منافق لینڈ میں ”جوائے لینڈ“ کی گنجائش کہاں


منافقتوں کے سائے میں پلنے بڑھنے والے لوگ کبھی ایک قوم نہیں بن سکتے شاید یہی وجہ ہے کہ ہم آج تک ایک قوم نہیں بن پائے بلکہ جتھے یا ہجوم کی مانند ایک منتشر قسم کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ہم شاید دنیا کا وہ واحد ہجوم ہوں جہاں کے بڑے آج تک ایک واضح فیصلہ نہیں کر پائے کہ ہم ”ریپبلک ہیں یا اسلامک“ ؟ ذہانت کی اتنی اونچی اڑان بھی شاید کسے نصیب ہو جو ہم جیسوں کو حاصل ہے ہم نے ففٹی ففٹی کر کے دنیا کے کرتا دھرتاؤں کو ماتھا تھامنے پر مجبور کر دیا، مطلب سیر کو سوا سیر ہم ”اسلامک ریپبلک“ بن گئے اسی لئے دنیاوی برکات سے کچھ نہ کچھ فری میں اینٹھتے رہتے ہیں۔

گلشن کا کاروبار چلتا رہتا ہے فکر کی کوئی بات نہیں ہے مگر جوائے لینڈ نامی ایک فلم نے جو ڈھنگ سے ابھی ریلیز بھی نہیں ہوئی معاشرتی اقدار کو تہس نہس کر ڈالا ہے اور ہم نے خیالات کی ڈکشنری میں اس فلم کے حوالے سے ایسے ایسے تصورات یا الفاظ چن دیے ہیں کہ جیسے سب کچھ ختم ہو چکا ہو یا ہونے والا ہو۔ مثلاً اس فلم کے ریلیز ہونے کے بعد ”ہم جنس پرستی کو فروغ ملنے لگے گا۔ لوگ آزادی سے ایک دوسرے کو بوس و کنار کرنے لگیں گے۔ مردوں میں مخالف جنس کے طور پر فیمیل کے علاوہ خواجہ سراؤں کا بھی اضافہ ہو جائے گا۔ ایک طرح سے مردوں کی مردوں سے شادیاں رواج پانے لگیں گی ”

جماعت اسلامی کے سینٹر مشتاق احمد نے انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ ”انہوں نے فلم نہیں دیکھی لیکن ان کا ماننا ہے کہ یہ فلم ہم جنس پرستی کے کلچر کو فروغ دینے کے لیے بنائی گئی ہے“

آپ اندازہ لگائیں کہ جتنے دور اندیش لوگ ہمارے پاس موجود ہیں دنیا میں بھلا کہاں؟ محض سنی سنائی باتوں کے اوپر خیالات کے بے لگام گھوڑے دوڑانا کس قدر دانشمندی کا کام ہو سکتا ہے آپ خود اندازہ لگا لیں۔ غالباً احتشام الہٰی ظہیر نے بھی کوئی اسی قسم کے پروپیگنڈے کو ترویج دینے کی کوشش کی ہے کہ

”یہ فلم قوم لوط کی نمائندہ ثابت ہوگی“

حالانکہ یہ لوگ بہت اچھے سے جانتے ہیں کہ ”جنسی تشنگی“ کہاں زیادہ پائی جاتی ہے اور اس کے عملی مظاہر کہاں دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں مگر جان بوجھ کر آئیں بائیں شائیں کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ جب کبھی بھی اس قسم کی چیلنجنگ مووی منظر عام پر آنے لگتی ہے تو یہ پہلے سے ہی چہ مگوئیاں شروع کر دیتے ہیں بالکل یہی کچھ ”زندگی تماشا“ نامی مووی کے ساتھ بھی ہوا تھا۔ کیونکہ اس قسم کی فلمیں معاشرے کے ان حقائق سے پردہ اٹھاتی ہیں جنہیں تقدس کے ساتھ بریکٹ کر کے چھپائے رکھنے کا چلن ہوتا ہے اسی وجہ سے ”روایتی چھاؤنیاں“ پہلے سے ہی حدت محسوس کر لیتی ہیں اور پروپیگنڈا شروع کر دیتے ہیں تاکہ تپش کم سے کم محسوس ہو۔ جوائے لینڈ نامی بے بی پر جنم سے پہلے ہی الزام دھر دیا گیا کہ

”اس فلم میں ہمارے معاشرے کو مسخ کر کے دکھایا گیا ہے سوال یہ ہے کہ جو پہلے سے مسخ ہو اور منافقتوں کا ڈھیر بن چکا ہو اسے ایک معمولی سی مووی مزید کیسے مسخ کر سکتی ہے“ ؟

شنید ہے کہ پنجاب کے علاوہ باقی سنسر بورڈ نے اس فلم پر سے پابندی اٹھا لی ہے اور سندھ میں تو پذیرائی بھی بہت زیادہ مل رہی ہے مگر جن شکایت کنندگان کی درخواست پر اس پر پابندی لگائی گئی تھی انہیں پہلے سے کیسے پتہ چل گیا کہ یہ فلم ہماری معاشرتی اقدار کے خلاف ہے اور اتنے بڑے بڑے نتائج کیسے اخذ کر لیے گئے؟ ایک ایسی فلم جس کے تشکیل پانے میں تقریباً چھ سال اور سینکڑوں لوگوں کی محنت لگی ہو، جسے ریلیز ہونے سے پہلے دنیا بھر کے فیسٹیول میں نمائش کے لیے بھیجا گیا جہاں اس کو بہت زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی ہو بیک جنبش قلم محض پروپیگنڈے کی بنیادوں پر بین کر دینا کہاں کی دانشمندی ہے؟

ہمیں یہ کیوں لگتا ہے کہ ہمارے جہاں کے علاوہ دنیا میں کوئی دوسرا جہاں موجود ہی نہیں ہے؟ المیہ یہ ہے کہ ہماری غیرت بریگیڈ حقائق کا سامنا شائستگی اور وقار سے کرنے کی بجائے پروپیگنڈا یا گالم گلوچ کے ذریعہ سے کرنے کی کوششوں میں مگن رہتے ہیں اور جگ ہنسائی کا موجب بنتے ہیں۔ برٹش لہجے کے ساتھ انگریزی بولنے والے راجہ ضیاء الحق جیسے لوگوں کا مخاطب معاشرے کا وہ ممی ڈیڈی طبقہ ہوتے ہیں جن کا طرہ امتیاز فقط متاثر ہونا ہوتا ہے، راجہ ضیاء نامی شخص ہی وہ ابتدائی پروپیگنڈا مشین ہے جس نے جوائے لینڈ کے گرد سازشی جالا بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

ان جیسے لوگ مغربی دنیا کو بھرپور طریقے سے انجوائے کرنے کے بعد لمحہ موجود میں اپنے اندرونی احساس جرم کو رام کرنے کے لیے مذہبی گفتگو کے ذریعے سے ”کمپنسیٹ“ کرنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں اور انسان بیزاری کو ترویج دینے میں لگے رہتے ہیں۔ حالانکہ یہ بڑے اچھے سے جانتے ہیں کہ ”انٹر سیکس، اے سیکشوئل، ہومو سیکشوئل، گے اور لیزبین جیسی حقیقتیں دنیا بھر میں موجود ہیں اور ان سے انکار ممکن نہیں ہے مگر چورن بیچنے سے باز نہیں آئیں گے۔ جوائے لینڈ میں ایک ٹرانس جینڈر ڈانسر کو دکھایا گیا ہے جس کے ساتھ حیدر نامی شخص کو شادی شدہ ہونے کے باوجود پیار ہوجاتا ہے، اس فلم کے خالق و ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ

”وہ اس کردار کا وہ چھپا ہوا پہلو معاشرے کو دکھانا چاہتے ہیں جسے جان بوجھ کر چھپایا جاتا ہے“

ہم پتا نہیں کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہمارے اسٹیج ڈراموں یا روزمرہ کی گفتگو میں ٹرانس جینڈر کا غیر انسانی طریقے سے کیسے مذاق اڑایا جاتا ہے؟ حالانکہ ہم اپنی شادیوں کی رونق کو دوبالا کرنے کے لئے انہی کو بلاتے ہیں مگر ان کے وجود کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ہمارے انہی غیر انسانی رویوں کی وجہ سے یہ لوگ بھیک مانگنے یا ڈرگ وغیرہ کے دھندے کرنے لگتے ہیں، جنہیں معاشرہ انسانی قبیلہ ماننے سے ہی انکاری ہو جائے تو وہ اس قسم کے دھندوں کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتے ہیں؟

ہر انسان کی ایک لائف، مختلف پہلو اور محبت کرنے کی کئی شیڈز ہوتی ہیں بالکل اسی طرح سے ڈارک سائیڈ بھی ہوتی ہے تمام پہلوؤں سے مل کر ایک انسان بنتا ہے۔ منافقت کی انتہا ہے کہ ہم ٹرانس جینڈرز کی صرف وہ سائیڈ معاشرے کو دکھانا چاہتے ہیں جس سے صرف ان کی کمزوریاں ہی ہمارے مد نظر رہیں۔ آپ افغانستان کو دیکھ لیں جہاں خواتین کے ڈانس کی بجائے مردوں کو نچوا کر اندرونی خوشی کو سہلایا جاتا ہے، سعودی عرب تو خیر بہت آگے نکل چکا ہے۔ ہمارے روایتی طبقے کو مفتی عزیز الرحمن تو قبول ہے مگر جوائے لینڈ میں ٹرانس جینڈر قبول نہیں آخر کیوں؟

یہ کتنی فضول اور بودی سی بات لگتی ہے کہ لوگ مرد ہونے کے باوجود صرف من چاہی کی خاطر خود کو ٹرانسجینڈر لکھوا لیتے ہیں، ایک ایسے معاشرے میں جہاں اس جنس کو ہی ٹیبو سمجھا جاتا ہو وہاں اتنا بڑا خطرہ مول کون لے سکتا ہے؟ ٹرانس جینڈر انتہائی تکلیف دہ زندگی بسر کرتے ہیں جنہیں ہر طرح کی تسکین کے لیے مختلف ذلتوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس مووی میں ایک ایسے مرد کو دکھایا گیا ہے جو اپنی ازدواجی لائف میں لڑائی جھگڑے کی وجہ سے ”انٹی میسی“ کسی ٹرانسجینڈر میں ڈھونڈتا ہے۔

اعتراض کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس قسم کا ریلیشن گلوری فائی نہیں کرنا چاہیے مگر سوال یہ ہے کہ اس قسم کا رجحان تو ہمارے معاشرے میں جابجا پایا جاتا ہے۔ بائی سیکشوئل اور ہومو سیکشوئل ہر معاشرے میں پائے جاتے ہیں جو معاشرتی تقدس کو برقرار رکھنے کے لئے اپنے تئیں نارمل زندگی جینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں مگر اندر سے وہ انتہائی بے چین ہوتے ہیں۔ ہم اس حقیقت سے نظریں کیسے چرا سکتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں اکثر لوگ ٹرانس جینڈرز پر فدا ہوتے ہیں اور ان کے ڈانس سے محظوظ ہوتے ہیں۔ معاشرے میں ایسا بہت کچھ پایا جاتا ہے جو ہمارے معاشرتی اسٹینڈرز کے برعکس ہوتا ہے اور وہ سب کچھ مخفی طور پر ہو رہا ہوتا ہے مگر ایسے پہلوؤں پر بات کرنے میں کیا مسئلہ ہو سکتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments