’ملزم فرار ہوا تو فوراً فیصلہ کر لیا کہ ہر صورت اسے واپس تحویل میں لینا ہے‘


یہ لاہور ہائی کورٹ کا منظر تھا جب خاتون کے ریپ اور بلیک میلنگ کا ایک ملزم ضمانت منسوخی کے بعد کمرہ عدالت سے فرار ہونے کے لیے دوڑ لگا دیتا ہے۔

ایسے کئی معاملوں میں اکثر پولیس کی عدم توجہ، بھیڑ اور ملزمان کی پھرتی ان کے عزائم کامیاب بنا دیتی ہے مگر اس بار کچھ مختلف ہوا۔

ملزم کے پیچھے خاتون پولیس اہلکار نے دوڑ لگا دی۔ اس سے پہلے کہ جوان سال ملزم دوسری منزل کی سیڑھیاں اتر کر غائب ہوتا، اس اہلکار نے نہ صرف ملزم کو دبوچ لیا بلکہ دھکا دے کر اس کا رُخ دیوار کی طرف کر دیا۔

ملزم مزاحمت کرتا رہا اور پولیس اہلکار کو چوٹ بھی لگی مگر اس نے ملزم نے ہاتھ کمر کی طرف موڑ دیے اور موقع پر موجود لوگوں میں سے ایک سے چادر لے کر ہاتھوں کو مضبوطی سے باندھ دیا یعنی ملزم اب دوبارہ پوری طرح پولیس کی گرفت میں آچکا تھا۔

گذشتہ دونوں یہ منظر لاہور ہائی کورٹ میں کئی لوگ دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ عینی شاہدین کا خیال تھا کہ ملزم فرار ہوجائے گا مگر ان کی نظروں کے سامنے خاتون افسر ملزم کو بازوؤں سے پکڑ کر ہائیکورٹ سے باہر لے گئی جہاں پولیس کی باقی نفری موجود تھی۔ آخر میں وہ ملزم کو حافظ آباد لے جاتے ہیں۔

سبطین شاہ اس قدر خوش قسمت تھے کہ انھوں نے یہ مکمل واقعہ دیکھا۔ انھیں بھی یہی لگ رہا تھا کہ ملزم خاتون پولیس اہلکار کی گرفت سے فرار ہوجائے گا۔

’ویسے بھی ایک خاتون کی جانب سے ایک جوان مرد کو قابو میں رکھنا مشکل ہی ہوتا ہے مگر حیرت انگیز طور پر خاتون افسر نے ملزم کو اپنے گرفت سے نکلنے نہ دیا۔‘

ایک اور عینی شاہد سلطان محمود کہتے ہیں کہ انتہائی بہادر خاتون افسر نے تن تنہا ملزم کو پہلے دیوار کے ساتھ دھکا دے کر دبوچا اور پھر اس کے ہاتھ کس کر باندھ کر عدالت سے باہر بھی لے کر گئیں۔

’اس کو چوٹ بھی لگی مگر اس نے پرواہ نہ کی۔ بظاہر یہ نا قابل یقین ہے مگر یہ سب ہماری آنکھوں کے سامنے ہوا۔‘

https://twitter.com/SaddiaMazhar/status/1590999778246426624

سوشل میڈیا پر بھی اس خاتون افسر کی ہمت کو سلام پیش کیا گیا۔ جیسے رانا بلال نامی صارف نے لکھا کہ ’پولیس کے اعلی حکام کو ایسی بہادر بیٹیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے‘ جبکہ سعدیہ کہتی ہیں کہ ’ہماری طاقت کا اندازہ ہے ہی نہیں کسی کو۔‘

مگر کون ہے یہ بہادر خاتون۔۔۔؟ یہ ضلع حافظ آباد کی سب انسپیکٹر مہوش اسلم ہیں جو اس وقت شعبہ تفتیش میں خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔ وہ اپنے ضلع کی پہلی خاتون پولیس افسران میں سے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس شخص پر ایک خاتون کے ریپ اور بلیک میلنگ کا الزام ہے۔

’میں طویل عرصے سے اس کا پیچھا کر رہی تھی۔ اگر یہ اب فرار ہوجاتا تو شاید اس کو جلد پکڑنا ممکن نہ ہوتا۔ اس لیے میں نے کچھ سوچے سمجھے بغیر لمحوں میں فیصلہ کیا کہ اس کو ہر صورت تحویل میں لینا ہے، چاہے کچھ بھی ہوجائے۔‘

’ملزمان نے بے بس خاتون کا استحصال کیا تھا‘

مہوش اسلم کہتی ہیں کہ ’ہمارے پاس ریپ کا ایک مقدمہ جولائی میں درج ہوا تھا۔ عدالت سے گرفتار ہونے والے ملزم اور اس سے پہلے گرفتار ہونے والے ایک اور ملزم نے مل کر ایک غریب، لاچار اور بے بس خاتون کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت فنڈز دلانے کے بہانے دھوکے سے بلا کر ریپ کیا تھا۔‘

مہوش اسلم کا کہنا تھا کہ ’نہ صرف ریپ بلکہ اس خاتون کی ویڈیو بنا کر بلیک میل کرنے کی بھی کوشش کی تھی۔ مذکورہ خاتون انتہائی غریب خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ انتہائی مجبوری کے عالم میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت امداد حاصل کرنا چاہتی تھیں۔‘

مہوش اسلم کا کہنا تھا کہ واقعے کے بعد ’ہم نے فوراً تمام ثبوت اکٹھے کیے جس سے بڑا واضح ہے کہ ملزمان کون ہیں۔ ایک ملزم پہلے ہی گرفتار ہوچکا ہے جبکہ دوسرا ملزم جس کو ہائی کورٹ لاہور سے ضمانت منسوخی کے بعد گرفتار کیا گیا، کافی عرصے سے مختلف طریقوں سے اپنی گرفتاری ٹال رہا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں سمجھتی تھی کہ اگر یہ لاہور ہائی کورٹ سے فرار ہوجاتا تو پھر یہ دوبارہ کوئی نہ کوئی چکر چلاتا اور اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتا۔ ویسے بھی ایسے ملزمان کسی رعایت کے مرتکب نہیں ہوتے ہیں۔ ان کو ہر حال میں عدالت کا سامنا کرنا چاہیے۔‘

مگر مہوش نے تنہا اس ملزم کو کیسے قابو کیا، اس پر وہ بتاتی ہیں کہ ’بظاہر ملزم مجھ سے طاقتور لگتا ہے مگر میں جانتی ہوں کہ میرے ساتھ سچ کی طاقت تھی اور میرے پاس ایسا جذبہ تھا کہ میں نے ملزم کو فرار نہیں ہونے دیا۔ موقع پر ملزم نے فرار ہونے کی ہر ممکن کوشش کی، کافی دیر تک وہ میری گرفت سے نکلنے کی کوشش کرتا رہا۔‘

اس موقع پر ایک خیال جو ان کے ذہن میں آیا وہ یہ تھا کہ ’پولیس فورس میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے فیصلہ کیا تھا کہ میرے ہاتھ سے کوئی بھی سماج دشمن عناصر بچ نہیں پائیں گے۔ کئی منٹ کی جدوجہد کے بعد اس نے ہمت ہار دی اور میں اس کو پکڑ کر ہائی کورٹ کے احاطے سے باہر لے گئی۔‘

ہمیں ماضی میں ایسا سننے کو ملا ہے کہ ملزم عدالت کے احاطے میں ہی پولیس سے خود کو چھڑوا کر بھاگ گیا اور اب پولیس کو اس کی دوبارہ تلاش ہے۔

پنجاب پولیس کے ترجمان وقاص نذیر نے بتایا کہ جیسا جذبہ مہوش نے دکھایا ’فورس اپنے کسی بھی افسر، چاہے وہ مرد ہو یا خاتون، اسی طرح کے جذبے کی توقع کرتی ہے۔۔۔ پنجاب پولیس ان کی بہادری کی قدر کرتی ہے ۔‘

وہ کہتے ہیں کہ پولیس اہلکاروں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ’کسی بھی موقع اور کسی بھی مرحلے پر اپنی تربیت کو بروئے کار لاتے ہوئے ملزمان کو فرار نہ ہونے دیں۔‘

مہوش اسلم کہتی ہیں کہ ہمیں دوران تربیت ملزمان سے نمٹنے، پکڑنے اور چھاپے مارنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ ان کے مطابق وہ شعبہ تفتیش میں کام کرتی ہیں اس لیے انھیں تنہا بھی اس ملزم سے ڈر نہیں لگا۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان کی خواتین پولیس افسران سنگین مقدمات میں تفتیشی ذمہ داریوں کی منتظر

’مجھے وردی میں دیکھ کر لوگ حیرت سے گر جاتے تھے‘

پاکستان کی پہلی ہندو ڈی ایس پی جو ’بڑے خواب دیکھنے والی ہر لڑکی کی عکاس‘ بنیں

’پہلی بار وردی پہنی تو والد کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘

مہوش اسلم کا تعلق حافظ آباد کے علاقے پنڈی بھٹیاں سے ہے۔ ان کے والد ایک کسان ہیں اور وہ تین بہنیں اور ایک بھائی ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’ہمارے والد نے شروع ہی سے ہم بہنوں کی تعلیم و تربیت کو ہر کام سے زیادہ اہمیت دی۔ ہمارے علاقے اور خاندان میں ہم پہلی تین بہنیں ہیں جو کالج، یونیورسٹی گئیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’والد اپنے کام چھوڑ کر ہمیں مختلف انٹرویوز اور امتحانات کے لیے لے کر جاتے تھے۔ لوگ کہتے کہ ایسا کبھی نہیں دیکھا کہ کوئی اس طرح اپنی بیٹیوں کو پڑھا رہا ہے، طنز بھی کرتے تو والد کہتے تھے کہ بیٹا نہ بھی پڑھا تو کوئی بات نہیں۔ وہ مزدوری، کاروبار کر لے گا۔ بیٹیوں کو ضرور پڑھاؤں گا کہ یہ سب سے بہترین جہیز ہے۔‘

مہوش نے پولیس فورس 2015 میں بطور سب انسپیکٹر جوائن کی۔ ’ہمارے پورے ضلع اور علاقے میں مجھ سے پہلے کوئی بھی خاتون پولیس افسر نہیں تھی۔ میری والدہ ایک گھریلو خاتون ہیں، جب میں نے پہلی مرتبہ وردی پہنی تو انھوں نے کہا کہ پہلے مجھے وردی سے ڈر لگتا تھا، اب تو وردی میرے گھر میں آگئی ہے۔ والد کی آنکھوں میں آنسو تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پولیس فورس میں مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ ہر وقت حوصلہ افزائی ہوئی۔

’میں گذشتہ تین سال سے شعبہ تفتیش میں خدمات انجام دے رہی ہوں۔ اس دوران میں نے دل توڑ دینے والے کیسز کی تفتیش کی۔ مجھے لگتا ہے کہ خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم میں شاید اضافہ ہو رہا ہے۔‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’تمام والدین کو سمجھنا ہوگا کہ اپنی بیٹیوں کو معاشرے کے ناسوروں سے بچانے کے لیے ان پر بچپن ہی سے توجہ دیں۔ ان کو تعلیم اور اپنا کیریئر بنانے کی طرف راغب کریں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments