حامد یزدانی اور خالد سہیل کی مشترکہ محبوبہ


حامد یزدانی
خالد سہیل
۔ ۔ ۔
حامد یزدانی کے نام ادبی محبت نامہ
۔ ۔ ۔
حامد یزدانی صاحب!
میری کلیات کا نام
خواب در خواب

ہے کیونکہ میرا خوابوں سے ایک گہرا رشتہ ہے شاعر ہونے کے ناتے بھی اور ماہر نفسیات ہونے کی مناسبت سے بھی۔

میں سمجھتا ہوں انسان کے خواب اس کی شخصیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ میں نے اسی لیے اپنی سوانح عمری کا نام بھی

WHEN DREAMS COME TRUE

رکھا۔ اس سوانح عمری میں نے ان خوابوں کا ذکر بھی کیا جو میں نے نوجوانی میں جاگتی آنکھوں سے دیکھے تھے اور اس خواب کا ذکر بھی کیا ہے جو میں نے زندگی کی شام ہونے کے بعد سوتے میں دیکھا تھا۔

میرے شاعر چچا عارف عبدالمتین کہا کرتے تھے کہ کسی بھی شاعر کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کی شاعری کے MASTER SYMBOLS کو سمجھیں کیونکہ وہ سمبلز وہ چابیاں ہیں جو اس کی شاعری کے دروازے کھولتی ہیں اور اس کی شاعری کی عمارت میں چھپے رازوں سے ہمارا تعارف کرواتی ہیں۔

جب میں نے آپ کی شاعری کے مجموعوں کا مطالعہ کیا تو مجھے احساس ہوا کہ آپ کی شاعری کا ایک ماسٹر سمبل۔ خواب۔ ہے۔

آپ نے اپنی شاعری کے پہلے مجموعے کا نام بھی
ابھی اک خواب رہتا ہے
رکھا اور اس کے دیباچے کا عنوان بھی
شعر ’عشق اور خواب
رکھا۔
آپ کی غزلوں اور نظموں میں مجھے آپ کے خوابوں کی ایک رنگین قوس قزح دکھائی دیتی ہے۔
کہیں وہ خواب کسی خواہش کا روپ دھارتے ہیں کہیں کسی اضطراب کا
کہیں وہ خواب امیدوں کی خوش خبری دیتے ہیں اور کہیں نا امیدیوں کا ماتم کرتے دکھائی دیتے ہیں

کہیں آپ کسی جان گداز خواب کا انتظار کرتے دکھائی دیتے ہیں اور کہیں دلفریب خواب آنکھوں پر بھاری بوجھ بن جاتے ہیں۔

خوابوں سے محبت نے آپ کا آنکھوں ’راتوں‘ نیندوں ’تعبیروں اور رتجگوں سے بھی ایک خاص رشتہ استوار کر رکھا ہے۔

میں آپ کی غزلوں اور نظموں میں سے چند ایک خوابوں کی ایسی مثالیں پیش کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے مجھے کچھ سوچنے پر مجبور کیا۔ کبھی فنی حوالے سے کبھی تخلیقی حوالے سے اور کبھی نظریاتی حوالے سے

بہت مدت ہوئی آنکھوں نے تعبیریں چنی ہیں
بہت مدت سے کوئی خواب بھی دیکھا نہیں ہے
اتارا تھا جسے کل شب سحر نے
مجھے اس خواب نے پہنا ہوا ہے
شکست خواب کے منظر ابھی نظر میں ہیں
بلا کے عکس مری آنکھ کے بھنور میں ہیں
یہ کیسے رتجگوں میں ہو گئیں بوجھل مری آنکھیں
یہ کس کے خواب میں گم دیدہ بے خواب رہتا ہے
کچھ ایسا بوجھ تھا حامد مری پلکیں نہ اٹھتی تھیں
کہ آنکھوں پر کسی کے خواب کا احسان رکھا تھا
نظم۔ سینٹا کلاز
یہ کس کے سال بھر کے خواب کی تعبیر
گھر کی کھڑکیوں میں جگمگاتی ہے
نظم۔ خواب اور دعا میں گندھی ایک نظم
ریشمی خواب جیسی مہکتی ہوئی اک سحر
نظم۔ بھیگے منظر میں
چکنی مٹی کے چولھے سے اٹھتا دھواں
بوڑھے امرود کے پیڑ میں دبکی چڑیوں کی آنکھوں میں
چبھنے لگے
بانسی جھاڑو کے تنکوں کی صورت
کوئی خواب دکھنے لگا
نظم۔ من ہیٹن سے اجنبی مکالہ
یہ بھرا شہر کتنا خالی ہے
جیسے ان باکس میرے خوابوں کا
حامد یزدانی صاحب!

میں نے آپ کی شاعری سے مثالیں تو بہت ساری جمع کی تھیں لیکن اپنے موقف کی حمایت میں صرف چند ایک ہی پیش کی ہیں۔

مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے ہم دونوں کسی۔ خواب۔ کی زلف کے اسیر ہوں اور وہ ہمارا مشترکہ محبوب ہو۔
آپ کا اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟
آپ کا ادبی دوست
خالد سہیل
10 دسمبر 2022
۔ ۔
حامد یزدانی کا جوابی ادبی محبت نامہ
۔ ۔ ۔
جناب ڈاکٹر خالد سہیل صاحب
آداب و تسلیمات

سب سے پہلے تو میں آپ کا شکریہ ادا کرنے کی رسم نبھانا چاہتا ہوں کہ آپ نے مجھے اس ادبی محبت نامے کے لائق سمجھا اور پھر اس احساس کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ یہ میں بخوبی جانتا ہوں کہ ان ادبی محبت ناموں کو آپ اس ترغیبی کانٹے کی طرح استعمال کرتے ہیں جو مجھ سے مرکزی دھارے سے ہٹے ہوئے شناور ان ادب کی توجہ شکار کرتا ہے اور انھیں دروں بینی کی طوفانی لہروں سے متعارف کرواتا ہے جو بالآخر خود شناسی کے ساحل سے ہم کنار کر دیتی ہیں۔ لہر لہر یہ سفر یقیناً قیمتی اور اہم ہو گا مگر میں سردست ’سندباد‘ بننے کا ارادہ نہیں رکھتا اور اس کٹھن سفر کے لیے لنگر اٹھانے کو تیار نہیں۔

جہاں تک ”خواب“ کے استعارہ کے حوالے سے میری آپ سے ”اشتراکی“ قربت کا تعلق ہے تو یہ واقعی ایک دل چسپ اور وقیع اعزاز ہے میرے لیے۔ مجھے یاد ہے اس جانب اشارہ پہلے پہل لاہور میں پروفیسر محمد خالد صاحب نے اسی کی دہائی میں کیا تھا۔ ایک روز انھوں نے مجھے ایک دوست کے ساتھ اپنے ہاں مدعو کیا اور بہت سی غزلیں سنیں اور تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ”خواب“ کا استعارہ میرے ہاں مختلف رنگوں میں آتا ہے اور یہ کہ آگے چل کر ممکنہ طور پر مزید موثر انداز میں نمایاں ہو گا۔ یہ پہلا موقع تھا ایک نوجوان شاعر کے لیے جب اس کے کلام کو اس توجہ سے سنا اور جانچا گیا۔

”خواب“ یوں آگے بھی میرے اظہار میں جگہ پاتا رہا مگر ایک تخیلاتی انداز اور شعری اسلوب اظہار ہی کے دائرے میں جبکہ آپ کے ہاں شعر و ادب کی علامت سے اوپر اٹھ کر یہ کسی عملی سفر اور منزل کی حقیقی تصویر کا عکاس دکھائی دیتا ہے۔ آپ کے اب تک کے مطبوعہ تخلیقی کارناموں پر سرسری نظر ہی سے واضح ہو جاتا ہے کہ ”خواب“ آپ کو کتنا عزیز ہے اور ایک منزل مقصود کی طرح کچھ یوں روشن ہے کہ اس سے صرف نظر ممکن نہیں۔ جیسے گہرے نیلے سمندر میں رات کا سفر کرتے جہاز کے لیے لائٹ ہاؤس کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ اپنی انگریزی نظم ”نادیدہ زنجیریں“ میں آپ اسی جانب تو اشارہ کر رہے ہیں :

اور پھر داخل ہوتے ہیں
ایک نئی دنیا میں ہم
وہ خوابوں کی دنیا
ہاں، وہ نویکلی منزلوں کی دنیا
گویا خواب اور منزل ایک ہی ہے جو ایک نئی دنیا کی مظہر ہے۔

میں خواب اور منزل کی بات کر رہا تھا۔ اسی ضمن میں یہ بھی ہے کہ آپ خواب اور بچوں کو بھی یکجا دیکھتے ہیں۔ چونکہ بچے مستقبل کی علامت ہیں۔ اس لیے ان کے ساتھ امید کی منزل کا ربط انتہائی بامعنی رہتا ہے۔ آپ کی نظم ”دو قتل“ اور سٹل برتھس ”دونوں میں خواب بچوں سے مربوط ہو کر آتے ہیں۔

’جیسے میرے خواب اور میرے بچے‘ یا پھر
’کتنے خواب
اور کتنے جذبے۔
کتنے بچے پیدا ہونے سے پہلے ہی مر جاتے ہیں۔ ’۔

آپ نے اپنے خط میں خواب کے استعارے سے اپنی دل چسپی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے کلیات ”خواب در خواب“ کا اور اپنی سوانح ”وین ڈریمز کم ٹرو“ کا حوالہ دیا ہے تو میرے نزدیک آپ کا اولین شعری مجموعہ ”تلاش“ ہی دراصل خواب کی کھوج کا سنگ آغاز ثابت ہوتا ہے۔ یہ تلاش درحقیقت خواب ہی کی آئنہ دار تھی۔ پھر آپ کے چار خواب جو شرمندہ تعبیر ہوئے جن کا ذکر آپ کی کتابوں میں بھی ملتا ہے اور میرے ساتھ کیے گئے انٹرویو میں بھی۔ ان میں سے ایک خواب آپ کے ڈاکٹر بننے کا بھی تھا جو آپ نے اور آپ کی والدہ صاحبہ نے مل کر دیکھا تھا۔

والدہ سے آپ کی قربت اور دوری، انسیت اور فاصلہ ایک ایسا نقطہ ہے جس نے آپ کے تخلیقی کونوں کو بار بار روشن کیا ہے۔ خاص کر آپ کے افسانوں میں ماں سے تعلق کی علامت بہت موثر انداز میں ابھرتی ہے اور اس پر لکھا بھی جا چکا ہے۔ یہاں میں آپ سے یہ بات شیئر کرنا چاہتا ہوں کہ میں اپنے والدین کا ایک روایتی فرماں بردار ”شریف“ بچہ رہا اور ان کی تابع داری کو ہمیشہ فرض سمجھا۔ والد صاحب تو کچھ کہتے نہیں تھے تو امی جان کی باتیں مانتا رہتا تھا سوائے اڑھائی یا ڈھائی باتوں کے جو میں نے نہیں مانیں۔

انھیں آپ ان کے تین خواب بھی کہہ سکتے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ آپ کی والدہ کی طرح وہ بھی مجھے ڈاکٹر بنانا چاہتی تھیں۔ میں ہائی سکول ہی میں پری میڈیکل سے بھاگ گیا اور والد صاحب کی حمایت سے آرٹس میں آ گیا۔ امی جان دیکھتی تھیں کہ ہمارے مکان مالک جو پڑوس ہی میں رہتے تھے ڈاکٹر تھے اور خوش حال اور آسودہ تھے۔ شاید اسی لیے وہ میرے مستقبل کو آسودہ دیکھنے کے لیے ایسا چاہتی ہوں۔ دوسری بات جو میں نے نہیں مانی وہ یہ تھی میں شاعر نہ بنوں۔ رہی آدھی بات تووہ تھی شادی کے سلسلے میں۔ میں شادی کرنے پر آمادہ نہ تھا مگر وہ بضد تھیں کہ میں خاندان کی ایک لڑکی سے شادی کرلوں۔ میں نے ان کی آدھی بات مان لی یعنی شادی تو کرلی مگر خاندان میں نہیں۔ تو بس یہ ڈھائی خواب ان کے میں پورے نہ کر پایا۔ اگرچہ بعد ازاں وہ میرے فیصلوں پر بظاہر تو خوش ہی تھیں۔

خیر، یہ تو برسبیل تذکرہ عرض کر دیا۔ میں ذکر کر رہا تھا آپ کی تخلیقات میں خواب کی علامت کے بامعنی استعمال کا تو آپ کی تو متعدد کتابوں کے نام ہی خواب سے جگمگاتے دکھائی دیتے ہیں جیسے

”نئے خواب، نئے نصاب“ ،
ادھورے خواب ”اور
”کریئٹو مائنورٹییز: ڈریمز اینڈ ڈائلماز“ ۔

اور جن کتابوں کے نام میں خواب شامل نہیں بھی ہے ان کے متون بھی خوابوں سے سرشار ہیں۔ مثلاً ادبی جریدہ ”شاعر“ ممبئی کے مدیر کے ایک سوال کے جواب میں آپ کہتے ہیں :

”میں ساری دنیا کے انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں امن کے خواب دیکھتا رہتا ہوں۔“

”دھرتی ماں اداس ہے“ کے پیش لفظ میں آپ کراچی میں اپنے ایک انٹرویو کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک سوال کا جواب کچھ یوں دیتے ہیں :

”میں انسانیت کے مستقبل کے بارے میں ایک خاص قسم کا خواب دیکھتا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ میں اپنی زندگی میں۔ اپنے خوابوں کا تخلیقی اظہار الفاظ کی صورت میں کر سکوں۔“

آپ قاری کو ادیب کا شریک خواب و تعبیر بھی خیال کرتے ہیں۔

”کتاب ٹو کینڈلز آف پیس“ بھی امن کا خواب دیکھنے والوں سے مخاطب ہے اور ”کالے جسموں کی ریاضت“ میں تو مارٹن لوتھر کنگ کا تاریخی جملہ ہماری تخلیقی تربیت و تہذیب I (I Have a dream) کرتا ہے ”آئی ہیو آ ڈریم“ ۔

”درویشوں کا ڈیرہ“ میں بھی مکتوبات کی صورت میں خواب ہی تو ترتیب دیے گئے ہیں۔ اپنے افسانہ ”چند گز کا فاصلہ“ میں آپ تیسری دنیا کی ماؤں اور بچوں کے لیے خوش حالی کا خواب ہی تو دیکھ رہے ہیں جبکہ افسانہ ”دیوتا“ میں انسان لامکاں کی انتہاؤں کے درمیان کسی انجانے خواب کی صورت سمٹا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

” لاہور کا سقراط“ میں آپ عزیزالحق صاحب کی وساطت سے ژونگ کے فلسفے سے بھی متعارف کرواتے ہیں اور شاعری اور خواب اور اجتماعی شعور کے باہم تعلق کو ہم پر واضح کرتے ہیں۔ لاہور کی بات چلی ہے تو زاہد ڈار سے پاک ٹی ہاؤس میں ہونے والی آپ کی ملاقات کا بھی ذکر ہو جائے جس میں وہ باہر سڑک کے کنارے ایستادہ درخت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : ”اس شہر کے پتوں پرہی نہیں یوں لگتا ہے چہروں، کپڑوں اور ذہنوں پر بھی گرد جم چکی ہے اور۔ نئے خوابوں کی بارش کی راہ تک رہی ہے۔“

اس جملے کو پڑھتے ہوئے میں سوچنے لگا اگر یہ نثر ہے تو پھر نظم کیا ہوتی ہے؟

اور ہاں، ”خواب در خواب“ کا دیباچہ بھی تو آپ کے نظریہ فن کی گواہی دیتا ہے کہ آپ کے نزدیک ہر دور کا شاعر، ادیب، فن کار اور دانش ور سچ کی تلاش میں نکلا ہوا ہے۔ اور وہ محبت، امن اور آشتی کے خواب دکھاتا ہے۔

تو میں دیکھتا ہوں کہ آپ کے ہاں خواب ایک جیتی جاگتی تعبیر کا نام ہے جسے ہم انسانیت کی منزل کہہ سکتے ہیں۔ اس طرح یہ میری شاعری میں ملنے والے خواب سے بہت ممتاز

ہوجاتا ہے اور حسی لطافت اور اسلوبیاتی حسن کی حدود پار کر کے حقیقی زندگی کے دھڑکتے تار چھیڑنے لگتا ہے۔ نہیں کیا؟

یقین کیجیے میں آپ کی تخلیقات کے حوالے سے اور بھی بہت کچھ کہہ سکتا ہوں مگر اپنے یا اپنی تحریروں پر بات نہیں کر سکتا۔ حالانکہ آپ سے مکالمہ میرے لیے خود بینی کا موقع اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے جس سے خود شناسی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ یہ جاننے کے باوجود میں آپ سے ایسے تبادلہ خیال سے کتراتا ہوں۔ میں آئینے میں جھانکنے کو تیار نہیں۔ شاید میں اپنے آپ سے ملنے پر آمادہ نہیں۔ کیا آپ نے ایسا سایہ دیکھا ہے جو اپنے وجود سے انکار پر مصر ہویا اس سے گریزاں ہو؟

آپ کا ادبی دوست اور مداح:
حامد یزدانی

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments