کلینکل میڈیکل ریسرچ کا طریقہ اور حکیمی دوائیں


مصنفہ: لبنیٰ مرزا ایم ڈی، ایف اے سی ای کینڈیڈیٹ، اینڈوکرنالوجسٹ

کچھ دن پہلے سائنس کی دنیا نامی گروپ میں ایک صاحب نے سوال کیا کہ اگر کسی فرد نے کچھ دریافت کر لیا ہے تو اس کو کیسے آگے لایا جائے؟ اس کے علاوہ یہ بھی پوچھا جاتا ہے کہ حکیمی دواؤں پر تحقیق کس طرح کی جائے؟ دنیا میں سائنسی دریافت کرنے کے میدان کئی نسلوں کے کام کا نچوڑ ہیں اور ان میں نظام موجود ہیں۔ اس مضمون کو لکھنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ ایک عام آدمی کو اس پیچیدہ نظام سے واقفیت دلائی جا سکے۔ حقیقت اور خیالی دنیا کو ملانے سے ہماری سمجھ اور حقیقی دنیا کے بیچ ایک بڑی خلیج بن گئی ہے جس کے دونوں ‌ طرف کے لوگ ایک دوسرے کی بات نہیں ‌ سمجھ پا رہے ہیں۔ اس لیے پہلی اینٹ سے عمارت کو سمجھانا ہو گا۔

اس تحریر کا مقصد ہے کہ معلومات کے منبع کو سمجھا جائے یعنی کہ اگر کوئی ایک بیان دیتا ہے کہ جیسے ”آسمان نیلا ہے“ یا ”پانی کے مالیکیول میں ‌ دو ہائیڈروجن اور ایک آکسیجن کا مالیکیول ہے“ تو یہ معلومات کیسے حاصل کی گئیں اور کیا دنیا میں ‌ ہر جگہ تجربہ کرنے سے یہی معلومات حاصل ہوں ‌گی؟ ڈیٹا، نئے پروسیجر، دوائیاں ‌ اور وقت تبدیل ہونے سے نتائج کس طرح‌ مختلف نکلتے ہیں؟ اگر کہیں یہ لکھا ہو کہ پینٹ گیلا ہے اس پر قدم نہ رکھیں تو ان الفاظ کے کچھ سال بعد یہ معنی کھو چکے ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ہم ایک سو سال پرانی کتاب دیکھیں جس پر لکھا ہو کہ یہ نئی ترین کتاب ہے۔

تحقیق کیسے کی جاتی ہے وہ ہر مضمون میں ‌ مختلف ہے۔ کیمسٹری میں ‌ مختلف عناصر لیبارٹری میں ‌ ملا کر تجربے کیے جاتے ہیں۔ اناٹومی میں ‌ مردے کاٹ کر ان کے اندر دیکھا جاتا ہے، ہسٹالوجی میں ‌ مائکرواسکوپ سے تفصیل دیکھی جا سکتی ہے۔ ہم بہت بار یہ سنتے ہیں کہ ہزاروں سال پہلے کے انسانوں نے بغیر آلات کے کس طرح دنیا کو سمجھا۔ آلات نہ بھی ہوں تو بھی مشاہدے سے ہم کافی سیکھ سکتے ہیں۔ کچھ معلومات مشاہدے کا نتیجہ ہوتی ہے اور کچھ تجربے کا۔

اگر ہم یہ جاننا چاہیں ‌ کہ ایک گاڑی کن چیزوں ‌ سے مل کر بنی ہے لیکن ہمارے پاس ایسے کوئی آلات نہ ہوں ‌ جن سے اس کے حصے الگ الگ کئیے جائیں ‌ تو اس کو کیسے سیکھا جاسکتا ہے؟ دو گاڑیاں ‌ نہایت تیزی سے چلا کر ایک دوسرے سے ٹکرائیں ‌ تو وہ پرزہ پرزہ ہو کر بکھر جائیں ‌ گی اور پھر ہم جان سکیں ‌ گے کہ وہ کن چیزوں ‌ سے بنی تھیں۔ پروٹان کو فزکس میں ‌ سمجھنے کے لیے اسی طریقے سے آپس میں ‌ ٹکرایا جاتا ہے۔

جب کوئی کہتا ہے کہ یہ تجربہ راکٹ سائنس نہیں ‌ یہ بتانے کے لیے کہ یہ مشکل نہیں ‌ تو راکٹ سائنس بھی کوئی ایسی مشکل سائنس تو ہے نہیں ‌۔ دیکھیں ‌، چھوئیں، تجربہ کریں ‌ اور سائنس سمجھ آنے لگے گی۔ سائنس ہے ہی سمجھ کا نام۔ جس چیز کو ایک انسان سمجھ سکتا ہے اس کو اور انسان بھی سمجھ سکتے ہیں۔ انسانی دماغ میں نیورپلاسٹیسٹی پائی جاتی ہے یعنی کہ دہرانے سے دماغ میں راستے بن جاتے ہیں اور یہ سیکھا ہوا انسانوں کی یاداشت اور رویے کا حصہ بن جاتا ہے۔ اسی لیے ہم کیا سیکھ رہے ہیں اور کس چیز کو سیکھنے میں اپنا ذہن استعمال کر رہے ہیں وہ اہم ہے کیونکہ ہمارے وجود سے باہر کچھ باتیں اصلی نہیں ہوتیں لیکن وہ انسانوں کے اندر، ان کے خیالات کے اندر زندہ ہوتی ہیں۔

جن لوگوں نے میڈیکل کی تعلیم پاکستان میں حاصل کی ہے اور بعد میں جا کر امریکہ میں تو وہ جانتے ہوں گے کہ کئی مضامین پاکستان میں نہیں پڑھائے جاتے تھے جیسا کہ بائیو اسٹیٹ اور ایپی ڈیمیالوجی۔ میرا اپنا تجربہ ہے کہ جب یو ایس ایم ایل ای کرنے کے لیے بائیو اسٹیٹ پڑھنا شروع کی تو ایک بار ایک لیکچر سنا۔ وہ میرے سر کے اوپر سے گزر گیا، پھر دوبارہ سنا، وہ پھر میرے سر پر سے گزر گیا۔ تیسری بار سننے کے بعد کچھ کچھ سمجھ میں ‌ آنا شروع ہوا۔ ہمارے دماغ میں ‌ کچھ بھی نیا سیکھ لینے کی صلاحیت ہے۔ آپ اس کو موقع دیں۔ جو بات سمجھ میں ‌ نہیں ‌ آ رہی اس کو دوبارہ پڑھیں اور سنیں اور سوال بھی کریں ‌ تو آ جائے گی۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ نئی دواؤں کے مریضوں ‌ پر تجربے کیسے کئیے جاتے ہیں؟ کلینکل ریسرچ کی کئی شاخیں ہیں۔ یہ شعبہ وسیع ہے اور اس کی ایک طویل تاریخ ہے۔ آج تک کے انسان ہمارے لئے جو بھی معلومات چھوڑ گئے ہیں ‌ ان کے اوپر اور بڑی عمارت بنانی ہے۔ ہم سے پہلے لوگوں ‌ نے غلطیاں کیں ‌ اور ہمیں ‌ ان غلطیوں ‌ سے سیکھ کر آگے بڑھنا ہے۔ ریسرچ کی دنیا میں ‌ بنائے ہوئے قوانین اور اصول اسی لیے ہیں ‌ کہ ماضی کی طرح‌ غلط نتائج پر پہنچنے سے بچنے کی کوشش کریں اور اس تحقیق کے دوران انسانوں ‌ کا استحصال ہونے سے بچایا جائے۔

ٹسکیگی سفلس ٹرائل 1932 سے 1972 تک جنسی تعلقات سے ہو جانے والی سفلس کی بیماری کے شکار افراد کا مشاہدہ کرنے والی ریسرچ تھی۔ یہ تحقیق ساؤتھ کے غریب کالے مریضوں ‌ پر کی گئی جن کو سفلس کا مرض لاحق تھا۔ یہ افسوسناک بات ہے کہ ان لوگوں ‌ کو علاج ہوتے ہوئے بھی فراہم نہیں ‌ کیا گیا اور یہ اسٹڈی 75 سال تک چلی۔ صدر بل کلنٹن نے اس کے لیے باقاعدہ عوام سے معافی طلب کی۔ اگر کوئی بھی ٹسکیگی سفلس ٹرائل کی تفصیلات پڑھنا چاہے تو وہ کتاب ”بیڈ بلڈ“ پڑھ سکتے ہیں۔

ان کالے مریضوں سے جھوٹ بولا گیا کہ ہم آپ کی کمر میں ‌ دوا دے رہے ہیں ‌ اور صرف لمبر پنکچر سے نمونے لیے گئے تاکہ ان کا مطالعہ کیا جا سکے۔ اس وقت کمر میں سے پانی نکالنے کی سوئیاں بڑی ہوتی تھیں اور یہ پروسیجر کافی تکلیف دہ ہوتا تھا۔ ان میں سے کئی کالے مریضوں نے بتایا کہ وہ اس کے بعد کئی دن تک بستر سے نہ نکل پائے۔ میڈیکل ریسرچ کی تاریخ‌ کو دیکھیں ‌ تو یہ بات سمجھنا قطعاً مشکل نہیں ‌ کہ تحقیق دانوں ‌ کو عام لوگ آج بھی شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

ہمارے کالے مریضوں کو ویکسین لگوانے پر آمادہ کرنا آج بھی ایک مشکل کام ہے۔ اس میں ہم ان کو کیسے قصوروار ٹھہرا سکتے ہیں؟ اب بھی کافی کالے لوگ ہیں ‌ امریکہ میں ‌ جو سمجھتے ہیں ‌ کہ ایچ آئی وی کی انفیکشن گوروں ‌ نے کالوں ‌ کی نسل کشی کے لیے ایجاد کی تھی۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان دنیا کے ان آخری ممالک میں سے ہے جہاں آج بھی پولیو موجود ہے۔ وہاں عام لوگ سمجھتے ہیں ‌ کہ پولیو کی ویکسین سے بچے ہونا بند ہو جاتے ہیں۔ اس قضیے میں صحت کے شعبے میں کام کرنے والی خواتین کو قتل کردینے کی خبریں بھی موصول ہوئی ہیں۔ اگر ہم اپنی تعلیم میں ‌ اضافہ کریں ‌ تو حقیقت ہمیں ‌ کچھ سمجھ میں ‌ آئے گی۔ بچے پیدا کرنے کا نظام اور انفیکشن کے خلاف مدافعت ہونے کے ‌ نظام ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ یہ ایسا ہے جیسے ہم کہیں ‌ کہ امریکہ میں ‌ کسی‌ نے فٹ بال کھیلی تو نیپال میں ‌ کسی کو بخار ہو گیا۔

ایک اندازے کے مطابق ایک نئی دوا کو مارکیٹ میں لانے پر ایک اعشاریہ دو بلین ڈالر اور اوسطاً 14 سال صرف ہوتے ہیں۔ ایک دوا کو فارمیسی کی شیلف تک لانے پر ہزاروں ‌لوگوں ‌ نے مل کر کام کیا ہوتا ہے جس کا ہم خود ایک چھوٹا سا حصہ ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے ایک گاڑی ہزاروں ‌ پرزوں ‌ سے مل کر بنتی ہے۔

ایک ویک اینڈ پر ایک نئی دوا کی ریسرچ کانفرنس تھی جس میں ‌ میرے علاوہ تمام امریکہ سے لوگ آئے ہوئے تھے۔ کچھ پراجیکٹ ایسے بھی ہیں جن میں کئی ملکوں کے لوگ مل کر کام کر رہے ہیں۔ پاکستان کے اندر بھی ایسے ریسرچ سینٹر کھولے جا سکتے ہیں جن میں کمپنیاں اپنی نئی دوائیں اور آلات آزما سکیں۔ ان سے نئی نوکریاں بننے اور ملک میں پیسہ لانے میں مدد ملتی ہے۔ اس کے علاوہ ریسرچ کی دنیا سے جڑے رہنے سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہماری فیلڈ میں پائپ لائن میں کیا نئی چیزیں بن رہی ہیں۔ اس تیزی سے بدلتی دنیا میں معلومات ہی ہمارا سب سے اہم ہتھیار ہیں۔ اس کانفرنس میں یہ سارے لوگ مل کر صرف ایک دوا پر کام کر رہے تھے۔

وہاں ‌ جانے سے ایک دن پہلے میں ‌ نے پروٹوکول کھول کر پڑھا تاکہ کانفرنس میں ‌ جو بتایا جائے گا وہ کچھ اچھی طرح‌ سمجھ میں ‌ آئے گا اور میں ‌ سوال بھی بہتر کر سکوں ‌ گی۔ ائر پورٹ پر اور جہاز میں ‌ بیٹھے بیٹھے میں ‌ نے اس کے سائنسی حصے کو پڑھا۔ پروٹوکول کے 70 صفحے تھے۔ وہ انتہائی دلچسپ ایک بالکل نئی دوائی پر تھا۔ جس مسئلے کی اس میں ‌ نشاندہی کی گئی تھی وہ ہر اس ڈاکٹر کو معلوم ہوگی جو پہلی قسم کی ذیابیطس کا علاج کرتے ہوں۔ اس میں شوگر انتہائی کم اور انتہائی زیادہ ہوجانا شامل ہے۔ 1921 سے پہلے انسولین مہیا نہیں ‌ تھی اور ٹائپ ون ذیابیطس کے مریض 12 مہینے میں ‌ مر جاتے تھے۔ شروع میں ‌ انسولین جانوروں سے نکالی جاتی تھی پھر اس کی بہتر اقسام بنالی گئیں۔ آج کل جو انسولین دستیاب ہیں ‌ ان سے ان مریضوں ‌ کا بہتر علاج ممکن ہے۔

میں ‌خود ان سائنسدان ڈاکٹر سے ملی جنہوں ‌ نے یہ نئی دوا دریافت کی اور ان سے پوچھا کہ انہوں ‌ نے اس دوا کے بارے میں ‌ کیسے سوچا؟ وہ کافی بوڑھے ہیں۔ انہوں ‌ نے بتایا کہ 1930 اور 1940 کی دہائیوں ‌ میں ‌ جو ڈاکٹر ان کے ساتھ کام کر رہے تھے جو کہ اب سارے مر چکے ہیں ‌ انہوں ‌ نے یہ مشاہدہ کیا تھا کہ نارمل فزیالوجی میں ‌ اور ٹیکے لگا کر دی ہوئی انسولین کی جسم میں ‌ فراہمی میں ‌ ‌فرق ہے اور اس کو نارمل کے قریب کر دینے سے ذیابیطس کا بہتر علاج ممکن ہے۔

نئی نینو ٹیکنالوجی کی وجہ سے ممکن ہوا کہ پرانی معلومات کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔ سونا چمکتا ہے اور اس کو مائکرو اسکوپ میں ‌ دیکھنا آسان ہے۔ پہلے مشاہدہ کیا گیا، پھر اس پر تجربات کیے گئے۔ وہ اس طرح‌ کہ دواؤں کے ساتھ سونا ملا دیا اور پھر جب وہ سارے جسم میں ‌ پھیل گئی تو پھر ان چوہوں ‌ کے جگر، پٹھوں ‌ اور چربی کے ذخائر کو مائکرواسکوپ سے دیکھا گیا کہ وہ دوا کہاں ‌ پہنچی۔ اگر سوچا جائے تو سونے کو زمین میں ‌ دبا کر اس پر بیٹھے رہنے سے یہ اس کا کتنا اچھا استعمال ہے؟

جب کتوں ‌اور چوہوں ‌ پر سینکڑوں ‌ بار دہرا کر یہ ثابت کیا گیا کہ دوا کسی عضو کے لیے زہریلی نہیں ‌ ہے تو پھر اس کو پہلے فیز میں ‌ صحت مند انسانوں ‌ میں ‌ آزمایا گیا۔ ان سے بھی اچھے نتائج سامنے آئے تو پھر سارے امریکہ میں سے ڈاکٹر چن کر ان کے ساتھ مریضوں میں ‌ اس دوا کو پھر سے آزمایا جائے گا۔ اس کا بھی ایک ایک قدم پہلے سے لکھا گیا ہے۔ یہ مرحلہ فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے سامنے اپنا سارا ڈیٹا پیش کرنے کے بعد ان کی اجازت حاصل کر کے ہی شروع کیا جا سکتا ہے۔ آپ کے ریسرچ سینٹر پر کبھی بھی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن جانچ پڑتال کرنے پہنچ سکتے ہیں کہ آپ کام ٹھیک سے کر رہے ہیں ‌اور ریکارڈ صحیح‌ رکھ رہے ہیں ‌یا نہیں۔ پروٹوکول بنا کر اپنے ادارے کے ریویو بورڈ کو دیا جاتا ہے جو اس بات کی جانچ پڑتال کرتے ہیں ‌ کہ اس میں ‌ حصہ لینے سے مریضوں ‌ کو نقصان ہونے کا اندیشہ کم سے کم ہو۔ اگر پروٹوکول میں ‌کچھ تبدیلی کرنا ہو تو اس کی پہلے سے اجازت لینی پڑتی ہے ورنہ آپ کی تحقیق منسوخ ہو سکتی ہے۔

ایک نئی دوا کو جانچنے کے لئے ٹرائل میں ‌ حصہ لینے والے مریضوں ‌ کا تفصیلی معائنہ ہوتا ہے، اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ دوا لینے والے مریضوں ‌ میں ‌ اور پلاسیبو لینے والے مریضوں ‌ میں ‌ کچھ فرق نہ ہو۔ اس اسٹڈی میں ‌ نہ تو ہمیں معلوم ہو گا کہ کس مریض کو دوا ملی اور کس کو پلاسیبو اور نہ ہی مریضوں ‌ کو یہ بات پتہ ہو گی۔ اس طریقے سے ریسرچ میں ‌ سے تعصب نکالا جاتا ہے جس کو انویسٹیگیٹر بائس کہتے ہیں۔ اگر ہم‌ ایک دوا ایجاد کریں اور ہمیں یقین ہو کہ وہ کام کرتی ہے تو ہم‌ اپنے مریضوں ‌ میں ‌ یہی دیکھنا چاہیں گے جس کی وجہ سے ہم ‌ خود ایسے نتائج پر پہنچ سکتے ہیں ‌ جو اصل میں ‌ سچ نہ ہوں۔ بالکل اسی طرح‌ جب ایک مریض کو پتہ ہو کہ اس کو دوا ملی ہے پانی نہیں ‌ تو وہ خود بہتر محسوس کریں گے جس کو پلاسیبو افیکٹ کہتے ہیں۔ ذبیحہ سے متعلق مسلمان اداروں سے جو تحقیق سامنے آ رہی ہے اس میں انہوں نے کنفرمیشن بائس کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایک سچا علم وہی ہے جو ایک خالی سلیٹ پر سوال سے شروع ہوا ہو اور جو بھی جواب نکلیں ان کو قبول کیا جائے چاہے وہ ہمارے پرانے خیالات اور اعتقادات کے خلاف ہی کیوں نہ نکلیں۔

ہماری اس اسٹڈی میں ان سب مریضوں ‌ کو ایک جیسا گلوکوز ناپنے کا آلہ دیا گیا، ان سب کے خون کے سیمپل ایک ہی لیب کو بھیجے گئے۔ سب کا شروع میں ‌ اور آخر میں ایم آر آئی کر کے یہ دیکھا گیا کہ کہیں ‌ اس دوا سے ان کے جسم کے کسی حصے کو نقصان تو نہیں ‌ ہوا۔ اس ایک دوا کی ریسرچ میں ‌ ہزاروں ‌ لوگوں نے حصہ لیا جن میں ‌ ڈاکٹر، انجینئر، نرسیں، ڈیٹا جمع کرنے والے لوگ، فارماسسٹ، سائنسدان، پیتھالوجسٹ، ریڈیالوجسٹ، بزنس مینجمنٹ، لیبارٹری ورکرز، الیکٹرانک میڈیکل ریکارڈ اور آئی ٹی شامل تھے۔ ان سب لوگوں کے پاس اپنی اپنی فیلڈ کا لائسنس ہونا لازمی ہے۔ اسٹڈی کو ایک مانیٹرنگ کمپنی بھی مستقل مانیٹر کرتی ہے۔ یہاں تک کہ مانیٹر میرے کلینک میں ‌ بھی چکر لگا کر گئے کہ میں اور میرا کلینک اصلی ہیں یا کاغذ پر بنے ہوئے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ماضی میں بنائی اور گھڑی ہوئی تحقیق جریدوں میں چھپ چکی ہے اسی لیے یہ تمام احتیاطی اقدامات موجود ہیں۔

اس تحقیق پر بہت پیسہ خرچ ہوا۔ اس میں ‌ کام کرنے والے سب لوگوں ‌ کو تنخواہ ملی۔ ریسرچ میں کام کرنا میری پہلی نوکری نہیں ہے۔ وہ میری اپنی دلچسپی کی وجہ سے ساتھ میں ہے اور میں اس کو اپنا سو فیصد وقت نہیں دے سکتی ہوں۔ لیکن بہت سی خواتین ڈاکٹرز جو میڈیکل کی تعلیم ختم کر کے اب گھروں میں بیٹھ گئی ہیں اور اپنی زندگی میں خوش نہیں ہیں، وہ اس کو اپنا کیریر بنا سکتی ہیں۔ کوئی بھی انسان اتنی تعلیم حاصل کر کے کدو بن کر رہنے سے کبھی خوش نہیں رہ سکتا ہے۔ آپ میں سے جو بھی چاہیں، انٹرنیٹ سے میڈیکل ریسرچ کے بارے میں تعلیم حاصل کریں، اپنے سینٹر بنائیں اور اس میں کام کریں۔ اس مضمون کے آخر میں گڈ کلینکل پریکٹس کے مفت آن لائن سرٹیفکیشن کورس کا لنک دیا ہوا ہے۔ اس کو اچھی طرح سے پڑھیں اور اس کے سوالات کے جواب دیں۔ اس کو مکمل کرنے کے بعد آپ اپنا سرٹیفیکٹ لیں اور کلینکل ٹرائل کی ویب سائٹ پر جا کر دیکھیں کہ کون سی تحقیق میں آپ مریض جمع کر کے اس میں ہاتھ بٹا سکتی ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments