محمد رفیع کے لازوال گیت گانے والے سکندر رفیع اور ان کے بیٹے غنی غافر سے بات چیت


لاہور جاؤں اور پاک و ہند کے نامور گیت نگار حضرت تنویر ؔ نقوی کے بیٹے شہباز ؔ تنویر سے نہ ملاقات ہو یہ بھلا کیسے ہو سکتا ہے! چند ماہ ادھر جب ان سے ملا تو وہ مجھے سکندر رفیع سے ملانے لے گئے۔ مجھے بتلایا گیا کہ موصوف ٹریک پر محمد رفیع کو گاتے ہیں اور خوب گاتے ہیں اور واقعی اس نے دل سے یہ گیت سنا کر مجھے اس تحریر کے اختتامی جملے ابتدائی جملوں میں تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا۔

” سکندر نے ٹریک پر اور لائیو دونوں طرح سے محمد رفیع کے اونچے سروں والے گیتوں کو آرام سے اور مکمل احساسات کے ساتھ سنا کر مجھے خوش کر دیا“ ۔

تعارف:
” اس میدان میں کیسے آنا ہوا؟“ ۔

” میں نے پہلی مرتبہ کوئی گیت سنا تو وہ رفیع صاحب کا تھا۔ ان کو سنتے سنتے خود مجھے گانے کا شوق پیدا ہوا۔ وقت کے ساتھ میں نے ایک چھوٹا سا کاروبار شروع کر لیا اور اس کے ساتھ رفیع صاحب کو گانا بھی چلتا رہا۔ اب میں محفلوں اور فنکشنوں میں رفیع صاحب کو گانے کی کوشش کرتا ہوں۔ میرے گھر میں ’دی ووکل پلیس‘ کے نام سے اسٹوڈیو بھی ہے جہاں بیٹھک ہوتی ہے۔ اس میں خاص و عام اور شو بز کی شخصیات آتی ہیں۔ میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھ ناچیز کو اس قابل کیا کہ لوگ مجھے پسند کرتے ہیں۔ پہلے صرف اپنے دوستوں تک محدود تھا اب میری خواہش ہے کہ میں رفیع صاحب کے گیت اوروں کو بھی سناؤں اور جو لوگ مجھے نہیں جانتے ان تک بھی میری آواز پہنچے۔ پھر میں میڈیا پر اپنے آپ کو متعارف کروانا چاہتا ہوں۔ میرا فیس بک اکاؤنٹ سکندر رفیع کے نام سے ہے“ ۔

” شروع میں خاندان کی جانب سے کوئی مخالفت یا مسائل پیش آئے؟“ ۔

” اللہ کا شکر ہے کہ مجھے مسائل کا سامنا نہیں ہوا۔ مخالفت اس لئے نہیں ہوئی کہ میں عرصے سے گھر میں رفیع صاحب کو گنگنا تا تھا۔ پھر میرے دوستوں نے محسوس کیا کہ میں تھوڑا بہت بہتر گا لیتا ہوں تو انہوں نے مجھ سے رفیع صاحب کے گانوں کی فرمائش کرنا شروع کر دی۔ میرے والد صاحب اور باقی گھر والوں میں سے کسی بھی علم نہیں تھا کہ میں گاتا ہوں۔ لیکن بالآخر انہیں پتا چل گیا لیکن مخالفت نہیں ہوئی۔ میری شدید خواہش ہے کہ اگر رفیع صاحب زندہ ہوتے تو میں ان سے ملاقات کرتا۔ مجھے تو صرف رفیع صاحب کی خوبصورت آواز سن کر گانا گانے کا شوق پیدا ہوا ہے۔ پھر انور رفیع صاحب کے آس پاس میرا بچپن گزرا ہے۔ ان کو سن کر بھی میرے گانے کا شوق بڑھا۔ اسی طرح چلتے چلتے میں آج یہاں تک پہنچا ہوں“ ۔

” انور رفیع نے آپ کی حوصلہ افزائی کی؟“ ۔

” جی بالکل! انور رفیع صاحب میرے اسٹوڈیو کی بیٹھک میں شریک ہوتے ہیں۔ محمد رفیع صاحب کی برسی اور سالگرہ کے علاوہ بھی میں نے جب جب اپنے اسٹوڈیو میں انور انکل کو بلایا وہ آئے۔ انہوں نے ہمیشہ ہی میری حوصلہ افزائی کی“ ۔

” کسی سے باقاعدہ گانا سیکھا؟“ ۔

” جی ہاں! میں باقاعدہ موسیقی کی تربیت لے رہا ہوں۔ میرے استاد شجاعت علی بوبی صاحب ہیں۔ یہ مہدی حسن صاحب کے شاگرد ہیں اور موسیقی کی دنیا میں نامور ہیں۔ پچھلے دنوں استاد صاحب کو دل کی تکلیف ہوئی جس کی وجہ سے ان کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں رہتی۔ لیکن استاد صاحب سے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں“ ۔

ایک سوال کے جواب میں سکندر نے کہا: ”میں ٹریک کے ساتھ ساتھ اپنے اسٹوڈیو کی بیٹھک اور دوسری محفلوں میں لائیو بھی گاتا ہوں۔ ٹریک پر یوں بھی زیادہ گاتا ہوں کہ اس میں بھر پور میوزک مل جاتا ہے اور گانے میں سہولت میسر ہو جاتی ہے۔ کوشش ہے کہ آئندہ بھی انشاء اللہ یہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے رہیں“ ۔

” کبھی ہوا کہ پروگرام میں تمام ہی میوزیشن بالکل نئے ملے؟ ان کے ساتھ گانا کیسا لگا؟“ ۔

” سوال بہت اچھا ہے۔ میں نے لاہور سے باہر بھی پروگرام کیے ، کراچی بھی گیا۔ ایسے کئی پروگرام تھے جہاں ردھمسٹ، کی بورڈ اور مختلف میوزیشن میرے لئے نئے تھے۔ ان کے ساتھ کسی پروگرام میں کبھی نہیں گایا تھا۔ میں ہی نہیں، کسی بھی گلوکار کو ایسے میوزیشن کے ساتھ گاتے ہوئے مسئلہ ہوتا ہے۔ کیوں کہ نئے میوزیشن کے ساتھ مثالی ہم آہنگی نہیں ہو سکتی۔ اس پس منظر میں گلوکاروں کو صورت حال پر قابو پانا ہی پڑتا ہے۔ میرے ٹریک پر گانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ ٹریک کا فائدہ ہے کہ آپ یو ایس بی پر گانے منتقل کر کے لے جا سکتے ہیں۔ لاہور سے باہر ایسا بھی ہوا کہ میرا ردھم والا کسی وجہ سے ساتھ نہ جا سکا ایسے میں یہ ٹریک سسٹم کام آیا۔ بہت سے لوگ اب ٹریک کی طرف آ رہے ہیں۔ ان میں بڑے گلوکار بھی شامل ہیں“ ۔

” عام تاثر ہے کہ محمد رفیع کے اونچے سروں کے گانے آسان نہیں۔ ’کری یاکی‘ میں اوریجنل اسکیل پر تم یہ گانے کس طرح سے گا لیتے ہو؟“ ۔

” میں نے جب سے ہوش سنبھالا، رفیع صاحب کو گاتا آ رہا ہوں۔ میں نے ان سے اتنا پیار کیا ہے۔ اور ان کو گانے کی کوشش کی ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ رفیع صاحب میرے اندر رچ بس گئے ہیں۔ میں ان کے ہائی پچ گانے بہت شوق سے گاتا ہوں۔ اللہ کا شکر ہے کہ تھوڑا بہت کامیاب بھی ہو جاتا ہوں۔ رفیع صاحب صرف ایک فنکار نہیں بلکہ ان کی گلوکاری اور آواز یونیورسٹی کا درجہ رکھتی ہے۔ میں آج کل کے گلوکاروں کو ایک برادرانہ مشورہ دیتا ہوں کہ اگر وہ سنگر بننے کی کوشش کر رہے ہیں تو رفیع صاحب کو سنیں۔ کیوں کہ ان کی آواز میں معیار اور وہ چیزیں ہیں جن کو گا کر نئے گانے والوں کے گلے میں احساسات، سر اور لوچ پیدا ہو جاتی ہے جو ایک گلوکار کے لئے ضروری ہے“ ۔

ایک سوال کے جواب میں سکندر نے بتایا : ”لاہور میں رفیع صاحب کو گانے والے ماشاء اللہ انور رفیع صاحب، خالد بیگ صاحب اور دوسرے ہیں“ ۔

” اگر تمہیں پی ٹی وی یا نجی چینل سے موسیقی کے پروگرام میں محمد رفیع کے اسکیل میں نئے گانے / گانوں کی پیشکش ہو تو کیا تم اس کا حق ادا کر لو گے؟“ ۔

” آپ کا یہ سوال بھی بہت اچھا ہے۔ جو گلوکار رفیع صاحب کو ڈوب کر گاتا ہے اس سے نیا گانا، نئی شاعری اور نئی کمپوزیشن گوانا کوئی مشکل نہیں۔ وہ بخوبی رفیع صاحب کی طرح نبھا سکتا ہے۔ ہم لوگوں میں یہ صلاحیت نہیں کہ اگر رفیع صاحب کو گاتے ہیں تو محمد رفیع بن گئے۔ لیکن ہم اس نئی کمپوزیشن میں کچھ نہ کچھ ایسی چیزیں ڈال سکتے ہیں جو رفیع صاحب سے متعلق ہیں“ ۔

” ان کی ممتاز صفت ہے کہ بولوں کے حساب اور جذبے کے ساتھ گاتے تھے۔ بعض سروں کو بس ہلکا سا چھو کر واپس آنا اور محسوسات سے ادائیگی شاید اور کسی کے بس میں نہیں تھا“ ۔ میں نے بات کو آگے بڑھایا۔

” جی آپ نے صحیح کہا! کیوں کہ رفیع صاحب جس انڈسٹری سے تعلق رکھتے تھے وہاں ایک سے بڑھ کر ایک گلوکار موجود تھا۔ کشور صاحب، مکیش صاحب اور دوسرے تھے۔ لیکن رفیع صاحب کی آواز کی خوبصورتی اپنے ہم عصروں سے الگ تھی۔ یہ میں نہیں کہتا بلکہ وہ سب بھی کہتے تھے۔ کشور صاحب خود بڑے گلوکار اور فلمی اداکار رہے۔ ان پر رفیع صاحب کے بعض گانے فلمائے گئے۔ میں نے دنیا میں ایسا کوئی گلوکار نہیں دیکھا جس کو رفیع صاحب جیسی عزت ملی ہو۔ آج انہیں فوت ہوئے 42 سال ہو گئے (تاریخ وفات 31 جولائی 1980 ) لیکن ان کا عروج ختم نہیں ہوا۔ دنیا آج بھی انہیں بہت پیار سے سنتی ہے۔ اب بھی پہلے کی طرح لوگ ان کے دیوانے ہیں۔ مجھے بھی فخر ہے کہ میں رفیع صاحب سے پیار کرتا ہوں اور ان کو اپنا خیالی استاد مانتا ہوں“ ۔

” تم مشق یا ریاضت کس طرح کرتے ہو؟“ ۔

” میں ریاض کے لئے کبھی تو روزانہ بیٹھ جاتا ہوں اور کبھی ہفتہ میں دو مرتبہ بھی ہو جاتا ہے۔ البتہ کوشش ہوتی ہے کہ ریاض جاری رہے اور اس میں کوتاہی نہ ہو“ ۔

” تمہارا ریاض کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ کری یاکی یا ہارمونیم پر؟“ ۔

” کری یاکی تو صرف ٹریک ہے۔ اس پر تو محض گایا جاتا ہے۔ ریاض تو اس کو کہتے ہیں جو آواز کو نکھارے اور خوبصورتی پیدا کرے۔ یہ باجے پر ہوتا ہے۔ کوئی بھی گلوکار ریاض کے بغیر ادھورا ہے۔ جتنا ریاض کیا جائے آواز میں اتنی جان اور خوبصورتی پیدا ہوتی ہے“ ۔

” ریاض کرتے کتنا عرصہ ہو گیا؟“ ۔
” مجھے ریاض کرتے چھ سات سال ہو گئے“ ۔
” الحمرا آرٹس کونسل یا دیگر پلیٹ فارم پر شرکت کرتے ہو؟“ ۔

” جی میں شرکت تو کرتا ہوں لیکن کوشش ہوتی ہے کہ ان پروگراموں میں جاؤں جہاں رفیع صاحب کو غور سے سنا جائے۔ آج کل کالجوں یونیورسٹیوں میں جو کنسرٹ ہوتے ہیں وہاں کے سننے والے رفیع صاحب سے صحیح طرح واقف نہیں ہوتے۔ ان کو ریپ درکار ہوتا ہے۔ جب کہ میری کوشش ہوتی کہ میں رفیع صاحب کو رفیع صاحب کے انداز ہی میں گاؤں۔ اس لئے کچھ کنسرٹ ایسے ہیں جن میں شرکت نہیں کرتا“ ۔

” چھ سات سال سے ریاض کر رہے ہو۔ کیا اپنے آپ کو کچھ بہتر پاتے ہو؟“ ۔

” عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ میں اللہ کا بے حد شکر گزار ہوں کہ مجھے بچپن سے ہی جس نے سنا، اس نے مجھے مسترد نہیں کیا۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ صحیح نہیں گایا۔ میں شروع سے ہی اپنی فلم انڈسٹری سے متعلق ہدایت کار، موسیقار اور اداکاروں میں اٹھا بیٹھا ہوں۔ ان فلمی صنعت کے لوگوں نے میری حوصلہ افزائی کی۔ کچھ ہدایتکار ایسے بھی ہیں جن کی فلموں میں گانا گا رہا ہوں۔ پرویز رانا صاحب کے بیٹے حید صاحب میرے اسٹوڈیو آئے اور مجھے سنا۔

حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اپنی آنے والی فلم“ ملکیت ”میں گانے کی پیشکش کی۔ اس فلم کے ایک گیت کی میں نے صدا بندی کروا دی ہے۔ پھر پاکستان کے نامور فلم ڈائریکٹر جناب حسن عسکری صاحب نے بھی مجھ سے اپنی فلم میں گانا گانے کے لئے کہا ہے۔ اس کے علاوہ جناب جرار رضوی صاحب، جنہوں نے کئی ایک نئے چہروں کو فلموں میں متعارف کروایا، جب انہوں نے میرا گانا سنا جو خود میں نے کمپوز کیا تھا تو کہا کہ میں اپنی فلم“ فیس بک 5 ”شروع کر رہا ہوں۔ اس کے گیت تیار ہو چکے ہیں لیکن میں پھر بھی تمہارا یہ گیت اس فلم میں شامل کروں گا“ ۔

” ریڈیو پاکستان سے کبھی گایا؟“ ۔

” جی نہیں ریڈیو پاکستان میں گانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ خواہش ضرور ہے۔ مجھے وہاں گانے کی پیشکش ہوئی تو ضرور جاؤں گا۔ ریڈیو ہمارا ایک بہت بڑا اور قیمتی ادارہ ہے جہاں پر گانا میرے لئے اعزاز سے کم نہیں ہو گا۔ یہاں کے آرٹسٹوں نے ملک اور بیرون ملک اپنا اور وطن کا نام روشن کیا“ ۔

” لوگ کوشش کے بعد بھی جب مطلوبہ مقام حاصل نہیں کرتے تو کہتے ہیں اب کچھ نہیں ہو سکتا! تم اپنے بارے میں کیا کہتے ہو؟ نا امید ہو یا پر امید؟“ ۔

” میں نا امید نہیں ہوں۔ اللہ خود کہتا ہے کہ تم ہمت اور کوشش کرو میں تمہاری تقدیر بدل دوں گا۔ دنیا کی تا ریخ پر نظر ڈالیں، ایسی کئی ایک شخصیات ملیں گی جو کسی وقت کچھ بھی نہیں تھے لیکن ان کی محنت اور جنون نے اوج کمال پر پہنچا دیا۔ مجھے بھی اپنی کامیابی کا یقین ہے۔ دوسری بات یہ کہ اگر آپ نے کسی کے ساتھ برا نہیں کیا تو انشاء اللہ آپ کے ساتھ بھی برا نہیں ہو گا“ ۔

” لوگ پروگراموں کے لئے فنکاروں کو بیرون ملک لے کر جاتے ہیں۔ ان میں غزل اور ٹریک پر گانے والے گلوکار بھی ہوتے ہیں۔ کیا تم کو بھی ایسی پیشکش ہوئی؟“ ۔

” جی ہاں! جب پاکستان میں کرونا شروع ہوا تو اس سے دو ماہ قبل کراچی کی ایک پارٹی دوبئی میں ایک بڑا پروگرام کروا رہی تھی۔ دبئی کے بعد انہوں نے عراق اور اسپین بھی جانا تھا۔ میں بھی اس گروپ میں شامل تھا۔ جانے سے پہلے ہی دنیا میں کرونا کی وبا پھیل گئی اور یہ دورہ ملتوی ہو گیا“ ۔

” تمہیں کبھی ٹی وی ڈراموں کے تھیم سانگ گانے کی پیشکش ہوئی؟“ ۔

” جی مجھے اس کی پیشکش ابھی تین ماہ پہلے ہی ہوئی ہے۔ ڈریم لینڈ کمپنی کے ڈائریکٹر اعجاز صاحب ایک ٹی وی ڈرامہ تیار کروا رہے ہیں اس کا تھیم سانگ انشاء اللہ میری آواز میں ریکارڈ ہو گا“ ۔

” تم خوش نصیب ہو کہ جیسا چاہ رہے ہو کم و بیش ویسا ہو رہا ہے۔ کوئی رکاوٹیں کسی بھی جانب سے نہیں ہیں“ ۔

” میں اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے! ہم سب کو ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کر نا چاہیے“ ۔
” کاروبار، گھر کی ذمہ داریاں، گانے کا ریاض، اس سب میں کس طرح توازن قائم کرتے ہو؟“ ۔

” یہ توازن قائم نہیں ہوسکا۔ کاروبار پر توجہ دینا ضروری ہے۔ پھر گھر کے معاملات۔ اس کے بعد موسیقی کی مشق اور ریاضت کو وقت دیتا ہوں۔ اس لئے ریاضت میں بے قاعدگی آ جاتی ہے۔ کاروبار کے سلسلے میں کبھی لاہور سے باہر بھی جانا پڑتا ہے اس سے موسیقی کے سلسلے میں خلل پیدا ہو جاتا ہے“ ۔

” تمہاری شروع سے اب تک کی کہانی میں کوئی اتار چڑھاؤ نہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے؟“ ۔

” آپ صحیح کہہ رہے ہیں اتار چڑھاؤ سے تو بڑا چھوٹا کوئی بھی محفوظ نہیں! اتار چڑھاؤ موسیقی میں نہیں۔ کچھ خاندانی مسائل ہو سکتے ہیں۔ رہا کاروبار تو پاکستان میں کاروبار کرنا خاصا مشکل کام ہے۔ آپ لاکھوں روپے کا مال کسی کو ادھار دیتے ہیں تو وہ پیسہ نکالنا بہت کٹھن ہے۔ یہ حقیقی اتار چڑھاؤ بن جاتا ہے ’‘ ۔

” ماشاء اللہ تمہارے بچے بھی ہیں۔ کیا تم انہیں گلوکاری کے میدان میں اتارنا چا ہو گے؟“ ۔

” میرا بیٹا غنی غافر ماشاء اللہ باصلاحیت بچہ ہے۔ یونیورسٹی میں ماس کمیونی کیشن میں ماسٹرز کر رہا ہے۔ میرے کاروبار میں اس کی دلچسپی ہے۔ گھر کے معاملات دل جمعی سے نبھاتا ہے۔ پھر وہ ایک اچھا گلوکار اور کمپوزر بھی ہے۔ اس کو بھی لوگ سنتے اور پسند کرتے ہیں۔ پاکستان فلم انڈسٹری کے ایک نامور ہدایتکار کفایت اللہ کیفی ( المعروف کیفی) صاحب کے بیٹے حسن کیفی نے ایک فلم“ سلامت اللہ کون؟ ”شروع کی ہے۔ اس فلم میں حسن نے مجھ سے غنی کا کمپوز کردہ گانا مانگا۔

جب اس فلم کی تعارفی تقریب ہوئی تو یہ گانا بھی سنوایا اور میرے بیٹے کا مہمانوں سے تعارف بھی کروایا۔ حاضر ین کی اکثریت نے وہ گیت پسند کیا۔ کئی افراد نے حسن سے پوچھا کہ یہ گیت کہاں سے لیا اور گلوکار کون ہے۔ میں نے بیٹے کو شو بز میں جانے سے کیوں روکنا ہے جب کہ وہ کسی برے فعل میں نہیں۔ اس کے بھی میری طرح گھر، کاروبار اور موسیقی ہی دلچسپی کا محور ہیں۔ اس کے علاوہ اس کا کوئی اور شوق نہیں۔ اسی کی طرح اس کے چند معقول دوست ہیں“ ۔

غنی غافر:

” میرا نام غنی غافر ہے۔ نو دس سال کی عمر سے پاپا کو گاتے دیکھ کر مجھے بھی شوق ہوا۔ میں نے سب سے پہلے اپنے اسکول میں بغیر میوزک کے گایا۔ میٹرک کے بعد میں نے آڈیو مکسر کے ساتھ ٹریک پر مشق کرنا شروع کی۔ سب سے پہلے پبلک کے سامنے 2014 میں گایا۔ پاپا کے دوست حسن کیفی صاحب نے میرا گانا سنا تو ان کو پسند آیا اور انہوں نے اپنی فلم کے لئے منتخب کر لیا“ ۔

” کیا کسی چھوٹی اسکرین سے بھی پیشکش ہوئی؟“ ۔

” میں نے سما اور اسٹار ایشیا چینل وغیرہ میں کافی مارننگ شو اور میوزک کنسرٹ کیے ۔ دوسرے سنگر کے گانے گا کر اس نتیجہ پر پہنچا کہ اپنا بھی کوئی گانا ہونا چاہیے۔ پھر میں نے اپنے کچھ گانے تیار کر لئے۔ ویڈیو بنتے ہی ان کو ریلیز کروں گا۔ مجھے گیت لکھنا، کمپوز کر کے گانے کا جنون تھا۔ کئی ایک جگہوں سے اس سلسلے میں چیزیں سیکھیں جیسے نظریہ موسیقی، اسکیل، راگ، مختلف تالیں پھر ان میں رہ کر اپنا

میوزک بنانا۔ پھر وزن کے حساب سے بول لکھنا ”۔
” میں نے ابھی تمہارے دو گانے سنے۔ کیفیت سامنے رکھ کر لکھتے ہو یا جو جی میں آئے؟“ ۔

” یہ آمد کی بات ہوتی ہے۔ کسی اسکیل کو چھیڑا تو آمد ہو گئی اور گانا بننے لگا۔ میرا فی الحال کوئی گانا یو ٹیوب یا سوشل میڈیا پر نہیں۔ جو گانے بھی لکھے اپنے موڈ میں لکھے۔ ایسا بھی نہیں کہ میں تمام وقت میوزک ہی کرتا ہوں۔ تعلیم اور بزنس پر بھی توجہ ہے“ ۔

” اپنی ان مصروفیات کے لئے وقت کو کیسے تقسیم کرتے ہو؟“ ۔

” میں زیادہ تر اپنے فارغ وقت میں میوزک پر توجہ دیتا ہوں۔ گوگل اپنی جگہ لیکن باقاعدہ گٹار سیکھ رہا ہوں البتہ بنیادی طور پر میں گلوکار ہوں۔ پاپا کی طرح میں بھی ہارمونیم پر ریاض کرتا ہوں۔ راگ درباری، پہاڑی، بلاول اور دیگر ٹھاٹھ پر ریاض کرتا ہوں“ ۔

” تمہارا پسندیدہ راگ کون سا اور کیوں ہے؟“ ۔

” وہ ایمن راگ ہے۔ کیوں کہ میرے بیشتر گانے جب کمپوز ہوئے اس وقت مجھے راگوں کا پتا نہیں تھا۔ جب ان کا علم ہوا تو پتا چلا کہ وہ ایمن میں تھے۔ چنچل اور رومانی گانے زیادہ تر ایمن پر جچتے ہیں۔ ایمن نے مجھے اور میں نے ایمن کو پکڑ لیا ہے“ ۔

” تمہارا پسندیدہ ساز کون سا ہے؟“ ۔
” وہ گٹار ہے۔ میں اس پر گانا بناتا ہوں اور اپنا میوزک خود ارینج کرتا ہوں“ ۔
” دھن پر لکھنا آسان ہے یا لکھے پر دھن بنانا؟“ ۔
” دھن پر لکھنا آسان ہے۔ ویسے لکھے کی بھی دھن بنا لیتا ہوں“ ۔
” کمپوزیشن میں ماترے تم ہاتھ سے گنتے ہو یا۔“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” نہیں اب معلومات اور تجربہ ہو گیا ہے۔ پہلے البتہ ہاتھ سے گنتا تھا۔ مشکل تال دس ماترے والی جھپ تال ہے۔ لیکن مجھے سات ماترے کی روپک تال میں مزہ آتا ہے۔ پاپا کی اسٹوڈیو ریکارڈنگ میں ارینجر میں ہوتا ہوں۔ میوزک میں مکسنگ ماسٹرنگ بھی سیکھی ہے۔ مجھے کوئی مقام حاصل کرنے کے لئے کم از کم تین سال درکار ہوں گے۔ تب لوگ مجھے جاننا شروع ہو جائیں گے“ ۔

ایک سوال کے جواب میں غافر نے بہت اچھی بات کہی : ”گلوکار کا باقاعدہ ایک استاد ضرور ہونا چاہیے“ ۔

آخر میں اس نے نئے آنے والوں کے لئے پیغام دیا : ”میں نئے آنے والے فنکاروں سے کہتا ہوں کہ محض گلوکاری ہی کو سب کچھ نہ سمجھ لیں۔ اس کے ساتھ پڑھائی بھی کریں“ ۔

جدید دور میں موسیقی مخصوص روایتوں سے باہر آ گئی ہے۔ سکندر رفیع نے اپنے شوق سے محض محمد رفیع کے گیت سن کر گانے کی اہلیت حاصل کر لی۔ بے شک تال خدا داد صلاحیت ہے۔ سکندر نے اس کو گیت سن کر پہچانا۔ استعمال کیا اور بعد ازاں باقاعدہ سر اور موسیقی کی الف ب کو سیکھا بھی ہے۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ نئی نسل روایتی تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنی صلاحیتوں کو پہچان کر اس کا بہترین استعمال کر رہے ہیں۔ سکندر رفیع اور ان کے بیٹے غافر اس کی بہترین مثال ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).