نسوانیت کی کمی کا شکار عورت


مانا جناب کہ کچھ حروف جوڑ کر لکھ لیتے ہیں ہم، ایسے ہی گزارا سا اور آپ کو اچھا بھی لگتا ہے۔ لیکن ہمارے لکھے پہ جو آپ لکھتے ہیں اس کی تو بات ہی کچھ الگ ہے۔ داد تو بنتی ہے نا جب کچھ پڑھ کر ہمارا قہقہہ مزید بلند آہنگ ہو جائے۔

لپ اسٹک کی کہانی پڑھ کر ایک بزرگ قاری نے ہم سے پوچھا کہ شادی والے دن بھی کچھ شرم ورم، کچھ لجاہٹ تھی یا نہیں؟ ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ کیا جواب دیں کہ ایک خدائی فوجدار بیچ میں کود پڑے اور کہنے لگے کہ ان کا شرم ورم سے کیا تعلق، نسوانیت کی شدید کمی ہے ان میں۔

ارے بھیا قسم لے لو، پچاس برس کی عمر تک تو ماہواری نے ناک میں دم کیے رکھا، خیر سے پانچ حمل بھی ٹھہر گئے، تین پکے، دو کچے۔ ساتھ لگا لگا کر دودھ بھی پلا دیا دو برس ہر ایک کو۔ شوہر کے حقوق بھی بقدر ہمت۔ دیکھو میاں اس سب کے بعد بھی اگر تم ہم کو عورت نہ سمجھو تو یہ تمہاری جیاستی ہے۔

شاید تم ہمیں عورت سمجھ لیتے اگر ہم گھونگھٹ کاڑھ کر منہ میں انگلی دبا کر شرم سے چھوئی موئی بن جاتے اور دوپٹے کو انگلیوں پر لپیٹتے کبھی نہ تھکتے۔ سنیے جی، ہمیں تو شرم آتی ہے بازار جاتے ہوئے، ہمیں آپ ہی کچھ لا دیں۔

اگلا تیر بھی تھا انتظار میں بس تصویر پوسٹ کرنے کی دیر تھی۔ بغیر دوپٹے اور چھوٹے بالوں کے ساتھ البیلی لڑکیوں کی تصویر دیکھ کر بہت سے لوگوں سے رہا نہ گیا اور تبصرے ہوئے کہ ان لڑکیوں کے مردانہ انداز اور اطوار کیوں ہیں؟

( کچھ سہیلیاں ناراض بھی ہو گئیں یہ کمنٹ پڑھ کر کہ ہم نے بنیادی اخلاقیات سے عاری لوگوں کو تصویر دکھائی کیوں؟ )

واللہ ہمیں جنت مکانی اماں یاد آ گئیں۔ اماں اکثر ہماری حرکتیں دیکھ کر کچھ حیران ہوتیں، کچھ پریشان۔ پھر دھیرے سے کہتیں، ہائے مقدر سے نہ جانے کیا چوک ہو گئی، جسے لڑکا بننا تھا وہ لڑکی بن گئی۔ یعنی آپ کا مطلب ہے، میرا نام طاہر ہونا چاہیے تھا، ہم آنکھیں نچا کر بولتے۔ چلیں اب آپریشن کروا دیں۔ چل ہٹ پرے، تیری زبان کے آگے تو خندق ہے موئی خندق۔ وہ گھرکتیں۔

اماں کا کہا بھولا بسرا فقرہ کچھ روز پہلے نسیم بی بی نے یاد دلا دیا جب ہم گاڑی چلاتے ہوئے گراسری کرنے جا رہے تھے اور وہ گاڑی میں ہمارے ساتھ بیٹھ کر بے خوف ڈرائیونگ کا نظارہ کر رہی تھیں۔ ہائے ہائے مائی جی تساں کی تے چھور ہونڑا چائی دا سی۔ ( بی بی جی آپ کو تو مرد ہونا چاہیے تھا)
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں؟

با اعتماد لڑکی نظر آنا اچنبھے کی بات کیوں نظر آتی ہے؟ زندگی کے میدان میں بے خوفی سے چلنا مرد کے ساتھ ہی وابستہ کیوں کیا جاتا ہے؟ ڈرتی، گھبراتی، شرم سے چھوئی موئی بنی، اعتماد سے عاری، خوف سے تھر تھر کانپتی لڑکی ہی معاشرے کو نارمل کیوں لگتی ہے؟

جہاں اعتماد، بے خوفی، اپنی بات کہنے اور احتجاج کا حوصلہ نظر آیا۔ ٹھپا لگا مردانہ خصوصیات کا۔
چلیے دیکھ لیتے ہیں مرد نے عورت کو اس روپ کے حوالے سے کب پہچاننا شروع کیا؟

انسانی تاریخ کے ارتقا کے نتیجے میں پدرسری نظام وجود میں آیا۔ غذا کے حصول کے لیے مرد کے پاس ہتھیار تھے، شکار کیا جاتا تھا۔ یوں طاقت کی علامت وجود میں آئی۔ ہتھیار، مار دھاڑ اور جنگ و جدل۔ عورت لائی گئی غذا کو مٹی کے برتنوں میں محفوظ رکھتی تھی اور زمین کھود کر سبزیاں اور اناج اگاتی تھی۔

یوں مرد جسمانی طاقت کے حوالے سے طاقت کی علامت بنا اور عورت امن کی۔ معروف تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی کہتے ہیں۔ تاریخی طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ مرد کا حاکمیت اختیار کرنا اس کے ہتھیاروں کی مدد سے تھا۔ یوں سماج مردانہ اور زنانہ حصوں میں تقسیم ہوتا چلا گیا۔ مرد کے لیے باہر کی دنیا جبکہ عورت کو گھر میں محصور کر دیا گیا۔

پھر اس نظام نے عورتوں کی گھٹی میں یہ سبق ڈالنا شروع کیا کہ حاکم وہ جس کے پاس طاقت اور ہتھیار۔ مرد کو ملیں بہادری، شجاعت، دلیری اور بے خوفی کی علامات۔ عورت نازک، کمزور، ناتجربہ کار اور عقل و دانش سے بے بہرہ۔

جس معاشرے میں عورت مرد کی ملکیت ہو، تعلیم کے مواقع محدود ہوں، باہر کی دنیا سے تعلق کاٹ کر گھر کی چاردیواری میں اچار چٹنیاں اور گول روٹی بنانا اس کا کام ہو، بچے نہ پیدا کرنے کا اختیار اس کے پاس نہ ہو، معاشی طور پر مرد کی محتاج ہو۔ اس سب کو نسوانیت کا نام دے کر اس کے سر پہ جو تاج پہنایا گیا ہے اس نے سماج میں اس کا کیا مقام متعین کیا ہے؟ یہ سب جانتے ہیں۔

آج کا معاشرہ ان علامات کا اتنا عادی ہو چکا ہے کہ کوئی حساس طبعیت اور تشدد کو ناپسند کرنے والا مرد نظر آ جائے تو اسے استہزائیہ انداز میں کہا جاتا ہے، مرد بن مرد۔

پدرسری کی دیمک محاوروں تک کو لگی نظر آتی ہے جب بیٹے کو کہا جاتا ہے، کیوں عورتوں کی طرح آنسو بہا رہے ہو؟ کہیں کوئی مشکل پیش آ جائے تو سینہ تان کر کہنا کسی کو برا نہیں لگتا، ہم نے کیا عورتوں کی طرح چوڑیاں پہن رکھی ہیں؟

دوسری طرف کوئی با اعتماد اور چیلنج کرنے والی عورت نظر آ جائے تو سب چونک اٹھتے ہیں، ہائیں نسوانیت کی اتنی کمی؟ نا بابا نا یہ تو عورت ہی نہیں لگتی۔

ان الفاظ کے پیچھے صدیوں کا گزرا وہی سفر ہے جس کا ہم نے ذکر کیا اور جس نے عورت کو محکوم بنانے کے لیے مختلف استعارے استعمال کیے ہیں۔

اب معاملہ کچھ یوں ہے کہ جنگلوں کا انسان شہروں میں بس چکا۔ دنیا کے دروازے مرد و عورت پہ کھل چکے۔ اب طاقت کا نام ہے معاشی خود مختاری۔ حاکم وہ جو کما کر لائے۔ پدرسری نظام کے نقاب چڑھے بیانیے کے پیچھے وہی ذہنیت ہے کہ طاقت کا مرکز مرد کو ٹھہرا کر عورت کو کام نہ کرنے دیا جائے تاکہ وہ ہمیشہ مرد کے دست نگر رہے۔ خود سوچیے معاشی طور پہ خود مختار عورت جسمانی و ذہنی طور پہ تشدد کیوں سہے گی؟

عورت کو معاشی خود مختاری سے روکنا ہی وہ چابی ہے جس سے آج کی عورت کو پیچھے رکھا جا سکتا ہے۔ اس کی ذات میں نقص نکال کر، اس کی قابلیت کو مشکوک بنا کر، اس کی صلاحیتوں پہ سوال اٹھا کر۔ کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ پیدا ہونے کے فوراً بعد لڑکی کو کیا ملتا ہے اور لڑکے کو کیا؟ اعتماد اور بے خوفی کی مقدار دونوں کی ذات میں اتنی مختلف کیوں؟

ہم نے کچھ عرصہ پہلے اس موضوع پہ لکھا تھا، چلیے ایک دو ٹکڑے پھر سے۔

فرض کر لو کہ اگر قدرت کچھ ایسا فیصلہ کر لے کہ دنیا میں جنم لینے والے ہر بچے کی پہچان مخفی رکھی جائے گی جب تک وہ بلوغت کی عمر کو پہنچے۔ یعنی جس طرح پیدائش پہ اعضائے مخصوصہ اور ایک خاص عمر میں بچوں اور بچیوں کا نظام چالو ہو کر انہیں پہچان عطا کرتے ہیں، وہ سب کچھ بجائے وقت پیدائش بلوغت میں سامنے آئے۔ اس سے پہلے کوئی صنفی فرق نہ ہو، کوئی پہچان نہ ہو، کوئی اندازہ نہ ہو کہ یہ انسان مستقبل میں لڑکی ہو گی یا لڑکا۔

کیا دیکھ رہے ہو گھور گھور کے میری طرف؟ بہت عجیب سا خیال ہے نا۔ لیکن مجھے تو بہت منفرد لگا یہ آئیڈیا!

چلو دیکھے لیتے ہیں کہ ہو گا کیا؟
”اجی سنتے ہو، خوشخبری ہے، گھر میں خوشی آنے والی ہے“

یہ خبر سننے پہ زبان سے مجھے وارث چاہیے نما فرمائشی الفاظ جھڑنے کا امکان تو رہا نہیں، جانتے ہیں، بنا کسی پہچان کے انسان کا بچہ پیدا ہو گا۔ بارہ چودہ برس بعد کے امکانات پہ ابھی سے کیا ماتھے پہ بل ڈالے جائیں، یوں بھی کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک۔ تسبیح ہاتھ میں پکڑ مصلے پہ بیٹھ کر دعا مانگنے کا سلسلہ بھی ختم اور طنز و تشنیع کی بوچھاڑ بھی دیوانگی ہی کہلائے گی کہ لڑکا اور لڑکی کی بحث ہی ختم ہو چکی۔

لیجیے صاحب، بچہ دنیا میں آ چکا۔ اگر آپ کو ایک انسان کی آمد پہ شادیانے بجانے ہیں تو بجا لیجیے لیکن لڈو تقسیم کرنے پہ وہ تہنیتی پیغامات کہیں نہیں ہوں گے کہ ولی عہد مبارک۔ بیٹی کی خبر کے ساتھ ماں کا سہما ہوا چہرہ اور بھیگی بھیگی آنکھیں بھی بھول جائیے کہ اب وہ تکیہ ہی نہیں رہا۔

اب سوچو کہ نام کیا رکھا جائے گا؟ ایسا جو لڑکی کے لئے بھی درست ہو اور لڑکے پر بھی فٹ بیٹھے۔ عظمت؟ شایان؟ نصرت؟

اور جی چاہے تو طاہرہ جو بوقت ضرورت طاہر بن جائے؟ سعد جو سعدیہ ہو؟ صائمہ صائم، رشید رشیدہ، خالد خالدہ۔

بالائی والے دودھ کا حقدار تو کوئی ہو گا نہیں اور سالن میں اچھی بوٹی بھی لاوارث ٹھہرے گی سو مجبوراً یہی بے شناخت بچہ بغیر کسی صنفی امتیاز آپ کا منظور نظر بنے گا۔ اسی کے لئے آپ گھوڑا بنیں گے اور اسی کو دیکھ دیکھ کے صدقے واری ہوتے رہیں گے۔

گڑیا خریدنی ہے یا بلا اور گیند، یہ ٹنٹا بھی ختم۔ بچہ جو چاہے دلا دیجئے۔ فراک پہنانی ہے یا نیکر شرٹ، ارے کچھ بھی پہناؤ کوئی فرق تو ہے نہیں۔ بچہ سائیکل چلائے یا سکوٹی، کسی کے ماتھے پر بل نہیں پڑیں گے۔

سکول بھیجتے وقت یہ کون سوچے گا کہ پرائے دھن پہ خرچہ کیوں کروں؟ امور خانہ داری سکھلانے میں بھی تخصیص نہیں ہو گی۔ ابا بھائیوں کے سامنے دوپٹہ لینے کی ہدایت بھی غائب اور وقت بے وقت سرزنش بھی نہیں۔

لیجیے سب سے مزے کی بات تو ہم بھولے جا رہے ہیں۔ چھوٹی بچیوں کو ہوس کا نشانہ بنانے والوں کی سب امیدیں خاک میں مل جائیں گی کہ وہاں اب ایسا کچھ ہو گا ہی نہیں۔

بچیوں کو گود میں بٹھا کر چھونا، بہانے بہانے سے ساتھ لپٹانا اور اغوا کر کے جنسی شقاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے موت کے گھاٹ اتارنے والوں کی تو ہو جائے گی چھٹی!

زینب اور فرشتہ جیسی ہزاروں بچیاں غبارہ لینے گلی کے نکڑ پہ جائیں گی تو لوٹ کر واپس بھی آئیں گی۔

لیجیے جناب بارہ تیرہ کا سن آ لگا اور اب راز فاش ہو گا کہ آپ کے آنگن میں کھیلتا بچہ جمیل ہے یا جمیلہ۔

اس طویل عرصے میں کیے جانے والے مساوی سلوک اور ایک سی محبت نے بچے کو پدرسری نظام کی سنگدلی سے محفوظ رکھا ہے۔ صنفی فرق کے تعصبات کی بھینٹ نہ چڑھنے والا یہ انسان کا بچہ بھی زندگی کی دوڑ میں برابر کی رفتار سے دوڑنے کے قابل ہو گا چاہے بیٹا ہو یا بیٹی۔

مساوی رویوں، محبت، اعتماد، توجہ، اور برابری نے اس بچے میں کمتری، خوف، گھبراہٹ کا کا احساس پنپنے ہی نہیں دیا۔ دنیا کی ہر چیز پہ بغیر کسی صنفی امتیاز اس بچے کا حق مسلم ہونے کا اعزاز اس کی زندگی میں کیا رنگ بھر سکتا ہے، کوئی اندازہ بھی نہیں کر سکتا۔

آپ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ ہمیں یہ انوکھا خیال سوجھا کیسے؟

میڈیکل کے طلبا و طالبات کو پڑھاتے ہوئے نہ جانے کیسے فیمینزم پہ بحث چھڑ گئی۔ گرما گرم گفتگو کے دوران ایک طالب علم نے کہا،

میں اینٹی فیمینسٹ ہوں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ عورتیں کیا باتیں کرتی ہیں؟

ہم کچھ ثانیے چپ رہے اور پھر پوچھا کہ کیا گھر میں تمہاری بہن وہ سب کچھ کر سکتی ہے جو تم کرتے ہو؟ جب چاہو گاڑی لے کر باہر نکل جاؤ، جب چاہو دوستوں کی محفل جما لو، جو کرنا چاہتے ہو کر گزرو۔ پڑھائی، محبت، شادی، طلاق۔

جو نہیں کرنا چاہتے، نہ کرو۔

یہ جو کر گزرنے کی طاقت ہے نا یہ تمہیں ایسا با اعتماد بناتی ہے۔ بھلے تم کچھ بھی نہ کرو مگر کر گزرنے کی طاقت پہ اختیار۔ یہ خیال ہی انتہائی طاقتور ہے۔

عورت ایسا نہیں کر سکتی، کرنے ہی نہیں دیا جاتا۔ کرتی بھی نہیں مگر کرنے کی خواہش کی اجازت بھی نہیں۔ تصور اور خیال پہ بھی پہرہ۔

قدم قدم پہ پابندیاں، رکاوٹیں، نصیحتیں، تاکیدیں، مجبوریاں، روایات، رسوم، رواج، کلچر، معاشرہ۔ پاؤں میں پڑی ہوئی زنجیریں گن سکتے ہو تو گن لو۔

اور پھر تم سوچو کہ عورت پیدائشی طور پہ صلاحیتوں میں کمتر اور بے اعتماد! چھوئی موئی یا کچھ اور۔ پھر تم اسے راہ حیات کا ایک پھسڈی مسافر سمجھو۔ سوچو جس شخص کو ریس کی سٹارٹنگ لائن برابر کی نہ ملے، وہ تمہارے برابر کیسے دوڑ سکتا ہے؟

ہمارا فیمینزم ہمیں سمجھاتا ہے کہ اس دنیا میں آنے والے ہر نفس کو مرد و عورت کی تخصیص کے بغیر انسان ہونے کی بنیاد پہ زندگی بسر کرنے کا ایک جیسا حق حاصل ہونا چاہیے۔

سمجھ آئی اب کہ یہ نسوانیت کی کمی نہیں اپنی ذات کا غرور ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments