ناجیہ نام کی لڑکی


ایک دن شام کو ہوا خوری کے لیے جا رہا تھا کہ امی جان نے روک لیا۔ انھوں نے بتایا کہ ناجیہ آ رہی ہے اس کے لیے کمرہ تیار کرنا تھا۔ چنانچہ میں نے گیسٹ روم کا جائزہ لیا۔ جو اشیا درکار تھیں ان کی فہرست بنائی اور جمیل میاں کو کمرے کی صفائی کا کام دے کر باہر نکل گیا تا کہ مطلوبہ چیزیں لا سکوں۔ جمیل گھر کا ملازم تھا۔ ہر فن مولا تھا۔ صفائی ستھرائی، لان کی دیکھ بھال اور گھر کے چھوٹے موٹے کاموں کے ساتھ ساتھ ڈرائیونگ بھی کر لیتا تھا۔ کچن کا کام اس کی بیوی جمیلہ نے سنبھال رکھا تھا۔ والد صاحب ملازمت کی غرض سے دبئی میں مقیم تھے۔ وہ ہر ماہ ایک معقول رقم بھیجتے تھے۔ جس سے گھر کے اخراجات بخوبی پورے ہوتے تھے۔ میں ان دنوں یونیورسٹی کے آخری سال میں تھا۔

اگلے دن ناجیہ آ گئی۔ دس سال بعد اسے دیکھ کر میں پہچان نہ سکا۔ کہاں وہ دس سال کی گول مٹول لڑکی اور کہاں بیس برس کی دبلی پتلی ناجیہ۔ دھانی رنگ کے سادہ سے شلوار قمیص میں وہ سادگی کا پیکر لگ رہی تھی۔ ناجیہ میری خالہ کی بیٹی تھی۔ اس کا گاؤں ہمارے شہر سے کافی دور تھا۔ قریباً پندرہ سو کلو میٹر کا فاصلہ تھا۔ برسوں بعد آنا جانا ہوتا تھا۔ گزشتہ دس برس میں اتفاق سے جب بھی ان کے گاؤں جانا ہوا میں کسی نہ کسی وجہ سے نہ جا سکا۔ ناجیہ ہمارے شہر میں تعلیم کی غرض سے آئی تھی۔ اس کا داخلہ یونیورسٹی میں ہو گیا تھا۔ ناجیہ یہاں بہت خوش تھی۔

اس کے آنے سے گھر میں رونق سی ہو گئی تھی۔ وہ امی جان کے ساتھ ٹی وی ڈراموں کی باتیں کرتی، کچن میں جا کر جمیلہ سے نت نئی چیزیں بنواتی، لان کو سنوارنے کے لیے جمیل کو ہدایات دیتی۔ میرے ساتھ بھی شام کی چائے پر گپ شپ ہوتی۔ میں نے جب اسے دس سال کے بعد پہلی بار دیکھا تھا تو وہ مجھے اچھی لگی تھی مگر اب دھیرے دھیرے وہ میرے دل کی دھڑکن بنتی جا رہی تھی۔ اس کی یونیورسٹی ہمارے گھر سے قریب تھی اس لیے وہ پہلے آتی تھی میں جب گھر پہنچتا تو میری نگاہیں اسے ڈھونڈ رہی ہوتیں اور پھر جب وہ نظر آتی تو بے تاب دل کو قرار آ جاتا۔ اس کا دلکش چہرہ آنکھوں میں کھب جاتا تھا، پر کشش آنکھیں سپنوں سے بھری ہوئی محسوس ہوتیں اور شیریں آواز کانوں میں رس گھولتی تھی۔ اس کے باوجود میں نے کبھی اس سے کوئی ایسی بات نہیں کی تھی جو میرے دل کا راز افشا کر دیتی۔

اس کے دل کا حال مجھے معلوم نہیں تھا۔ میں اس سے پوچھنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ میرے دل میں ایک انجانا سا خوف تھا۔ اسی طرح دن گزرتے گئے۔ چند ماہ بعد میں نے محسوس کیا کہ وہ چپ چپ رہنے لگی ہے۔ بظاہر اس کی وجہ دکھائی نہ دیتی تھی۔ میں شاید زیادہ غور نہ کرتا لیکن ایک دن امی جان نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا۔ جب میں ان کے کمرے میں پہنچا تو خلاف معمول ٹی وی آف تھا اور وہ بیڈ پر بیٹھی کسی گہری سوچ میں گم تھیں حالاں کہ امی جان کے کمرے میں ٹی وی عموماً آن ہی رہتا تھا کیوں کہ ٹی وی دیکھنا ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔

”جی امی جان۔“ میں نے ان کے قریب صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ امی جان نے چند لمحوں کی خامشی کے بعد کہنا شروع کیا۔

”نیل کیا تمہیں ناجیہ کے رویے میں کسی تبدیلی کا احساس ہوا ہے؟“
میں نے جو محسوس کیا تھا ان کے گوش گزار کر دیا۔ میری بات سن کر انھوں نے فکر مند لہجے میں کہا۔

”اگر ایسا ہے تو اس سے بات کرو اور پتہ لگانے کی کوشش کرو کہ کیا بات ہے۔ میں نے دو تین بار اس سے پوچھنے کی کوشش کی ہے مگر وہ ٹال جاتی ہے۔ آخر اسے کیا غم ہے۔ میں نے ہفتوں سے اسے مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا۔“

میں نے انھیں تسلی دی کہ میں ناجیہ سے بات کروں گا اور جو بات بھی ہو گی انھیں آگاہ کروں گا۔ شام کا وقت تھا۔ ناجیہ اپنے کمرے میں تھی۔ میں نے سوچا کہ اسی وقت اس سے بات کرنی چاہیے چناں چہ میں اس کے کمرے کی طرف چلا گیا۔ نیم وا دروازے کے قریب جا کر میں نے ہلکی سی دستک دی۔ ”جی“ ناجیہ کی آواز سنائی دی۔ اس نے ادھ کھلے دروازے سے میری جھلک دیکھ لی تھی۔ میں نے دروازہ کھولا اور اندر چلا گیا۔ وہ سامنے سٹڈی ٹیبل پر تھی۔ اس کے سامنے کتابیں موجود تھیں مگر وہ پڑھ نہیں رہی تھی۔ اتنے عرصے میں اس سے کچھ بے تکلفی ہو چکی تھی اس کے باوجود میں سوچ رہا تھا کہ بات کہاں سے شروع کروں۔

”ایسا لگتا ہے جیسے تم آج کل پڑھنے سے زیادہ سوچنے لگی ہو۔“ میں نے اس کے سامنے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔

”جی نہیں، آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے۔“ اس نے فوراً کہا مگر وہ مجھ سے آنکھیں چرا رہی تھی۔
”گھر کی یاد آ رہی ہے؟“
”گھر تو یاد آتا ہی ہے“
”تو کیا تم یہاں خوش نہیں ہو؟“
”نہیں اب ایسی بھی بات نہیں“
”تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟“
”میں بالکل ٹھیک ہوں“

”تو پھر چھوڑو کتابیں آؤ باہر چلتے ہیں میرا جی چاہ رہا ہے باہر جا کر کچھ کھایا جائے“ میں نے کہا۔ وہ چپ تھی جیسے فیصلہ نہ کر پا رہی ہو۔ ”کئی دن ہو گئے ہیں ہم باہر نہیں گئے۔ چلو چلتے ہیں دل بہل جائے گا“ میں نے پھر کہا۔

”آپ کہتے ہیں تو ٹھیک ہے چلتے ہیں“ اس نے مسکرا کر کہا مگر مجھے اس کی مسکراہٹ بناوٹی سی لگی۔ بہرحال وہ میرے ساتھ چل پڑی۔ میں نے کار سٹارٹ کی وہ میرے بائیں جانب فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تھی۔ کچھ دیر بعد ہم شہر کے ایک عمدہ ریسٹورانٹ میں بیٹھے تھے۔ اس ریسٹورانٹ میں زیادہ رش نہیں ہوتا تھا۔ ہال میں مدھم روشنی تھی۔ ہلکی آواز میں موسیقی جاری تھی۔ باوردی ویٹر مستعد تھے۔ میں نے ایک کونے والی میز منتخب کی۔ ویٹر کو سوپ کا آرڈر دیا پھر ناجیہ کی طرف متوجہ ہوا۔

”ناجیہ میں بہت دنوں سے تم سے بات کرنا چاہتا تھا۔ کوئی ایسی بات ہے جو تمہیں پریشان کر رہی ہے، میں وہ بات جاننا چاہتا ہوں۔“

میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔ وہ اپنے ہونٹ چبانے لگی پھر اس نے دھیرے سے کہا۔

”نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے“ شاید وہ بتانا نہیں چاہتی تھی۔ میں نے ادھر ادھر کی باتیں شروع کر دیں۔ سوپ آ گیا۔ سوپ پیتے ہوئے بھی گفتگو جاری رہی۔ میں نے کھانے کا آرڈر دیا اور ایک بار پھر اصل سوال پر آ گیا۔ اس نے دو تین بار انکار کیا مگر میں ہمدردی سے اصرار کرتا رہا کیوں کہ میں اس کی اداسی کی وجہ جاننا چاہتا تھا۔ اس کی آنکھیں نم ہو گئیں پھر وہ بولی۔

”میں کسی سے پیار کرتی ہوں۔“ اس کی بات سن کر میرے دل کو ایک دھکا سا لگا مگر میں نے خود کو نارمل رکھتے ہوئے کہا۔

”تو اس میں اتنا پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے۔“

”میرا ایسا بالکل بھی ارادہ نہیں تھا مگر محبت کسی ارادے سے کب ہوتی ہے۔ مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب وہ میرے دل میں اتر گیا اور اب میں اسے اپنے دل سے نہیں نکال سکتی۔ وہ میری رگ رگ میں سما گیا ہے۔“ شاید وہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتی تھی اور میرے ہمدرد لہجے نے اس کے ضبط کو توڑ دیا تھا۔ اس کی آنکھیں بھیگ رہی تھیں۔

ہم جب واپس آ رہے تھے تو دونوں خاموش تھے بس کار کے انجن کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ اس نے مجھے بتایا تھا کہ ثاقب اس کی یونیورسٹی میں ہی تھا مگر وہ آخری سال میں تھا۔ اتفاق سے ایک ملاقات ہوئی جس کے بعد تسلسل سے ان کی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ میں اس سے زیادہ تفصیلات نہ پوچھ سکا تھا۔ مجھے خود بھی سنبھلنے کے لیے کچھ وقت درکار تھا۔

اگلے دن سہ پہر کو میں اپنے کمرے میں تھا جب وہ آ گئی۔ وہ مجھ سے بات کرنا چاہتی تھی۔ میں بھی پوری بات جاننا چاہتا تھا۔ وہ اس وقت بہت مضطرب لگ رہی تھی۔ میں نے اسے آرام سے بیٹھنے کے لیے کہا۔

”ثاقب کی بے اعتنائی مجھے مار ڈالے گی۔ نہ جانے میں نے ایسی کیا خطا کی ہے جو اس نے یہ روش اختیار کی ہے۔ آپ اندازہ بھی نہیں لگا سکتے کہ اس وقت میری کیا حالت ہے۔ میرا دل چاہتا ہے میں پھوٹ پھوٹ کر روؤں۔“ اس کی آنکھیں جھکی ہوئی تھیں۔

”اچھا مجھے کچھ تفصیل بتاؤ“ میں نے نرمی سے پوچھا۔

”سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ ہم اکٹھے چائے پیتے تھے گپ شپ کرتے تھے۔ اپنے دل کا حال تو آپ کو بتا چکی ہوں محبت کا اقرار بھی ہوا اور وہ کہتا تھا کہ وہ بھی مجھ سے بہت محبت کرتا ہے۔ وہ میرا بہت خیال رکھتا تھا۔ میری ذرا سے پریشانی پر مجھ سے زیادہ پریشان ہو جاتا تھا۔ ہر وقت مجھ سے ملنے کے بہانے ڈھونڈتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ آخری سانس تک میرے ساتھ رہے گا۔ میں اس کی محبت سے سرشار تھی کہ پھر اچانک اس نے مجھ سے دوری اختیار کر لی۔

اب تو وہ مجھ سے بات بھی نہیں کرتا۔ میں نے کتنی بار کوشش کی کہ اس سے کچھ پوچھوں، اس سے اپنی تقصیروں کی معافی طلب کروں لیکن وہ تو میرے سائے سے بھی دور بھاگتا ہے۔ میں کئی بار اس کے سامنے گئی مگر اس نے آنکھ بھر کر دیکھنا گوارا نہ کیا۔ اس وقت میری کیا حالت ہوتی تھی آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ جج بھی ملزم کو سزا سنانے سے پہلے اس کا جرم بتاتا ہے، اس نے تو یہ بھی گوارا نہ کیا۔ پتہ نہیں میں نے ایسا کیا جرم کیا ہے، مجھے اگر اپنی خطا معلوم ہو جائے تو میں اس کے پیروں پر گر کر معافی مانگنے کو تیار ہوں۔ کبھی کبھی مجھے ایسا لگتا ہے جیسے وہ مجھے اپنے قابل نہیں سمجھتا، شاید اسے مجھ سے زیادہ حسین لڑکی چاہیے تھی لیکن میں اپنے دل کو کیسے سمجھاؤں۔ اگر مجھ میں کوئی خامی ہے تو میں اسے ٹھیک کرنے کی بھرپور کوشش کروں گی۔ وہ مجھے بتائے تو سہی کہ کیا مسئلہ ہے؟“

اس کی باتیں سن کر میرے دل میں جیسے آگ بھڑک اٹھی۔ اس کا نازک جسم لرز رہا تھا اور دلکش چہرے پر حزن و ملال کی پرچھائیاں تھیں۔ اس کے باوجود وہ اتنی پیاری لگ رہی تھی کہ جی چاہتا تھا اسے بازوؤں میں بھر کر اتنا پیار کروں کہ وہ سارے دکھ بھول جائے۔ مجھے ثاقب پر غصہ آنے لگا اور دل میں اس کے لیے شدید نفرت پیدا ہو گئی۔ اگر اس نے ناجیہ کو ایسے ہی رلانا تھا تو اسے سبز باغ کیوں دکھایا تھا۔ سوچتے سوچتے مجھے ناجیہ پر بھی غصہ آنے لگا۔ ایک لڑکی کو اتنا تو خوددار ہونا چاہیے کہ اگر کوئی مرد اس سے بے اعتنائی کرتا ہے تو وہ بھی بے رخی اختیار کرے۔ اگر وہ اس کا خواہاں نہیں تو یہ اس کی متقاضی کیوں؟ میں نے ناجیہ کے گالوں پر بہتے ہوئے آنسوؤں کو اپنی انگلیوں کی پوروں سے پونچھتے ہوئے کہا۔

”بس اب مزید اشک مت بہاؤ۔ مجھے شبہ ہے اس نے کسی اور سے بھی دل لگا رکھا ہے۔ میں خود اس سے ملوں گا اور معلوم کرنے کی کوشش کروں گا کہ کیا معاملہ ہے۔“

میں ناجیہ کی یونیورسٹی میں گیا اور اس نے دور سے مجھے دکھا دیا کہ ثاقب کون ہے۔ اس کے بعد میں مختلف نوجوانوں سے ملا اور باتوں باتوں میں ثاقب کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ اس کے بعد ثاقب سے ملا اور اس سے راہ و رسم پیدا کر لی۔ شام کو میں اس کے گھر پہنچ گیا کہنے کو یہ اتفاق تھا مگر میں جان بوجھ کر گیا تھا تا کہ اس سے روابط بڑھائے جاسکیں۔ چند دن کی ملاقاتوں کے بعد سب کچھ معلوم ہو گیا۔

شام کو میں ذرا دیر سے گھر پہنچا تھا۔ ناجیہ میری منتظر تھی۔ میں نے اسے سمجھایا تھا کہ امی جان سے نارمل انداز میں باتیں کر لیا کرے وہ پریشان ہوتی ہیں۔ وہ اس وقت امی جان کے پاس ہی بیٹھی تھی۔ آنکھیں چار ہوئیں تو اس نے مجھے کھوجتی نگاہوں سے دیکھا۔ کھانے کا وقت تھا۔ کھانے کی میز پر میں جان بوجھ کر ہنسی مذاق کرتا رہا تا کہ ماحول خوشگوار رہے۔ کھانے کے بعد امی جان اپنے کمرے میں چلی گئیں۔ ناجیہ میری طرف بڑھی تو میں نے اسے کمرے کی طرف جانے کا اشارہ کیا۔ کمرے میں بیٹھ کر میں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ ثاقب کو بھول جائے۔ اس کی آنکھیں بھیگنے لگیں۔

”آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں؟“ اس نے کمزور سی آواز میں پوچھا۔

”اس لیے کہ ثاقب نے تمہیں دھوکا دیا ہے۔ چند دن بعد اس کی شادی ہے“ میں نے بتایا۔ اس کے منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکلا۔ اس کا سر جھک گیا تھا اور جسم کانپ رہا تھا۔

”اس کی منگیتر بہت امیر خاندان کی لڑکی ہے۔ اس کا باپ ملٹی نیشنل کمپنی کا مالک ہے۔ کروڑوں میں کھیلنے والے لوگ ہیں اور حقیقت تو یہ ہے کہ اس لڑکی نے ثاقب کو دیکھا تو وہ اسے بھا گیا۔ ثاقب اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا اس لیے فوراً تم سے ناتا توڑ کر اس کا ہو گیا۔“ میں نے تفصیل بتائی۔

ناجیہ نے اپنی آنسوؤں بھری آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی۔
”مجھے یقین نہیں آ رہا۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ اس نے میرے ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھائی تھیں۔“

”اس کی قسمیں اس کی طرح ہی جھوٹی تھیں۔ بہر حال میری معلومات درست ہیں۔ اسی لیے وہ تم سے بات نہیں کرنا چاہتا۔ اگر اس کی بھنک اس کی منگیتر کو پڑ گئی تو اس کا بنا بنایا کھیل بگڑ جائے گا۔“ میں نے تلخ لہجے میں کہا۔ میرا خیال تھا یہ سب کچھ سن کر وہ بھڑک اٹھے گی اور کہے گی کہ وہ ہر صورت میں اس سے ملے گی اور اس کو کسی اور سے شادی نہیں کرنے دے گی مگر ناجیہ کا رد عمل میرے توقعات سے بالکل مختلف تھا۔ اس چند گہری سانسیں لیں پھر بولی۔

”میری خدا سے یہی التجا ہے کہ وہ ہمیشہ خوش رہے۔ وہ میرا نہ ہو سکا تو کوئی بات نہیں میں تو اس کی ہوں۔ حساب برابر ہوا۔ مجھے اس کی محبت کے چند روز نصیب ہوئے یہ میری خوش بختی ہے۔ میں لازوال محبت کے ان دنوں کی یاد میں اپنی ساری عمر گزار سکتی ہوں۔ دور محبت کی یادیں میرے دل کو ہمیشہ تقویت دیتی رہیں گی۔“ بظاہر وہ اطمینان سے یہ سب کچھ کہہ رہی تھی لیکن اس کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے۔ میں نے اسے سوچا کہ اسے کھل کر رونے کا موقع دوں شاید اس طرح اس کے دل کا غبار دھل جائے۔ چناں چہ میں نے اسے اس کے کمرے میں تنہا چھوڑ دیا۔

اس دن کے بعد ناجیہ مجھ سے ثاقب کے بارے میں بات نہیں کرتی تھی مگر اس کے بعد وہ مستقل اداس رہنے لگی۔ روز بروز وہ لاغر اور کمزور ہوتی جا رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ روگ اسے اندر ہی اندر کھا رہا ہے۔ میرا دل اس کی حالت دیکھ دیکھ کر کٹتا تھا۔ میں مختلف طریقوں سے اس کی دلجوئی کی کوشش کرتا۔ اسے باہر کھانا کھلانے لے جاتا لیکن اس کی اداسی دور نہ کر سکا۔ جس دن ثاقب کی شادی تھی میں اسے لانگ ڈرائیو پر لے گیا۔ میں نے اسے نہیں بتایا تھا مگر نہ جانے اسے کیسے معلوم ہو گیا۔ وہ میرے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تھا۔ گاڑی میں میوزک لگا تھا۔ میں آس پاس کے دلکش نظاروں کی باتیں کر رہا تھا مگر وہ جواب نہیں دے رہی تھی۔ کبھی کبھار ہوں ہاں کر دیتی۔ میں نے اس کی طرف دیکھا تو وہ رو رہی تھی۔ ”کیا ہوا؟“ میں نے پوچھا۔ اس نے کہا ”آج ثاقب کی شادی ہے۔“

شاید اس نے کسی سہیلی سے پوچھا ہو گا۔ مجھے برا لگ رہا تھا۔

”ناجیہ تم خواہ مخواہ ایک بے وفا اور پست آدمی کے لیے رو رہی ہوں۔ وہ ہرگز اس قابل نہیں ہے کہ تم اس کے لیے ایک آنسو بھی بہاؤ۔“ میرا لہجہ تلخ ہو گیا۔

”آپ ایسا کہہ سکتے ہیں مگر میں نہیں کہہ سکتی۔ میں اسی طرح روتے روتے ایک دن مر جاؤں گی۔ مرنے والے کی خطائیں تو سب معاف کر دیتے ہیں۔ اگر آپ کو مجھ سے شکایت ہے تو مرنے کے بعد آپ مجھے معاف کر دیں گے اور شاید وہ بھی میری قبر پر آ کر دو آنسو بہا دے۔ زندگی میں نہ سہی مرنے کے بعد میری روح خوش ہو جائے گی۔“ اس کے بعد میں نے اس سے کچھ نہ کہا۔ شاید اس وقت اسے سمجھانا بے کار تھا۔

ثاقب کی شادی کے بعد بھی ناجیہ کے رویے میں کوئی فرق نہ آیا تھا۔ یہ بھی حقیقت تھی کہ میرے دل میں اس کی محبت اسی طرح تازہ تھی۔ میں جانتا تھا کہ وہ میری نہیں ہے اس لیے اپنی محبت کو دل کے نہاں خانے میں چھپا رکھا تھا لیکن اب اس کی حالت دیکھ کر میں سوچنے لگا کہ اسے سمجھاؤں زندگی کے سفر میں کسی کے بچھڑ جانے سے سفر نہیں رکتا۔

ایک دن شام کو لان میں بیٹھے ہوئے میں نے بات چھیڑی۔ ”ناجیہ ایک بات تو بتاؤ۔ ثاقب نے تو شادی کر لی، تم کب شادی کرو گی؟“

اس نے شکایتی نظروں سے میری طرف دیکھا جیسے میں نے یہ سوال کرے اسے تکلیف پہنچائی ہو پھر بولی۔
”پتہ نہیں، شاید میں عمر بھر تنہا رہوں۔“
میں نے سر ہلایا پھر خوشگوار لہجہ بناتے ہوئے کہا۔
”یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ کوئی تم سے شدید محبت کرنے لگے یا کرتا ہو تو کیا تم پھر بھی ایسا کرو گی۔“

”میں نے ایک ہی بار محبت کی ہے اور میرے جذبات میرے وجود کے ایک ایک ریشے میں جذب ہو چکے ہیں۔ انھیں دل سے نکال دینا میرے لیے ممکن نہیں ہے اگر میں نے کسی طور ایسا کر بھی لیا تو میری ہستی بھی ریزہ ریزہ ہو جائے گی۔“ ناجیہ نے مضبوط لہجے میں کہا۔

”ناجیہ! اگر میں کہوں کہ میں بھی تم سے بے حد محبت کرتا ہوں تو کیا تم مجھے ٹھکرا دو گی؟“ اس نے اپنا دلکش چہرہ میری طرف موڑا اور گویا ہوئی۔

”کاش میں آپ کے لیے کچھ کر سکتی لیکن میں کیا کروں میرا دل غم سے بھرا ہے اس میں محبت کے لیے تو جگہ ہی نہیں ہے۔“ میرا دل جیسے کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا۔ میں اسے کیسے بتاتا کہ میرے لیے اسے دل سے نکالنا بہت مشکل ہے۔

شام ہو گئی تھی۔ امی جان آوازیں دے رہی تھیں۔ ہم اندر کی طرف چل پڑے۔ وہ بہت عجیب لڑکی تھی۔ اس پر میری باتوں کا کوئی اثر نہ ہوا۔ اس کی پڑھائی بھی شدید متاثر ہو چکی تھی۔ اس نے مجھ سے کہا کہ وہ واپس اپنے گاؤں جانا چاہتی ہے۔ میں نے اسے منع کیا کہ چند دن رک کر سوچے اور سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے۔ میں حیران تھا کہ وہ اپنی زندگی تباہ کرنے پر کیوں تلی ہے۔ میرا خیال تھا کہ دھیرے دھیرے میں اسے سمجھانے میں کامیاب ہو جاؤں گا۔

ایک دن مجھے ثاقب سے متعلق ایک خبر ملی۔ میں نے سارے کام چھوڑے اور فوراً اس خبر کی تصدیق کے لیے چل پڑا۔ ساری معلومات حاصل کرنے کے بعد گھر پہنچا۔

”ناجیہ! ناجیہ!“ میں اسے ڈھونڈ رہا تھا۔

”کیا بات ہے؟“ وہ کچن سے نکلتے ہوئے بولی۔ ”چلو میرے ساتھ۔“ میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور لان کی طرف چل پڑا۔ میری رفتار تیز تھی۔ ناجیہ کو جیسے بھاگنا پڑ رہا تھا۔

”لگتا ہے آپ کوئی بہت ہی خاص بات بتانے والے ہیں“ لان میں جا کر اس نے پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ کہا۔
”آرام سے بیٹھ جاؤ۔ واقعی خاص خبر ہے؟“
”کیا ہے بتائیے ناں؟“ اس نے کھڑے کھڑے کہا، اس کی آنکھوں سے اشتیاق جھلک رہا تھا۔

”ناجیہ! ثاقب کی بیوی نے اسے چھوڑ دیا ہے۔ میں نے سب کچھ معلوم کر لیا ہے۔ ان دولت میں کھیلنے والوں کا مزاج ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس لڑکی کا دل ثاقب پر آ گیا تو اس نے اپنے من پسند کھلونے کی طرح اس کی فرمائش کر ڈالی۔ ثاقب نے بھی کروڑوں کی دولت جھولی میں گرتے دیکھی تو فوراً ہاں کر دی۔ مگر اب شاید اس کی بیوی کا دل بھر گیا تھا۔ سنا ہے اس نے خلع کی درخواست دی تھی اور اس کے باپ نے پریشر ڈالا تھا۔ ثاقب شاید پریشر برداشت نہ کر سکا اس نے فوراً طلاق دے دی۔“ میں نے تفصیل بتائی۔

میری توقع کے برعکس ناجیہ کے چہرے پر خوشی کا کوئی تاثر نہیں تھا۔ وہ پر خیال لہجے میں بولی۔
”بہرحال یہ اچھا نہیں ہوا۔ خیر ہم کیا کر سکتے ہیں۔ جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا ہے۔“

”سنو ناجیہ! میں ثاقب سے مل کر آ رہا ہوں۔ میں نے اس کے دل کو کریدا ہے۔ وہ تم سے شادی کرنے کے لیے تیار ہے۔ “ میں نے کہا۔ ناجیہ کا چہرہ تمتما اٹھا۔ اس نے پلکیں اٹھائیں اور مضبوط لہجے میں بولی۔ ”لیکن میں اس سے شادی کے لیے تیار نہیں ہوں۔ میں ایسے دنیا پرست، حریص اور خود غرض شخص سے کیسے شادی کر سکتی ہوں۔ میرا اس کے ساتھ نباہ نہ ہو گا۔“

مجھے حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔ ”مگر تم تو اس سے محبت کرتی ہو۔“

”وہ میرا مسئلہ ہے مگر اب میں اس کا نام بھی نہیں سننا چاہتی۔ میری آپ سے بھی یہی گزارش ہے کہ آئندہ کبھی اس کی بات نہ کریں۔ میرے لیے ٹکٹ کا بندو بست کر دیں مجھے گاؤں جانا ہے۔“ اس کے چہرے پر سرخی جھلک رہی تھی۔ میرے دل میں جیسے ایک چراغ روشن ہو گیا۔ مجھے اس کے گرد خود اعتمادی اور خودداری کا ہالہ نمودار ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ اب اس کے چہرے پر مایوسی اور حسرت کا نشان تک نہ تھا۔ میں نے آگے بڑھ کر اسے تھام لیا اور فرط جذبات سے گلے لگا لیا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments