حادثہ ٹائی راڈ کھلنے سے نہیں ہوا


محمد خالد اختر نے اردو ادب میں جو مقام پایا، ان کے بارے میں تعارفی پیرایہ بیان اختیار کرنا بذات خود سوئے ادب کے زمرے میں شمار ہو گا۔ جس لکھنے والے نے سعادت حسن منٹو اور فیض احمد فیض سے داد پا رکھی ہو، اسے ہماری شکستہ پا، لکنت زدہ نسل سے توصیف کی کیا حاجت؟ ناول لکھا تو چاکیواڑہ میں وصال، مزاح پر توجہ دی تو چچا عبدالباقی، طنز کا نشتر اٹھایا تو مکاتیب خضر، ترجمے پر نظر کی تو ارنسٹ ہیمنگوے کی خبر لائے، تنقید لکھی تو ریت پر انمٹ لکیریں کھینچ دیں۔ سفر نامہ لکھنے پر اترے مٹھن کوٹ سے ڈجکوٹ تک جا پہنچے۔ ایک ذاتی ملال کا بیان البتہ ضروری ہے۔ محمد خالد اختر کا افسانہ پڑھنے والوں کی پوری توجہ نہیں پا سکا۔ شاید اس لئے کہ خالد صاحب انگریزی نثر کے قتیل تھے چنانچہ افسانے میں غزل کی لفظیات سے رنگ بھرنے کے قائل نہیں تھے۔

ان کے افسانوں کا مجموعہ ”لالٹین اور دوسری کہانیاں“ 1997 میں شائع ہوا۔ ہمارے ملک میں کتاب دوستی کا جو عالم ہے، کتب فروشی کا بندوبست اس سے سوا بے حال ہے۔ سو یہ نادرہ روزگار تصنیف کتب فروشوں کی گرد آلود الماریوں میں کہیں دب کر رہ گئی۔ اس مجموعے کی ہر کہانی اپنی جگہ لاجواب ہے مگر ایک افسانے ”زندگی کی کہانی“ نے درویش کے پاﺅں جکڑ لئے۔ اس کہانی میں خالد نے انسان کے وقفہ حیات کا پھیلاﺅ اور مآل اس ہنر سے سمیٹے کہ باید و شاید۔ وجہ تو مجھے معلوم نہیں لیکن یہ کہانی جب جب پڑھی مجھے اپنے مشفق دوست اسلم ملک کا خیال آتا رہا۔

اسلم ملک نے چیخم دھاڑ کی صحافت کے چلن میں استاد ولایت علی خان کی ’ندیا دھیرے بہو‘ جیسی کومل راگ داری کا نمونہ دکھایا۔ 4 مارچ 1951 کو بہاولپور میں پیدا ہوئے۔ طالب علمی ہی میں صحافت کی چیٹک پال لی تھی۔ 1977 میں روز نامہ امروز سے وابستہ ہوئے۔ 1991 میں خبر و نظر کا یہ سرچشمہ خشک ہوا تو روز نامہ جنگ میں چلے آئے۔ 24 اگست 2022 کو یہیں سے بحیثیت سینئر سب ایڈیٹر ریٹائر ہوئے۔

اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے۔ نوآموز صحافیوں کی بے لوث تربیت اور رہنمائی اسلم ملک کے لئے کار منصبی کا حصہ رہی۔ خود اس کج مج بیان کو سینکڑوں الفاظ کی درست املا اور مناسبت سمجھائی۔ ایک جملہ اکثر فرماتے کہ بھلے صحافت ادب عالیہ نہیں لیکن زبان درست ہونی چاہیے اور پامال بیان سے بچنا چاہیے۔ اردو صحافت کا کوئی بھی قاری ایک نظر میں بتا سکتا ہے کہ خبر مرتب کرنے والے نے کہاں غلام رسول مہر (مملکت خداداد) اور ذوالفقار بخاری (فائر بندی) کی خوشہ چینی کی ہے۔ ان اساتذہ نے اپنے ہم عصر حقائق کی روشنی میں خبر کا لہجہ مرتب کیا تھا، اکیسویں صدی میں حقائق تک رسائی کے ذرائع بدلنے سے خبر کی واقعیت اور درست تناظر کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔

مثال کے طور پر 70 کی دہائی میں ہر ٹریفک حادثے کی خبر میں التزاماً بتایا جاتا تھا کہ ’حادثہ ٹائی راڈ کھلنے سے پیش آیا‘۔ اس بے معنی تکرار کا اصل مقصد یہ تھا کہ سڑک کی خستہ حالت، ڈرائیور کی غفلت اور متعلقہ حکام کی بے اعتنائی کی پردہ پوشی کی جا سکے۔ آج کل ٹائی راڈ کھلنے کا ذکر نہیں ہوتا لیکن صاحب منصب کی خوشامد، قومی خود ستائی اور ہر ناخوشگوار خبر کی ذمہ داری نادیدہ بیرونی قوتوں پر عائد کرنے کے پس پشت وہی ذہنیت کارفرما ہے۔

تازہ واردات دیکھیے۔ الیکشن کمیشن نے عمران خان کو نا اہل قرار دے دیا اور پاکستان فٹیف کی سفید درجہ بندی میں واپس آ گیا۔ اب اس پر شادیانوں کے شور میں کچھ سوالات اوجھل ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کہ میثاق جمہوریت کے بعد ’تیسری قوت‘ کو مہمیز کرنے کا خیال کسے آیا تھا؟ 2014 کے دھرنے کے بعد مشاہد اللہ خان کو مستعفی ہونا پڑا۔ کیا اس مہم جوئی کے معماروں کی سرزنش بھی ہوئی؟ پانامہ کیس میں یک طرفہ کارروائی اور بے قاعدگیوں سے ہونے والے نقصان کی ذمہ داری کس پر عائد ہو گی؟ ڈان لیکس غداری تھی یا Ides of March کے وزن پر Ides of November؟ جولائی 2018ء کے انتخابات میں کھلی مداخلت کے سیاسی، معاشی اور تمدنی خسارے کا تخمینہ کیسے لگایا جائے گا؟

عمران خان کی نا اہلی اور مبینہ بدعنوانی تو زیر سماعت معاملہ ہے، عمران خان کی دیومالائی خوبیاں کس ارشمیدس نے دریافت کی تھیں؟ عمران خان کو وزارت عظمیٰ پر فائز کرنے اور پھر ان کے  44 ماہ پر محیط دور حکومت میں ملک کو معاشی، سیاسی اور سفارتی سطح پر جو نقصانات پہنچا، ان کی ذمہ داری کس پر عائد ہو گی؟ عدلیہ سمیت کلیدی ریاستی اداروں کی ساکھ کو جو دھچکہ لگا، اس کا مداوا کیسے ہو گا؟ سیاسی عمل کی شفافیت میں جو گدلا پن آیا، اس کی تلافی کیسے ہو گی؟

سیاست میں مداخلت سے گریز کا اعلان غیرمشروط طور پر خوش آئند سہی مگر دستور کی شق 62 اور 245 کے ہوتے ہوئے اس اعلان کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ ریاستی منصب داروں کی سیاست سے لاتعلقی صوابدیدی اختیار نہیں، دستور کا غیرمشروط تقاضا ہے۔

لمحہ موجود میں ملکی معیشت دگرگوں ہے، سیلاب کی تباہ کاریاں روز مرہ کے سیاسی مدوجزر میں نظر انداز ہو رہی ہیں۔ مہنگائی نے عوام کا جینا حرام کر دیا ہے۔ سیاست خوفناک قطبیت کا شکار ہے۔ خارجہ تعلقات کے خد و خال بری طرح الجھے ہوئے ہیں۔ قوم کی گاڑی ہائبرڈ بندوبست کی چٹان سے ٹکرا کر بری طرح ہچکولے کھا رہی ہے۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ حادثہ گزر گیا یا ابھی آزمائش کے کچھ مرحلے باقی ہیں۔ تاہم یہ رائے قطعیت سے دی جا سکتی ہے کہ یہ حادثہ ٹائی راڈ کھلنے سے پیش نہیں آیا۔ اس حادثے میں سازش، جرم، غفلت اور کوتاہ نگاہی کے عوامل نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔

کچھ لوگ خضر کے ساتھ چلے تھے دریا کرنے پار
وہ پانی میں ڈوب گئے اور میں حیرانی میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments