‘اساطیر امروز’ کی تیسری سالگرہ پر اس کے نام کھلا خط


اساطیر امروز ’کی تیسری سالگرہ پر اس کے نام کھلا خط
از ملتان
پنج شنبہ، 27 اکتوبر 2022 ء
برخوردار!

تم پر رب رحمن کی بے کنار رحمتیں اور بے شمار برکتیں۔ امید ہے کہ تم خیر و عافیت کے ساتھ اپنی دلفریب شرارتوں میں مگن اور کتابوں اور کھلونوں کی چیر پھاڑ میں مصروف ہو گے۔ آخری بار جب میں اوچ شریف آیا تھا تو تمہاری اماں نے شکایت کی تھی کہ تم موبائل فون پر کارٹون دیکھنے کے لیے انہیں تنگ کرتے ہو، میں نے تمہیں سمجھایا تھا کہ کارٹون دیکھنے کی بجائے تم میرے کمرے میں جا کر وہاں موجود کتابوں اور پنسلوں سے کھیلا کرو۔ اور ہاں تمہارے بستے میں ابن انشاء کی خوبصورت نظموں کی کتاب ’بلو کا بستہ‘ پڑی ہو گی، اپنی اماں یا اپنی ٹیچر آپی سے کہہ کر نظمیں یاد کیا کرو۔ کارٹون دیکھو لیکن ایک حد تک۔

پیارے بیٹے! تمہاری توتلی باتیں سنتا ہوں تو تمہاری بہت مونجھ آتی ہے۔ بس نہیں چلتا کہ اڑ کر گھر پہنچ جاؤں۔ لیکن کیا کروں؟ بقول فیض، ”تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے“ ۔ گاہے گاہے میرا دل چاہتا ہے کہ اپنے باپ دادا کی روایت پر عمل کرتے ہوئے خط کے ذریعے تم سے ’آدھی ملاقات‘ کیا کروں۔ ہفتے میں دو تین خط لکھ کر ڈاک خانہ کے ذریعے تمہیں بھیجا کروں۔ ایسے خطوط جیسے پنڈت جواہر لعل نہرو نے اپنے بیٹی اندرا گاندھی کو لکھے تھے۔

یہ خطوط بعد ازاں ’تاریخ عالم پر ایک نظر‘ کے عنوان سے تین جلدوں میں کتابی شکل میں شایع ہوئے۔ اس دور کی سیاسی و سماجی تاریخ، حالات و واقعات کو اپنے خطوط میں کیا ہی شاندار طریقے سے نہرو صاحب نے اجاگر کیا۔ یہ میری پسندیدہ ترین کتابوں میں سے ایک ہے۔ میں نے 15 سال پہلے یہ کتاب مکمل تین حصوں میں منگوائی تھی، اس دور میں اپنے دوست عامر لعل کے ساتھ نہر کے کنارے یا پٹھان ہوٹل کے کسی گوشے میں اس کتاب کی ’قرات‘ کرتے اور تاریخی موشگافیوں کو سلجھاتے رات کے دو بج جاتے تھے۔ تمہارا چاچا عامر تو دیگر کاموں میں مصروف ہو کر ہر چیز سے بے گانہ ہو گیا ہے البتہ وہ کتاب میرے کمرے میں تمہارے بڑے ہونے کا انتظار کر رہی ہے۔

برخوردار! 27 اکتوبر 2019 ء یوم یک شنبہ کی اجلی اور شبنمی صبح جب تم ظاہر پیر کے سرکاری ہسپتال میں پیدا ہوئے تھے، تب سے اب تک کتنا کچھ بدل گیا ہے۔ ملک میں سیاسی طور پر گزشتہ تین سالوں میں محض اتنی تبدیلی آئی کہ جب تم پیدا ہوئے تھے اس وقت ’ووٹ کو عزت دو‘ کا شہرہ تھا اور اب ’حقیقی آزادی‘ کا شور و غوغا ہے۔ چہار سو نفرت اور عدم برداشت کی آندھی چل رہی ہے۔ پیروکار اپنے رہنماؤں کی عقیدت میں اندھے ہو چکے ہیں۔

دعا ہے کہ اللہ تمہیں فیض احمد فیض، سید سجاد ظہیر، عطا اللہ مینگل، خیر بخش مری، ولی خان، حسن ناصر، نذیر عباسی، حیدر بخش جتوئی، جام ساقی، رسول بخش پلیجو، حمید بلوچ، نواب نوروز خان، باچا خان، اکبر بگٹی جیسے ’غدار‘ لوگوں کی صف میں رکھے اور سید سبط حسن، علی عباس جلالپوری، شوکت صدیقی، سعادت حسن منٹو اور حبیب جالب جیسی مہان ہستیوں کا سا علمی و ادبی ذوق اور اس سیاسی و تمدنی شعور سے نوازے جو ہر جذباتیت اور اندھی عقیدت سے پاک ہو۔

میری جان! کبھی کبھی اپنی توتلی زبان میں تم ’دل دل پاکستان‘ گاتے ہوئے ہوئے والہانہ انداز میں سبز ہلالی پرچم لہراتے ہو تو دل کو طمانیت کا احساس ہوتا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود بھی کہ میں نے کبھی تمہیں پاکستان سے محبت اور حب الوطنی کا درس نہیں دیا۔ میرا خیال ہے کہ بڑے ہو کر تم خود ہی ’نظریہ پاکستان‘ کی بدہضمی کے ساتھ اسلام کے قلعے میں زندگی جھیلنے کا ’خمیازہ‘ بھگت لو گے۔ لیکن دعا ہے کہ اللہ پاکستان کے ساتھ تمہاری محبت اور سبز ہلالی پرچم کے ساتھ تمہاری اپنائیت ہمیشہ قائم رکھے کہ اب تو ’ہجرت‘ بھی افورڈ نہیں کی جا سکتی۔ میری یہ بھی دعا ہے کہ تم ہر تعصب سے سربلند ہو کر عاجزی کے ساتھ اس دھرتی کی دل و جان سے خدمت کرو۔ محب الوطن بنو نہ بنو لیکن انسانیت کا احترام کرنے والے ایک اچھے انسان ضرور بنو کہ اس ملک کو حقیقی معنوں میں ’انسانوں‘ کی زیادہ ضرورت ہے۔

نور چشم! چونکہ کارخانہ قدرت میں تمہاری آمد مجھ سے بہت بعد میں ہوئی تو تمہارے جنم دن پر بایں نسبت میں تمہیں پند و نصائح کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ تم جب بڑے ہو تو ادب کی تحصیل یوں کرو جیسے ترکی نژاد مرزا نوشہ نے کی تھی۔ اور یہ خواہش بھی کہ میرے لکھے کو تم خود سے پڑھ سکو۔ جب پڑھو تو جانو کہ کس کار لایعنی میں تمہارے زمین زاد ابا نے زندگی برباد کی ہے۔ ہم نے زبان سے محبت کا جرم کیا ہے اور اس زمانے میں کیا ہے، جب الفاظ متروک ہو رہے ہیں اور لہجوں کی سختی بڑھتی جاتی ہے۔ جس زبان سے ہم نے محبت کی تھی وہ تو میر و میرزا کی زبان تھی۔ اب تو نوسر بازوں نے اس زبان کو محض وسیلہ دشنام بنا چھوڑا ہے۔

بیٹے! تم متاع جان ہو۔ تمہیں دیکھ کر ہم جیتے ہیں۔ تمہاری بچپن کی مسکراہٹیں اور شرارتوں کو دیکھ دیکھ سارا خاندان جیتا ہے۔ خدا تمہیں عمر خضری دے۔ زندگی میں جب شعور انگڑائی لے اور وہ وقت آئے کہ سوجھ بوجھ تمہارا ساتھ دینے لگے تو اپنے ساتھ ہمیشہ انصاف کی روش اختیار کرنا۔ زمانے کے ساتھ چلنے کی خواہش میں اپنے پیر چھلنی مت کرنا۔

پیارے بیٹے! میں چاہتا ہوں کہ تمہاری آنکھ جمالیات دیکھے، تمہاری سماعتیں استاد بڑے غلام علی خان کی موسیقی، استاد بسم اللہ خان کی شہنائی، استاد میاں شوکت حسین کے طبلے اور استاد رئیس خان کے ستار سے اپنی آبرو قائم رکھیں۔ تمہارے کان سہگل، مکیش، رفیع، لتا جی، نور جہاں، کمار سانو، ادت نارائن اور الکا یاگنک کے سر سنیں۔ تمہارا بول شہد سے رسیلا ہو۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ تم افادیت کی عینک سے مت دیکھنا۔ دیکھو، انسان کو ہر وہ عدسہ اپنے ہمراہ رکھنا چاہیے جس کا دنیا میں چلن ہو۔

لیکن ہر اس چیز کو نہیں دیکھنا چاہیے جس کو دنیا دیکھتی ہو۔ تم اپنے اچھے برے کے فیصلے خود سے کرنا۔ اپنی حدود کا تعین خود سے کرنا۔ اپنے ذائقے خود سے چکھنا۔ لوگوں کو یہ حق مت دینا کہ وہ تمہیں بتائیں کہ تمہیں زندگی کو کیسے گزارنا ہے۔ بس یہ کہتا ہوں کہ تمہارے انتخاب میں جمال کی رو لازم ہونی چاہیے۔ ہماری نصیحت یہ نہیں ہے کہ تم شعر پڑھنا، خوشبو سونگھنا، سر سننا۔ ہماری نصیحت یہ ہے کہ تم فصیح شعر پڑھنا، تم اعلی خوشبو سونگھنا اور تم بہترین سر سننا۔

اچھے بچے! زندگی کی ہر اس راہ کے مسافر ہونا جہاں سے گزرنے والے گزرتے ہیں۔ ہر ذائقہ چکھنا ہر خوشبو سونگھنا۔ تم جہاں پلو گے۔ جہاں بڑھو گے۔ وہ اس سرزمین کا سب سے تاریخی اور روحانی خطہ ہے۔ کچھ بننا تو محبت کے پیامبر بننا اور ناکام ہونا تو نفرت کی سوداگری میں ہونا۔

خط طویل ہوتا جا رہا ہے، بس دانائے راز مرشد اقبال کی یہ نظم سنا کر اجازت چاہتا ہوں۔
گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر
ہوش و خرد شکار کر قلب و نظر شکار کر
عشق بھی ہو حجاب میں حسن بھی ہو حجاب میں
یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر
تو ہے محیط بیکراں میں ہوں ذرا سی آب جو
یا مجھے ہمکنار کر یا مجھے بے کنار کر
میں ہوں صدف تو تیرے ہاتھ میرے گہر کی آبرو
میں ہوں خذف تو تو مجھے گوہر شاہوار کر
نغمۂ نو بہار اگر میرے نصیب میں نہ ہو
اس دم نیم سوز کو طائرک بہار کر
باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر
روز حساب جب مرا پیش ہو دفتر عمل
آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر
خدا تمہیں صحت و عافیت کے ساتھ صدا خوش رکھے اور عمر خضر سے نوازے۔
والسلام
تمہارا ابا
نعیم احمد ناز


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments