امی جان کی یاد میں


وہ ہستی دنیا سے رخصت ہو چکی جس کی ہر سانس میں ہمارے لیے دعاؤں کا سمندر تھا اور آج ان کے بعد حال یہ ہے کہ :

دعا کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے لرزتا ہوں
کبھی دعا نہیں مانگی تھی ماں کے ہوتے ہوئے

آج سے 14 برس قبل جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب تقریباً ڈیڑھ بجے، 24 اکتوبر 2008ء کو امی جان لاہور میں وفات پا گئیں تھیں۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ اپنے آخری لمحات میں بستر کی محتاج نہ ہوں، اللہ نے ان کی یہ خواہش پوری کردی۔ چار روز قبل کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ چند روز بعد وہ اس دنیا میں نہیں ہوں گی ۔ 21 اکتوبر کو وہ کومے میں چلی گئیں، کسے خبر تھی کے گرد و پیش سے یہ لا تعلقی قیامت تک کی طوالت اختیار کر لے گی۔

زندگی کا سفر انھوں نے اسی سال میں شروع کیا جو قیام پاکستان کا ہے، ان کی پیدائش، 27 جولائی 1947ء کو جھانسی میں ہوئی، انھیں زندگی میں ہر قسم کے سکھ اور چین نصیب ہوا، ایک وقت تھا کہ ان کی خوش قسمتی پر رشک کیا جاسکتا تھا۔ انہوں نے اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ کراچی میں گزارا۔ لیکن جب ایک تنازعے میں ہم سب کو ناحق مقدمات کا سامنا کرنا پڑا تو انھوں نے بلا چوں چرا تمام آسائشوں کو تج دیا اور مجھے پوری طرح، وسعت میں افلاک سے بڑھی اپنی آغوش میں لیے 1999ء میں، کراچی سے لاہور منتقل ہو گئیں۔ یہ ان کی شفقت اور دعاؤں کا ہی نتیجہ تھا کہ دشمن ہمارا بال بھی بیکا نہ کرسکے اور خود ہی ذلیل و خوار اور نامراد ہوئے۔

میری بیٹی ماریہ کی پرورش انہوں نے اپنے ذمے لی اور اس ذمہ داری کو بھی اسی شان سے ادا کیا، جو ان کا خاصہ تھی۔ سخت قسم کی توحید پرست اور توہمات و شرک کی سخت مخالف تھیں، مشکل سے مشکل حالات میں بھی اپنے پروردگار کی بارگاہ کے علاوہ کسی دوسرے در اور وسیلے سے مدد کی طالب نہ رہیں۔ حرص، طلب، خواہشات اور تقاضوں کے آشوب سے پاک تھیں۔ شوگر کی مریضہ ہونے کے باوجود کبھی روزے ترک نہ کیے، اپنی وفات سے تقریباً پندرہ روز قبل بھی رمضان کے پورے روزے رکھے اور قرآن پاک کی تلاوت کا شرف حاصل کیا۔ بارہ ربیع الاول کو خاص اہتمام سے میٹھا پکوان بنا کر محلے میں تقسیم کرتی تھیں۔ مجھے تاکید تھی کہ بارہ ربیع الاول کو بھی بیٹیوں کے نئے کپڑے بنایا کروں۔ خاندان کی تقریبات اور عزیزوں سے متعلق معاملات سے ابو جی کافی حد تک لاتعلق رہتے، مگر امی جان نے ہر ایک عزیز رشتہ دار سے تعلق کو بخوبی نبھایا۔ دل درد مند رکھتی تھیں، ہمیں ہمیشہ تلقین کرتی رہیں کہ جب بھی پروردگار کسی کی مدد کرنے کی توفیق دے تو سفید پوش لوگوں کی خاموشی سے مدد کرنا، سردیوں میں غریب لوگوں کو لحاف اور گرم کپڑے مہیا کرنا۔ سیر و تفریح کی شوقین تھیں اور یہ شوق انھیں نانا جان مرحوم سے سے ورثے میں ملا تھا جو آرمی افسر تھے۔

مئی 2008 ء سے اکتوبر 2008 ء، میں بسلسلہ ملازمت کراچی میں مقیم رہا، کم و بیش یہی پانچ ماہ کا عرصہ، میں ان کے ساتھ نہ رہا، حق یہ ہے کہ میں ان کی خدمت کا حق ادا نہ کر سکا، لیکن اس میں شبہ نہیں کہ وہ اپنی محبت کا حق پوری طرح ادا کر گئیں۔ میری ہر کامیابی امی جان کی دعاؤں ہی کی مرہون منت ہے۔

اولاد سے ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ ہمیشہ تمام آسائشوں پر اپنی اولاد کی خواہشات کو ترجیح دی، جب کہ اپنے جلال میں بھی میں ان کے الفاظ کی تلاطم خیزیوں کے نیچے محبت کا ایک گہرا سمندر موجزن دیکھتا۔ تمام زندگی ایک متحرک رہنے والی ماں کو اسپتال کے بستر پر بے ہوشی کے عالم میں دیکھ کر اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا میرے بس سے باہر تھا۔ مگر میرے بھائی عمار اور بہن سمعیہ صفات مسلسل کئی روز تک ان کے سرہانے کھڑے رہ کر ان کی تیمارداری میں مصروف رہے۔

امی جان کو اس حالت میں دیکھ کر اپنے ہوش سے لے کر اب تک کے تمام واقعات میری آنکھوں کے سامنے گھوم رہے تھے۔ والدین کی پہلی اولاد ہونے کے باعث ان کا بے پناہ پیار اور ان کے دامان شفقت میں رہنے کا سب سے زیادہ موقع بھی مجھے ہی ملا اور ان کے ساتھ گھر کی ذمہ داریوں میں بھی اسی لحاظ سے شریک رہا۔ ہر مرحلے پر امی جان اور میں ساتھ ساتھ رہے۔ گھر کی تعمیر و تزئین اور آرائش میں اینٹ سے لے کر کھڑکی دروازوں کے پردوں اور دیگر روز مرہ کے معاملات میں ہم سب بھائی بہن امی جان کے ساتھ شریک رہتے۔ جب کہ ابو جی نے وسائل کی فراہمی کے فرض کو کما حقہ ادا کیا۔

اپنی بیماری کے آخری دنوں میں بھی انھوں نے تمام تکالیف خود برداشت کیں اور ہم پر مالی و جسمانی کسی قسم کی پریشانی نہ آنے دی :

وہ خود گرفتار رہا تاکہ میں آزاد رہوں
اس نے غم اس لیے کھائے تھے کہ میں شاد رہوں
اپنی شادی کے ایک طویل عرصے تک وہ شہر کے بازاروں اور سڑکوں سے کم ہی واقف رہیں، لیکن جب ابو جی پر بیماری کا شدید حملہ ہوا تو انھوں نے تمام فرائض کو بخوبی ادا کیا۔ اس مشکل گھڑی میں ابو جی کے دوست ڈاکٹر مرزا حسن علی بیگ نے جنھیں بھائی کہنا زیادہ مناسب ہے، والد صاحب کو تنہا نہیں چھوڑا۔

ہم نے، امی جان کے سائے میں ہر تکلیف اور مشکل کا بخوبی سامنا کیا، ہمارے لیے ان کا وجود ہر تلخی میں زہر کے تریاق کا موجب رہا اور اب بھی ان کی یاد اور ان کی تربیت ہمارا سرمایہ عظیم ہے۔ میں نے لاہور میں جب سیاست کے میدان میں قدم رکھا تو ان کی خواہش تھی کہ میں علم و تحقیق کی راہ پر چلوں۔ وہ ہمارے تعلیمی مراحل سے لے کر عملی زندگی تک کے تمام معاملات و واقعات سے مکمل طور پر باعلم رہتیں۔

مجھے معلوم ہے کہ موت ایک تلخ حقیقت ہے، میں یہ بھی جانتا ہوں کہ موت سے کسی کو رستگاری نہیں، تاریخ کے بڑے بڑے نیک اور نامور لوگ آج ہم میں نہیں، مجھے یہ بھی علم ہے کہ ہر شخص اپنے اعمال کے مطابق جزا و سزا کا حقدار ہے، میں یہ بھی جانتا ہوں کہ قبر میں جانے کے بعد انسان مٹی میں ضم ہوجاتا ہے، لیکن دل ہے کہ کسی پل چین لینے پر تیار نہیں، جی چاہتا ہے کہ والد اور والدہ کی تربت کے ساتھ لیٹ کر لمبی تان کر سو جاؤں اور قیامت میں ان کے ساتھ ہی اٹھوں، والد اور والدہ کے دم کے ساتھ غم میں بھی جو سکون تھا وہ سکون اور راحت اب کسی تہوار، کسی خوشی میں محسوس نہیں ہوتی، اب تو بس یہی کیفیت ہے کہ:

جس نے کلک وفا سے لکھا ہے
مری ہر رہ گزر پر اپنا نام
اب اسی مہربان کو روتا ہوں
خاک پر آسمان کو روتا ہوں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments