خدارا! فوج کو ’غیر سیاسی‘ ہونے دیں


ملک میں جاری سرگرمیوں سے یہ یقین کرنا ممکن نہیں کہ سیاست میں پاکستانی فوج کا کردار ختم ہو چکا ہے۔ نئے آرمی چیف کی تقرری پر پراسراریت کا پردہ اور انتخابات کے بارے میں متعلقہ حلقوں سے صدر عارف علوی کے رابطے، یہ واضح کرتے ہیں کہ پاکستانی سیاست میں بدستور فوج کو سب سے اہم اور فیصلہ کن عنصر کی حیثیت حاصل ہے۔

ایک بات تو تسلیم کی جا سکتی ہے کہ پاک فوج نے ملکی تاریخ کے بیشتر حصے میں سیاسی معاملات کو اپنی ترجیح سمجھا ہے اور جب براہ راست حکومت پر قبضہ نہیں کیا تو بھی ان سیاست دانوں یا پارٹیوں کے اقتدار میں لانے کے لئے کردار ادا کیا جو اس کے خیال میں فوج کے مفادات کا خیال رکھ سکیں۔ انہیں عرف عام میں ’قومی مفادات‘ کا نام دیا جاتا ہے اور ان میں بعض امور کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ فوج مقبوضہ کشمیر کے بارے میں ایک خاص نقطہ نظر رکھتی ہے اور کسی قیمت پر کسی سیاسی حکومت کو کشمیر پالیسی میں کوئی جوہری تبدیلی لانے کی اجازت دینے پر آمادہ نہیں ہے۔ اس کی سب سے نمایاں مثال اگست 2018 میں بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری باجپائی کے دورہ لاہور کے تھوڑے عرصے بعد کارگل کا سانحہ ہے۔ اس جنگ جوئی کے بارے میں ابھی تک تمام حقائق سامنے نہیں آ سکے لیکن اس کی وجہ سے نواز شریف اور پرویز مشرف کے درمیان فاصلے پیدا ہوئے اور اکتوبر 1999 میں منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔

کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیتے ہوئے ملک کے دیگر اہم ترین مفادات کو نظر انداز کرنے کی اس یک طرفہ اور بے نتیجہ پالیسی کے علاوہ قومی سیاست کے بعض دیگر پہلوؤں کے بارے میں بھی فوجی اسٹبلشمنٹ ایک خاص نقطہ نظر رکھتی ہے اور اس کی خواہش ہوتی ہے کہ ملک کو اسی طرز پر آگے بڑھایا جائے۔ یہ حقیقت قومی تاریخ کے سب سے بڑے سانحہ کی حیثیت رکھتی ہے کہ فوج کے اسی تنگ نظر اور سخت گیر طرز عمل کی وجہ سے 1971 میں سانحہ مشرقی پاکستان ہوا اور ملک دو لخت ہو گیا۔ بدقسمتی سے اس کے بعد بھی قومی سطح پر کوئی ایسا مکالمہ شروع نہیں ہوسکا جس میں سیاست اور عسکری ضرورتوں کو علیحدہ کر کے جمہوری حکمرانی کے تصور میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کی جا سکتی تھی۔ یہ ممکن تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو اگر بطور وزیر اعظم اپنی دوسری مدت پوری کرنے کا موقع مل جاتا تو وہ قومی سیاست میں سول حکمرانی کا اصول مستحکم کرنے میں کامیاب ہو جاتے۔ تاہم ایک تو ہوس اقتدار میں بھٹو کی طرف سے سیاسی مخالفین کو دبانے کے سخت گیر ہتھکنڈے اور دوسرے عسکری قیادت کی طرف سے مذہبی عناصر کی سرکردگی میں احتجاجی تحریک کی حوصلہ افزائی کے نتیجہ میں جنرل ضیا الحق کو ملکی تاریخ کا بدترین مارشل لا نافذ کرنے کا موقع مل گیا۔

بھٹو کو پھانسی دینے میں ملکی عدلیہ جس طرح فوجی حکومت کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بنی، اس نے پاکستان میں جمہوری روایات کے احیا کی رہی سہی امید بھی ختم کردی۔ اسی صورت حال کی کوکھ سے سیاست میں نواز شریف کا جنم ہوا۔ انہوں نے ایک فوجی آمر کی انگلی پکڑ کر سیاسی سفر کا آغاز کیا لیکن 1999 تک ایک دوسرے فوجی آمر کے ہاتھوں پہلے قید اور پھر جلا وطن ہوئے۔ اسی تجربہ کا نتیجہ تھا کہ نواز شریف کو جمہوری اقدار اور ملک میں آئینی انتظام کی ضرورت کا احساس ہوا۔ اسی سوچ کی وجہ سے 2006 میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان میثاق جمہوریت پر اتفاق رائے ہوسکا لیکن اس کے ثمرات دیکھنے کے لئے بے نظیر بھٹو حیات نہ رہیں جنہیں دسمبر 2007 میں شہید کر دیا گیا۔ بے نظیر کے جانے کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان ایک نئی سرد جنگ کا آغاز ہوا جس کے دوران پیپلز پارٹی کے دور میں میمو گیٹ اسکینڈل اور مسلم لیگ (ن) کے دور میں ڈان لیکس کے معاملہ سے جمہوری قوتیں کمزور ہوئیں اور سیاست میں عسکری قیادت کی مہم جوئی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔

اس دور میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اپنے اپنے طور پر اسٹبلشمنٹ کے مہرے بنے رہے لیکن جنرل راحیل شریف کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں دونوں سیاسی پارٹیوں کو سیاست میں بے توقیر کرنے کے منصوبے پر کام ہوتا رہا۔ اس منصوبہ کو بعد میں ہائبرڈ نظام کے نام سے جانا گیا جس کے نتیجہ میں عمران خان کو وزیر اعظم بنوانے کی راہ ہموار کی گئی۔ اب تحریک انصاف اسٹبلشمنٹ سے وہی شکایت کر رہی ہے جو کسی وقت مسلم لیگ (ن) کو ہوتی تھی لیکن نواز شریف کے برعکس عمران خان اپنی غلطی کا احساس کر کے جمہوری قوتوں کو مستحکم و مربوط کرنے کی بجائے کسی بھی طرح فوج کو ایک بار پھر اپنے ساتھ ملا کر ملک پر قابض ہونا چاہتے ہیں۔

اپریل میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے سیاسی ایڈونچر سے تائب ہونے کا فیصلہ کیا اور فوج کو سختی سے ’غیر سیاسی‘ کرنے کا اعلان کیا۔ اس فیصلہ کی وجوہات عمران خان کے طرز حکمرانی سے پیدا ہونے والے اختلافات تھے۔ پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی نے کسی گہرے سیاسی غور خوض کے بغیر موقع ملنے پر عمران خان کی حکومت کو شکست سے دوچار کر کے اقتدار سنبھالنے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ فیصلہ سیاسی خود کشی کے مترادف کہا جاسکتا ہے کیوں کہ ناقص پالیسیوں کی وجہ سے تحریک انصاف کی مقبولیت ختم ہو رہی تھی اور کسی بھی نئے انتخابات میں مخالف سیاسی قوتیں واضح اکثریت حاصل کرنے کی پوزیشن میں تھیں۔ تاہم دو امور نے اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد لانے اور اقتدار لینے پر مجبور کیا۔ ایک تو تحریک انصاف نے اپنے دور میں تمام سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمات قائم کر کے ان کا جینا حرام کیا ہوا تھا اور خدشہ تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت کمزور ہونے کے باوجود اہم سیاسی لیڈروں کو نا اہل کروا کے نئے انتخاب جیتنے کی راہ ہموار کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ دوسرا اندیشہ یہ تھا کہ عمران خان بطور وزیر اعظم اپنی مرضی کا آرمی چیف مقرر کر کے ملک کے لولے لنگڑے جمہوری نظام کو اپاہج کرنے کا اقدام کریں گے۔

بعد از وقت حالات کا جائزہ لیا جائے تو دیکھا جاسکتا ہے کہ اس کے باوجود عمران خان نے تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لئے بدحواسی میں ڈپٹی اسپیکر کے ذریعے اسے کالعدم قرار دے کر قومی اسمبلی توڑنے کا صدارتی حکم بھی جاری کروا دیا۔ خالصتاً جمہوری نقطہ نظر سے جائزہ لیا جائے تو اس وقت ہونے والے انتخابات عمران خان کے سیاسی تابوت میں آخری کیل ثابت ہوتے تاہم اس موقع پر چیف جسٹس کو یک بیک قومی اسمبلی کی کارروائی میں ’آئین کی بے حرمتی‘ ہوتی دکھائی دی اور سو موٹو اقدام کے ذریعے قاسم سوری کی رولنگ اور صدر مملکت کے فرمان کو غیر آئینی قرار دے کر اتحادی پارٹیوں کی حکومت بنوانے کی راہ ہموار کردی گئی۔ حیرت انگیز طور پر اسی چیف جسٹس کی سربراہی میں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے بعد میں پہلے آئین کی شق 63 کی ایک متنازعہ تشریح کی اور پھر پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کے چناؤ کے سوال پر اس سے بھی زیادہ متنازعہ فیصلہ دے کر تحریک انصاف کی حکومت قائم کروا دی۔ یوں پہلے سے انتشار اور بے چینی کے شکار ملک میں بے یقینی، عدم استحکام اور بحران کے ایک طویل اور ناختم ہونے والے دور کی بنیاد رکھی۔ اب اسی پنجاب حکومت کی سرپرستی میں تحریک انصاف کا ’لانگ مارچ‘ اور احتجاج عوامی زندگی کو معطل کیے ہوئے ہے، ملکی معیشت کے بارے میں نت نئے اندیشے سر اٹھا رہے ہیں اور بیرونی ممالک بے یقینی کے عالم میں حالات کا جائزہ لے رہے ہیں لیکن ملکی عدلیہ ملٹری اسٹبلشمنٹ کے بعد تحریک انصاف کی نئی ’سرپرست‘ کے طور پر سامنے آئی ہے۔ اہم معاملات پر فیصلے کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے اور صریحاً قانون شکنی کے معاملات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

یہ حالات واضح کرتے ہیں کہ سیاسی عمل میں کسی بھی ادارے کی غیر ضروری اور یک طرفہ دلچسپی سے ملک میں جمہوریت اور آئین کی بالادستی کا مقصد حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے باوجود اس طرز عمل کے بارے میں ’خود احتسابی‘ کا رویہ کسی ادارے یا سیاسی جماعتوں میں دیکھنے میں نہیں آتا۔ سیاسی قیادت مسلسل اس بھاگ دوڑ میں ہے کہ کسی طرح طاقت ور اداروں کو اپنے ساتھ ملا کر سیاسی مخالفین کے لئے مشکلات پیدا کرے اور ادارے اس تعطل میں اپنی طاقت میں اضافہ کی ہر ممکن کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی لئے فوج کی طرف سے ’غیر سیاسی‘ ہونے کا اعلان بظاہر محض اعلان تک ہی محدود ہے۔ اب ملک کے صدر بتا رہے ہیں کہ وہ انتخابات کی تاریخ کے بارے میں فریقین کو قریب لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر صدر عارف علوی کے بقول وہ یہ کوشش ’بروکر کے طور پر نہیں بلکہ مسلح افواج کے سپریم کمانڈر‘ کے طور پر کر رہے ہیں۔ ملک کے رسمی اور آئینی عہدے پر فائز ایک شخص کی طرف سے یہ حیرت انگیز جواز ہے کہ وہ سپریم کمانڈر کے طور پر فوجی قیادت کے ذریعے اتحادی سیاسی حکومت سے تحریک انصاف کے لئے رعایت لینا چاہ رہے ہیں۔ صدر کی انہی کاوشوں کے حوالے سے تحریک انصاف یہ خبریں پھیلا رہی ہے کہ اسٹبلشمنٹ تو جلد انتخابات پر راضی ہے لیکن لندن میں بیٹھا نواز شریف اس سے انکار کر رہا ہے۔

ایسے میں جب مسلح افواج کا سپریم کمانڈر نام نہاد سیاسی مصالحت کے لئے بھاگ دوڑ کر رہا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا فوج کی طرف سے ’غیر سیاسی‘ ہونے کا اعلان محض ایک محدود وقت کے لئے تھا۔ یا جب اس کا ’سپریم کمانڈر‘ سیاسی تجاویز لے کر آیا تو آرمی چیف کو ماتحت کے طور پر تابعداری سے ان پر غور کرنا پڑا؟ یہ صورت حال المیہ مزاح کی حیثیت اختیار کرتی جا رہی ہے لیکن بدقسمتی سے اہم ترین ملکی مفادات اور جمہوریت کے بنیادی اصول اس طرز عمل میں داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔ یہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ فوج چاہنے کے باوجود بھی ملکی سیاسی جوڑ توڑ سے علیحدہ نہیں ہو سکتی کیوں کہ سیاست دان خود اپنے مفادات کے لئے مسلسل اسے اپنے اپنے سیاسی مقصد کے لئے ملوث کرنے پر مصر ہیں۔ ایسے میں واقعی فوجی قیادت کو یہ نصب العین بنانے کی ضرورت ہے کہ وہ سیاسی لیڈروں کا آلہ کار بننے کی بجائے سیاست سے حقیقی معنوں میں تائب ہو کر اس اہم قومی ادارے کے وقار کو بحال کرنے کا فرض ادا کرے۔

یہ مقصد البتہ اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب فوج قومی سیاست میں اپنے ادارہ جاتی نظریات و ضروریات مسلط کرنے کا طریقہ ختم کرے۔ فوجی اداروں کے معاشی منصوبوں کو سول انتظام میں دیا جائے، بلوچستان پر نیم عسکری حکومت کا طریقہ ختم کیا جائے اور خارجہ پالیسی میں فوج کا مفاد انہیں اصولوں پر استوار ہو جو پارلیمنٹ میں طے ہوتے ہیں۔ اسی طرح سیاست دانوں پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی شان و شوکت میں اضافہ کے لئے فوج میں اپنے ’تعلقات‘ کو حقیقی طاقت سمجھنے کی بجائے عوام کے حق انتخاب کو احترام دینے کا طریقہ اختیار کریں۔ ایسے میں سیاست دانوں سے یہی عرض گزاری جا سکتی ہے کہ خدا را فوج کو غیر سیاسی ہونے دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2766 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments