتے ہیں کہ اگر بچپنے میں ان سے قتل بھی ہو جائے تو قانون ان کو کچھ نہیں کہے گا اور وہ باحفاظت اپنی قیمتی زندگی گزار سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments