بی بی سی ریڈیو کی ایک صدی اور میری زندگی کے 65 برس


6 ستمبر 1965 پیر کے دن صبح کے وقت ریڈیو پاکستان سے، صدر پاکستان جنرل محمد ایوب خان کی تقریر نشر ہوئی جس میں انھوں نے بتایا کہ بھارت کی فوجوں نے پاکستان کی سرزمین پر حملہ کر دیا ہے۔ میری عمر اس وقت لگ بھگ 10 سال کی تھی لیکن مجھے آج بھی ایوب خان کی تقریر یاد ہے سارا دن ریڈیو پاکستان سے مختلف قسم کی خبریں نشر ہوتی رہیں اور کراچی ریڈیو اسٹیشن سے شکیل احمد اپنی بھاری بھرکم گونج دار آواز میں بھارتی فوجی ٹھکانوں پر پاک فضائیہ کے طیاروں کی ”ٹھیک ٹھیک نشانے“ لگانے کی نوید سناتے رہے۔

شام کو شہریوں کو مکمل بلیک آؤٹ کرنے کی ہدایات بھی جاری ہو گئیں یہ میری زندگی کا انوکھا تجربہ تھا فضا میں خوف، شک، عجب قسم کا جوش و خروش اور سراسیمگی پھیلی ہوئی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان میں ٹرانزسٹر ریڈیو کا چلن عام نہیں ہوا تھا اور گھروں میں ویکیوم ٹیوب، والو vacuum tube۔ /valve) والے ریڈیو ہوا کرتے تھے اس دن میرے والد صاحب جب دفتر سے گھر واپس آئے تو وہ اپنے ساتھ ایک لوہے کی جالی دار چوکور چیز بھی لائے میں نے پوچھا، پاپا یہ کیا ہے انہوں نے بتایا کہ یہ ریڈیو کا ایریل ہے (آج کل اس کو انٹینا کہا جاتا ہے ) ہماری والدہ پاپا سے مخاطب ہو کر کہنے لگی ہندوستان سے جنگ چھڑ گئی، حالات خراب ہیں اور آپ یہ فضول خرچی کر بیٹھے ہیں۔

والد صاحب نے جواب دیا ارے بھئی ان حالات میں رات کو بی بی سی ریڈیو سے اردو خبریں سننا ضروری ہو گیا ہے۔ پاپا نے جلدی جلدی اندھیرا ہونے سے پہلے ریڈیو کا ایریل چھت پر نصب کر دیا۔ 1965 کی جنگ کا بلیک آؤٹ بھی بڑا سخت قسم کا ہوتا تھا کہ روشنی کی ایک کرن بھی گھر سے باہر نہ نکلے۔ والد صاحب کو ایک چھوٹا سا مسئلہ یہ درپیش آ گیا کہ مغرب کے بعد جب بی بی سی لندن کی خبریں سننے کے لیے ریڈیو کو آن کیا جائے گا تو اس کی ویکیوم ٹیوب/والو روشن ہو جائیں گے تو کہیں اس کی روشنی گھر سے باہر نہ چلی جائے۔

بطور احتیاط ہمارے گھر میں موجود مرفی برانڈ کے ریڈیو کے گرد تولیہ لپیٹ دیا گیا۔ وقت مقررہ سے ذرا پہلے ریڈیو کو آن کر دیا گیا کیونکہ والو والے ریڈیو آن کرتے ہی فوراً آواز نشر کرنے سے قاصر ہوتے تھے اور باقاعدہ گرم ہونے کے لئے تھوڑا وقت لیتے تھے۔ قصہ مختصر گھر کی تاریک فضا میں آواز گونجی یہ بی بی سی لندن ہے۔ ہمارا بی بی سی ریڈیو سے یہ پہلا باقاعدہ تعارف تھا۔ والد صاحب نے اردو خبریں اور پروگرام سننے کے بعد ریڈیو بند کرنے کے بعد ہماری والدہ سے کہا کہ ریڈیو پاکستان کی خبریں جوش و خروش کی حد تک تو ٹھیک ہیں لیکن حقیقی صورتحال تو بی بی سی ریڈیو سے ہی پتہ چلتی ہے۔

وقت کا پہیہ گھومتا رہا 65 کی جنگ کے دو سال بعد 1967 میں ہمارے شہر کراچی میں ٹیلی ویژن کی نشریات کا آغاز ہو گیا۔ ٹیلی ویژن کی ہماہمی میں ریڈیو کہیں گم ہو گیا۔ اچانک دسمبر 1971 میں ہندوستان سے دوبارہ جنگ شروع ہو گئی۔ والد صاحب کو پھر بی بی سی لندن کی یاد ستائی وقت بدل چکا تھا ویکیوم ٹیوب والے ریڈیو کی جگہ جاپانی ٹرانزسٹر ریڈیو نے لے لی تھی۔ جس کی نشریات چھت پر نصب شدہ پرانے ریڈیو کے ایریل کی محتاج نہیں رہی تھیں حالانکہ ہماری چھت پر اب بھی پرانے مرفی ریڈیو کا ایریل جو زنگ آلود ہو چکا تھا اور شاید نقاہت کی وجہ سے ایک طرف کو جھک بھی گیا تھا اب بھی موجود تھا اور وہ پرندوں کے بیٹھنے کے کام آ رہا تھا۔ الغرض 71 کے وہ دن بلیک آؤٹ کی تاریک راتیں اور ہمارے گھر کے تشویش زدہ ماحول میں روز مغرب کے بعد یہ آواز ضرور گونجتی تھی کہ ”یہ ریڈیو بی بی سی لندن ہے“ 1971 میں، میں خاصا سمجھدار ہو گیا تھا اور میٹرک کا طالبعلم تھا مجھے خیال آتا تھا کہ پاکستان کو قائم ہوئے چوبیس سال گزر چکے ہیں آج تک ہمارا ریڈیو اپنی ساکھ قائم نہیں کر سکا اور آج بھی ہم سچ سننے کے لیے گورے کی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ 1971 کی جنگ کے نتیجے میں ہمارا مشرقی حصہ ہم سے الگ ہو گیا اور ہماری افواج کو ذلت آمیز شکست سے دوچار ہونا پڑا۔

مشرقی حصہ کے فوجی کمانڈر میجر جنرل اے کے نیازی کے شرمناک انٹر ویو کا وہ کلپ اب بھی یو ٹیوب پر موجود ہے جس میں بی بی سی کا نمائندہ مارک ٹیلی جو انگریزی کے علاوہ اردو اور ہندی بھی بخوبی بول سکتا تھا۔ ان سے سوال کر رہا ہے کہ کیا آپ نے بھارتی افواج کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کر لیا ہے؟ جس کا جواب میجر جنرل نیازی بڑی حقارت سے یہ کہتے ہوئے دیتے ہیں کہ بھارتی افواج ڈھاکہ میں میری لاش پر سے گزر کر ہی داخل ہو سکتی ہیں اور آپ کا ریڈیو، پاکستان کے متعلق غلط خبریں پھیلاتا ہے۔

اس لیے میں اس کو برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے بجائے برہمن براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کہتا ہوں۔ بد قسمتی سے میجر جنرل نیازی نے اس انٹرویو کے دوسرے دن ہی بھارتی افواج کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ ہتھیار ڈالنے کے بعد بی بی سی کے مشرقی پاکستان میں گمشدہ مقامی نمائندے جناب نظام الدین کی لاش بھی ڈھاکہ کی بستی میر پور کے قریب ایک گڑھے سے برآمد ہوئی۔ آج بھی ہمارے حالات ایسے ہی ہیں اور ہم بجائے اپنے آپ کو درست کرنے کے اپنی تمام خرابیوں کا ذمہ دار مغرب کو ٹھہراتے ہیں۔ دھول چہرے پہ تھی، ہم آئینہ صاف کرتے رہے۔

وقت کا پہیہ اور تیزی سے گھومنے لگا، میرے دیس پاکستان میں 1972 سے لے کے 1977 تک کی مختصر مدت کے لیے جمہوری حکومت قائم ہو گئی جس کے بعد پھر فوجی آمر جنرل ضیا ء الحق کا تاریک دور شروع ہو گیا۔ پاکستان میں ریڈیو اور اخبارات پر سخت سنسر شپ نافذ کردی گئی۔ خصوصی طور پر ریڈیو پاکستان کی ہر خبر صدر جنرل ضیاء الحق سے شروع ہو کر اسی پر ختم ہوتی تھی۔ چار و ناچار پاکستانی عوام کا وہ حصہ جو سچی خبروں کا متلاشی رہتا تھا بی بی سی کی خبروں کو ہی اتھارٹی سمجھنے پر مجبور ہو گیا۔

چونکہ اس دور میں پاکستانیوں کے پاس صحیح اور سچی خبر حاصل کرنے کا کوئی اور ذریعہ موجود نہیں تھا حد تو یہ ہے کہ جب جابر اور ظالم ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکانے کا فیصلہ کیا تو یہ بی بی سی ریڈیو ہی تھا جس نے یہ خبر سب سے پہلے حاصل کی کیونکہ اس رات بی بی سی کا نمائندہ مارک ٹیلی ساری رات جیل کے سامنے موجود گھنے درخت کے اوپر اس کی شاخوں میں چھپ کر بیٹھا ہوا تھا۔

بی بی سی کا ابتدائی نام برٹش براڈ کاسٹنگ کمپنی تھا۔ یہ 18 اکتوبر 1922 میں قائم کی گئی یعنی اب یہ ادارہ اپنے دامن میں پوری ایک صدی کی بولتی تاریخ سمیٹے ہوئے ہے۔ 1927 میں رائل چارٹر کے تحت اس ادارے کی حیثیت اور نام تبدیل کر دیا گیا اور اس کا نیا نام برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن ہو گیا۔ یہ ادارہ 1922 کے وائر لیس بنانے والے سرکردہ افراد کے گروپ نے قائم کیا۔ اس گروپ میں وائر لیس /ریڈیو ایجاد کرنے والے اطالوی جناب مارکونی بھی شامل تھے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ ابتدائی زمانے میں بی بی سی کو اپنے پروگرام نشر کرنے کے لئے برطانوی محکمہ ڈاک نے اجازت نامہ /لائسنس جاری کیا کیونکہ برطانوی حکومت کا خیال تھا وائر لیس/ریڈیو فریکون سی کی خدمات محکمہ ڈاک ہی فراہم کر سکتا ہے۔ حالانکہ بی بی سی کا ادارہ اکتوبر 1922 کو قائم ہو گیا تھا لیکن ریڈیو سے پہلا پروگرام 14 نومبر 1922 کو نشر کیا گیا۔ شام 6 بجے خبروں کا آغاز ان الفاظ سے ہوا ”، مارکونی ہاؤس، لندن کالنگ ہے“ دس سال بعد 1932 تک ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی کرلی تھی کہ برطانوی سلطنت کے بادشاہ جارج پنجم کا پہلا خطاب نشر کیا گیا جو بی بی سی کی ایمپائر سروس کا آغاز تھا اور یہی ایمپائر سروس بی بی سی ورلڈ سروس کی پیش رو ثابت ہوئی۔ بادشاہ کی آواز پہلی دفعہ لاکھوں لوگوں نے ایک ہی وقت میں سنی۔

3 ستمبر 1939 کو برطانیہ کے وزیراعظم نیویل چیمبرلین نے بی بی سی پر ہی دوسری جنگ عظیم کے شروع ہونے کا اعلان کیا اور جنگ کے دوران بی بی سی تمام دنیا میں خبریں سننے کا ایک لازمی ذریعہ بن گیا۔ بی بی سی اردو سروس کا آغاز بھی دوسری جنگ عظیم کے دوران 1941 میں ہوا۔ ایسا تو نہیں کہ بی بی سی کے سو سال ”سب اچھا“ کی رپورٹ پر مشتمل ہوں۔ کبھی کبھی بی بی سی ادارے کے طور پر اسکینڈلز کا بھی شکار رہا۔ لیکن 2012 میں جمی سیول کے جنسی زیادتی کے اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد بی بی سی کو خاصی بدنامی کا سامنا کرنا پڑا کچھ رپورٹوں کے مطابق بی بی سی کی مینجمنٹ کو جمی سیول کی غیر موزوں اور قابل اعتراض جنسی حرکات و سکنات کا علم تھا۔

تاہم چونکہ جمی سیول اس اسکینڈل کے سامنے آنے سے پہلے ہی 84 سال کی عمر میں 29 اکتوبر 2011 کو مر چکا تھا اس لیے اس کو کوئی دنیاوی سزا تو نہیں دی جا سکتی تھی۔ 1789 میں برپا ہونے والے انقلاب فرانس کے بعد سے آج تک دنیا سیاسی طور پر دائیں اور بائیں بازو میں تقسیم ہے۔ بائیں بازو کے افراد اور تنظیموں کو اکثر بی بی سی سے شکایت رہتی ہے کہ بی بی سی دائیں بازو کی سیاست کو فروغ دینے میں ان کی مدد کرتا ہے۔ بہرحال آج بی بی سی دنیا کے سب سے پہلے ریڈیو اسٹیشن کے طور پر جانا جاتا ہے اور دنیا بھر میں اس کے ملازمین کی تعداد 22 ہزار تین سو کے قریب ہے۔ آج اس کے اثاثوں کی مالیت تقریباً سوادو بلین پاؤنڈ ہے اور سالانہ آمدنی تین سو ملین پاؤنڈ کے لگ بھگ ہے۔ بی بی سی آج ایک مکمل اور عالمی میڈیا ہاؤس ہے جو 14 ڈویژن پر مشتمل ہے اور ساری دنیا میں بی بی سی کا لوگو میکڈونالڈ اور KFCلوگو کی طرح سے جانا پہچانا جاتا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments