بیگم نصرت بھٹو۔


بیگم نصرت بھٹو جس پائے کے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اس حساب سے ان میں کوئی غرور یا تکبر نظر نہیں آتا تھا جیسا غرور اور تکبر آج کل کے بیشتر سیاستدانوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ورکرز کو اپنے بچوں کی طرح پیار کرتی تھیں لیکن اپنے مخالف حریف کے ساتھ سختی سے پیش آتی تھیں۔ میاں نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں جب اکثریت ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی کو صوبہ سندھ میں حکومت بنانے نہیں دی گئی اور جام صادق علی خان کو وزیراعلیٰ سندھ بنایا گیا تو ایک مرتبہ ہوائی اڈے پر جب دونوں کا آمنا سامنا ہوا تو جام صادق نے کہا ’ہیلو ممی‘ ۔

جس پر بیگم صاحبہ نے انہیں کہا تھا ’شٹ اپ باسٹرڈ‘ ۔ بیگم نصرت بھٹو اعلیٰ پائے کے کسی گھرانے کی شاید ہی کوئی ایسی خاتون ہوں جنہوں نے اپنی زندگی میں شوہر اور تین بچوں کی لاشیں اٹھائیں ہوں۔ نصرت بھٹو نے اپنی زندگی میں سکھ کم اور دکھ زیادہ دیکھے۔ جیسے ہی ذوالفقار علی بھٹو کو ایک فوجی آمر نے پھانسی دلوائی اس کے بعد نصرت بھٹو سیاست میں سامنے آئیں بھٹو کی پھانسی کے بعد انہوں نے ایک جابر آمر ضیاء کو للکارا اور اس کے خلاف آواز بلند کی اور ہار نہیں مانی آپ نے جمہوریت کی بحالی کے لئے ضیاء کے خلاف اہم کردار ادا کیا آپ کو مادر جمہوریت کا لقب بھی دیا گیا آپ ضیاء کے خلاف ایک موثر آواز بنیں جولائی 1977 کو جنرل ضیا الحق نے جب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم کی تو بیگم نصرت بھٹو کو نظر بند کر دیا گیا، شوہر کی پھانسی کے بعد بیگم نصرت بھٹو نے پیپلز پارٹی کو منظم کیا اور شعبہ خواتین کی بنیاد رکھی۔

وہ کئی بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں سینئر وفاقی وزیر بھی رہیں۔ کئی برسوں کی علالت کے دوران محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی شہید کر دیا گیا، پے درپے صدمات جھیلنے والی بیگم نصرت بھٹو 23 اکتوبر 2011 کو دبئی میں خالق حقیقی سے جا ملیں۔ انہیں گڑھی خدا بخش لاڑکانہ میں ذوالفقار علی بھٹو کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔ بیگم نصرت بھٹو نے اپنی زندگی میں شوہر کی پھانسی، دو بیٹوں اور بیٹی کی موت کے غم سہے، پیپلز پارٹی کے کارکن آج بھی بیگم نصرت بھٹو کی جدوجہد اور ہمت کو سلام پیش کرتے ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments