کلینکل میڈیکل ریسرچ کا طریقہ اور حکیمی دوائیں


ریسرچ میں ‌ پیسہ حکومت کی دی ہوئی گرانٹس اور پرائیویٹ چندے اور انوسٹمنٹ سے آتا ہے۔ اگر دوا ابتدائی مرحلوں ‌ میں ‌ فائدہ دکھائے تو اس کی کمپنی بنا سکتے ہیں ‌ جس کے عام افراد شیئر ہولڈر بن جائیں۔ پھر جب اس دوا سے منافع ہو گا تو جنہوں ‌ نے اس میں ‌ پیسے لگائے ان کو بھی منافع ملے گا۔ سب کچھ ڈوب بھی سکتا ہے۔ بہت ساری دواؤں ‌ پر ریسرچ کی جاتی ہے لیکن وہ سب کامیاب نہیں ‌ ہوتیں۔ کچھ دوائیں مارکیٹ میں آنے کے بعد جب زیادہ بڑی آبادی میں استعمال ہوتی ہیں تو آگے چل کر ان کے ایسے بھی اثرات سامنے آ جاتے ہیں جو اس سے پہلے تجرباتی مراحل میں نہیں دیکھے گئے تھے۔ اس سطح پر پہنچ کر بھی اگر نقصان ثابت ہو تو یہ دوائیں مارکیٹ سے ہٹانی پڑتی ہیں۔

سلمان خان نامی ایک صاحب نے میرے بلاگ پر کمنٹس میں ‌ مندرجہ ذیل ہدایات پوسٹ کی تھیں جن کو یہاں قارئین کو سمجھانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کو ہماری انڈورسمنٹ نہ سمجھا جائے۔


”اللہ تعالی نے کوئی ایسی بیماری پیدا نہیں فرمائی جس کی دوا پیدا نہ فرمائی ہو البتہ موت کا کوئی علاج نہیں!

ذیابیطس کا غذائی پرہیز ہی واحد علاج ہے۔ جدید میڈیکل سائنس بھی ذیابیطس کے حتمی علاج سے ابھی تک عاری ہے اور تاحال صرف شوگر کے توازن کو برقرار رکھنا ہی علاج کہلاتا ہے۔ جو دیسی، قدرتی، یونانی علاج سے بھی ممکن ہے۔ درج ذیل تدابیر سے شوگر لیول کنٹرول اور مرض کو قابو میں رکھا جا سکتا ہے۔

1۔ ہوالشافی: گٹھلی جامن خشک 100 گرام کوٹ چھان کر سفوف (پاؤڈر) بنا لیں اور 5 گرام سفوف پانی کے ساتھ دن میں دو بار صبح نہار منہ اور شام 5 بجے لیں۔
2۔ ہوالشافی: نیم کی کونپلیں 5 گرام پانی 50 ملی لیٹر میں پیس چھان کر صبح نہار منہ یا ناشتے کے ایک گھنٹے بعد لیں۔

3۔ ہوالشافی: کریلا کو کچل کر اس کا رس نچوڑ لیں یا جوسر میں اس کا جوس نکال لیں 25 ملی گرام یہ رس صبح و شام لیں۔
4۔ ہوالشافی: چنے کے آٹے (بیسن) کی روٹی اس مرض میں بہت مفید ہے۔

5۔ ہوالشافی: لوکاٹ کے پتے 7 عدد ایک کپ پانی میں جوش دے کر چائے بنائیں اس ہربل ٹی کے ساتھ گٹھلی جامن کا 5 گرام سفوف صبح منہ نہار پھانک لیں۔ انشاء اللہ چند دنوں میں شوگر کنٹرول ہو جائے گی۔

نشاستہ دار غذا۔ آلو، چاول، چینی وغیرہ سے پرہیز ضروری ہے۔

شوگر کا حتمی علاج موجود ہے، خود میری والدہ ماجدہ کو کئی سال سے یہ مہلک مرض لاحق تھا صرف چند دن علاج کے بعد اب الحمد للہ بالکل نارمل ہے 

شوگر کے لیے ہم کیپسول دیتے ہیں جنہیں لگاتار استعمال کراتے ہیں، یا پھر مریض کی حالت کے مطابق دوا تجویز کرتے ہیں، شوگر ایک یا دو دن میں ہی نارمل ہو جاتی ہے اکثر مریض صرف 2 ماہ کے یا اس سے بھی کم علاج سے ہی شفا یاب ہو جاتے ہیں جب کہ بہت کم مریضوں کا علاج تیسرے ماہ تک چلتا ہے

جو ہمارے پاس کورس ہے اس کی قیمت 15000 ہے جس سے انشاءاللہ خدا کے فضل سے شوگر جیسی موذی مرض ختم ہو جائے گی۔“


سلمان خان صاحب کی مندرجہ بالا ہدایات کے لیے میرے ذہن میں ‌ سوالیہ نشان ہے۔ یہ بھی نہیں ‌ کہہ سکتے کہ فائدہ نہیں ‌ ہو گا کیونکہ میں ‌ نے تجربے سے اس بات کو ثابت نہیں ‌ کیا کہ اس مشورے سے فائدہ نہیں ‌ ہو گا اور فائدہ ہو گا یہ بات ان علاج بتانے والے صاحب نے ثابت نہیں ‌ کی۔

اب آپ اس نصیحت کا تنقیدی جائزہ لیں۔ پہلے سطر پر غور کریں۔ کچھ بیماریاں میڈیکل نہیں ‌ بلکہ سرجیکل ہوتی ہیں اور ان کا دوا سے علاج نہیں ‌ ہو سکتا۔ غذائی علاج ذیابیطس کے علاج کا نہایت اہم حصہ ہے لیکن یہ اس کا واحد علاج نہیں ہے۔ انسولین اور دیگر کئی مختلف طرح‌ کی دوائیں ‌ آج کل مارکیٹ‌میں ‌ ذیابیطس کے علاج کے لیے باآسانی دستیاب ہیں۔ انہوں ‌ نے اپنی امی کی مثال دی ہے جنہیں ‌ کئی سالوں ‌ سے ذیابیطس تھی تو پہلے علاج کیوں ‌ نہیں کیا۔ اور چند دن میں ‌ ہی اس کو ٹھیک کر دینا ایک بہت بڑا دعویٰ‌ہے۔ ہتھیلی پر سرسوں ‌ نہیں ‌ اگا سکتے ہیں۔ ٹھیک سے کام کرنے میں ‌ ٹائم لگتا ہے۔

پہلے انہوں ‌ نے کہا کہ غذائی علاج ہی واحد علاج ہے پھر وہ آپ سے کہہ رہے ہیں ‌ کہ ان کی دوا آپ خریدیں۔ پہلے کہہ رہے ہیں ‌ کہ جدید میڈیکل سائنس تک ذیابیطس کا حتمی علاج نہیں ‌ کر سکتی پھر آپ کو وہ بتا رہے ہیں کہ ان کی دوا سے آپ کو چند دنوں ‌میں ‌ شفا مل جائے گی۔ اس نصیحت میں ‌ کتنا وزن ہے؟ یہ نصیحت ہر کسی کو فائدہ نہیں ‌ دے گی کیونکہ ذیابیطس کا ہر مریض دوسرے مریض سے مختلف ہے اور ایک ہی ذیابیطس کے مریض‌ کا علاج بھی وقت کے ساتھ ساتھ اور ان کی انفرادی صورت حال کے لحاظ سے بدلتا رہے گا۔ اگر آپ کو کوئی مشورہ دے تو ان سے پوچھیں ‌کہ اس معلومات کا منبع کیا ہے؟ ان معلومات کی بنیاد کیا ہے؟ تہذیب، اعتقادات، ثقافت یا قدیم روایات؟

میرے نانا کہتے تھے کہ بادام کھانے سے دماغ تیز ہوجاتا ہے۔ مجھے اپنے نانا سے محبت ہے آپ کو بھی ہو گی۔ اب اگر میں ‌ نانا کی نصیحت کو اصلی کلینک میں ‌ آزمانا چاہوں ‌ تو اس اوپر بیان کردہ پروٹوکول کی طرح‌ 70 صفحے کی دستاویز بنانا پڑے گی۔ پھر کیپسول بنانے ہوں ‌ گے جن میں ‌ یا تو بادام پیس کر ڈالا ہو یا کوئی اور پاؤڈر جو دیکھنے میں ‌ ایک جیسے لگیں۔ پھر ان کو ایک ہی طرح ‌کے مریضوں ‌ میں آزمانا ہو گا۔ اس کے بعد جو بھی نتائج نکلیں ‌ ان کو قبول کرنا ہو گا۔

اگر میں ‌ کہوں کہ میرے نانا تو غلط ہو ہی نہیں ‌ سکتے اور یہ اسٹڈی غلط ہو گی تو اس کا مطلب ہے کہ میں ‌ نے سچائی جاننے کے لئے نہیں ‌ بلکہ اپنے نانا کو اپنے جذبات کی وجہ سے درست ثابت کرنے کے لیے یہ ریسرچ کی تھی۔ اگر نانا کو صحیح‌ہی ثابت کرنا ہے تو ان کو ویسے ہی صحیح کہہ دیتے ہیں، اتنا لمبا چوڑا تردد کر کے اتنے لوگوں ‌ کی اتنی محنت، وقت اور پیسہ ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments