فلم لیجنڈ آف مولا جٹ اور کازو ایشی گرو


کل آخر لیجنڈ آف مولا جٹ دیکھ لی۔ میں کافی دن اس فلم کا دیکھنا ٹالتا رہا کیونکہ کچھ مہینوں بیشتر سرمد کھوسٹ کی فلم کملی نے حال میں بننے والی پاکستانی فلم سے مجھے کافی مایوس کیا۔ لیکن لیجنڈ آف مولا جٹ کے ریلیز ہونے کے بعد میں معاشرتی میل جول کی محفلوں میں جہاں بھی گیا مجھے اس فلم کا چرچا سننے کو ملا یہاں تک میرا فزیو جس کے پاس میں اپنے کاندھے اور ایڑی کے ناقابل برداشت درد کے افاقہ کے لئے جاتا رہا وہ بھی اس فلم کا چاہنے والا نکلا۔

باکس آفس پہ فلم کافی زیادہ کما چکی اور یہ اس فلم کی کامیابی کا بڑا پیمانہ تھی۔ 1979 کے ضیا الحق کے تاریک دور حکومت میں ناصر ادیب کی فلم مولا جٹ نے باکس آفس کے سبھی ریکارڈ توڑ ڈالے تھے اور پاکستانی فلم آئینہ، جو ایک ہی سینما میں تقریباً پانچ سال تک نمائش پہ لگی رہی، کے ریکارڈ بھی توڑ ڈالے۔ کلاسیک مولا جٹ میں ناصر ادیب کے لکھے دلکش مکالمے سننے اور دیکھنے کو ملے۔ کچھ مکالمے تو ہمارے معاشرے کے روز مرہ کے محاورے بن چکے ہیں۔

”نواں آئیاں ایں سوھنیا“ تو آج تک عام و خاص کی زبان پہ ہے۔ اس مکالمے نے ہندوستانی فلم شعلے کے معروف مکالمے ”اب تیرا کیا ہو گا کالیا“ کی شہرت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ پھر مصطفی قریشی کی ادائیگی نے مولا جٹ کے معروف مکالموں کو دوام بخشا وہی دوام جو امجد خان کی ادائیگی نے شعلے فلم کے معروف مکالموں کو بخشا تھا۔ مصطفی قریشی کی ان مکالموں کی ادائیگی آج بھی آواز و سخن کے اتار چڑھاؤ کی عمدہ مثال ہے کیونکہ لسانیات کے پڑھانے اور پڑھنے والے جانتے ہیں کہ آواز کے اتار چڑھاؤ یا زیر و بم کیسے جملے کے معنی بدلتے بھی ہیں اور کیسے اسے با معانی یا بے معانی بنا سکتے ہیں۔

براڈ کاسٹنگ والے تو الفاظ کے زیر و بم کی اہمیت اور لذت سے بخوبی آشنا ہیں۔ میں اس بارے میں تو نہ جان سکا کہ مصطفی قریشی نے ان مکالموں کی ادائیگی میں کتنی کوشش کی اور کتنا ایسا کرنا ان کے لئے برجستہ تھا۔ مارلن برانڈو کی فلم گاڈ فادر میں شہرۂ آفاق مکالموں کی ادائیگی تو برجستہ تھی۔ فلم گاڈ فادر کے ڈائریکٹر فرانسس فورڈ کو پولا، جو خود فلم ڈائریکشن کی اکیڈمی تھے، نے مارلن برانڈو کی ادائیگی کو ان کی ذہانت کا صلہ کہا کیونکہ کو پولا کا ان مکالمے کی ادائیگی میں کوئی حصہ نہ تھا۔

ایسا ہی شاید مصطفی قریشی اور امجد خان کے متعلق بھی کہا جاسکتا ہے۔ کلاسیک مولا جٹ کے مواد پہ تو کافی کچھ لکھا جاسکتا ہے اور یہ فلم معاشرے میں تشدد کے رجحان کے تحلیل نفسی کے مطالعے میں کافی مدد دے سکتی ہے۔ مگر ایک بات جو کلاسیک مولا جٹ اور لیجنڈ آف مولا جٹ میں واضح امتیاز ہے وہ جذبات اور احساسات کا واضح فرق ہے۔ کلاسیک مولا جٹ کو میوزیکل فلم ( میوزیکل فلم کی اصطلاح کو اگر ہالی ووڈ کی میوزیکل فلم کی اصطلاح سے گڈ مڈ نہ کیا جائے ) بھی کہا جاسکتا ہے۔

برصغیر کی فلموں میں موسیقی ایک امتیازی عنصر رہی ہے اور اب بھی ہے۔ آسیہ کی دلربا اداؤں اور رقص کو مولا جٹ میں بھلا کون بھول سکتا ہے۔ ایسا ہونا اس فلم کو احساسات کی فلموں کی صف میں کھڑا کرتی ہے۔ گو وہ احساسات فلم آئینہ کے احساسات سے میل نہیں کھاتے تھے اور وہی احساسات ہی آئینہ کی کامیابی کے ضامن تھے۔ مولا جٹ کا گانا ”دلدار میرے پیار کولوں بچ کے وے چنا دس کتھے جائیں گا“ اور آسیہ کی اس گانے میں پرفارمنس لا زوال رہے گی۔ ماسٹر عنایت حسین نے جس انداز میں اس گانے کو کمپوز کیا وہ شاید موسیقی کے طالب علموں کے لئے منفرد تجربہ ہے۔

لیجنڈ آف مولا جٹ بلا شبہ پاکستانی فلم پروڈکشن میں ایک عمدہ تاثر ہے۔ دونوں فلم، کلاسیک مولا جٹ اور لیجنڈ آف مولا جٹ، ڈرامہ فلم کی صنف کی فلم ہیں، مگر لیجنڈ آف مولا جٹ میں دو مشہور فلموں، میل گبسن کی بریو ہارٹ اور سنتوش سیوان کی اشوکا کا گہرا اثر لگتا ہے۔ لیکن یہ اثر لوکیشن کی ترتیب اور ایکشن کے بھرپور تاثر تک ہی محدود ہے۔ ان دو فلموں میں جو بنیادی عنصر تھا وہ جذبات اور احساسات کا خوبصورت اظہار تھا جو لیجنڈ آف مولا جٹ میں ناپید ہے۔

بریو ہارٹ کا موضوع یقیناً سکاٹش کی آزادی کی جنگ تھا مگر غالب عنصر محبت کا احساس تھا۔ بریو ہارٹ کے ساؤنڈ ٹریک کو سن لیجیے یا وائلن پہ بجایا تھیم آف بریو ہارٹ سن لیجیے تو دل میں محبت کے ولولے جاگنے لگتے ہیں۔ یہی سب کچھ فلم اشوکا میں آپ کو ملتا ہے۔ گلزار کا معروف گانا ”رات کا نشہ ابھی / آنکھ سے گیا نہیں / ہاں وہی وہ وہی / سانسوں پہ رکھا ہوا تیرے / ہونٹوں کا سپنا ابھی ہے وہی۔ “ پھر انو ملک ( انور سردار ملک) اور سندیپ چاؤٹا کی ترتیب دی ہوئی دھن برسوں دل میں بس جاتی ہے۔ گلزار نے اس گانے میں جنسی جبلی جذبات کو عمدگی سے برتا ہے کہ شاعری کی معراج لگتی ہے۔

دراصل یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں بنیادی انسانی جذبات کے اظہار سے لوگ اب احتیاط برتنے لگے ہیں۔ اور یہ المیہ ہے۔ شاعری اب نہ تو کوئی ہمارے ہاں اب پڑھتا ہے اور نہ لکھنے والے رہے جو قاری کے بنیادی جذبات کی دھڑکنوں کو چھیڑ دیں۔ جذبات کی سلامتی معاشرے کی سلامتی کی ضامن ہوتی ہے۔ 2017 کے ادب کے نوبل انعام یافتہ کا زو ایشی گرو کے ناولوں کا موضوع ہی انسانی جذبات کی انسانی زندگی میں اہمیت ہے۔ نوبل انعام دینے کی تقریب میں ایشی گرو کے ناولوں کے تھیم کو اس طرح متعارف کرایا گیا کہ، ”انہوں نے اپنے ناولوں میں بیان کی گئی سب سے بڑی جذباتی قوت کے ذریعے اس گہرائی کا کھوج لگایا ہے جو کہ ہمیشہ ہماری دنیا سے رشتے اور ربط کے خیالی احساس میں پنہاں رہتی ہے۔

“ لیجنڈ آف مولا جٹ کے پروڈیوسر شاید اعتراض کرتے ہوئے یہ کہیں کہ فلم کا موضوع معاشرتی انصاف تھا تو ان کے لئے یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ معاشرتی انصاف بھی انسانی بنیادی جذبات کے اظہار کے بغیر ممکن نہیں۔ فلسفی ہیوم کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ جذبات ہی انصاف اور اخلاق کے اصولوں کو متعین کرتے ہیں۔ اس موضوع کی چھان بین کرتے ہوئے میرا تعارف مارتھا نسبام سے ہوا۔ مارتھا کا کہنا ہے کہ بنیادی انسانی جذبات کو سمجھے بغیر یہ سمجھنا ممکن نہیں کہ کوئی کیسے انسانی بھلائی اور معاشرتی انصاف کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیتا ہے۔

یعنی ایسا کہنا اس بات کو رد کرتا ہے کہ سیاست صرف اقتدار کے حصول کے لئے کی جاتی ہے۔ آج ہی مارتھا نسبام کی کتاب Political Émotions ملی ہے دیکھیں اسے کب پڑھ پاتا ہوں۔ فلم جو آرٹ کی صنف کا اب بڑا میڈیم ہے اس میں اگر جذبات کا اظہار نہ تو میرے کک کلیم کے بقول جو لیجنڈ آف مولا جٹ دیکھ چکا ہے ”فلم ایک شور ہے۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments