محمد حفیظ خان کا ناول : حیدر گوٹھ کا بخشن


تبصرہ : نعیم اشرف

محمد حفیظ خان کا ناول : حیدر گوٹھ کا بخشن، گزشتہ ماہ بک کارنر جہلم نے شائع کیا ہے۔ یہ ناول اتنا دلچسپ ہے کہ 359 صفحے کا ناول میں نے چند دنوں میں پڑھ لیا۔ ناول کے بارے میں چند تاثرات ’ہم سب‘ فیملی کے لیے پیش خدمت ہیں :

کتاب کا سر ورق بہت دلکش ہے۔ اس میں ہمارے دیس بالخصوص پنجاب میں رائج ٹرک کلچر اور ٹرک ہوٹل نظر آتے ہیں۔ سرورق پر چار کردار نظر آتے ہیں جو زیر زمین کالے دھندے میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک کے تین طبقے، جس میں وکلاء، پولیس اور بیوروکریسی ( افسر شاہی) شامل ہیں معاشرے میں موجود ایسے کرداروں کے ممد و معاون ثابت ہوئے ہیں۔ تصویر میں نظر آنے والا عدلیہ کا ترازو یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی بے بسی کی علامت بنا ہوا ہے۔

جبکہ عام آدمی کی زندگی ان لوگوں کو سہتے ہوئے بسر ہوتی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ مذہبی پیشوائیت اور سیاسی قیادت نے اپنے دیرینہ گٹھ جوڑ سے معاشرے میں جو دھینگا مشتی مچا رکھی ہے اس کا نتیجہ دن بدن بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری اور کساد بازاری ہے۔ ایسے پس ماندہ معاشرے میں بد اخلاقی بے توقیری، اور غیر مہذب روئیے در آنا کوئی حیرانی کی کوئی بات نہیں۔ یہ کتاب ایسی ہی زندگی کے نام منسوب کی گئی ہے۔ انتساب میں لکھا ہے :

” معاشی حبس، جنسی بے توقیری اور سماجی در اندازیوں میں پھڑپھڑاتی زندگی کے نام“

کہانی کے آغاز میں ہی ہماری ملاقات کہانی کے پہلے اور ٹائٹل کردار بخشن سے ہوتی ہے۔ بخشن نے اپنے کام کا آغاز ایک چھپر ہوٹل سے کیا تھا۔ مگر کالے دھن کی برکت سے پندرہ بیس برس میں ہی کروڑ پتی بن چکا۔ اس کے کاروبار کی تصویر کشی ناول کے پہلے باب میں کی گئی ہے :

” کون نہیں جانتا کہ بخشن کا ٹرک ہوٹل اپنے طور طریقوں سے کراچی سے پشاور تک کے ڈرائیوروں کا من چاہا ٹھکانہ تھا۔ اگرچہ اس قسم کی خدمات اور سہولتیں تو جی ٹی روڈ کے بے شمار ٹرک ہوٹلوں میں مہیا کی جاتی تھیں مگر حاجی بخشن کی خاطر داری کا سواد سب سے نرالا تھا۔ سرگودھا سے منگوائے گئے ناچے بکروں کی کڑاہی اور قورمہ، دیسی گھی کے تڑکے میں بھنی ہوئی ماش کی دال، پانی سے چھنڈ کر تندور میں لگائی گئی کڑک روٹی اور ملائی ماری ہوئی دودھ پتی کا تو خیر جواب ہی کیا ہوتا، تھکن سے چور ڈرائیوروں کی خاطر سیوا کے لوازمات بھی اپنی مثال آپ تھے۔

کراچی سے آنے والے ڈرائیور جونہی ملحقہ تحصیل فتح گڑھ سے گزرتے تو ان کا بدن بھی اینٹھنے لگتا اور یہی حال ان ڈرائیوروں کا ہوتا جو پشاور سے آتے ہوئے ضلع شمس پور کی سرحدوں کو چھونے کی تیاریوں میں ہوتے۔ حاجی بخشن کے ٹرک ہوٹل کی شہرت ان کم عمر کسبی لڑکوں، چلتر خواجہ سراؤں اور کسے ہوئے جسموں والی خانہ بدوش دوشیزاؤں کی مرہون منت تھی کہ جو اپنے فن میں مہارت کے سبب ڈرائیوروں کو درجہ کمال کی ذہنی اور جسمانی آسودگی مہیا کرتے۔ لیکن اصل بات ایسے ہنر مند پیشہ وروں کی بخشن کے ہاں وافر تعداد میں سہولت سے دستیابی تھی جس کے لیے اسے کچھ خاص تردد بھی نہ کرنا پڑتا کہ اس کی شہرت ہی اس کی ساکھ تھی۔“

بخشن کی رسائی اعلیٰ پولیس افسران، بیوروکریٹس اور منجھے ہوئے وکلاء تک ہے۔

کہانی کا دوسرا اہم کردار صوبے کا آئی جی حمید الرحٰمن ہے جس کی اولین تعیناتی بطور اے ایس پی حیدر گوٹھ میں ہی ہوئی تھی۔ بعد ازاں بخشن کے اثر و رسوخ سے اسی صوبے میں ترقی کرتا ہوا صوبے کا آئی جی بن چکا ہے۔

صاحب زادہ سلطان احمد تونگر، ناول کا تیسرا بڑا کردار ہے جو ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہے۔ تونگر اپنے وقت کا فرعون، بد دیانت اور بد عنوان شخص تھا۔ مگر ریٹائر ہو کر اپنے ہم عصر روایتی افسران کی طرح شریف اور بے ضرر بن چکا ہے۔

چوتھا اہم کردار اللہ ڈنو عبید ہے۔ جو بخشن سے بھی بڑے دھندے میں ملوث ہے۔ اس نے اپنا کام شراب فروشی اور چھوٹی موٹی دلالی سے شروع کیا تھا مگر بیوروکریسی اور پولیس کے سینئر افسران کی نظر کرم سے دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر کے ایک بین الاقوامی دلال بن چکا ہے۔ وہ عورت کی جنسی ضروریات اور مرد کی نا آسودگیوں سے بھی خوب واقف ہے اور اس کو اپنے مالی مفادات کے لئے استعمال کرنے کا فن جانتا ہے۔

کہانی ایک حسین اور دلفریب لڑکی رباب کے گرد گھومتی ہے جو پر اسرار طریقے سے غائب ہو چکی ہے۔ اور اپنے حسن، جنسی کشش اور دلفریب اداؤں کی وجہ سے تین بڑے کرداروں، بخشن، اللہ ڈنو اور پولیس چیف حمیدالرحمٰن کو مطلوب ہے۔ کہانی کے آغاز میں بخشن کے سہولت خانے پر پولیس کا چھاپہ پڑتا ہے کیونکہ رباب وہاں پر موجود ہوتی ہے۔

رباب کہنے کو تو صوبے کی اعلیٰ ترین شخصیت کی بیٹی ہے مگر حقیقت میں صاحب زادہ سلطان احمد تونگر کے سامرہ (اعلیٰ ترین شخصیت کی بیوی ) سے ناجائز تعلقات کی پیداوار ہے چوبیس برس قبل صاحب زادہ سلطان احمد تونگر نے بطور کمشنر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے سامرہ کے شوہر رئیس جمال بخش کو ضلع کونسل کی سطح سے اٹھا کر صوبائی اسمبلی کا ممبر اور پھر ہوم منسٹر بنوایا دیا تھا۔ وزارت کے حصول کے بعد رئیس جمال کو تونگر اور سامرہ کی خلوت چھبنے لگی تو اس نے سلطان احمد تونگر کا تبادلہ کہیں اور کروا دیا۔

پیدا شدہ خلا میں اللہ ڈنو عبید نئی پراڈو کے تحفے کے ذریعے وزیر موصوف تک رسائی حاصل کرتا ہے اور بالآخر اپنی جنسی مہارت سے سامرہ کا دل جیت لیتا ہے۔ سامرہ، عبید کے فن ہمبستری کی دیوانی ہو کر اپنے شوہر (صوبائی وزیر) سے خلع لے کر اپنی بیٹی رباب سمیت عبید کی زوجیت میں آجاتی ہے۔ مگر قضیہ اس وقت کھڑا ہوتا ہے جب عبید کی نظر بد رباب پر پڑتی ہے۔ وہ اس کو سونے کی چڑیا لگتی ہے۔ جس کو وہ پہلے خود اور پھر اعلٰی حکومتی عہدے داروں کی خواب گاہوں کی زینت بنا کر لمبا مال کمانا چاہتا ہے۔

سامرہ کو یہ قبول نہیں۔ وہ بیٹی کو بچاتے ہوئے عبید کے ہاتھوں قتل ہو جاتی ہے۔ مگر اپنی جان دے کر بھی وہ بیٹی کو عبید کی ہوس سے نہیں بچا پاتی۔ ماں کے قتل کے بعد رباب عبید کے فارم ہاؤس سے فرار ہو جاتی ہے۔ اللہ ڈنو عبید کے تسلط میں موجود متعدد لڑکیوں میں سے ایک لڑکی، جانان کسی طرح رباب کو عبید کے چنگل سے آزاد کروا لیتی ہے۔ زندگی رباب کو بخشن تک پہنچا دیتی ہے۔ جہاں پر پولیس ریڈ کے نتیجے میں گرفتار ملزمان میں سے ایک رباب بھی ہے۔ مگر جب ملزمان کو علاقہ مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا جاتا ہے تو وہاں ایک ہنگامہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ اور رباب غائب ہو جاتی ہے۔ یہاں سے کہانی بہت سے دلچسپ موڑ لیتی ہے۔

کہانی ہمیں یہ بھی باور کرواتی ہے کہ کالے دھندے میں مشغول جب کسی شخص کو استعمال کر لیتے ہیں تو ایسے مرواتے ہیں کہ کوئی ثبوت نہیں بچتا۔ کہانی کے اختتام پذیر ہونے تک سلطان احمد تونگر، جانان اور اللہ ڈنو عبید اور مارے جاتے ہیں۔ تحصیل حیدر گوٹھ کے نامور وکلاء رضوان ہاشمی اور خوشحال خان جو کبھی ان شخصیات کے آلہ کار تھے جیل کی ہوا کھاتے ہیں۔ جبکہ بخشن، پولیس چیف حمید الرحمٰن اور رباب عرب امارات میں اکٹھے ہو کر کسی نئے کالے دھندے کی بنیاد رکھتے ہیں۔

محویت (engagement) اور قرات (readability) کے اعتبار سے حیدر گوٹھ کا بخشن ایک مضبوط ناول ہے۔ کیونکہ شروع سے آخر تک کسی مقام پر بھی قاری کی دلچسپی کم نہیں ہوتی۔

ناول نگار کی عورت کی نفسیات پر گہری نظر ہے۔ وہ عورت کے ’غمزہ، عشوہ اور ادا‘ کی صورت گری کا فن بھی جانتا ہے۔ اس حوالے سے چند سطور ملاحظہ ہوں :

”مرد چاہے جتنا بھی شاطر ہو، مرتا عورت کے ہاتھوں ہے اور عورت چاہے جتنی چلتر، جتنی بھی خوبصورت ہو، اس کی بربادی، اس کا انجام کسی چوتیا سے مرد کے ماتھے پر لکھا ہوتا ہے۔“ جانان نے اپنے لبوں کو وہسکی میں ڈبویا اور اسی تربتر حالت میں عجیب سی وارفتگی کے ساتھ انھیں تونگر کے لبوں پر رکھ دیا۔ جانان کے لبوں کی گدازتا کی حدت خیزی تھی یا اسکاچ وہسکی کی بوندوں کی سحر کاری کہ تمازت کی ایک لہر نجانے سرد مہری کی کون سی پرتوں کو ادھیڑتی ہوئی تونگر کے جسم میں اٹھی اور اعصاب کی مہمیز کرتی چلی گئی۔ لیکن جونہی تونگر کے لبوں میں زندگی کا احساس سجھائی دینے لگا، جانان اس سے الگ ہو گئی۔ وہ تونگر کی آنکھوں میں حیرت اور تجسس جگانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ ”

جنوبی پنجاب کی فوک لور Folklore ناول کی خاص بات ہے۔ اس کی واضح وجہ حفیظ خان کا اس علاقے سے تعلق اور سرائیکی زبان پر عبور ہے۔ سرائیکی زبان کے خمیر میں مٹھاس اور روانی ہے۔ کہانی میں موجود ہلکے پھلکے طنز و مزاح نے فوک لور کا مزہ دوبالا کر دیا ہے۔ اس صفت نے کہانی کو حقیقت کے یوں ہم پلہ کر دیا ہے کہ قاری اپنے آپ کو ان کرداروں کے درمیاں محسوس کرتا ہے۔ اس کی ایک جھلک ملاحظہ ہو:

”یکایک کیا ہوا کہ خواجہ سراؤں کی ایک ٹولی بھی سر پیٹتی دہائیاں دیتی وہاں آ نکلی۔ اتنے ہجوم کے ہوتے ہوئے بھی کچہری میں چھایا ہوا سناٹا ہرطرف سے اٹھنے والے قہقہوں نے اجاڑ کر رکھ دیا۔ صورت یہ بنی کہ چمکیلے کپڑوں میں بھڑکیلا میک اپ کیے پچیس تیس خواجہ سرا بال بکھیرے روتے پیٹتے ایک دائرے کی شکل میں پولیس کے مبینہ ظلم کے خلاف ہلکے پھلکے ٹھمکوں پر احتجاج کر رہے تھے۔ جبکہ کچہری میں ادھر ادھر بکھرا ہوا ہجوم ان کے گرد جمع ہو کر ان کی وضع قطع اور ماتم کے انداز پر قہقہے لگا رہا تھا۔“

ایک قانون دان ہونے کے ناتے حفیظ خان کو یہ سبقت بھی حاصل ہے کہ تھانہ کچہری کے کلچر اور بار اور بنچ کی سیاست سے بخوبی واقف ہیں۔ انھوں نے لوئر عدالتوں کے مزاج کی مجبوریوں اور بے بسی کا نقشہ بھی خوب کھینچا ہے۔ بلا شبہ یہ ناول اردو ادب میں ایک اہم اضافہ ہے۔ فکشن کے قارئین کو ایک اور نادر تحفہ دینے پر میں حفیظ خان کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ بک کارنر جہلم کے پبلشر شاہد گگن کی خاص کاوش سے کتاب اندر باہر سے دلکش اور پر کشش بن گئی ہے۔ ان کی یہ کاوش بھی قابل صد ستائش ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments